تحریر:آیت اللہ العظمیٰ سید العلماء مولانا سید علی نقی نقویؒ
دسویں محرم ۶۱ھکو حسینؑ ابن علیؑ سبط رسولؐ پر ابن زیاد کی فوجوں نے چڑھائی کی اور اس کثیر لشکر کے مقابلہ میں حسینی فوج کی ستر-بہتر ہستیوں نے ، جن میں کمسن بچے اور سن رسیدہ بوڑھے بھی تھے، داد شجاعت لے کر اپنی جان کو قربان کردیا اور عصر کو وہ مظلوم، بھائیوں بھتیجوں کے داغ اٹھا کر ہزاروں زخم کھاکر زیر خنجر شہید کردیا گیا اور شمر نے اس یادگار رسولؐ کے سر کو جسم سے جداکردیا۔
یہ ہے واقعہ کربلا کی وہ تاریخی حیثیت، جو سطحی نظروں سے دیکھنے میںچند سطور کے اندر ختم ہوجاتی ہے ۔ اور اگر زیادہ اختصار سے کام لیا جائے تو شاید چند جملے اس عظیم حادثہ کے بتلانے کے لئے کافی ہوں، افسوس ہے کہ اسلامی تاریخوں نے اس واقعہ کو اسی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ تاریخ ابوالفداء کے دو صفحے ہوں یا طبری کے دس صفحے، ان کا ماحصل ہماری مذکورہ بالا چند سطروں سے زیادہ کچھ نہیںہے ۔ ارباب مقاتل کے قلم اور خطبا و واعظین کی زبانیں بھی زیادہ تر انہی واقعات کی ظاہری ترتیب و تدوین اور جمع و تالیف میں صرف ہوتی رہی ہیں۔
لیکن کیا زمین کربلا کے واقعہ کی حقیقت صرف اتنی ہی ہے؟ کیا وہ صرف چند گھنٹوں کی لڑائی اور ظالم و مظلوم کی فتح و شکست کا نام ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں ! اس واقعہ کو ان ہی دلگداز نمایاں پہلوئوں کا مجموعہ سمجھنا حقائق کے ساتھ صریح ناانصافی اور واقعات کی اہمیت سے کھلی ہوئی بے اعتنائی ہے۔
کربلا کا واقعہ رزم بزم یا سوز و گداز کے تاثیرات کا مجموعہ نہیں بلکہ انسانی کمالات کے جتنے پہلو ہوسکتے ہیں اور نفسیاتی امتیازات کے جو بھی اسرار ممکن ہیں ان سب کا خزینہ دار ہے۔
علم تہذیب الاخلاق کا بڑے سے بڑا ماہر اور قانون تمدن و معاشرت کا کامل ترین عالم ان واقعات سے اسی طرح سبق حاصل کرسکتا ہے جس طرح حقائق لاہوت کا بڑا محقق اور فلسفہ شریعت و احکام کا فقیہ متبحّر۔
حسینؑ اور ان کے انصارؑ نے روز عاشورا صبح سے عصر تک کی قلیل مدت میں وہ کام کیا ہے جس کی نظیر عالم میں نہ ان کے قبل ممکن ہوئی اور نہ ان کے بعد ہوسکتی ہے کہنے کو تو وہ صرف اپنے جسموں کو مخالف فوج کے خون آشام تلواروں کی نذر کرکے اپنی جانیں نثار کررہے تھے لیکن حقیقتاً انھوں نے عالم انسانیت کو مسخر کرلیا۔ اور دنیائے علم و عمل دونوں پر قیامت تک کے لئے سکہ قائم کرگئے۔ انھوں نے اس دن زندگی کے ہر شعبہ کی تکمیل کی اور کمال انسانیت کا کوئی باب ایسا نہیں تھا جس کا نمونہ پیش نہ کیا ہو۔
علم اخلاق کی جامع ترین کتابوں کا مطالعہ کرجائو۔ علم النفس کے حقائق و اسرار کی کسی مسلم اسناد سے تعلیم حاصل کرو، اجتماعی و معاشرتی آداب اور انسانی فضائل کی مشق پورے معیار ترقی پر پہنچا دو اور معرفت الٰہیہ و حقائق اسرار توحید کا پورے طور پر احاطہ کرلو اور اس کے بعد ذرا کربلا کی اس چند گھنٹہ کی مختصر مدت کا ایک محققانہ نظر سے جائزہ لے لو۔ تم کو وہاں وہ سب مل جائے گا جو ان تمام کمالات کا ماحصل اور نتیجہ کہا جاسکتا ہے ، تم دیکھو گے کہ جو کچھ سنا تھا وہ لفظیں تھیں اور ان کے معنی یہ ہیں۔
سیدالشہداؑ اور ان کے جانباز سپاہیوں کا ہر طرز عمل اس دن ایک اسرار و رموز کا خزانہ تھا کہ جس میں اخلاقی، تمدنی، معاشرتی، اجتماعی، نفسانی خصوصیات و کمالات کے نہ معلوم کتنے پہلو مضمر تھے ، ان کے کسی ایک فعل کو سامنے رکھ کر مشکل سے مشکل مسائل علم النفس کے حل کئے جا سکتے اور بلند ترین انسانی کمالات حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ثبات قدم، استقلال، خوداری، صدق و امانت، صفائی و اخلاص، صبر وضبط، حق پرستی و حق پروری، عدل و انصاف، رحم و مروت، جذبۂ مذہب، پابندی شریعت، سخت ترین وقت پر عبدو معبود کے مخصوص روابط کی نگہداشت توکل و تحمل، نوع بشر کی خیر خواہی مواسات و ہمدردی، عفو و کرم، سخاوت و شجاعت اپنے مقدس اور سچے نصب العین کی آخر وقت تک حمایت، اتمام حجت، موعظہ و نصیحت، تبلیغ و دعوت، نفس کشی، عالی حوصلگی، بلند ہمتی، اگر صرف چند حرفی لفظوں کا نام نہیں بلکہ ہر ایک ان میں سے فلسفہ اخلاق یا علم النفس ، حقائق الٰہیہ یا اسرار شریعت کا ایک مستقل اور مفصل و مبسوط باب ہے تو یقینا کربلا کے واقعات مختصر نہیں بلکہ بہت طولانی ہیں اور اگر ان کے نتائج و اسباب پر غائر نظر ڈالی جائے تو وہ یقینا چند صفحوں میں لکھنے کے نہیں بلکہ دفتر کے دفتر اور کتابوں کی کتابیں ان کے لئے لازم ہیں۔
اس کے علاوہ صرف واقعہ نگاری کے فرائض کو انجام دینے والا شخص بھی اس حادثہ کے اندر مختلف طویل ازیل پہلو موجود پاسکتا ہے، تاریخی واقعات کو فلسفی نگاہ سے دیکھ کر ان کے علل و اسباب سے بحث کرنے کے لئے ذرا دائرہ بحث کو وسیع کرنے اور نقطہ مقصد کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جس قدر واقعہ کی اہمیت زیادہ ہوگی اور اس کے مقدمات و علل کی حلقہ در حلقہ زنجیریں دور تک گئی ہوئی ہوں گی اتنی ہی ایک محقق کو بیان کی مسافت زیادہ طے کرنا پڑگے گی۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اس منبع اصلی کا پتہ لگائے جس سے اس واقعہ کے گوناگوں خصوصیات کاتعلق ہے اور سلسلہ کی پہلی کڑی کو دریافت کرے جس پر اس پوری زنجیر کا دارو مدار ہے۔
واقعۂ کربلا وہی جس کو بے خبر افراد چند گھنٹوں کی لڑائی سے زیادہ وقعت نہیںدیتے ، وہ اس حیثیت سے عالم کا عظیم واہم ترین واقعہ ہے کہ اس کے اسباب و علل کی کڑیاں سال دو سال، دس بیس سال نہیں بلکہ سو دو سو برس کے واقعات کا نتیجہ ہیں۔ سمجھنے کے لئے دل دیکھنے کے لئے آنکھیں ہونی چاہئیں۔
اسلامی تاریخوں میںیہ سب واقعات منتشر طور پر پائے جاتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ان کو اتنی توفیق نہیںہوئی کہ وہ ان کو ترتیب دے کر فرع کو اصل کے ساتھ او رمعلول کو علت کے ساتھ ملحق کرسکیں۔
وہ وقت کہ جب ہاشم اورامیہ میں عبد مناف کے انتقال کے بعد نزاع ہوئی اور فیصلہ ہاشم کے حق میں امیہ کے خلاف ہوا۔ اسی زمانہ سے عداوت و عناد کی آگ تھی جو امیہ کے دل میں مجبوری ولاچاری کے پردہ میں سلگ رہی تھی اور وہی وراثۃً اولاد تک پہنچی۔ دشمنی اور عداوت کی آگ مشتعل ہوتے ہوئے کسی ایک فریق کی ظاہری ترقی اور رفعت و بلندی دوسرے فریق کے لئے گرتی ہوئی بجلی کا کام دیا کرتی ہے۔ حسد وہ شئے ہے کہ جس کے باعث دو یکجہت و یکدل دوستوں میں اختلاف پید اہوجایا کرتا ہے چہ جائیکہ عداوت پہلے سے موجود ہو اور اس وقت میں ایک فریق کسی بلند مرتبہ تک پہونچا ہوا دکھائی دے تو اس وقت عداوت کے شعلوں کا سینہ میں بھڑ ک کر دہن سے نکلنے لگنا اور اس کے تاریک و تار دھوئیں سے آنکھوں کے سامنے عالم کا سیاہ ہوجانا کوئی بعید نہیں۔
بنی امیّہ کے لئے ہاشمی خاندان کی وہ عزت و وجاہت جو ملکِ عرب میںپائی جاتی تھی آتش حسد کے مشتعل کرنے کے لئے کیا کم تھی کہ خالق حکیم نے اپنی خدائی کے مختار کل اور دنیا و آخرت کے عظیم فرمانروا، سرور کائنات، نبی آخرالزماںؐ کی ولادت کے لئے ہاشمی خاندان کو منتخب کیا۔
رسالت کی تحریک کی روز افزوں ترقی اور اس کے آخری نتیجہ کو بنی امیہ کے بزرگ خاندان ابوسفیان کی نظریں پہلے ہی روز سے تاڑ گئی تھیں، اسی وجہ سے اس نے اپنے راحت و آرام سے ہاتھ دھوکر پوری قوت کے ساتھ اس تحریک کے مقابلہ کی ضرورت سمجھی، اور تمام قبائل عرب میںدورہ کرکے ان سب کو آنے والے خطرات سے آگاہ کردیا، اور ان کی ہمدردی کو اپنے لئے حاصل کرلیا۔ لیکن اس کو کیا معلوم تھا کہ اسلامی ترقی کسی ظاہری سازو سامان یا خارجی طاقت و قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ روحانی قوت کا نتیجہ ہے ۔ اسلامی ترقی کا زور روکنے کے لئے اس کی تمام فوجی طاقتیں، اپنے سازو سامان سمیت ایسی ثابت ہورہی تھیںکہ جیسے سیلاب کے زور کو ہتھیلی سے روکا جائے یا آفتاب کے طالع ہوتے وقت نقطۂ مشرق کے سامنے ایک پردہ ڈال دیا جائے کہ چند ہی منٹ میں آفتاب کی روشنی بڑھ کر اس پردہ کے چاروں طرف محیط ہوجائے گی۔
بدرو احد و احزاب، پھر صلح حدیبیہ اور اس کے بعد کے واقعات ہر مرتبہ جان توڑ کوشش اور نتیجہ میں ناکامی سب کے آخر میں بمجبوری سر تسلیم خم کرنے کی ضرورت پڑنا اور دل کی تمام تلاطم خیز عداوتوں کے باوجود اپنے تمام سرمایۂ حیات، عزّت و آبرو کو دشمن (رسالتمآبؐ) کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا، یہ واقعات ایسے نہ تھے جو دل کی آگ کو خاموش ہوجانے دیں۔ یہ تمام تابڑ توڑ واقعات اس آگ کے لئے چھینٹوں کا کام دے رہے تھے، لیکن پانی کے چھینٹے نہیںبلکہ مٹی کے تیل کے چھینٹے۔ رسالت مآبؐ کی وفات کے بعد اس میں پوری ترقی پیدا ہونا ناگزیر تھی ۔خلافت کے دوسرے دورمیں اس جماعت کا بر سرِ حکومت آنا اور پھر ایک مرتبہ ورق کے منقلب ہوتے ہوئے اس تخت پر بنی ہاشم کی سربرآوردہ تاریخی ہستی امیرالمومنینؑ کا آجانا اور صفین کا میدان ظاہری معاہدہ اور اس کی خلاف ورزی، علی ؑابن طالبؑ کی اولاد سے جو ہمیشہ اس کے مبلغ تھے باطل کوش حکومت و سلطنت کو ہمیشہ خطرہ کا احساس ہونا ، ان تمام کا نتیجہ وہ تھا جو کربلا میںبنی امیہ کے ہاتھوں خاندان رسالت کے ظاہری خاتمہ تک منتہی ہوا۔ لیکن کیا معلوم تھا کہ جس کو وہ خاتمہ سمجھ رہے ہیں وہ اس خاندان کے حقیقی فروغ کا پہلا دن ہے اور جس کو اپنی فتح خیال کر کے خوش ہورہے ہیں، وہ ان کے فنا کی ابتدائی تمہید ہے۔ واقعات نے ثابت کردیا کہ حسینؑ کے خون کا ہر قطرہ اہل بیت رسولؐ کی مقدس تحریک کے لئے حیات تازہ اور اموی خاندان کی حکومت، ثروت بلکہ ان کی زندگی کے لئے بجلی کا حکم رکھتا تھا۔ ہمارے مذکورہ بیان کا ہر جملہ اگر صرف چند کلموں کا نام نہیںبلکہ مفصل اور طویل واقعات کا اجمالی رمز اور اشارہ ہے تو اس حیثیت سے بھی واقعات کربلا مختصر نہیں بلکہ بہت طولانی ہیں۔
اشاعت اوّل: ’اسد‘ لاہور بابت ۱۰؍اکتوبر ۱۹۵۶ء
اشاعت دوم: امامیہ مشن لکھنؤ (سلسلہ نمبر ۳۱۸) محرم ۱۳۸۰ھ (۱۹۶۰ء)
ضضض