تحریر: علم بردار اتحاد بین المسلمین صفوۃ العلماء مولانا سید کلب عابد نقوی رحمت مآب
وطن، قوم، مذہب اور دیگر بلند مقاصد کے لئے باعزم انسان ہر دور میں قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ نوع انسانی کے ابتدائی دور میں جناب ہابیل کی قربانی اتنی باعظمت تھی کہ قرآن نے تذکرہ کیا۔ جناب ابراہیمؑ کا اپنے محبوب فرزند کے گلے پر چھری رکھ دینا اللہ کی خوشنودی کے لئے عزیز ترین چیز نثار کرنے کی بلند مثال تھی کہ اس کی یادگار منانا قیامت تک کے لئے مسلمانوں کا شعار قرار دے دیا گیا۔ جناب یحییٰ کی قربانی بھی معمولی قربانی نہ تھی۔ ہمارے ہندوستان میں بھی ایک بیٹے کے باپ کے عہد کو نباہنے کے لئے دشت نوردی پر آمادہ ہونا اور ایک بھائی اور بیوی کی وفاداری کی یاد سینکڑوں سال سے منائی جاتی ہے۔ کہنے کو واقعۂ کربلا بھی ایک قربانی کی یادگار ہے جو بقائے اسلام کے لئے پیش کی گئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قربانی کا تقابل کسی بڑی سے بڑی قربانی سے ممکن نہیں۔ یہ مختلف جہات اور حیثیتوں سے ایسی انوکھی اور نرالی ہے کہ کوئی دوسری قربانی اس کے ہم پلہ قرار نہیں پاسکتی۔
شاعر نے کہا ہے:
یک حسینے نیست کو گردد شہید
ورنہ بسیار اند در دنیا یزید
یہ شعر اس اعتبار سے درست ہے کہ یزید سے ظالم دنیا میں اور بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر حسینؑ کے سے ظلم برداشت کرنے والے، اور مقصد پر ڈٹے رہنے والے نہ تھے نہ ہیں۔ اور نہ آئندہ ہوسکتے ہیں۔ لیکن مجھے ’’یک حسینے نیست‘‘ کے جملے سے اتفاق نہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بس ایک حسینؑ کا سا کوئی دوسرا موجود نہیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ دنیا نے علی اکبرؑ کا سا بیٹھا، عباسؑ کا سا بھائی، قاسمؑ کا سا بھتیجا، عونؑ ومحمدؑ کے سے بھانجے، زینبؑ و ام کلثومؑ کی سی بہنیں اور اصحاب باوفا کے سے صحابی کب دیکھے۔ جب امام حسینؑ نے ارشاد فرمایا کہ ان کے سے صحابی نہ رسولؐ کے تھے نہ علیؑ کے تھے اور نہ حسنؑ کے تھے۔ حالانکہ اس فہرست میں سلمانؑ، مقدادؑ، ابوذرؑ، عمار یاسرؑ، مالک اشترؑ، عمر بن حمق خزاعی، رشید ہجری کے نام ملتے ہیں۔ تو پھر کہیں اور کہاں مل سکتے ہیں۔ جناب عیسیٰؑ کی پوری زندگی کا نچوڑ وہ بارہ حواری تھے جنہوں نے نبی کی آواز من انصاری الی اللہ ’کون ہے جو اللہ کی طرف بڑھنے میں میری نصرت کرے‘ بڑے زور ودعوے سے یہ اعلان کیا تھا: نحن انصار اللّٰہ آمنا باللّٰہ واشھد بانا مسلمون۔ ’ہم ہیں خدا کے مددگار (اس کے مقصد میں معین) ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اے عیسیٰؑ گواہ رہئے کہ ہم مسلمان ہیں‘ ان میں سے گیارہ ثابت قدم رہے لیکن ایک کا قدم ڈگمگا ہی گیا اور نہ صرف یہ کہ جناب عیسیٰؑ کو چھوڑ دیا بلکہ دشمن کا مخبر بن گیا۔ رسالتمآب کے ساتھیوں نے جنگ احد، خیبر اور حنین وغیرہ میں کیا کیا؟ کس کو نہیں معلوم۔ حضرت علیؑ کے ساتھیوں نے نیزوں پر قرآن دیکھ کر قرآن ناطق سے کیونکر نگاہیں پھیریں یہ تاریخ کا ایک دردناک واقعہ ہے امام حسنؑ کو اپنے ساتھیوں پر اعتماد ہوتا تو معاویہ سے صلح کیوں فرماتے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبداللہ بن زبیر خود بڑی بہادری سے لڑے مگر غیروں کا کیا ذکر بیٹے اور بھائی تک رنگ بدلتے دیکھ کر دشمن سے مل گئے۔
مگر کیا کہنا حسینؑ کے عزیزوں، دوستوں اور انصار کا جنہوں نے محضرشہادت پر وفا کی مہریں ثبت کردیں۔ واقعہ کربلا کے منفرد ہونے کی ایک حیثیت یہ بھی ہے کہ یہ وفائوں کا کوئی اکیلا پھول نہیں گلدستہ ہے۔ بلکہ گلدستہ کیوں کہوں، ایک شاداب گلستاں اور سدا بہار چمن ہے اس فرق کے ساتھ کہ گلزار حسینی کے پھول جتنے مرجھا گئے اتنی ہی ان کی شمیم پھیلتی گئی۔ اور جتنا خزائوں نے مٹانا چاہا اتنی ہی بہار پر نکھار آتا گیا۔
یہ فرزند آدمؑ جناب ہابیل کی قربانی کی طرف ایک فرد کے ثبات واستقلال کا واقعہ نہیں۔ یہ جناب ابراہیمؑ و اسماعیل کے قصے کی طرح صرف ایک باپ اور بیٹے کے خدا کی مرضی کے سامنے سر جھکا دینے کا تذکرہ نہیں۔ یہ جناب یحییٰ کے مثل ظالم وجابر بادشاہ کے سامنے سر نہ جھکانے کی مثال بھی نہیں۔
یہ حواریین عیسیٰؑ کے مثل صرف چند دوستوں کی ثابت قدمی کا ذکر بھی نہیں۔ یہ ہندوستان کے مشہورواقعہ کی طرح صرف ایک بھائی اور زوجہ کی وفاداری کی داستان بھی نہیں۔ کربلا میں گذشتہ تمام قربانیوں کا جلوہ جن کی یادگاریں سینکڑوں برس سے منائی جاتی ہیں بہتر انداز سے ملنے کے علاوہ ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جو نہ پہلے نظر آسکیں اور نہ آئندہ نظر آئیںگی۔ واقعہ کربلا اور گذشتہ واقعات کی مثال ویسی ہی ہے جیسے قرآن مجید اور گذشتہ انبیاؑء کے صحیفے، قرآن میں وہ سب سمٹ آیا جو گذشتہ صحیفوں میں ہے اور ان صحیفوں میں بہت سے وہ حقائق نہیں جو قرآن میں پائے جاتے ہیں۔ اس قربانی میں شرکت کرنے والے ایک نہیں کئی بھائی ہیں، بیٹے ہیں، بھانجے ہیں، بھتیجے ہیں، دور اور قریب کے عزیز ہیں، آزاد ہیں، غلام ہیں، مرد ہیں، عورتیں ہیں۔ عورتوں میں بھی بہنیں ہیں، بھتیجیاں ہیں، بیٹیاں ہیں، ازواج ہیں۔ جانثاروں کے اہل وعیال ہیں۔ ان میں کچھ بوڑھے ہیں، کچھ کمسن ہیں، کچھ جوان ہیں۔ اتنے اختلافات کے باوجود جس کو بھی قربانی کے آئینہ میں دیکھا سب ایک شان کے نظر آئے۔ کیا خوب کہا ہے آل رضا مرحوم نے:
اپنے اپنے صنف و سن کے کیسے نمائندے نکلے
کرب و بلا کے تپتے بن میںچھانٹ کے جن کو لائے حسینؑ
دیکھنے کی بات ہے کہ جس چمن کے ہر پھول سے بوئے وفا آتی ہو۔ جس فلک شہادت کے ہر ستارے میں ایثار کی چمک ہو۔ جن میں کا ہر ایک شجاعت وبساطت کا آفتاب وماہتاب ہو۔ جس لشکر کا ہر سپاہی فرماںبرداری واطاعت شعاری کا پیکر ہو پھر اس وفاشعار کا کیا عالم ہوگا جو اس گلستاں کا گل سرسبد جوان ستاروں میں چاند جو ماہتابوں میں آفتاب اور جو اس لشکر کا علمدار ہو جس کو دو معصوموں کی نگاہ عصمت نے چنا جس کو علیؑ کے سے باپ نے اپنی نیابت اور حسینؑ کے سے بھائی نے اپنے رایت کے لئے منتخب کیا ہو۔ مانی ہوئی بات ہے کہ لشکر میں علم کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ مرکز کے ٹوٹ جانے سے اجزاء منتشر ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے علمداری کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ جنگ احد میں جب مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تھے لشکر اسلام کو فرار کرتے دیکھ کر کفار کے حوصلے بلند ہوگئے تھے اس محل پر امیرالمومنین علیؑ بن ابی طالبؑ نے موقع کی نزاکت دیکھ کر یہ طریقہ جنگ اختیار کیا کہ جس نے بھی کفار کا علم اٹھایا، علمدار لشکر اسلام نے اس کو بڑھ کر قتل کردیا۔ باربار اپنا جھنڈا سرنگوں ہوتے دیکھ کر کفار کے دل چھوٹ گئے ہمت ٹوٹ گئی۔ کافروں کو بھی اس کا احساس ہوگیا۔ لیکن یہ بھی سمجھ گئے کہ آج علیؑ کسی بھی علمدار کو زندہ نہ چھوڑیںگے تو انہوں نے علم کی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لئے جھنڈا ایک عورت کے ہاتھ میں دے دیا۔ کیونکہ جانتے تھے کہ علیؑ کی مردانگی یہ گوارا نہ کرے گی کی عورت پر ہاتھ اٹھائیں۔ رسالتمآبؐ نے اس عہدہ کو اتنا اہم قرار دیا کہ جس معرکہ میں علیؑ موجود رہے اسی کرار غیرفرار کو علمدار بنایا۔ جنگ موتہ میں آپ کی نگاہ انتخاب نے جناب عبداللہ ابن رواحہ، جناب زید اور جناب جعفرطیار کو علمداری کے لئے چنا۔ ان میں سے ہر ایک نے حق ادا کردیا۔ جنگ جمل میں بجائے علم کے مرکزیت اس جمل کو حاصل ہوگئی تھی جس پر ام المومنین سوار تھیں۔
گویا پورے لشکر کا علم یہی اونٹ بنا ہوا تھا بصرے والے جانیں دے کر اس کی حفاظت کررہے تھے۔ جمل کے قریب کٹے ہاتھوں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔ امیرالمومنینؑ نے فیصلہ فرمایا کہ جب تک یہ جمل اپنی جگہ قائم رہے گا خونریزی ہوتی رہے گی۔ لہٰذا حکم دیا کہ اس کو پے کردیا جائے چنانچہ جیسے یہ مرکز فساد چیخ مارکر گرا۔ بصرے والوں کے دل ٹوٹ گئے اورپیر اکھڑ گئے۔ ظاہر ہے کہ کربلا کی جنگ حق وباطل کا ایک ایسا بے مثل معرکہ تھا جس میں اسلامی اصول اور اخلاق وکردار کے وہ نمونے پیش ہونا تھے جو قیامت تک کے لئے مشعل راہ بن جائیں۔ اس کا علمدار ایسا ہونا چاہئے تھا جو صداقت ودیانت، وفاداری واطاعت، شجاعت وبساطت، ایمان میں استحکام، اللہ پر یقین واعتماد غرض اسلامی کردار کا بے مثال نمونہ اور حسینؑ کے مقصد شہادت کا آئینہ ہو اور یہ شخصیت تھی جناب عباس بن علی ابن ابی طالبؑ کی۔ جن کی تعریف میں امام جعفرصادقؑ کی معصوم زبان یوں رطب اللسان ہے۔ خدا رحمت نازل کرے ہمارے چچا عباسؑ پر جو دیندار اور مستحکم ایمان والے تھے انہوں نے امام حسینؑ کے ساتھ جنگ کی اور کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ آخر درجۂ شہادت پر فائز ہوئے خدا نے ان کے کٹے ہوئے بازوئوں کے عوض دو پر عطا فرمائے۔ یہ کسی شاعر کا قصیدہ نہیں معصوم زبان کے الفاظ ہیں جس سے ادا ہونے والا ہر لفظ مبالغہ سے دور اور حقیقت کا آئینہ ہوتا ہے۔ بھائیوں کی وفاداری کی مثالیں تو بہت ملتی ہیں یہ وہ رشتہ ہے جس کو ایمانی محبت کے اظہار کے لئے قرآن مجید نے منتخب فرماکر ارشاد کیا:
إنما المومنون إخوۃ۔ ’مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ دوسری آیت میں ارشاد ہے: ’واذکروا نعمۃ اللّٰہ علیکم إذ کنتم اعدائً فألف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہٖ إخواناً۔‘ ’اپنے اوپر اللہ کی یہ نعمت یاد کرو، جب کہ تم میں دشمنی تھی اللہ نے دلوں میں الفت پیدا کی اور اللہ کی نعمت کے طفیل میں تم بھائی بھائی بن گئے۔ رسالتمآبؐ نے بھی جب مسلمانوں کے اتحاد کو مضبوط کرنا چاہا تو رشتۂ اخوت قائم فرمایا۔ اور اپنی اور علیؑ کی محبت دنیا پر یوں ظاہر فرمائی کہ ہر مرتبہ علیؑ کو اپنا بھائی منتخب کیا۔ لیکن جہاں تاریخ کے اوراق میں بھائیوں کی فداکاریاں ملیں وہیں سوتیلے بھائیوں میں عداوتیں اور دشمنیاں بھی نظر آئیں۔ معلوم نہیں کتنے ایسے بھائیوں کے ہاتھ خون میں رنگے نظر آئے اور کتنے ایسے تھے جنہوں نے سولیاں دلوادیں اور آنکھیں نکلوا لیں۔ شقاوت کی ایسی مثال بھی ملی کہ بھائی کا کٹا ہوا سر ضعیف باپ کے پاس تحفہ میں بھیجا گیا۔ قرآن مجید نے جناب یوسف کا ذکر کیا ہے اس اللہ کے پیارے بندے کو غلامی کی زندگی بسر کرنا پڑی۔ مدتوں قید میں رہنا پڑا، فراق پدر برداشت کرنا پڑا، باپ کو اتنا صدمہ پہنچا کہ آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ کس کے ہاتھوں سوتیلے بھائی ہی تو تھے جنہیں یوسفؑ کے سے حسین وجمیل خوش اخلاق وبلند کردار کو کنویں میں ڈالتے رحم نہ آیا۔
انہوں نے تو معمولی رقم پر غلام بناکر بیچ ڈالا۔ سوتیلی مائوں کے دل کا بغض وعداوت پرورش کے اثر سے اولاد میں منتقل ہوجایا کرتا ہے۔ رسولؐ کی آنکھ بند ہونے کے بعد پیدا ہونے والے فتنوں کی جڑ بہت کچھ یہی سوتاپا تھا۔ مگر ایک طرف یہ ہزاروں سوتیلی مائوں اور بھائیوں کی عداوت کی مثالیں ہیں تو دوسری طرف جناب ام البنینؑ اور ان کے صاحبزادوں جناب عباسؑ اور ان کے بھائیوں کی محبت جانثاری اور فداکاری کی تصویریں آئینہ کربلا میں نظر آتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ خصوصی طور پر جناب امام حسینؑ سے الگ ہوجانے کی کسی کو اس طرح دعوت دی گئی ہو، جیسی جناب عباسؑ کو رشتہ داری کا حوالہ دے کر شمر بن ذی الجوشن نے دی تھی۔ نہ صرف یہ کہ امان مل رہی تھی بلکہ شمر کے اثرات سے بڑے سے بڑا عہدہ ملنے کی بھی توقع تھی۔ مگر جناب عباسؑ اور ان کے بھائیوں نے اس دعوت کو ٹھکرایا اور وفاداریوں کا مظاہرہ کرکے سوتیلے بھائیوں کی لاج رکھ لی۔ جس وقت جناب امام حسینؑ نے شب عاشور اپنا بے نظیر خطبہ ارشاد فرمایا اور شاہ کم سپاہ نے اپنے مختصر سے لشکر کو بھی خوشی سے ساتھ چھوڑنے کی اجازت دے دی۔
اور جب یہ دیکھا کہ ساتھیوں میں کوئی جانے کے لئے نہیں اٹھا تو ہمت بڑھانے کے لئے بھی کہہ دیا کہ تم لوگ اپنے ساتھ میرے ایک ایک عزیز کو بھی لیتے جائو۔ جب اس منزل پر امام حسینؑ کا خطبہ پہنچا تو جناب عباسؑ ہی تھے جو سب سے پہلے اٹھے تھے اور فرمایا تھا کہ آقا یہ ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ہم آپ کا ساتھ چھوڑ دیں آپ شہید کردئیے جائیں اور ہم زندہ رہیں۔ جناب عباسؑ کے اس حوصلہ مندانہ جواب کے بعد دیگر وفاداروں نے اپنی جانثاری کا اظہار کیا۔ ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ جناب عباسؑ سے پہلے معاذاللہ دوسرے ساتھی مذبذب تھے۔ اور حضرت عباسؑ کی تقریر سے ان میں جوش وہمت پیدا ہوئی۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ جناب عباسؑ کی وفاداری وجاںنثاری کی ہیبت ان کے دلوں پر ایسی تھی کہ کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ ان سے پہلے اٹھنے کی جرأت کرتا۔ سب منتظر تھے کہ پہلے جناب عباسؑ جواب دے لیں تب ہم اپنے دل کی بات کہیں۔ جناب عباسؑ کی یہی وہ وفاداریاں تھیں کہ ان کی شہادت پر امام کو ارشاد فرمانا پڑا:
’’الاٰن انکسر ظھری وقلت حیلتی۔‘‘
’اب میری کمر ٹوٹ گئی اور راہ چارہ وتدبیر باقی نہ رہی‘۔ اور اسی کی بنا پر امام حسینؑ کی طرف منسوب شعر:
’یا افضل الشھداء یابن المرتضیٰ
صلی علیہ اللّٰہ کل اوانی‘
میں جناب عباسؑ کو کربلا کے شہیدوں میں افضل شہداء کا لقب دیا گیا۔ اور یہی عظمت کردار جناب عباسؑ ہے جس کی بناء پر ابوحمزہ ثمالی کی امام جعفرصادقؑ سے روایت کردہ زیارت میں مدح و ثنا کے پھول یوں نچھاور کئے گئے ہیں:
سلام اللّٰۃ وسلم ملائکتہٖ المقربین وانبیائہ المرسلین وعبادہ الصالحین وجمیع الشھداء والصدیقین والزاکیات الطیبات فما تقتدی وتروح علیک یابن امیرالمومنین اشھد لک بالتسلیم والتصدیق والوفاء والنصیحۃ لحلف النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ والمرسل۔۔۔۔۔
روضہ میں داخلہ کے بعد اور ضریح سے لپٹ کر اس طرح خراج عقیدت پیش کرنے کی تعلیم دی گئی ہے:
السلام علیک ایھا العبد الصالح المطیع للّٰہ ولرسولہ و لامیرالمومنین والحسن والحسین۔۔۔ اشھد انک مضیت علیٰ ما مضی بہ البدریون والمجاھدون فی سبیل اللّٰہ المناصحون لہ فی جھاد اعدائہ المبالغون فی نصرۃ اولیائہ الذابون عن احبائہ۔۔۔ اشھد انک قد بالغت فی النصیحۃ واعطیت غایۃ المجھود۔۔۔۔۔ واشھد انک لم تھن ولم تتکل وانک مضیت علی بصیرۃ من امرک مقتدیا بالصالحین و متبعا للنبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم۔
زیارت سے مختلف مقامات کے صرف وہ جملے نقل کئے گئے ہیں، جن میں جناب عباسؑ کی عظمت کردار، بلندی ایمان اور آپ کے خلوص عمل پر روشنی پڑتی ہے۔ زبان معصومؑ سے حضرت عباسؑ کی مدح و ثنا میں ادا ہونے والا ان میں کا ہر جملہ تاجدار وفا کے خلوص کی کلغی کے لئے ایسا گوہر آبدار ہے جس کا جواب ممکن نہیں۔ ہر ہر جملہ ایسا ہے کہ اس کی تشریح کے لئے پورا مضمون درکار ہے۔