’مہنگائی عروج پر ہے، بھئی اس بار اونٹ کی قربانی ملتوی کر دیتے ہیں، کیوں نہ تین بیل اور چھ بکرے لے آئیں وہ بھی تو اونٹ کے برابر ہی پہنچ جائیں گے، شیخ ہدایت اللہ صاحب کپڑے جھاڑتے ہوئے اپنی بیوی سے بولے جو ابھی گاڑی سے اتر کر لان میں آرہی تھیں۔ ٹھیک کہا آپ نے شیخ صاحب!! اس مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے۔ سامنے والی ڈاکٹر نکہت کہہ رہی تھیں کہ ہم نے تو بکرے سے زیادہ قربانی نہیں دینی میں نے کہا کالونی والے کیا کہیں گے؟؟ وہ بولی کہتے ہیں تو کہنے دیں ہمارے قربانی کے لئے لائے بکروں کا کوئی کالونی میں مقابلہ تو کر کے دیکھے۔ اتنی دیر میں شیخ صاحب کی بیوی ایک بیمار لاغر اور ناتواں عورت ( اسلم کی بیوی ) پر برسنے لگیں جو ابھی گھر میں داخل ہو رہی تھی کہاں مر گئی تھی تو؟دس جوڑے سوٹ کیا دے دئے عذاب آگیا تم پر! اگر کام نہیں کرنا تھا تو بتا دیتی میں کسی اور کا بندوبست کر لیتی عید سر پر ہے اور پہنے کو جوڑے نہیں۔ بی بی جی معاف کردینا دراصل مشین خراب ہو گئی تھی اور میں ابھی بیماری سے اٹھی ہوں آپ سے عید کا کیا وعدہ ضرور پورا کروں گی کیا مجھے تھوڑے پیسے اڈوانس مل سکتے ہیں دوائی لانی ہے۔ شیخ کی بیوی سکینہ (اسلم کی بیوی ) پر برسی دیکھو سکینہ یہ ڈھکوسلے اب نہیں چلنے والے عید پر ہمارے مہمان آنے والے ہیں وگر نہ میں تمہارے اس کمانے کے انداز کو مزا چکھا دیتی۔ اچھا شام کو آجانا تمہیں پیسے دے دوں گی۔ شیخ صاحب کا بڑا بیٹا لان میں آتا ہے اور والد سے کہتا ہے ابا جی دس ہزار روپئے چاہئے میں نے اس مرتبہ اصغر کے بیٹوں کو عید کے لئے نئے کپڑے دلوانے ہیں۔ شیخ صاحب برس کر بولے خبر دار بیٹا ان چھوٹے لوگوں کو منھ مت لگا یاکرو عید کے تہوار ان کی کمائی کے دن ہوتے ہیں ہم نے کوئی دھرم شالا نہیں کھولی ہوئی ہے۔ ‘ یہ ایک پاکستانی قلم کار سید شاکر حسین رضوی کی تحریر سے ماخوز اقتباس ہے جو معاشرے کی اونچ نیچ طبقاتی تقسیم اور غرباء کی حالت اور اس پر امراء کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اقتباس نہ صرف پاکستانی معاشرے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ہمارے ہندوستانی معاشرے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ قربانی کے جانور وں کی قیمت پچھلے دو تین سال پہلے کے مقابلہ دو تین گنا سے زائد بڑھ گئی ہے لیکن اس میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب یہ مہنگائی اچھے کھاتے کماتے اور امیر یعنی بڑے لوگوں کی کمر توڑ رہی ہے تو غرباء کا کیا حال کر رہی ہوگی؟مہنگائی کے اس دور میں جس طرح ہمیں اپنی جیب کا خیال رہتا ہے اسی طرح ان غریبوں کا خیال کیوں نہیں رہتا جو بے چارے حالات کے مارے کمائیں گے تو کھائیں گے !مگر کمانے کے لئے روزگار کی کمی کے باعث پریشان ہیں ؟عید الفطر کے موقع پر تو غریبوں کا کچھ نہ کچھ کام بن جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کم از کم فطرہ، زکوٰۃ کی طرح مخصوص ٹھیکیداروں کو دے کر ضائع نہیں کیا جاتابلکہ لوگ مستحقین کو ڈھونڈ کراپنے طورپر انہیں فطرہ کا مال پہنچا نے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن عید قرباں کے موقع پر غریبوں کا کوئی خیال خاص طور سے نہیں رکھا جاتا۔ حالانکہ عید قرباں تو خاص طور سے جذبہء ایثار و قربانی کے اظہار کا نام ہے کہ یہ عید دراصل حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کی حقیقی قربانی سے اپنے آپ کو جوڑنے اور قوم مسلم میں وہی قربانی کا جذبہ پیدا کر نے کا تہوار ہے۔ لیکن کیا محض ایک یا کئی جانور علامتی طور پر قربان کر نے سے یہ جذبہ پیدا ہو جائیگا؟اللہ تعالیٰ نے تو یہ اعلان کردیا ہے کہ اسے تونہ قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون اس کے پاس توصرف تقویٰ پہنچتا ہے(الحج 37)یعنی اللہ کو قربانی کے جانور اس کے گوشت اس کی کھال وغیرہ سے کوئی مطلب نہیں وہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں آپ نے ایک اچھے بے عیب خوبصورت اور چنے چنائے ہوئے جانور کو کس نیت سے قربان کیا۔
الحمدللہ ہم جس دین حنیف کے ماننے والے ہیں وہ’ دین اللہ ‘ہے اور دین اللہ کا کوئی بھی حکم بے معنی غیر ضروری یا بے مقصد نہیں ہوسکتا تو ہمیں قربانی کے معاملہ میں بھی دیکھنا چاہئے کہ اس مقصد کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قربانی حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد گار اور ہم میں اسی قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ہے لیکن اس کا ایک اور مقصد بھی قرآن کریم میں اللہ جل جلالہ نے بیان فر مایا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان (قربانی کے جانور ) میں سے خود بھی کھاؤاور ان کو بھی کھلاؤ جو قناعت کر بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں (الحج 36)تو قربانی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس سے ان لوگوں کی مدد ہو جو مستحق ہیں۔ اوراگر قربانی کا گوشت غرباء و مستحقین میں تقسیم نہ کیا جائے بلکہ اگلی قربانی تک اپنے لئے محفوظ کرلیا جائے تو ایسی قربانی سے ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا جذبہ کس طرح پیدا ہوسکتا ہے؟الحمد للہ ہمارے معاشرے میں تقریباً ہر جگہ قربانی کا گوشت غرباء میں تقسیم کیا جاتا ہے لیکن افسوس اس میں خلوص نیت بہت کم ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں یہ بات مشہور ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصہ ہوتے ہیں ایک خود کے لئے دوسرا رشتہ دار اور دوست احباب کے لئے اورتیسرا غرباء و مساکین کے لئے، قربانی سے پہلے ہی یہ ہماری نیت ہوتی ہے کہ اس میں سے غرباء کو دینا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہم لوگ اچھا اچھا گوشت اپنے اور اپنے قرابت داروں کے حصہ میں نکال لیتے ہیں اور اسے خشک کر کے اگلے سال تک کے لئے محفوظ کر لیتے ہیں اور باقی بچے نسبتاً کم اچھے گوشت کی دو۔ دو بوٹی غرباء و مساکین میں تقسیم کر کے قربانی اپنے نام لکھوا لیتے ہیں۔ جہاں تک قربانی کے گوشت کی تقسیم کا معاملہ ہے تو اس میں قرآن کا حکم تو مقدم ہونا ہی چاہئے کہ ’کھاؤ اور کھلاؤ‘لیکن اس کھاؤ اور کھلاؤ میں اللہ کے رسول ﷺ کا اسوہ بھی دیکھنا چاہئے کہ آپ ﷺ نے وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے قربانی کے گوشت کی تقسیم کے لئے مختلف احکامات دئے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ ’’ جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔
دوسرے سال جب صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت نہ رکھیں تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا اب کھاؤ کھلاؤ اور جمع کرو، پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلاء تھے تو میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں مدد کرو۔ ‘‘( بخاری کتاب الاضاحی)۔ یعنی اب بھی اگر حالات خراب ہو ں تنگ دستی زیادہ ہوغرباء اور مفلسین کثیر تعداد میں ہوں تو ہمیں زیادہ سے زیادہ گوشت قناعت کرنے والوں (ایسے غریب جو خود ہو کر مانگتے نہیں بلکہ جتنا ہے اسی پر قناعت کرتے ہیں )، مفلسوں اور ضرورت مندوں اور سائلوں میں تقسیم کردینا ہوگا۔ آج کے حالات پر غور کر نے سے ایسا سمجھ میں آتا ہے کہ تنگ دستوں اور غریبوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں لوگ محنت مزدوری کر کے کمارہے ضرور ہیں لیکن اجرت اتنی نہیں ہوتی کہ روز روز اچھا کھانے کے لئے کافی ہو، متمول لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے یہ حیثیت دی ہے کہ وہ جب چاہیں جس قسم کا چاہیں گوشت خرید سکتے ہیں اگر اپنے حصہ کا قربانی کا گوشت اپنے علاقے کے مزدور پیشہ لوگوں غرباء و مساکین کے یہاں ذخیرہ کرلیں کہ اگر روز کے کمانے والوں کو کسی دن کام نہ ملے تو ہمارا دیا ہوا قربانی کا گوشت ان کے کام آ سکے، تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس سے پیٹ تو ان غرباء کا بھرے گا لیکن نامہء اعمال قربانی کر نے والوں کا بھرے گا۔ اس سال تو یہ اور ضروری ہو گیا ہے کہ اب بڑے جانوروں (بیل)کی قربانی پر پابندی کی وجہ سے گوشت کی مقدار کم رہے گی۔
قربانی کے ضمن میں ایک بات اور دیکھنے میں آرہی کہ اب قربانی نام و نمود اور جھوٹی فیاضی دکھانے کا فیشن بنتی جا رہی ہے لوگ محض دکھاوے کے لئے بڑی بڑی رقوم خرچ کر کے قربانی کے جانور لاتے ہیں بلکہ اس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش بھی ہو تی ہے جبکہ اس طرح کا معاملہ قربانی نہ ہوکر ریا کاری ہوگا اور ریا کاری کا مقام شرک کے برابر ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں جس قوم کو مجموعی اعتبار سے غریب کہا گیا وہ اس غربت کا خاتمہ کر نے کے طریقہ ڈھونڈ نے کی بجائے ہر سال کروڑوں روپئے کے جانور قربان کر تی ہے۔ قربانی ہمیں کر نی چاہئے لیکن اس طرح کر نی چاہئے کہ پہلے ہی اس کے لئے ایک رقم طے کرلیں لیکن اس پوری رقم کو جانور کی خریداری پر خرچ نہ کرتے ہوئے اس میں سے کچھ رقم بچا کر اس کو اجتماعی طور یا فرداً فرداً ہی صحیح بے روزگاروں کو مستقل روزگار فراہم کر نے پر صرف کیاجائے۔ یہ بھی دراصل قربانی ہی ہے اور اس وقت تک ثواب کا باعث بنی رہے گی جب تک وہ روزگار چلتا رہے گا اور جب تک اس روزگار کی وجہ سے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوکر دوسروں کو بھی مستفید کرتے رہیں گے۔ اسی طرح ہماری تعلیمی حالت بھی خاص توجہ کی طالب ہے کہ حال ہی میں یہ معلوم ہوا ہے کہ ہم ہندوستان میں ہم ہی میں سب سے کم تعلیم ہے۔
ہم اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ہمیں کم از کم ہم اتنا تو خیال رکھنا ہی چاہئے کہ ہمارے قربانی کے جانوروں کی بے جا نمائش کہیں اسے ریا میں شمار نہ کروادے اور قربانی کے گوشت کو کئی مہینے تک جمع کر کے رکھنے کے مختلف طریقہ اور ہمارے ٹھاٹ باٹ کو دیکھ کر کسی غریب کا دل نہ روئے۔