عاشورہ ایک عظیم درسگاہ ہے جس سے مکتب اہل بیت سے وابستہ ہر شاگرد اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق درس حاصل کرتا ہے کربلا تاریخ انسانیت کا ایک یادگار معرکہ ہے اور ایک خوبصورت تصویر ہے جس میں اسلام اور دین اسلام کے اعلی مقاصد و اہداف کی بہترین منظر کشی کی گئی ہے۔
کربلا ایک صاف و شفاف آئینہ ہے ،کہ جس میں الھی انسانی آسمانی فضائل منعکس ہوتے ہیں اس بناپر کربلا ایک ایسا مکتب ہے جس کے نورانی فیض سے صبح قیامت تک آنیوالی نسلیں فیضیاب ہوتی رہینگی۔
اخلاق و تربیت و عبادت و عرفان و روحانیت و معنویت وغیرہ کربلا کے نورانی و معنوی فیض ہیں۔
کربلا سے ہم مندرجہ ذیل صفات اخذ کر سکتے ہیں
حق کے پیروکاروں کے ساتھ دوستی ، مہر و محبت ، اور صمیمیت کا اظھار۔
زندگی کے بد ترین حالات میں قرآن اور نماز سے استعانت جوئی۔
زندگی کو خدا کے ساتھ راز و نیاز کرنے کا بھترین وسیلہ سمجھنا۔
ہولناک ماحول میں حق کی ظفریابی کی امید رکھنا
احقاق حق اور ابطال باطل کی راہ میں پیروان حق کو صبرو استقامت کی تلقین کرنا۔
اعمال و دولت خلوص سے مالا مال ہوں۔
جذبہ ایثار و قربانی کے ساتھ ساتھ دفاع از حریم ولایت و امامت ۔
زندگی کے آخری لمحات تک نظم و ضبط پر بر قرار رہنا
سخت ترین حالات میں نماز کی پابندی اور دوسروں کو نماز کی ترغیب دلانا۔
نوافل اور مستحبات پر عمل کرنا۔
یہ وہ درس ہیں جو ہمیں مکتب کربلا سے حاصل ہوتے ہیں
لہاذا ہماری مجالس و عزاداری خلوص پر مبنی ہو۔
اسی کے ساتھ ساتھ یہ عزاداری کربلا کے عالی مقاصد اور اہداف کی عکاس بھی ہو۔
چونکہ آج کا دور باالخصوص میں عصر انقلاب اسلامی اور بیداری اسلامی حقیقت جویان تمام بشریت اور مسلمان اسوۂ حسنہ کے اتخاذ میں کربلا اور عاشورہ کے محتاج ہیں
امام حسین کا ’’تعارف‘‘ علم اور قلم دونوں کے بس کی بات نہیں۔
علم کو الم عطا کیا حسین نے۔۔۔
کربلا کومقتل سے عظیم ’’درسگاہ‘‘ میں بدل دیا
اس درسگاہ کا’’معلم ‘‘۔۔۔’’نصاب‘‘ ۔۔۔ ’’اصحاب‘‘ ۔۔۔’’سند ‘‘ ۔۔۔۔’’وفد‘‘ سب حسین
’’ فکر ‘‘ حسین ۔۔۔’’ذکر ‘‘ حسین۔۔
صبر کی انتہا ، شہیدِ لافتح ، ادائے مرتضیٰ ، رضائے مصطفی ؐ، بِنائے لا الہ
سب حسین ۔۔۔۔حسین سب کا ۔۔حسین رب کا
شہادت کا حُسن ۔۔۔۔حسین
انسانیت کا نظم اور ضبط حسین
بندگی اور زندگی میں ربط حسین
حق اور باطل میں سرحد حسین
جس سے اصول۔۔۔جس سے رسول ؐ
کربلا میں لازوال ابدی قربانیوں کا آغاز یوم عاشور کی صبح شبیہہ رسول ؐحضر ت علی اکبر 18سال کے کڑیل جوان کی اذان سے ہوا اوروقتِ نمازِعصر نواسہ رسول ؐجگر گوشۂ حیدر و بتول حضرت امام حسین کے سجدے پر تمام ہوا ۔۔۔۔کائنات قیامت تک ایسی اذان اور ایسی نماز کی مثال پیش کرنے سے قاصر رہے گی بلکہ اس اذان اور نماز کے درمیان وقفے میں جس جوش و جذبۂ ایمانی سے خدائے بزرگ و برتر کے حضور اپنے خون سے شہادتوں کی تاریخ رقم کی گئی اسے یوم محشر تک ہر زمانے میں عقیدتوں بھری سلامی پیش کی جاتی رہے گی۔
نواسہ رسول جگر گوشہ بتولفرزند مرتضیٰ حسین ابن علی کی قربانی کوصرف مسلمانوں کیلئے مخصوص و محدود سمجھنا حسینیت کو نہ سمجھنے کے مترادف اور نا انصافی ہے ۔ اسے قرین ِ انصاف کہا جائے یایوں کہا جائے کہ حسینیت انسانیت کی معراج، ہر رنگ و نسل کیلئے حق کا معیار، زندگی اور موت کو سمجھنے کا شعور ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے میں ہر زبان ، ادب اور مذہب سے وابستہ انسان امام مظلوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کیونکہ امام حسین نے اپنے اصحابِ باوفا اور خاندان اہل ِ بیت کی ہمراہی میں جو اصولوں کی جنگ لڑی اس کے اثرات پوری دنیا ہی نہیں کائنات پر نقش ہیں۔ آپ کے اصول اور آپ کی قربانی جہاں اسلام کی بقا ء کی ضمانت ہیں وہاں بلاتفریقِ مذہب و ملت اور علاقہ و ملک عدل و انصاف کی فراہمی‘ آزادی کے حصول‘ حقوق کی جنگ‘ فرائض کی ادائیگی‘ جذبہ ایثار و قربانی‘ عزم وہمت اور جوش وولولہ کے جاویدانی پیغام بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر طبقہ فکر اور مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے مشاہیر آپؓ کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کرتے ہیں ۔ مختلف مذاہب کے پیشوا‘ دانشور‘ مفکر اور شعراء نے امام حسین کی بارگاہ میں جس عقیدت کا اظہار کیا یہاں ان کی تفصیل پیش نہیں کی جا سکتی لیکن مختصراً ذکر کرتے چلیں تو ہندو شاعروں میں منشی دیشو پرشاد ماتھر لکھنوی کو اہل بیت اطہار کی شان بیان کرنے کی وجہ سے خاص شہرت حاصل ہوئی وہ کہتے ہیں:
انسانیت حسین تیرے دم کے ساتھ ہے
ماتھر بھی اے حسین تیرے غم کے ساتھ ہے
انہی کاایک اور شعر کچھ یوں ہے کہ
مسلمانوں کا منشاء عقیدت اور ہی کچھ ہے
مگر سبطِ نبیؐ سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے
معروف مصنف تھامس کارلائل اپنی کتاب Heroes and Heroes Worship میں کربلا سے حاصل ہونیوالے درس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’کربلا کے المیے سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ امام حسین اور آپ کے ساتھیوں کو خدا تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ آپ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور بہادری کا جو سبق ہمیں تاریخ کربلا سے ملتا ہے وہ کسی اور تاریخ سے نہیں ملتا۔‘‘۔۔۔ایک اور عیسائی دانشور ڈاکٹر کرسٹوفر اپنا نظریہ یوں بیان کرتے ہیں ’’کاش دنیا امام حسین کے پیغام‘ ان کی تعلیمات اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی اصلاح کرے۔‘‘۔۔۔ عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے اپنی عقیدت کچھ اس طرح قلم بند کی کہ ’’امام حسین صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ انہوں نے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔ ایسی روحیں کبھی فنا نہیں ہوسکتیں اور امام حسین آج بھی انسانیت کے رہنمائوں میں بلند مقام رکھتے ہیں۔‘‘۔۔۔جے اے سیمسن کہتے ہیں ’’حسین کی قربانی نے قوموں کی بقاء اور جہاد زندگی کیلئے ایک ایسی مشعل روشن کی جو رہتی دنیا تک روشن رہے گی‘‘۔۔۔۔جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے’’تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے جس کو حسین کہا جاتا ہے۔ یہ محمدؐ کا نواسہ‘علی فاطمہ کا بیٹا‘ لاتعداد صفات و اوصاف کا مالک ہے جس کے عظیم واعلیٰ کردار نے اسلا م کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام کا یہ بہادر میدانِ کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتا تو آج محمد کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا‘ وہ کبھی اس طرح کہ نہ تو قرآن ہوتا اور نہ اسلام ہوتا‘ نہ ایمان‘ نہ رحم و انصاف‘ نہ کرم و وفا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا۔ ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔‘‘۔۔۔
مشہورافسانہ نگار منشی پریم چند لکھتے ہیں’’معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے۔‘‘۔۔۔مشہور جرمن فلاسفر نطشے بلاامتیاز مذہب و ملت ہر قوم کی نجات کو فلسفہ حسینیت میں یوں بیان کرتے ہیں’’زہد و تقویٰ اور شجاعت کے سنگم میں خاکی انسان کے عروج کی انتہا ہے جن کو زوال کبھی نہیں آئے گا۔ اس کسوٹی کے اصول پر امام عالی مقامؓ نے اپنی زندگی کی بامقصد اور عظیم الشان قربانی دے کر ایسی مثال پیش کی جو دنیا کی قوموں کی ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔‘‘۔۔۔اردو ادب کے شہرہ آفاق نقاد اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ’’سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’’ راہِ حق پر چلنے والے جانتے ہیں کہ صلوٰۃعشق کا وضو خون سے ہوتا ہے اور سب سے سچی گواہی خون کی گواہی ہے۔ تاریخ کے حافظے سے بڑے سے بڑے شہنشاہوں کا جاہ و جلال‘ شکوہ و جبروت‘ شوکت و حشمت سب کچھ مٹ جاتا ہے لیکن شہید کے خون کی تابندگی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ اسلام کی تاریخ میں کوئی قربانی اتنی عظیم‘ اتنی ارفع اور اتنی مکمل نہیں ہے جتنی حسین ابن علی کی شہادت۔ کربلا کی سرزمین ان کے خون سے لہولہان ہوئی تو درحقیقت وہ خون ریت پر نہیں گرا بلکہ سنتِ رسولؐ اور دین ابراہیمیؑ کی بنیادوں کو ہمیشہ کیلئے سینچ گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خون ایک ایسے نور میں تبدیل ہوگیا جسے نہ کوئی تلوار کاٹ سکتی ہے نہ نیزہ چھید سکتا ہے اور نہ زمانہ مٹا سکتا ہے۔ اس نے اسلام کو جس کی حیثیت اس وقت ایک نوخیز پودے کی سی تھی‘ استحکام بخشا اور وقت کی آندھیوں سے ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا۔‘‘
اسی طرح رائے بہادر بابو اتاردین لکھتے ہیں
وہ دل ہو خاک نہ ہو جس میں اہل بیت کا غم
وہ پھوٹے آنکھ جو روئی نہ ہو محرم میں۔
ہندو شاعر منشی لچھمن داس مرثیہ گوئی میں منفرد مقام رکھتے ہیں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو:
کم جس کی خیالیں ہوں‘ وہ تنویر نہیں ہوں
بدعت سے جو مٹ جائے وہ تصویر نہیں ہوں
پابند شریعت نہ سہی گو لچھمن
ہندو ہوں مگر دشمن شبیر نہیں ہوں
عقل و آگہی کے انہی افکار ونظریات کو دیکھتے ہوئے جوش ملیح آبادی نے لازوال جملے کہہ ڈالے
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
حسین آئینِ حق پرستی۔۔نہ پوچھ میرا حسین کیا ہے جہانِ عزمِ وفا کا پیکرخِرد کا مرکز، جنوں کا محورجمالِ زھرا، جلالِ حیدرضمیرِ انساں، نصیرِ داور زمیں کا دل، آسماں کا یاوردیارِ صبر و رضا کا دلبر کمالِ ایثار کا پیمبرشعورِ امن و سکوں کا پیکر جبینِ انسانیت کا جھُومر عرب کا سہرا، عجم کا زیور حسین تصویرِ انبیاء ؑہےنہ پوچھ میرا حسین کیا ہے حسین اہلِ وفا کی بستی حسین آئینِ حق پرستی حسین صدق و صفا کا ساقی حسین چشمِ اَنا کی مستی حسین پیش از عدم تصور حسین بعد از قیامِ ہستی حسین نے زندگی بکھیری فضا سے ورنہ قضا برستی عروجِ ہفت آسمانِ عظمت حسین کے نقشِ پا کی مستی حسین کو خُلد میں نہ ڈھونڈوحسین مہنگا ہے خُلد سستی حسین مقسومِ دین و ایماں حسین مفہوم ’’ھَل اَتٰی‘‘ ہےنہ پوچھ میرا حسین کیا ہے۔