ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
امام جعفر بن محمد الصادق کو عرف عام میں ” جعفر الصادق” یا صرف "الصادق "کہا جاتاہے یعنی” سچا”، کیونکہ روایت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ ا ٓپ مدینۃ الرسول میں 17 ربیع الاول سنہ80 ھ (20 اپریل 702) کو پیدا ہوئے اور وہیں آپ کا انتقال 25 شوال سنہ 148 (14 دسمبر 765) میں ترسٹھ سال کی عمر میں ہوا۔ وہ فرقۂ اثنا عشریہ کے چھٹے امام اور فرقۂ اسماعیلیہ کے پانچویں امام تھے۔ اسی کے ساتھ وہ حنفی اور مالکی اور دوسرے سنی فقہاء کے استاد بھی تھے۔ فقہ حنفی کے بانی امام ابو حنیفہ امام جعفر الصادق کے شاگردوں میں سے تھے۔
امام اہل بیت ہونے کے ساتھ ساتھ امام جعفر الصادق خلیفۂ اول حضرت ابوبکر الصدیق کے نواسے بھی تھے کیونکہ انکی والدہ محترمہ ام فروۃ بنت القاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق تھیں، یعنی حضرت ابوبکر الصدیق ان کے نانا تھے۔ یوں حضرت امام جعفرکو اہل بیت اور خلیفۂ اول دونوں سے نسب ونجابت کا شرف حاصل تھا۔
اہل سنت اگرچہ اہل تشیع کی طرح امام جعفر الصادق کو دینی معنی میں "امام معصوم” نہیں مانتے لیکن فقہی طور سے امام جعفر الصادق تمام سنی فقہاء کے استاد تھے۔ سنی اور شیعہ دونوں سلسلےکے رواۃ حدیث نے حضرت امام جعفر الصادق سے احادیث روایت کی ہیں۔ آپ سنی صوفی نقشبندی سلسلہ کی بھی ایک اہم شخصیت مانے جاتے ہیں۔
امام جعفر الصادق صرف عالم دین ہی نہیں تھے بلکہ وہ علم فلک، علم کلام، ادب، فلسفہ، طب اور کیمیاء کے بھی استاد مانے جاتے ہیں۔ علم کیمیاء کا سردار جابربن حیان امام جعفر الصادق کا علم کیمیاء میں شاگرد تھا۔
حضرت امام کے والد ماجد امام محمد الباقر اہل تشیع کے پانچویں امام تھے۔ اپنے والد ماجد کے انتقال کے بعد حضرت امام جعفر الصادق 34 سال کی عمر میں امام مقرر ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ہشام بن عبدالملک نے حضرت امام الباقر کو زہر دلوایا تھا۔
حضرت امام کے انتقال کے بعد اہل تشیع میں اختلاف پیدا ہوا۔ کچھ لوگوں نے ان کے بیٹے موسیٰ بن جعفر "الکاظم” کو امام مانا جبکہ کچھ لوگوں نے حضرت امام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل بن جعفر کو امام مانا حالانکہ ان کا انتقال اپنے والد محترم کی زندگی میں ہو گیا تھا۔ امام موسیٰ الکاظم کے ماننے والے موسوی، امامی اور اثناعشری کہلائے جبکہ امام اسماعیل کو ماننے والے "اسماعیلی” کہلائے۔
بہت ابتدائی دور میں مسلمانوں کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خلافت یعنی ان کے بعد دینی اور سیاسی معنی میں میں ان کا وارث ہونے کے بارے میں اختلاف پیدا ہوا جس کی وجہ سے امت مسلمہ میں آجتک اختلاف چلا آرہا ہے۔ ایک فریق نے شورائی خلافت کی تایید کی اور وہ اہل سنت کہلائے۔ ان کا خیال تھا کہ خلیفہ کا انتخاب شوری سے ہونا چاہئے اور مسلمانوں میں جو سب سے زیادہ صاحب علم، عادل اور شجاع ہو اسی کو امام ہونا چاہئے۔ دوسرے فریق کا، جو بعد میں اہل تشیع یا شیعان علی (یعنی حضرت علی کے مؤیدین) کے نام سے جانا گیا، خیال تھا کہ حضورپاک ﷺ نےاپنے بعد حضرت علی بن ابی طالب، رضی اللہ عنہ وارضاہ، اور ان کے بعد ان کے بیٹوں یعنی حضرت حسن اور حضرت حسین کو اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے اور باقی ائمہ کرام انھیں کی اولاد میں سے ہونگے۔ اس گروہ کا خیال تھا کہ حضور پاک ﷺ نے خود اپنے بعد آنے والے ائمہ کا تعین کر دیا تھا اور انھیں میں سے آخری امام مہدی منتظر ہوں گے۔ٍ
اگرچہ بعض دوسرے ائمہ کرام اور ان کے مؤیدین نے ائمہ اہل بیت کو ان کا حق دلوانے کے لئے ہتھیار اٹھائے لیکن امام جعفر الصادق نے ہتھیار اٹھانے سے انکار کیا اور اپنے مؤیدین کو بھی منع کیا۔ یہ کہنے کا مطلب ہرگزیہ نہیں ہےکہ حضرت امام جعفر خود کو امامت کا زیادہ حقدار نہیں سمجھتے تھے لیکن انہوں نے اپنے معتقدین ومؤیدین کو بچانے کے لئے اموی اورعباسی سلاطین کے خلاف بغاوت پسند نہیں کی۔ روایتوں میں ہے کہ ان کے پاس مؤیدین کے جو خطوط خروج وبغاوت کے لئے آتے تھےوہ انہیں جلا دیا کرتے تھے۔
تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے کہ حضرت امام جعفر الصادق خلفاء راشدین کا دفاع کرتے تھےاور حضرت ابو بکر الصدیق کو برا بھلا کہنے والوں کو برا سمجھتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا کہ میرا ایک پڑوسی دعوی کرتا ہے کہ آپ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر سے تبرا کرتے ہیں تو حضرت امام نے جواب دیا: "بَرِئَ اللهؑ من جاركَ . والله إني لأرجو أن ينفعني الله بقرابتي من أبي بکر” (اللہ تمہارے پڑوسی سے بری ہے۔قسم ہے اللہ کی کہ میں تو اس بات کی امید رکھتا ہوں کہ اللہ پاک مجھے حضرت ابوبکر سے رشتہ داری کی وجہ سے اکرام سے نوازیں گے)۔
سالم بن ابی حفصہ کی روایت ہے کہ انہوں نے حضرت امام جعفر الصادق سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا:
"يَا سَالِمُ! تَوَلَّهُمَا، وَابْرَأْ مِنْ عَدُوِّهِمَا، فَإِنَّهُمَا کَانَا إِمَامَيْ هُدَىً …يَا سَالِمُ! أَيَسُبُّ الرَّجُلُ جَدَّه؟ أَبُو بَکْرٍ جَدِّي، لاَ نَالَتْنِي شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ يَوْمَ القِيَامَةِ إِنْ لَمْ أَکُنْ أَتَوَلاَّهُمَا، وَأَبرَأُ مِنْ عَدوِّهِمَا”
”اے سالم! ان (ابوبکر و عمر) کو دوست مانو اور ان کے دشمن سے اظہار براءت کرو کیونکہ وہ ہدایت کے امام تھے۔۔۔ اے سالم! کیا کوئی آدمی اپنے نانا کو گالی دیتا ہے؟ ابوبکر میرے نانا تھے۔ مجھے حضرت محمد کی شفاعت نصیب نہ ہو، اگر میں ان دونوں کو عزیز نہ رکھوں اور انکے دشمنوں سے براءت نہ کروں”
حضرت امام جعفر الصادق کی زندگی میں ہی خلافت امویہ کا خاتمہ ہوا اور خلافت عباسیہ قائم ہوئی جس کے لیڈر بنو ہاشم کی ہی ایک شاخ عباس بن عبدالمطلب سےتعلق رکھتے تھے۔ امویوں کے خلاف بغاوت میں عباسیوں کو اہل تشیع کی تایید حاصل تھی۔ اس لئے اہل تشیع کو توقع تھی کہ عباسیوں کے آنے سے خلافت یعنی امامت آل بیت میں لوٹ آئے گی۔ عباسی دور سلطنت میں میں پہلا خلیفہ یا سلطان ابوالعباس بنا ، پھر اس کے بعد اس کا بھائی ابو جعفر المنصور خلیفہ بنا جس سے واضح ہو گیا کہ نئی سلطنت بھی اموی سلطنت کی راہ پر چلے گی۔ اس نئے دور میں بھی امام جعفر الصادق نے خود کو فتنے سے الگ رکھا اور لوگوں کی تعلیم و تربیت میں لگے رہے۔ ان کی مجالس میں اس زمانے کے بڑے اہل علم وفضل حاضر ہوتے تھے۔ ان میں مذہب حنفی کے بانی امام ابو حنیفہ النعمان اور مذہب مالکی کے بانی امام مالک بن انس بھی شامل تھے۔ ان کے شاگردوں کے وضع کردہ مذاہب آج تک جاری و ساری ہیں۔
سیاسی سرگرمیوں سے دوری کے باوجود عباسی حکام نے حضرت امام کو بار بار گرفتار کرکے جیل میں بند کیا کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ ائمہء کرام کے متبعین وتلامذہ سیاسی تحریک قائم کر سکتے ہیں اور نئی سلطنت کا تختہ پلٹ سکتے ہیں۔ حضرت امام نے صبر کے ساتھ ان آزمائشوں کو برداشت کیا اورہر بار جیل سے باہر آتے ہی وہ دوبارہ علم و تدریس میں مشغول ہو جاتے۔ ان کے حلقات علم میں اہل کتاب اور ملحد لوگ بھی شریک ہوکر دینی مسائل پر مناقشہ کرتے تھے۔ حضرت امام سے طلب علم کے لئے دور دراز کے علاقوں سے لوگ آتے تھے۔ یوں اس زمانے کے سارے عالم اسلام میں ان کے شاگرد پھیل گئے۔
حضرت امام نے اپنے زمانے میں علماء، ملاحدہ، معتزلہ، زنادقہ وغیرہ سے مناظرے کئے۔ ان کے ساتھ مناظرہ کرنے والوں میں ایک ہندوستانی طبیب بھی شامل تھا۔ یہ مناظرے صرف فقہ و حدیث کے بارے میں ہی نہیں بلکہ فلسفہ اور علم کلام کے بارے میں بھی ہوتے تھے کیونکہ اس وقت تک یونانی فلسفہ کا عربی میں ترجمہ ہوچکا تھا اور وہ لوگوں کے لئے مسائل پیدا کر رہا تھا۔
حضرت امام قیاس کے بہت سخت مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک کسی منصوص علت کا وجود نہ ہو قیاس باطل ہے بلکہ ایسا قیاس صرف ایک رائے ہے اور وہ ایک ایسا انسانی عمل ہے جس کو دینی تقدس نہیں حاصل ہو سکتاہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ سے ایک بار کسی نے سوال کیا کہ” آپ نے کس کو سب سے زیادہ ذی علم و متفقہ پایا” تو انہوں نے جواب دیا: جعفر الصادق کو اور بتایا کہ خلیفہ المنصور نے ایک بار امام جعفر الصادق اور مجھے ( یعنی امام ابوحنیفہ کو) اپنے دربار میں بلایا اور مجھ سے کہا کہ حضرت امام سے تمام بڑے اختلافی مسائل کے بارے میں پوچھو۔ تو امام ابو حنیفہ نے حضرت امام سے 40 سوال کئے اور انہوں نے بغیر جھجھک کے ان تمام سوالوں کا واضح جواب دیا۔
حضرت امام کے علم و فضل کا نتیجہ تھا کہ شروع میں اہل تشیع کے فقہ کو المذہب الجعفری (فقہ جعفری) اور اہل تشیع کو "الطائفۃ الجعفریۃ” یعنی جعفری گروہ کہا گیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے تک یعنی پورے 34 سال امامت کے منصب پر فائز رہے۔ ان کا زمانہ علم و فضل، علم کلام اور مناظرات کا زمانہ تھا جسمیں حضرت امام نے بھر پور حصہ لیا اور شیعی علم کلام کو وجود میں لانے کا کردار نبھایا۔
بنی عباس کے آنے کے بعد اہل بیت کرام کےمعاشی حالات بہتر ہوئے تھے اور انھیں یک گونہ آزادی بھی حاصل ہوئی جو کہ اموی دور میں یکسر مفقود تھی۔ حضرت امام کے زمانے میں عباسی خلفاء بنو امیہ کے خاتمے پر زیادہ زور صرف کرتے رہے اور دوسرے لوگوں سے زیادہ تعرض نہیں کیا۔
ان ساری صدیوں میں حضرت امام اہل سنت میں ویسے ہی مقبول ہیں جیسے اہل تشیع میں، صرف اس بات کا فرق ہے کہ اہل سنت أئمہ کرام کو معصوم نہیں سمجھتے لیکن بہت سے سنی علماء مثلاً امام الذھبی نے اپنی کتاب سیر اَعلام النبلاء میں تمام أئمہ کرام کا نام لےلے کرلکھا ہے کہ اگرچہ ہم ان کے معصوم ہونے کے قائل نہیں ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک خلافت کا مستحق ہے۔
مانچسٹر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے کے دوران میں نے فقہ کی سینکڑوں کتابیں دیکھیں کیونکہ میں اپنے تھیسس کے لئےفقہی کتابوں میں ہجرت کے احکام ڈھونڈ رہا تھا۔ ایک دن کتابوں کی الماری میں مجھے ایک کتاب "فقہ الامام جعفر” ملی۔ عربی کی یہ کتاب غالبا بیروت کی چھپی ہوئی تھی۔ میں اس کو فوراً پڑھنے کے لئے لے آیا۔ چونکہ میں نے ہندوستانی مدارس میں فقہ حنفی کی کتابیں مثلا قدوری، ہدایہ اور وقایہ وغیرہ پڑھی تھیں، اس لئے مجھے ایسا لگا جیسے میں فقہ حنفی کی کوئی کتاب پڑھ رہاہوں۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ یہ امام ابو حنیفہ کے استاد کی فقہ تھی۔
دور حاضر میں مصر بلکہ عالم اسلا م کے سب سے بڑے فقہی عالم شیخ محمدابو زَہرہ نے "الامام الصادق” کے نام سے ایک کتاب حضرت امام کے بارے میں لکھی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں :
إن للإمام الصادق فضل السبق، وله على الأکابر فضل خاص، فقد کان أبو حنيفة يروي عنه، ويراه أعلم الناس باختلاف الناس، وأوسع الفقهاء إحاطة، وکان الإمام مالک يختلف إليه دارساً راوياً، وکان له فضل الأستاذية على أبي حنيفة فحسبه ذلک فضلاً. وهو فوق هذا حفيد علي زين العابدين الذي کان سيّد أهل المدينة في عصره فضلاً وشرفاً وديناً وعلماً، وقد تتلمذ له ابن شهاب الزهري، وکثير من التابعين، وهو ابن محمد الباقر الذي بقر العلم ووصل إلى لبابه، فهو ممن جعل الله له الشرف الذاتي والشرف الإضافي بکريم النسب، والقرابة الهاشمية، والعترة المحمديةَ.
”امام الصادق کو اسبقیت حاصل ہے۔ بڑے بڑے علماء پر ان کا فضل خاص ہے۔ ابو حنیفہ ان سے روایت کرتے تھے۔ امام مالک ان کے سامنے زانوے ٔتلمذ تہ کرتے تھےاور ان سے روایت کرتے تھے۔ ان کے فضل کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ امام حنیفہ کے استاد تھے۔ اس سب کے بعد وہ حضرت علی زین العابدین جیسی شخصیت کے پوتے تھے جو اپنے زمانے میں فضل و شرف و تدین و علم کے اعتبار سے مدینہ کے سردار تھے۔ ابن شہاب الزہری بھی ان کے شاگرد تھے۔ بہت سے تابعین بھی ان کے شاگرد تھے۔ وہ محمد بن الباقر کے بیٹے ہیں جنہوں نے علم کو چاک کرکے اس کی اصل پالی۔ وہ ایسے ہیں جنمیں ذاتی شرف اور حسب و نسب کا اضافی شرف اور ہاشمی رشتہ داری اور آل محمد کا جزء ہونا سب جمع ہوگیا تھا”۔
آخر میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ انقسام جو اہل تشیع اور اہل سنت میں حضرت امام جعفر الصادق کے بعد پیدا ہوا تھا، وہ آج تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ اہل تشیع کے اصولی اور اَخباری علماء کے درمیان صدیوں سے جاری بحث میں اصولی نقطۂ نظر کو فتح حاصل ہوچکی ہے اور ولایت فقیہ کا منصب وجود میں آچکا ہے جو عملا خلیفہ سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اصولی طور سے ہم آج وہیں پہنچ چکے ہیں جہاں حضرت امام نے ہم کو چھوڑا تھا۔ ذرا سی محنت، بعد نظر اور وسعت قلبی سے ہم آج پھر شیعہ۔ سنی فرقوں کوجوڑ سکتے ہیں بشرطیکہ ہمارے علماء وفقہاء اپنے محدود حلقوں سے باہر نکلنے کی جرأت کر سکیں۔