دنیا کی کوئی تحریک آزادی آج تک ناکام نہیں ہوئی، فلسطین کی بھی نہیں ہوگی
405
m.u.h
17/10/2023
0 0
تحریر: عبید اللہ ناصر
حماس کے حملہ اور اب تک کی سب سے کاری چوٹ لگنے کے بعد اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو غصّہ اور بوکھلاہٹ میں غزہ کو قبرستان بنانے پر آمادہ ہیں۔ حالانکہ دنیا کی کوئی تحریک آزادی آج تک ناکام نہیں ہوئی اور فلسطین کی بھی نہیں ہوگی۔ نیتن یاہو نے اپنی پوری فوجی طاقت غزہ میں جھونک دی ہے۔ اب تک 3 ہزار سے زیادہ فلسطینی (جن میں عورتیں، بوڑھے، بچے سب شامل ہیں) ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں حماس کے لڑاکے کتنے تھے اور عام شہری کتنے تھے اس کی کوئی حتمی گنتی کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایسے ماحول میں امریکی خارجہ سکریٹری بلنکن کا عرب ملکوں کا دورہ اور ’اسرائیل کو اپنی دفاع کا حق ہے‘ کا راگ الاپنا اور فلسطینیوں کے جائز حقوق سے بد دیانتی فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر عرب سربراہوں میں تھوڑی سی بھی حمیت ہوتی تو وہ اس وقت جب امریکہ کی شہ پر ہی فلسطینیوں کا قتل عام ہو رہا ہے، وہ بلنکن کا خیر مقدم کرنے سے انکار کر سکتے تھے۔ انھیں اپنے دورے کا پروگرام ملتوی کرنے کو کہہ سکتے تھے۔ عالمی تنظیمیں غزہ میں انسانی تباہ کاری پر اسرائیل کی مذمت کر رہی ہیں، امریکہ، یوروپی اور عرب ممالک میں لاکھوں عوام سڑکوں پر اتر کر اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں، مگر انکل سام اور اسرائیل کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ روس، چین، ایران، ترکیے وغیرہ کی دھمکیوں کی اصل حقیقت کیا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک کسی اور ملک کے لئے جنگ میں نہیں کود سکتا۔ فلسطینیوں کو اپنی لڑائی خود ہی لڑنی ہوگی، امداد وغیرہ تو کہیں سے بھی مل سکتی ہے۔ لیکن عالمی برادری کو ایک بات ذہن نشیں رکھنی ہوگی کہ انصاف کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ فلسطین ایک رستا ہوا پھوڑا ہے۔ اس سے اس وقت تک خون ٹپکتا رہے گا جب تک فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق نہیں مل جاتے۔
فلسطین اسرائیل تنازعہ 1967 سے قبل کی پوزیشن پر پہنچ گیا ہے۔ کل تک ایسا لگتا تھا کہ یہ تنازعہ مردہ ہو چکا ہے فلسطینی ریاست کے لئے جو مزاحمت ایک صدی سے چل رہی تھی، عالمی سیاسی ماحول، طاقت پرستی، عرب حکمرانوں کی مصلحت کوشی اور صیہونی سامراجی سازشوں کی بدولت دم توڑ چکی ہے۔ فرنٹ لائن عرب ملکوں، خاص کر مصر تو مرحوم جمال عبد الناصر کے بعد ہی امریکہ اور اسرائیل کا حلیف بن گیا، پھر بعد میں انور سادات کے قتل کے بعد حسنی مبارک کی قیادت میں اسرائیل کا پٹھو ہو گیا تھا جو پوری بے شرمی کے ساتھ موجودہ صدر السیسی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ درمیان میں محمد مرسی مصر کے پہلے جمہوری ترقه سے منتخب صدر بنے اور انہوں نے اسرائیل کے تئیں پالیسی کچھ سخت کی۔ دوسرے اندرونی طور سے بھی کچھ ایسے اقدام کئے جو مصر کے عیسائیوں اور دیگر مذہبی گروپوں کے حق میں نہیں تھے جس سے مصر میں شورش شروع ہوئی۔ مرسی کی اسرائیل پالیسی سے امریکہ اور اسرائیل ہی نہیں خود سعودی عرب وغیرہ بھی پریشان تھے کیونکہ وہ ایران کے طرز کی اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے ان کے خلاف سازشیں ہوئیں اور عربوں کی روایت کے مطابق انھیں کے وزیر دفاع اور فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل السیسی نے ان کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور اب وہی مصر کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ ظاہر ہے اس تختہ پلٹ میں موساد اور سی آئی اے کا ہاتھ تھا تو السیسی کو اسرائیل اور امریکہ نواز ہونا ہی تھا۔
دوسرا سرحدی ملک اردن ہے۔ اس کے موجودہ بادشاہ عبداللہ دوم بھی اسی اسرائیل نواز پالیسی پر عمل پیرا ہیں جو ان کے مرحوم والد شاہ حسین نے شروع کی تھی۔ 1967 کی جنگ واقعی بہت بہادری سے لڑنے کے بعد وہ اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہو گئے تھے۔ اردن میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کا پاکستانی فوج کے بریگیڈیر ضیاء الحق، جو بعد میں پاکستان کا صدر بنا تھا، اس کی قیادت میں ایک طرح سے قتل عام کرا کے اپنے ملک سے نکال باہر کیا تھا۔ شام بیشک اپنے سابقہ موقف پر آج تک اٹل ہے لیکن خانہ جنگی نے اسے قبرستان بنا دیا ہے۔ عراق اور لیبیا اگر چہ فرنٹ لائن ملک نہیں تھے لیکن فلسطینی مزاہمت کے نہ صرف پر زور حامی بلکہ زبردست مددگار تھے۔ ان کا جو انجام ہوا وہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ غرض یہ کہ ایران کو چھوڑ کر کوئی ملک فلسطینیوں کے ساتھ پوری طاقت سے بنا کسی ڈر خوف کے کھڑا نہیں رہا۔
ادھر امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ابراہیمی مذاہب یعنی اسلام، عیسائی اور یہودیوں کے مابین خوشگوار برادرانہ تعلقات کے قیام کے لئے ابراہیمی سمجھوتہ کا شگوفہ چھوڑا جو بظاہر ایک خوش آئند قدم تھا اور شاید ہے بھی، لیکن یہ فلسطینیوں کے حق میں زہر ہلاہل ثابت ہو رہا تھا، کیونکہ اس سمجھوتہ یا گفتگو کے تحت سبھی عرب ملکوں نے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر لیا بلکہ ایک طرح سے فلسطین کے مسئلہ کی طرف سے چشم پوشی بھی کرنے لگے تھے۔ یہاں تک کہ اسرائیل کو سعودی عرب تسلیم کرنے کے لئے ذہنی طور سے تیار ہو گیا تھا۔ حالانکہ سبھی عرب یا مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ دنیا کے سبھی ملک اس بات پر متفق ہیں کہ فلسطینیوں کو ان کا گھر، زمین، ملک واپس ملنا چاہئے۔ سب ایک آزاد خود مختار فلسطین کے قیام کے حامی ہیں۔ 1995 میں فلسطین تنظیم آزادی کے سربراہ مرحوم یاسر عرفات اور اسرائیل کے وزیر اعظم کے درمیان سویڈن کی راجدھانی اوسلو میں جو معاہدہ ہوا تھا اس میں فلسطین کے قیام پر اسرائیل رضامند ہو گیا تھا، لیکن یہ اس کی اسٹریٹجک حکمت عملی تھی۔ اس معاہدہ پر اس نے ایمانداری سے عمل نہیں کیا، جو فلسطین اتھارٹی کے نام سے بنی بھی لیکن اس کی حیثیت میونسپلٹی سے زیادہ کی نہیں تھی۔
دوسری جانب جس زمین پر فلسطین کو قائم ہونا تھا اس پر اسرائیل نے یہودی بستیوں کی تعمیر شروع کر دی۔ اس امن معاہدہ اور اسرائیل کی وعدہ خلافی سے فلسطین میں یاسر عرفات کی پوزیشن بہت کمزور ہو گئی۔ ان کی صحت بھی جواب دینے لگی لیکن اس سے حماس جیسی انتہا پسند جنگجو فلسطینی تنظیم کے قیام کی راہ ہموار ہو گئی جس کا صاف اعلان ہے کہ وہ اسرائیل کے وجود کو ہی نہیں تسلیم کرتی اور پورا فلسطینی علاقہ خالی کرانے کی مہم جاری رہے گی۔ ظاہر ہے حماس کا یہ موقف ایران کے علاوہ دنیا کے کسی ملک کو تسلیم نہیں ہے۔ خود فلسطینی عوام بھی منقسم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین اتھارٹی دو حصّوں میں تقسیم ہو گئی۔ غزہ پر حماس کا قبضہ ہے تو مغربی کنارہ پر الفتح کا جس کے منتخب صدر محمود عباس ہیں جو عالمی برادری میں فلسطین کے صدر تسلیم کئے جاتے ہیں۔
اسرائیل پر حماس کے حالیہ حملے سے دو باتیں ہوئیں۔ اول تو اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم ٹوٹ گیا۔ اسرائیل کو اپنے قیام کے بعد سے اب تک کبھی ایسی ہزیمت اور اتنا اتلاف جان نہیں اٹھانا پڑا تھا۔ یہ تو تھا اس کا جنگی پہلو۔ سیاسی پہلو یہ ہے کہ ایک بار پھر فلسطین کا مسئلہ اسی شدت سے سامنے آ گیا جیسا وہ 1967 کے آس پاس تھا۔ یہی نہیں، عالمی منظر نامہ بھی سوویت یونین کے دور کے سرد جنگ کے ماحول جیسا ہو گیا ہے۔ دنیا پھر دو حصّوں میں منقسم ہو گئی ہے۔ امریکہ اس مسئلہ کو لے کر ایک بار پھر پوری بے شرمی، بے ایمانی اور جانبداری کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ اب تو وہ دو مملکتی حل کی بات بھی نہیں کر رہا ہے۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی، کناڈا جیسے مغربی ملک کھل کر اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ جبکہ روس، چین، ایران اور عرب ملک پھر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہندستان کی موجودہ حکومت تذبذب کا شکار ہے۔ حماس کے حملے کے فوری بعد وزیر اعظم مودی نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل سے ہمدردی ظاہر کی جو فطری بات ہو سکتی ہے۔ لیکن ہندستان نے ہمیشہ فلسطین کاز کی بھی حمایت کی اور اہم طور سے ہندستان کا سرکاری بیان دونوں کے ذکر پر ہی مشتمل ہوتا رہا ہے۔ بعد میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے دیرینہ لائن ہی اختیار کی مگر وزیر اعظم نے اندرونی سیاسی مصلحت کے پیش نظر صرف اسرائیل کی حمایت پر ہی اکتفا کیا تھا، جس کے بعد ہندوستانی چینلوں نے اسرائیل کے حق میں الفاظ کی بمباری شروع کر دی۔
عرب ملکوں کی حالانکہ یہ حمایت فی الحال زبانی جمع خرچ اور مالی امداد تک ہی محدود ہے۔ کوئی اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے، جبکہ وہ کھلے عام عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ غزہ میں آج وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ سینکڑوں بار یہ سب کچھ کر چکا ہے۔ اس کی کھلی پالیسی فلسطینیوں کی نسلی تطہیر ہے اور حقوق انسانی کے نام نہاد چمپئن ملک ’اسرائیل کو اپنی دفاع کا حق ہے‘ کا راگ الاپ کر اسے نسل کشی کی چھوٹ دیے ہوئے ہیں۔ چین، روس اور ایران زیادہ شدت سے فلسطین کی حمایت تو کر رہے ہیں مگر کیا یہ حمایت کسی عملی شکل میں سامنے آئے گی؟ کیا اسرائیل اس حمایت کی کوئی گرمی محسوس کر کے اپنا جارحانہ رویہ تبدیل کرے گا؟ دھیان رہے کہ 1983 میں مصر اور شام کے ہاتھوں بری طرح پٹنے کے بعد ہی اس نے مصالحتی رخ اختیار کر کے پہلے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا، پھر اوسلو معاہدہ کیا تھا۔ کیا وہ فلسطینیوں کے جائز حقوق بحال کرے گا؟ جواب ہے بہت بڑا ’نہیں‘۔ تا وقت اسے کوئی بڑی فوجی ہزیمت پھر نہ اٹھانی پڑے، جس کا فی الحال امکان نہیں دکھائی دیتا۔ تو پھر یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ فلسطینیوں کی چار نسلیں خانماں بربادی گزار چکی ہیں، کیا وہ یونہی در بدر خانماں برباد گھومتے رہیں گے؟ کیا ان کی مزاحمت کمزور ہو کر ختم ہو جائے گی؟ حالات تو تاریک ہی دکھائی دے رہے ہیں لیکن اگر عالمی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو مزاحمت کی کامیابی کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ قربانیاں بھلے ہی کتنی بڑی ہوں اور وقت چاہے جتنا لگ جائے، فلسطینیوں کی کوئی نہ کوئی نسل اپنا حق حاصل کر کے ہی رہے گی۔