کربلا کی خاک پر جہاں ہر قدم شہادت کا پیام تھا، وہاں ایک ایسا جوان بھی کھڑا تھا، جو صرف امامؑ کا فرزند نہیں، بلکہ رسولِ اکرمؐ کی زندہ تصویر تھا۔ وہ جب خیمے سے نکلتا، تو گویا مدینہ کا وہ زمانہ لوٹ آتا، جب نبیؐ مسجدِ نبوی میں جلوہ افروز ہوتے۔ چہرہ، گفتار، اندازِ نشست و برخاست—سب کچھ ایسا کہ اہلِ بیتؑ جب نبی کریمؐ کی زیارت کے مشتاق ہوتے، تو حضرت علی اکبرؑ کو دیکھ لیتے۔
امام حسین علیہ السلام نے جب ان سے میدانِ جنگ کا الوداعی رُخ کیا تو آسمان کی طرف نگاہ بلند کر کے فرمایا:
یعنی: “خدایا! تو گواہ رہ، وہ جوان ان کے مقابل جا رہا ہے جو تیرے نبیؐ کے چہرے، اخلاق اور گفتار میں سب سے زیادہ مشابہ ہے۔ ہم جب بھی تیرے نبی کی زیارت کے مشتاق ہوتے، علی اکبرؑ کو دیکھ لیتے تھے۔”
ایسا فقرہ، جس میں باپ کا فخر بھی ہے، درد بھی، اور تاریخ کے لیے گواہی بھی۔
پہلا ہاشمی شہید
کربلا کی جنگ کا ایک عجیب انداز تھا۔ پہلے اصحاب نے جانیں قربان کیں، اور جب کوئی غیر ہاشمی باقی نہ رہا، تو امامؑ نے اپنی نسل کو پیش کرنا شروع کیا۔
سب سے پہلا ہاشمی، جو تنہا میدان میں نکلا، وہ علی اکبرؑ تھے۔
«السلام علیک یا أول قتیل من نسل خیر سلیل من سلالة ابراهیم الخلیل»
(زیارت حضرت علی اکبرؑ؛ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان)
شہید بھی ایسا، جس کا ہر وار اعلان تھا، اور ہر زخم گواہی۔
باپ سے اجازت: ایک باپ، ایک بیٹا اور الوداع
جب علی اکبرؑ اجازت لینے آئے تو امام حسینؑ نے ایک عجیب نظر سے دیکھا—یہ وہ نظر تھی جسے عربی میں “نَظَرَ اِلَیْهِ نَظَرَ آیِس” کہا گیا: جیسے کوئی اُمید چھوڑ رہا ہو۔
(سید ابن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ص 67)
یہ صرف رخصت کا لمحہ نہیں تھا، یہ تاریخ کا سب سے کربناک منظر تھا—باپ، جو جانتا ہے کہ وہ جسے اجازت دے رہا ہے، وہ اب واپس نہیں آئے گا۔
پھر امامؑ نے سورۂ آلِ عمران کی وہ آیت تلاوت کی جس میں خدا نے حضرت آدم، نوح، آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے:
گویا امامؑ اپنے بیٹے کو صرف جنگ کے لیے نہیں، ایک نبوی وراثت کے لیے بھیج رہے تھے۔
رجز، پیاس، اور واپسی
میدان میں علی اکبرؑ نے تلوار سنبھالی اور دشمن پر جھپٹے۔ مگر صرف تلوار نہیں، زبان بھی چل رہی تھی۔ انہوں نے رجز پڑھا، اور یزیدی لشکر پر حجت تمام کی:
«أنا علي بن الحسين بن علي
نحن وبيت الله أولى بالنبي
من شِبثٍ وشِمرٍ ذاك الدنيّ
أضربكم بالسيف حتى ينثني
ضرب غلامٍ هاشميٍّ علوي
ولا أزال اليوم أحمي عن أبي
تالله لا يحكم فينا ابن الدعيّ»
(ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص 109؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص 106)
ترجمہ: “میں علی ہوں، حسینؑ کا بیٹا، علیؑ کا پوتا—
ہم نبیؐ کے سب سے زیادہ قریب ہیں شبث و شمر جیسے پست لوگوں سے—
میں تلوار سے تمہیں کاٹتا رہوں گا،
یہ وار ہے ایک ہاشمی علوی نوجوان کا،
آج میں اپنے باپ کا دفاع کرتا ہوں،
اور خدا کی قسم! ابن زیاد جیسے ناپاک کا ہم پر کوئی حکم نہیں!”
کچھ دیر بعد وہ جوان، جس کے جسم پر لوہے کی زرہ تھی، گرمی اور پیاس سے نڈھال ہو کر باپ کے خیمے کی طرف لوٹے اور عرض کیا:
“یا أبه! العطش قد قتلنی، وثقل الحدید أجهدنی، فهل إلى شربه من الماء سبیل؟”
(شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص 106)
یعنی: “بابا جان! پیاس مجھے مار رہی ہے، اور زرہ کی گرانی برداشت نہیں ہو رہی۔ کیا ایک گھونٹ پانی ممکن ہے تاکہ دشمن کا مقابلہ جاری رکھ سکوں؟”
امامؑ نے اشکوں کے ساتھ کہا:
“بیٹا! تجھ سے وعدہ تو کر نہیں سکتا، مگر یہ انگوٹھی لے لو، شاید زبان تر ہو جائے۔ جلد ہی اپنے نانا کے ہاتھ سے سیراب ہو گا!”
(علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص 43)
کربلا میں صرف تلواریں نہیں ٹوٹیں، دل بھی ٹوٹے۔
اور اگر کسی ایک منظر میں ساری کربلا سمٹتی ہے تو وہ یہی لمحہ ہے:
جب ایک باپ نبیؐ کا ہم شکل بیٹا میدان میں بھیجتا ہے،
اور خیمے میں بیٹھ کر ریت پر اس کے قدموں کے نشانات کو الوداع کہتا ہے۔
یہ کوئی عام جوان نہ تھا،
یہ “سلیمانِ کربلا” تھا،
جس کے لب پیاس سے خشک تھے،
اور زبان پر ناناؐ کا لہجہ۔