اسلام میں سماجی رابطوں کو غیرمعمولی حیثیت حاصل ہے چنانچہ جذبہ انس و انسانی تعلقات هی روی زمین پر انسانی بقا کا ضامن ہیں ۔ انسانی کے باہمی رابطوں کے بارے میں قرآن کریم کی بہت سی آیات اسکے مفہوم، مقام اور اہمیت کو بیان کرتی ہیں تاہم اس سلسلے میں اولیائے خدا، علما او رعرفا کے طریقہ زندگی نے بھی تاریخ بشری پر اپنی امٹ چھاپ چھوڑی ہے.
19ویں صدی کے بے مثال قائد و رہنما حضرت امام خمینی (رہ) ان معدودہ چند کثیرالجہات صاحبان بصیرت میں سےایک هیں جن کے اہم کاوشوں میں سے ایک عظیم کوشش یہ بھی تھا کہ روحانی اقدارکو عوامی تہذیب میں موثرترین ڈھنگ سے متعارف کرایا جائے، چنانچہ یہ تعلیمات آج بھی انکے انقلابی ادب کا اہم حصہ شمار ہوتی ہیں۔
امام خمینی(رح) خدمت خلق کو عظیم عبادت سمجھتے تھے چنانچہ انہوں نے کئی موقعوں پر فرمایا کہ میں نہیں سمجھتا کہ انسانوں کی بالخصوص محروموں کی خدمت سے زیادہ بڑی کوئی عبادت ہے۔ آپ نے ہمیشہ غربا و مساکین کو نعمتوں کا ضامن قرار دیا اور فرمایا کہ ضرورت مندوں اور غریبوں کی خدمت کرو یہ ہمارے محسن ہیں۔ بانی انقلاب اسلامی کا معاشرے کے محروم اور مظلوم طبقے کے تئیں گہری ہمدردی اس درجہ تھی کہ وہ نہ صرف ایرانیوں بلکہ پوری دنیا کے محروموں اور مظلوموں کے لیے بھی ایک عظیم حامی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
امام خمینی (رہ) نے ہمیشہ ضرورت مندوں کی طرف خاص توجہ دینے پر تاکید کی۔ متکبروں کے خلاف مظلوموں کی صف بندی، دبےکچلوں کےلئے عدل و انصاف کی تک و دو اور محروموں کے تئیں دلسوزی امام خمینی کے اکثر اقوال و کارناموں کا نقطہ مرکزی ہے. آپ نے اپنی زبان کے ساتھ ساتھ اپنے قلم سے بھی محروموں کی خدمت کی اور ظلم و ستم اور عالمی سامراج کے خلاف جنگ کو اپنا نصب العین قرار دیا . ان کی ایک امتیازی خصوصیت جو قرآنی اور اسلامی تعلیمات پر مشتمل تھی، ان کا سامراج مخالف موقف اور دنیا بھر کے مظلوموں کی فیصلہ کن حمایت ہے۔
امام خمینی حکمرانی او رمملکت داری کو انصاف کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے اور ان کا یہ ماننا تھا کہ متکبروں اور لٹیروں کو سبق سکھائے بغیر انصاف کا حصول ممکن نہیں اور اسی وجہ سے وہ ہمیشہ خدمت خلق میں سرگرم اور سماج کے ظالوں کے خلاف برسر پیکار رہتےتھے۔
امام (رہ) کے مطابق نظام کا کنٹرول معاشرے کے صالح طبقات کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ چنانچہ اسلامی انقلاب کے بنیادی اور ابتدائی عناصر میں سے ایک جس کا بانی انقلاب اسلامی نے ہمیشہ اپنے بیانات میں ذکر کیا ہے وہ خدمت خلق کا جذبہ اورمظلوموں کی حمایت ہے اور شاید اسی قرآنی شعار کو عملی جامہ پہنانے کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ ایران کو اسلامی انقلاب کے بعد بہت سارے سیاسی دباؤ اور اقتصادی محاصروں اور بائکاٹ کا سامنا هے۔
امام (رہ) کے مطابق ایرانی اسلامی انقلاب کی فتح معاشرے کے نچلے طبقے یعنی مظلوموں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ امام خمینی نے اپنی تقریر میں معاشرے کے نچلے طبقوں اور مظلوموں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تم نے اس انقلاب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اس انقلاب کو پورے ملک میں جن گروہوں نے پہنچایا وہ محروم مرد اور عورتیں اور وہ لوگ تھے جو مظلوم تھے اور محلوں والے ان پر ظلم کر رہے تھے۔ آج یہ ثابت ہو گیا کہ یہ محلوں والے کمزور اور بوسیدہ لوگ ہیں۔
امام راحل کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اگر معاشرے کے محروم طبقات انقلاب سے مایوس ہو گئے تو بے رحم لوگوں کے لیے میدان کھل جائے گا اور اس کے نتیجے میں عوام کی خدمت نہیں کی جا سکے گی تاہم لوگ مزید معاشی مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔ امام (رہ) نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں فرمایا تھا کہ ہمیں مسلمانوں کے مسائل و مشکلات سے نمٹنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور بھوکوں اور محروموں کی حمایت کرنی چاہیے۔ خدا نہ کرے ایسا دن آئے جب ہماری پالیسی محروموں سے منہ موڑ کر سرمایہ داروں اور امیروں کو سہارا دینے لگےکیونکہ یہ مسئلہ انبیاء اور ائمہ معصومین کے طریقے سے مطابقت نہیں رکھتا۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کو ایک نصیحت کرتے ہوئے لکھا: میرے بیٹے!... تم اپنے آپ کو کسی بھی قیمت پر معاشرے کی خدمت سے باز ر نہ کھنا ؛ یہ جاہل لوگوں کی صفت ہے جو هر چیز دکانداروں کی نظروں سے دیکھتے ہیں... میرے بیٹے! انسانی ذمہ داری گریز نہ کرنا، عوام کی خدمت سچائی کی خدمت ہے ۔
قابل ذکر هے کہ امام خمینی کے صالح جانشین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای (مد ظلہ العالی) اپنے لیکچر میں اس موضوع پر ایک حدیث کے مفہوم کے بارے میں فرماتے ہیں: مومن ایک دوسرے کے خادم ہیں، ایک بندہ دوسرے بندے کا خدمت گزار ہے۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں حیران ہوں سب ایک دوسرے کے خادم کیسے هو سکتےہیں، کیا سب ایک دوسرے کےنوکر ہیں ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے، یعنی وہ ایک دوسرے کے گھر جا کر خدمت کریں!؟
حضور اکرم (ص) نے فرمایا: اسکا مطلب ایک دوسرے کے لیے مفید هونا ہے۔ ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانا؛ اور مومنوں کا فائدہ خدمت کرنے میں ہے ۔ خواہ ہم عام لوگوں کی طرح انکے درمیان ہوں یا اپنی سماجی حیثیت کے مطابق کوئی عہدہ رکھتے هوں، اگر اس کا کوئی فائدہ ہے تو وہ خادم ہے اور لوگوں پر اس سے زیادہ حق نہیں ہے ۔
ظاہرہے کہ ہمیں لوگوں کی اسی طرح خدمت کرنی چاہیے جس طرح ہمارے ائمہ اور اولیاء اللہ کرتے تھے۔ اور اسکے پیچھے خوشنودی خداکے سوا کوئی مقصد نہیں ہونا چاہئے چنانچہ خدا سے محبت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ خدا کے بندوں سے محبت کی جائے اور لوگوں کی خدمت کی جائے، خاص طور پر مظلوموں کی خدمت کی جائے۔
مروی ہےامام سجاد علیہ السلام چھپ کر حاجیوں کے قافلوں میں رہتے تھے اور لوگوں کی خدمت کرتےتھے۔چنانچہ امام خمینی کے لئے ملتا ہے کہ بعض ساتھیوں کے ساتھ زیارت امام رضا (ع) کے لئے مشہد تشریف لے گئے اور حرم امام رضا میں مختصرا حاضری کے بعد قیام گاہ پر آ کے اپنے ساتھیوں کی ضیافت کا سامان کرنے لگے جس سے انکے جذبہ خدمت خلق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
شاید یہی وجہ تھی کہ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی نے فرمایا:
آپ اسلام کی اور اپنے ملک کی خدمت پر توجہ دیں۔ آپ ان لوگوں کے وکیل ہیں جو سب اسلام اور اپنے وطن کے عاشق هیں ؛ آپ کو اس قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ خدمت کرویں انکی جنھوں نے آپ کو وکیل بنایا۔ اگر آپ میں کوئی انحراف نظر آتا ہے تو گویا آپ نے اپنی نمائندگی سے غداری کی ہے۔ (صحیفہ امام، ج12، ص351)
مجموعی طور سے اسلام کے عالمی نقطہ نظر میں ایک طرف تو بنی نوع انسان کی خدمت کو خدا کے قرب کا پیش خیمہ اور عبادت کی ایک شکل سمجھا جاتا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بعد انسان جیسے جیسے بہتر انسان بنتا جاتا ہے وہ خدا اور خلق خدا سے مزیدمحبت کرنے لگتا ہےکیونکہ با معرفت انسان، مخلوق کی خدمت کو خالق کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ چنانچہ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ مناصب بھی ختم ہوجائنگے اور صاحبان مناصب بھی ، صرفہ ہماری خدمات هی همیں زندہ رکھیں گی حافظوں میں کتابوں میں لائبریریوں میں تحریروں اور تقریروں میں بشرطیکہ هم نے خلوص دل خلق خدا کی خدمت کی هو اور اسکی سب سے بڑی دلیل امام خمینی کی آفاقی اور لازوال مقبولیت یا حالیہ دنوں میں ایرانی صدر جمہوریہ آیت الله رئیسی اور انکے سفر ملکوت تک کے ساتھی ہیں جن کے اخلاص کے سبب نہ صرف انکے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں آج انہیں عقیدت سے یاد کیاجارہا ہے ۔