ہم اور آپ عصر انتظار میں جی رہے ہیں عصر انتظار میں جینے کے دو رخ ہیں ایک یہ کہ جس کے انتظار میں جی رہے ہیں اسکے لئے کیا کر ہے ہیں اگر انتطار کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں تو ہمار ا یہ جینا عصرِ ظہور میں جینے جیسا ہی ہے فرق بس یہ ہے کہ ہمارا امام ہماری نظروں کے سے اوجھل ہے یہ اور بات ہے کہ نہ ہم اسکی نظروں سے اوجھل ہیں نہ ہمارے اعمال اسکی نظروں سے اوجھل ہیں ،عصر انتظار میں جینے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم جی تو رہے ہیں لیکن نہ ہمیں انتطار کے مفہوم کا پتہ ہے اور نہ ہی اسکے تقاضوں کا ایسے میں ہماری زندگی اور ہماری موت دونوں ہی یکساں ہیں اس لئے کہ نہ ہم اپنے عصر کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی یہ عصر جس حجت خدا سے تکوینا جڑا ہے اس کو پہچانتے ہیں ، کیا ہی بہتر ہے کہ انسان عصر انتظار میں ایسے جئیے کہ اسکا شمار عصر غیبت میں رہنے کے باجود میں ان لوگوں میں ہو جنہوں نے وقت کے امام کو درک کیا ہے اور یہ تب ہو سکتا ہے جب ہم انتظار کے صحیح مفہوم ہو سمجھیں اور اسکے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے شاہراہ حیات پر آگے بڑھیں اس لئے کہ انتظار کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے ہم مجاہد کہلائیں گے ورنہ محض عریضے لکھ کر مجاوری ہی کر سکتے ہیں زندگی میں کوئی مجاہدت نظر نہیں آئے گی ، اگر انتظار کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں تو عریضے لکھنے کا انداز بھی مجاہدانہ ہوگا ورنہ یہ بھی ایک رسم ہوگی اور ایک مجاورانہ طرز عمل جس کے مقصد سے ہم ناواقف ہیں اور محض اس لئے انجام دے رہے ہیں کہ ایسا ہوتا چلا آیا ہے ، چاہے عریضوں کا لکھا جانا ہو یا نیمہ شعبان میں چراغانی ہمارے عمل کو جو چیز وزنی بناتی ہے وہ کیفیت انتظار ہے یوں تو روایات میں انتظار کی جو فضیلت ہے وہ اپنی جگہ ہے ہی لیکن اس بات میں شک نہیں کہ انتظار کا مفہوم کافی حد تک ہمارے عمل کی نوعیت سے جڑا ہے اور ہم اس وقت انتظار کے معنی اور اسکی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں جب یہ جانیں کہ ہم اپنے وقت کے امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کاانتظار کیوں کر رہے ہیں ؟ اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم دیکھیں آپکی غیبت کی بنیاد پر وہ کونسی کمی ہمارے معاشرے میں ہے کونسانقص لازم آتا ہے جس کی بھرپائی ظہور کے علاوہ ممکن نہیں ہے
جب تک ہمارے اندر اضطرار کی پیاس نہیں ہوگی تب تک ہم آگے نہیں بڑھیں گے اسی لئے جہاں ہمیں حقیقت انتظار کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہیں ضرورت انتظار پر غور کرنے کی ضرورت ہے اسی کے ساتھ انتظار کے مختلف پہلووں کو سمجھنے کی ضرورت ہے انتظار کی آداب و آثار کو جاننے کی ضرورت ہے ۔
انتظار اور اسکی حقیقت :
اگر الفاظ کے صحیح معنی کا پتہ چل جائے تو انسان کے لئے کسی بھی مذہب کی شناخت اسکے اہداف کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے چنانچہ جب ہم انتظار کے معنی دیکھتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ انتظار مختلف امور میں ٹہر کر غور کرنے ، چشم براہ ہونے اور مستقبل کی امید رکھنے کے ہیں اس معنی کے پیش نظر دو ممکنہ چیزیں سامنے آتی ہیں ایک تو یہ ہے کہ انتطار ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان غور و فکر کرتا ہے کسی معاملہ میں ٹہرتا ہے اور یہ کیفیت اسے روز مرہ کے کاموں سے روک دیتی ہے وہ اس لحاظ سے کہ کسی کا منتظر ہے ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھ جاتا ہے اور مستقبل کو آنے والے کے حوالے کر دیتا ہے کہ وہ آئے گا تو دیکھے گا کیا کرنا ہے فی الحال ہمارا کام تو انتطار کر نا ہے ، ایک دوسرا تصور انتظار یہ ہے کہ انسان کا انتظار ا س کے وجود میں حرکت کا سبب بنتا ہے انسان جسکا انتظار کر رہا ہے اسکے لئے ماحول کو فراہم کرتا ہے اسکی آمد کے لئے فضا کو سازگار بناتا ہے ، اسی لئے اصطلاح میں انتظار کو ایک ایسے مفہوم سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں بشریت کے بہتر مستقبل کی فکر کرنا ایسے مستقبل کی راہ تکنا جس میں ظلم و انصافی نہ ہو اور پوری دنیا میں عدالت قائم ہو جیسی چیزیں بنیادی حیثت کی حامل ہیں چنانچہ انتظار ایک ایسے منجی بشریت کی آمد کا انتظار ہے جو دنیا میں عدل و انصاف قائم کرے گا اور ظلم و ستم کی حکومت کا خاتمہ کر کے عدل و انصاف کی حکومت قائم کرے گا جب ہم روایات و احادیث پر نظر ڈالتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ انتطار ہاتھ پر ہاتھ بیٹھے رہنا نہیں ہے بلکہ انتظار ایک عمل ہے بلکہ اعمال میں سب سے افضل عمل ہے ، ایسا عمل جو عبادت سے عبارت ہے ایسا عمل جو عبادتوں میں بھی سب سےافض ہے ۔
جب انتظار عبادتوں میں سب سے افضل عبادت ہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس عبادت کو بہتر سے بہتر طور پر انجام دیا جائے اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک منتظر کی خصوصیت کیا ہے ؟ جب ہم روایات میں ایک منتظر کی خصوصیت کو دیکھتے ہیں تو مفہوم روایت یوں ملتا ہے :
جسکے لئے اصحاب قائم میں ہونا خوشی کی بات ہے تو اسے منتظر ہونا چاہیے ایسا منتظر جو جسکا عمل ورع کے ساتھ ہواور محاسن اخلاق پر عمل پیرا ں ہو اسکا مطلب یہ ہے جو تقوی اور ورع کے ساتھ جی رہا ہے وہی حقیقی منتظر ہے ، جس طرح ماہ مبارک رمضان میں روزہ سب رکھتے ہیں لیکن کیفیت رورزہ الگ الگ ہوتی ہے کسی کا روزہ بھوک اور پیاس سے زیادہ نہیں ہوتا کسی کا روزہ خاص ہوتا ہے کسی کا خاص الخاص ہوتا ہے کوئی ایسا روزہ رکھتا ہے جوکھانے پینے کے ساتھ گناہوں سے بھی امساک کرتا ہے اسکے ہاتھ پیر آنکھ کان ناک سبھی روزہ رکھتے ہیں سارے اعضاء و جوارح سے روزہ رکھتا ہے کوئی اعضا وجوارح سے بڑھ کر اس منزل پر پہنچتا ہے کہ اسکا دل بھی روزہ رکھتا ہے یعنی دل میں بھی کوئی ایسا خیال نہیں آتا جو اسکے رب سے جڑا نہ ہو اسی طرح انتظار ہے کوئی انتظار میں صرف بیٹھ کر اپنے مولا کا انتظار کرتا کوئی محض ہر جمعہ دعاءے ندبہ پڑھ کر انتظار کرتا ہے کوئی ادعیہ ماثور پڑھ کر انتظار کرتا ہے تو کوئی انکے سب کے ساتھ اپنے انتظار کو اپنے لئے میدان کارزار بنا لیتا ہے اور ہر اس محاذ پر دشمن سے نبرد آزما نظر آتا ہے جہاں لوگ دین کو نقصان پہنچا رہے ہیں اسکے انتظار میں اور عام انتطار میں بہت فرق ہے کوئی اس سے بھی بڑھ جاتا ہے اب اسکا انتظار اسکے دل کا تابع نہیں ہوتا بلکہ اپنے دل کو اپنے امام کی اطاعت کا تابع بنا دیتا ہے اور کچھ امام وقت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے ہٹ کر کچھ سوچتا ہی نہیں ہے وہ خود کو بھی بدلتا ہے اور سماج اور معاشرے میں بھی تبدیلی کا خواہاں رہتا ہے وہ نہ خود سے راضی رہتا ہے نہ سماج او ر معاشرے سے راضی رہتا اب یہ سایک عقلی قاعدہ ہے کہ جو بھی موجودہ حالات سے راضی نہیں ہے اور اسے قبول نہیں کرتا وہ حالات کی تبدیلی کا انتظار کر رہا ہے اور خود کو اس کے لئے تیار کر رہا ہے من انتظر امرا تھیا لہ ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے انتظار کا یہ مفہوم نکالا ہے کہ ہے اسکا مطلب خاموشی سے بیٹھ جانا ہے ، گوشہ نشینی اختیار کرنا ہے ، واضح ہے کہ انہوں نے انتظار کا غلط مفہوم اخذ کیا ہے اس لئے کہ انہوں نے حقیقت انتظار کو سمجھا ہی نہیں ہے اور تاریکی میں ایک تیر چلا دیا ہے جس کا کوئی مقصد و ہدف نہیں حتی یہاں تک بڑھ گئے کہ انہوں نے انتظار کو مذہبِ اعتراض تک کہہ دیا
البتہ انتظار اعتراض ہے لیکن اسکا صحیح رخ دیکھنے کی ضرورت ہے ، انتظار اعتراض ہے سماج کی برائیوں پر ، انتظار اعتراض ہے سماج میں پائی جانے والی نا انصافیوں پر ، انتطار اعتراض ہے ظلم کے خلاف ، اس لئے کہ انتظار موجودہ حالات کو بدلنے کی کوشش ہے یہی وہ اعتراض ہے جو سقیفہ سامنے علی ع نے کیا اور یہ انتظار ایک اعتراض کی صورت رہے گا ، عدل و انصاف کے قائم ہونے تک ،حریت و آزادی کے حصول تک ، انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں کے نکھرنے تک ، حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انسانوں کو سونے اور چاندی کی کانوں سے تعبیر کیا ہے
ہم جانتے ہیں کہ اگر کان سے استفادہ کرنا ہے اگر کسی معدن سے فائدہ اٹھانا ہے تو ضروری ہے کہ کان کنی کےمراحل پر نظر ڈالی جائے کان کنی کا پہلا مرحلہ کشف یعنی پہلی منزل یہ ہے کہ ہم ایسے مقام پر پہنچے جہاں واقعا ایک کان موجود ہو واقعا سونا اور چاندی ہو پتہ چلا ہم ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سونا چاندی تو کیا کوئلہ بھی ملنا مشکل ہے ، تو پہلی منزل کان کو کشف کرنا اور ڈھونڈ نکالنا ہے دوسری منزل اس میں سے خزانے کو نکالنا ہے جسے استخراج کہتے ہیں تیسری منزل اسے نکالنے کے بعد مختلف شکلوں میں ڈھالنا ہے مثلا اگر لوہے کی کان ہے تو خالص لوہے کو نکال ہے اسے مختلف قالبوں میں ڈھالنا ہے ، اگر سونا چاندی ہے تو اب اسے مختلف ہاروں میں زینتی اشیاء میں ڈھالنا ہے تاکہ دیدہ زیب نظر آئے اسکے بعد چوتھامرحلہ یہ ہے کان اور معدن کی سمت اور جہت کا تعین کیا جائے کہ یہ جو کچھ ہے اور جو کچھ ہمیں ملا ہے اسے کس راہ میں صرف کرنا ہے کس کے لئے یہ سب ہے مقصد کیا ہے ؟ کیا مقصد انسان ہے کیا مقصد یہی دنیا ہے یا پھر مقصد حیات اخروی ہے اب انسان کو سوچنا ہے کہ حیوانی راہوں میں اسے صرف کرنا ہے یا انسانی راستہ میں جتنی بھی نعمتیں انسان کو ملی ہے انکا بھی یہی حال ہے انسان انہیں کہاں خرچ کر رہا ہے یہ سوال ہر جگہ ہے کیا انسان ملنے والی نعمتوں کو حیوانی راہوں میں خرچ کر رہا ہے ؟ یا الہی راستوں میں یہاں پر انتظار کی کیفیت سامنے آتی ہے ، ایک واقعی منتظر وہ ہے جو دنیا کی تمام تر سہولتوں کو تیار کرتا ہے کہ اپنے آقا و سلطان کے لئے اور انہیں کا انتظار کرتا ہے انہیں کے بارے میں سوچتا ہے
یہ وہ انتظار کی کیفیت ہے جسے ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام نے بیان کیا ہے :
تم میں سے ہر ایک ہمارے قائم کے خروج کے لئےآمادہ رہے چاہے وہ ایک تیر کو مہیہ کرنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو چونکہ جب خدا یہ دیکھے گا کہ انسان نے مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی نصرت کی نیت سے اسلحہ مہیہ کیا ہے تو امید ہے کہ خدا اسکی عمر کو طولانی کر دے کہ وہ ظہور کو درک کر لے اور امام مہدی علیہ السلام کے یاور و مددگاروں میں قرار پائے ۔
یہ انتظار کی وہ کیفیت ہے جو مطلوب ہے کہ اگر کوئی ایک تیر کا انتظام بھی کرتا ہے تو گویا وہ خود کو تیار کر رہا ہے ایک قیام کے لئے اور کیوں نہ ہو امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا ایک لقب قائم ہے اور جب یہ لفظ آئے تو احتراما اٹھ کھڑا ہونا ضروری ہے اس قیام کی اجتماعی بھی ہمیں انتظار کے اس مفہوم کی طرف متوجہ کر رہی ہے جہاں انتظار محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ قیام ہمیں بتا رہا ہے کہ آج ہمارا ہادی و رہبر ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہم اسکا نام آتے ہی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو کیونکر ممکن ہے کہ وہ ہمارے سامنے ہو اور ہم بیٹھے رہیں چنانچہ یہ عمل بھی قیام و جہاد کی ایک علامت ہے بعض لوگوں نے اس انتظار سے بہت غلط مفہوم اخذ کیا ہے کہ ہم سے کچھ مطلب واسطہ نہیں ہے سب کچھ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو کرنا ہے ہمیں تو بس انکے آنے کی دعاء کرنا ہے جبکہ ائمہ طاہرین علیھم السلام کی تعلیمات کچھ اور ہی ہیں چنانچہ راوی کہتا ہے میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے کہا مولا لوگ کہتے ہیں جب مہدی ع کا قیام ہوگا تو سارے کام خودبخود ہو جائیں گے اور ایک حجامت کے برابر بھی خون نہیں نکلے گا آپ نے فرمایا: ہرگز ایسا نہیں ہے خدا کی قسم اگر ایسا ہی ہوتا کہ سارے کام خود بخود انجام پاتے تو یہ کام تو اس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے ہونا چاہیے تھا جب آپ کے داندان مبارک شہید ہو گئے تھے اور چہرہ پر زخم لگا تھا ، ہرگز ایسا نہیں ہے کہ کام اپنے آپ بن جائے ۔ خدا کی قسم اس وقت تک کام نہیں بنے گا جب تک ہم اور تم خون پسینے میں غرق نہ ہو جاءیں اس مقام پر امام علیہ السلام نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا ۔
اس حدیث سے واضح ہے کہ انتظار کی کیفت میں عمل پوشیدہ ہے اور کچھ بھی بیٹھے رہنے سے حاصل نہیں ہوگا جب تک آگے نہ بڑھا جائے اسی لئے انتظار محبوب ترین عمل ہے کہ اس میں حرکت ہے ایک مقصدیت ہے منزل کی طرف بڑھنے کی لگن ہے یا محض بیٹھ کر دعائیں پڑھ لینے کو محبوب ترین عمل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ؟
مفہوم انتطار کی غلط تشریح ہے اگر کوئی یہ کہے کہ ہمیں خامو ش بیٹھ کر بس دعاء کرنا ہے اور کچھ نہیں ہے ، ہرگز یہ معقول نہیں ہے ایک سامنے کی مثال سے واضح ہے ، فرض کریں ہمارے یہاں الیکشن چل رہے ہیں ، فسطائی طاقتوں سے قوم و ملک کے ساتھ ہمیں بھی بھی خطرہ ہے جو کچھ گزشتہ چند برسوں میں ہوا وہ ہم نے دیکھ لیا اب ہم اگر چاہتے ہیں کہ انہیں شکست ہو تو کیا صرف دعاوں سے کام چلے گا کیا صرف امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کاکی ولادت کا جشن منانے سے کام چلے گا ، ہرگز نہیں بلکہ ہمیں خود اٹھنا ہوگا اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا ہوگا اسے تقسیم ہونے سے روکنا ہوگا اور متحد ہو کر اپنے دشمن کے خلاف اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کرنا ہوگا اس طرح ہم دشمن کو شکست دے سکتے ہیں اور اسی متحد حرکت کو انتظار کا نام دیا جائے گا اگر ہم واقعی ایسی حکومت کے منتظر ہیں جہاں لوگوں کو انصاف ملے جہاں ظلم کی جگہ نہ ہو تو ہمیں اپنے سماج اور معاشرے میں اپنی طاقت اور توانائی بھر عدل و انصاف کے قیام کی جدو جہد کرنا ہوگی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی ہم اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب اپنی توانائیوں کو انتظار کی راہ میں استعمال میں لائیں اگر ہمارا امام دنیا کو عدل و انصاف سے بھرنے کے لئے آئے گا تو ہماری یہ ادنی ذمہ داری ہو تی ہے کہ ظلم و ستم سے مقابلہ کے لئے کم از کم اپنی اتنی طاقت کو استعمال کریں ہو ہمارے ملک کے آئین نے ووٹ کی صورت ہمیں دی ہے شک نہیں کہ اس سے ہم پورے ملک کو نہیں بدل سکتے جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا لیکن تبدیلی کی طرف ایک قدم اٹھا سکتے ہیں یا کم از کم اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتے ہیں کہ ہم نے اپنا ووٹ کسی ظالم کو نہیں دیا ہے یہ انتظار کا وہ بنیادی تقاضا ہے جس پر عمل یہ بتائے گا کہ ہم کس عدل و انصاف کے پرچم دار کا انتظار کر رہے ہیں ۔
۔ ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج ۷، ص ۳۸۱؛ عزیز اللّه حیدری، انسان معاصر، ص ۳۲.
۔ اَفْضَلُ اَعْمالِ اُمَّتِى اِنتظارُ الفَرَجِ مِنَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ ،شیخ صدوق, عیون اخبارالرضا7، ج 2، ص 36؛ شیخ صدوق, کمال الدین و تمام النعمة، ج 2، ص 644
۔ اِنتِظارُ الفَرَجِ عِبَادَةٌ؛اربلی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج 2، ص 101؛ شیخ طوسی، أمالی، ص 405.
۔ اَفضَلُ العِبادَةِ اِنتِظارُ الفَرَجِ، شیخ صدوق، کمالالدین و تمام النعمة، ج 1، ص 287؛ ر.ک: ترمذی، سنن ترمذی، ج 5، ص 565.
۔ من سر ان یکون من اصحاب القائم فلینتظرو لیعمل بالورع وا محاسن الاخلاق ، بحار الانوار، جلد ۵۲، ص ۱۴۰
۔ إِذَا صُمْتَ فَلْيَصُمْ سَمْعُكَ وَ بَصَرُكَ وَ شَعْرُكَ وَ جِلْدُكَ وَ عَدَّدَ أَشْيَاءَ غَيْرَ هَذَا وَ قَالَ لَا يَكُونُ يَوْمُ صَوْمِكَ كَيَوْمِ فِطْرِك
تصنيف غرر الحكم و درر الكلم ، عبد الواحد تميمى آمدى ص۱۷۶ ح ۳۳۶۲ ؛
صوم النفس إمساك الحواس الخمس عن سائر المآثم و خلو القلب عن جميع أسباب الشر
۳ ) الكافی،كلینی ج ۴ ص ۸۷ح۱؛ تهذيبالأحكام ،طوسی،ج ۴ ،ص ۱۹۴؛ من لا یحضره الفقیه،ج ۲، ص ۱۰۸ بحارالأنوار،مجلسی، ج ۹۳، ص ۲۹۲ح ۱۵ ؛
۔ صَومُ القَلبِ خَيرٌ مِن صِيامِ اللِّسانِ وَ صِيامُ اللِّسانِ خَيرٌ مِن صِيامِ البَطنِ ]إحياء علوم الدين : ج ۱ ص ۳۵۰ ، المحجّة البيضاء : ج ۲ ص ۱۳۱ .
۔ انتظار ،فصلنامہ علمی تخصصی ویژہ امام مھدی علیہ السلام ، ص ۸۲ سال اول شمارہ اول پاییز ۱۳۸۰
۔ اَلّناسُ معادِنُ كَمَعادِنِ الَّذهَبِ وَ الْفِضَّةِ ، كافى، ج 8، ص 177؛ من لا يحضره الفقيه، ج 4، ص 380؛ بحار الانوار، ج 58، ص 65 و 106؛ ج 64، ص 1
۔ و یوطئون للمہدی سلطانہ ، میزان الحکمہ ، جلد ۲ ص ۵۶۸
۔ ليعدن احدكم لخروج القائم ولو سهما، فان الله اذا علم ذلك من نيته رجوت لان ينسي في عمره حتي يدركه و يكون من اعوانه و انصاره.
بحارالانوار، ج52، ص366
۔ الغیبۃ ، نعمانی ، بحار الانوار ، جلد ۵۲ ، ص ۳۵۸