1846 M.U.H 15/03/2018
مولانا سید نجیب الحسن زیدی
دنیا میں جہاں بھی ننگے بھوکے پابرہنہ لوگوں کے وجود سے انقلاب کے شعلے لپکے ہیں اور انہوں نے شہنشاہوں اور سلطانوں کی دستاروں کو انکے وجود اور انکےتخت و تاج کے ساتھ جلا کر خاک کے ڈھیر میں بدل دیا ہے ، جہاں بھی استبداد و بربریت کے آہنی پنجوں کو مظلوموں کے لہو کی حرارت نے پلاسٹک کے کسی کھلونے کی طرح پگھلا کر ناکارہ بنا دیا ہے ، جہاں بھی خنجر و تلوار کے پانی نے خون کے اسلحہ کے سامنے بے بس ہو کر پانی مانگا ہے ، جہاں بھی مظلوموں کی آہوں نے عالیشان محلوں کو کھنڈرات میں بدل کر اپنی قسمت کا فیصلہ کیا ہے ، ہر اس مقام و ہر اس جگہ پر جہاں ظالموں کی تلواریں مظلوموں کے گلوں کے سامنے بے بس ہو ئی ہیں ، جہاں پیشانیوں کے سامنے نیزے روئے ہیں ، جہاں فولادی سینوں کے سامنے تیر کانپ اٹھے ہیں کہ انہوں نے سینوں میں سوراخ ضرور کیا ہے لیکن عزم و ہمت کے سامنے نہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے ، جہاں سوکھے گلوں کے سامنے خنجر پیچھے ہٹیں ہیں اور گلوں نے انہیں دبوچ لیا ہے ، خنجر و نیزہ و تیر و شمشیر ، ڈھال و تلوار و گرز آہنیں سے آگے بڑھیں آج کی کربلا میں آئیں، جہاں سنگینوں کا تعاقب سینوں نے کیا ہے، جہاں گولیاں سینوں میں پیوست ہو کر ناکام ہوئی ہیں ، جہاں توپوں اور ٹینکوں نے لاشوں کے ڈھیر کے سامنے اپنی بے بسی کا ماتم کیا ہے جہاں موت برساتے طیاروں نے اپنے چہروں پر طمانچے مارے ہیں وہاں ایک صدا بس ایک صدا سنائی دی ہے حسین زندہ باد ، حسین زندہ باد ، جی ہاں حسین زندہ باد ہر اس مقام پر ہر اس جگہ جہاں حسینی عزم کے سامنے یزیدیت پسپا ہوئی ، حسینی حوصلہ کے سامنے یزیدیت رسوا ہوئی ۔حسین زندہ باد ہرگز کوئی نعرہ نہیں کوئی گمان نہ کرے کہ یہ ایک نعرہ ہے ، یہ ایک زندہ حقیقت ہے ، فاطمیون ، کی صورت ، زینبیون کی صورت ، حزب اللہ کی صورت ، حشد الشعبی کی صورت ، انصار اللہ کی صورت ، اگر کسی کی ہار جیت کا فیصلہ گلے کے کٹ جانے سے ہوتا تو الگ بات تھی لیکن حسین نے تو شکست و فتح کا معیار ہی بدل دیا کٹے ہوئے گلے سے تلاوت کر کے بتایا کہ گلوں کا کاٹا جانا یزیدیت کی نگاہ میں موت کا استعارہ ہوگا حسینیت کے مکتب میں تو یہ شہادت ہے ، اور زندگی جاودان کی یہ وہ منزل ہے جہاں کوئی گمان بھی نہ کرے کہ کوئی شہید مردہ ہے ۔ وَلا تَحسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلوا في سَبيلِ اللَّهِ أَمواتًا ۚ بَل أَحياءٌ عِندَ رَبِّهِم يُرزَقونَ[1]
یقینا اگر کوئی ظلم کے خلاف ہے حسینی عزم لیکر میدان میں ہے چاہے میدان ، فکر کا ہو ، خطابت کا ہو ، اقتصاد کا ہو ، سیاست کا ہو، فرہنگ کا ہو ثقافت کا ہو ، قلم کا ہو ، شعر و شاعری کا ہو ، سماجیات کا ہو ، اگر انسان اپنے وقت کے یزید سے نبرد آزما ہے تو وہ کربلا کا سپاہی ہے جب اسکا تعلق کربلا سے ہو گیا تو جیتے جی بھی زندہ ہے مر کر بھی زندہ ہے کہ یہاں مرنا اور جینا تو خدا کی مشیت پر منحصر ہے معیار یہ ہے کہ جینا اور مرنا کیوں اور کس مقصد کے تحت ، جینا اور مرنا کیسے ؟ خیمہ حسین ع میں یا خیمہ یزید میں ،ملاک و معیار جب یہ ہے تو نہ زندگی اہم ہے نہ موت اہم ہے ، اہم یہ ہے کہ زندگی ہے تو کیوں ، موت ہے تو کس حال میں سو اب ایسی صورت میں اگر کوئی باطل سے مقابلہ کر رہا ہے تو وہ کہیں بھی ہو فرد کی صورت ہو کہ اجتماع کی صورت ، کسی بھی علاقے کا ہو ، سے کسی بھی رنگ کا حامل ہو ، کوئی زبان رکھتا ہو ، کوئی لہجہ رکھتا ہو ،کسی بھی ، خطے سے اٹھا ہو کسی بھی ملک سے ہو ،کسی بھی قبیلہ کا ہو ، کسی خاندان سے اسکا تعلق ہو اگر اس نے فیصلہ کیا کہ حق کا ساتھ دے گا باطل کو پسپا کرے گا ، چاہے باطل کوئی بھی ہو ، کسی بھی لباس میں ہو ، کسی بھی مقام پر ہو ، کسی بھی زبان کا حامل ہو ، کسی بھی رنگ سے اسکا تعلق ہو ،تووہ کربلا سے جڑا ہے حقیقت کربلا سے جڑا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کربلائی مزاج کبھی یزیدی مزاج کو برداشت نہی کرتا کہ اسکی حیات و موت دونوں میں مقصدیت کار فرما ہوتی ہے جبکہ یزیدیت صرف اپنے وجود کو دیکھتی ہے نہ اسکے پیشِ نظر دنیا میں کوئی اعلی مقصد ہوتا ہے آخرت کی تو بات ہی کیا ، یزیدیت کا واحد مقصد حصول اقتدار اور حفظ اقتدار اور بس ،جبکہ حسینیت کا مقصد حصول رضائے الہی اور حفظ رضائے الہی ، یہی سبب ہے کہ جب اللہ کی رضا کے حصول کے لئے کچھ لوگ اپنے اعز و اقارب اپنا گھر بار چھوڑ کر یزید وقت سے مقابلہ کے لئے نکلتے ہیں ، قربانیاں دیتے ہیں ، اپنی جانیں گواتے ہیں ، گولیاں کھاتے ہیں ، زخم سہتے ہیں تب بھی انکے ماتھے پر شکن نہیں ہوتی بلکہ مسکراتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر لیتے ہیں کہ انکے سامنے کربلا کے اس پیاسے کا مسکراتا وجود ہوتا ہے جو عصر عاشور پشت فرس پر ڈگمگا رہا تھا اور اسکا جسم نازنین تیروں سے ڈھکا ہوا تھا لیکن آنے والے کل کولیکر پر امید تھا اسکی نظریں کربلائی فکر رکھنے والی ان نسلوں پر تھیں جو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے وہ مظلوم کربلا جس نے اپنے ۷۲ جانثاروں کو مسلخ عشق میں قربان کر دیا ، جس نے اپنے ننھے مجاہد علی اصغر ع کی شکل میں جب اپنی تمام تر قربانیوں پر مہر لگا دی تو عصر عاشور اپنی قربانیوں کی قبولیت کی خاطر سر کو مالک کے سجدے میں رکھ دیا ،اور پوری کائنات کا سب سے عظیم سجدہ ، نرالے انداز نرالی شان نرالی ادا سے کیا ، سبحان ربی الاعلی و بحمدہ تو سب کہتے ہیں ، لیکن جس انداز سے سید الشہدا نے کہاوہ پوری کائنات میں بے نظیر و یکتائے روزگار ہے ، وہ حسین ع جو تنہا تھا ، اکیلا تھا ، پیاسا تھا ، غریب تھا ، ستایا ہوا تھا زخمی تھا ، جسکا آخری سجدہ رہتی دنیا تک بندگی کو دلیل فراہم کر گیا، کیوں نہ مسکرائےگا ظلم و ستم کو لرزاں دیکھ کر کیوں نہ مسکرائے گا ظالموں کے خلاف مظلوموں کی جنگ دیکھ کر کیوں نہ مسکرائے گا حق کا غلبہ دیکھ کر ، کیوں نہ مسکرائے گا شہید حججی جیسے جوانوں کو مطمئن و خندہ دیکھ کر کیوں نہ مسکرائے گا مدافعین حرم کے عزم و ہمت کو دیکھ کر کہ یہ سب کے سب اسی کی شہادت کا فیض عظیم ہے ، لبیک ہے اس صدائے ھل من پر جسے اس نے صحرائے کربلا میں ۶۱ ہجری میں بلند کیا تھا لیکن ،۶۱ ہجری سے اب تک مسلسل راہ خدا میں گرتی ہوئی شہدا کی لاشیں بغیر کسی وقفے کے لبیک کی عملی تصویر پیش کر رہی ہیں یہ کربلا کے اس درخت کا ثمر ہیں جسے اس نے اپنے جسم کے لہو کے ساتھ خونِ جگردیکر پروان چڑھایا تھا ۔غاصب اسرائیل کے خونچکاں پنجوںمیں جکڑا ہوا قبلہ اول بیت المقدس ہو کہ استعماری سازشوں کی شکار سرزمین شام و عراق ، یا عالمی سامراج سے ٹکرانے کی جرات رکھنے والے مختلف علاقوں اور ملکوں کے اقوام اور اسلامی بیداری کی لہروں کی زد میں زمیں بوس ہونےوالے آمروں اور شہنشاہوں کے محل،ٹیونس ہو کے لیبیا ، مصر ہو کے بحرین ویمن ،دنیا چاہے سر اٹھاتی ہوئی عوامی تحریکوں کو کچھ بھی نام دے لیکن اتنا طے ہے کہ جہاں بھی استبداد و بربریت کے خلاف محاذ آرائی ہو اسکی پشت پر اپنے خون کی دھار سے خنجر تو تلوار کی کاٹ کو ناکارہ بنانے والی کربلا کے آفاقی دروس کے شہ پارے ضرور نظر آئیں گے جنہوں نے دنیا والوں کو سکھایا کہ کس طرح سر کٹا کر سربلند ہوا جاتاہے اور کس طرح اپنی جان دے کر بھی باطل کو اس کے ارادوں میں ناکام بنایا جاتا ہے ۔
آج دنیا کے ظالم کربلا کا نام سن کر کانپنے لگتے ہیں اور سلاطین ظلم و جور کی دستاروں سے دھواں بلند ہونے لگتا ہے کہ کربلا درحقیقت نام ہے تخت شاہی کو نابود کر دینے والے اس مفہوم کا جو مستضعف اور مقہور انسانیت کے زخموں کا مرہم ہے تو اس کے حقوق کو پامال کرنے والوں کے لئے نقارہ جنگ ۔
اسی لئے کسی بھی قوم اور قبیلہ کا انسان ہو کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ہو کسی بھی مذہب کا پرستار ہو اگر اس کا ضمیر بیدار ہے تو اپنی ہر طرح کی جغرافیائی ، مذہبی ، اور قبائلی حدود کو پار کر کے کربلا کی آغوش میں اپنی پیاسی روح کو سیراب کرتا نظر آئے گا ۔
یہ وارفتگی اور کربلا والوں سے اس قدر لگن نتیجہ ہے اس مقدس خون کا جو انسانیت کی قدروں کو بچانے کے لئے دشت نینوا کی گرم ریت پر بہا تو ہر احساس رکھنے والے انسان کے وجود میں ایک ایسی دہکتی آگ روشن کر گیا جو اس وقت تک ٹھنڈی نہیں ہو سکتی جب تک دنیا کے کسی بھی گوشہ میں مظلوموں کا حق مارا جاتا رہے گا ،
اسی لئے استعمار و استکبار ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کربلا سے حاصل ہونے والے دروس کی روشنی کو تاریکی اور ظلمت میں بدلنے کی راہوں پر ایک ساتھ مل جل کر غور کر رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی حکومتوں کا بھی وہی حال ہو جو کربلا تخت یزید کا ہوا کہ حسین ع نے اپنا معیار شہادت اتنا بلند کر لیا کہ یزید کے بیٹے بھی تخت کو ٹھوکر مار کر یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ میرا حق نہیں تھا ، انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ کربلا کی حیات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ کربلا آج بھی زندہ ہے اور کسی بھی وقت ایک انقلابی تحریک کی صورت ان سے انکا تخت و تاج چھین سکتی ہے ، انہیں خوب معلوم ہے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد اگر آج بھی کربلا کے ذرات خون آشام کو نچوڑا جائے گا تو خون شہادت کے مقدس خطرے لپک لپک کر خدا کی کبریائی کا اعلان بھی اسی طرح کریں گے جس طرح کل حق پر مر مٹنے والوں نے اپنی گردنیں کٹا کر کیا تھا ۔ یہ خوب جانتے ہیں کہ روئے زمین پر جب تک ایک بھی ذی روح ہستی غلامی کا شکار رہے گی ظلم و تشدد کی زوال پذیر خزاں اس کے جذبات کچل کر اسے ٹھیس پہونچائے گی تب کربلا کی صدائے بازگشت سنائی دیتی رہے گی اسی وجہ سے کربلا کی آفاقی جگماہٹ کو دیکھ کر مات و مبہوت باطل پرستوں کے ٹولے زہریلے اور منفی پروپیگنڈوں کے ذریعہ جس چیز پر سب سے زیادہ یلغار کر رہے ہیں وہ کربلا ہے اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کربلا کے رہتے کربلائیوں کو پسپا کرنا مشکل ہے ،کربلا کے رہتے مکتب کربلا کے روشن چراغ کو بجھانانا ممکن لیکن ، کیا یہ بھی ممکن نہیں کہ کربلا کے مقابل ایک دوسری کربلا بنائی جائے ، ایک ایسی کربلا جو حسین ع کی کربلا نہ ہو ؟ ایک ایسی کربلا جسے ظلم سے کوئی لینا دینا نہ ہو ؟ ایک ایسی کربلا جہاں انسانیت کا درد نہ ہو ، جسے نہ بحرین سے مطلب ہو ، نہ شام ، سے نہ لبنان سے نہ ، عراق سے نہ یمن سے اسے مطلب ہو تو بس اپنی عزاداری سے مطلب ہو تو اپنے جلوس سے مطلب ہو تو اپنے ماتم سے ؟ کیا یہ ممکن ہے ؟تو کیا مصنوعی کربلا بن سکتی ہے تاکہ کربلا کے تعلیمات کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکے ، جی ہاں نہ صرف بن سکتی ہے بلکہ اس کے لئے پوری منصوبہ بندی بھی ہے ایسے میں ہمیں خیال رکھنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ،حقیقی کربلا میں جہاں حسین ہیں ، یا مصنوعی کربلا میں جہاں بھولے بھالے حسینیوں کو خاص مقاصد کے تحت استعمال کیا جا رہا ہے ، نہیں کہتا کہ مصنوعی کربلا بنانے میں وہ لوگ جان بوجھ کر آگے آ رہے ہیں جنکا تعلق ایک بزرگ و علمی خاندان سے ہے ،نہیں کہتا کہ مصنوعی کربلا کی تشکیل میں سوچ سمجھ کر مرجعیت حصہ بن رہی ہے لیکن اتنا ضرور ہے مصنوعی کربلا میں ایسے خاندان موجود ضرور ہیں جنہوں نے کبھی کربلا کی حقیقی میراث کو ہم تک پہنچانے کے لئے بڑی قربانیاں دیں تھی ، کون بھول سکتا ہے میرزائے شیرازی کے تنباکو کی حرمت پر دئے جانے والے تاریخی فتوی کو جس نے برطانوی سلطنت کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں اور کربلا کے جانباز سپاہی کی صورت سامنے آ کر استعمار کی سازشوں کو بے نقاب کیا تھا ،کون سوچ سکتا تھا آج میرزائے شیرازی کے وارث جانے انجانے مصنوعی کربلا کا حصہ بن کر دشمنوں کی خوشحالی کا سبب بن جائیں گے ۔ہم مرجعیت کا احترام کرتے ہیں اور مرجعیت کی توہین کو کسی بھی انداز سے کیوں نہ ہو قوم و ملت اور مکتب تشیع کی توہین سمجھتے ہیں ، اور تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود کسی بھی مرجع کی شان میں گستاخی کو قبول نہیں کرسکتے چاہے وہ ولایت فقیہ کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو لیکن جب بات اصولوں کی ہو تو اصولوں کا سودا بڑے ناموں سے کرنا بھی دین و قوم کے ساتھ خیانت ہے اور کربلائی اصول ہم سے کہتے ہیں ،یزیدی لشکر سے تو حسینی لشکر کا حصہ بننے کوئی آ سکتا ہے اور حسین ع بڑھ کر اسکا استقبال کریں گے لیکن ۷۲ میں سے کوئی ادھر نہیں جا سکتا بھلے اس پر سے بیعت ہی کیوں نہ اٹھا لی جاءے ۔
کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ آج مرجعیت کے عظیم منصب پر فائز کچھ شخصیتوں کو استعمار اپنے آلہ کار کے طور پر دیکھ رہا ہے ؟ کیا ممکن ہے کہ کوئی کربلائی فکر کا حامل ہو اور وقت کے یزید کو نہ پہچانتا ہو ؟ یزیدیت کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہو ، یا زمانہ کی یزیدیت کا سہارا لے رہا ہو اپنےافکار و نظریات کی ترویج کے لئے ؟ آپ خود فیصلہ کریں اس کے بارے میں اگر سید الشہداء ع کے ہاتھوں فیصلہ ہونا ہو تو کیا ہوگا؟ کبھی کبھی انسان کو اپنے افکار و نظریات کا محاسبہ یہ سوچ کر کرنا چاہیے کہ دشمن اسکے بارے میں کیا سوچ رہا ہے ؟ ممکن ہے انسان خود کو صادق و حق پرست کہہ رہا ہو لیکن دشمن نے اپنی نیرنگی چالوں سے حق اس پر مشتبہ کر دیا ہو ، جیسا کہ وفات پیغمبر ص کے بعد آپکے بڑے بڑے صحابہ کرام کے ساتھ ہوا جن میں زبیر جیسے صحابی کی شخصیت بھی ہے ۔
یہ کوئی جذباتی گفتگو نہیں کہ قلم جادہ حق بیانی سے ہٹ کر جذبات کا شکار ہو گیا ہو بلکہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس پر دل روتا ہے آپ نے ڈاکٹر جفری ہالورسن[2] کا نام سنا ہوگا ڈاکٹر جفری ہالورسن کا ماننا ہے کہ آج کے دور میں امام حسین علیہ السلام کے طرفداروں کا کردار نبھانے کی صلاحیتوں کا مالک، شیرازی طرز فکر ہے جو جعلی یزید یعنی اسلامی جمہوریہ ایران سے مقابلہ کے لئے امام حسین علیہ السلام کا کرادار ادا کر سکتا ہے۔
۔ ہالورسن نے ایزونا یونیورسٹی کے اسٹراٹیجک مطالعہ کی سائٹ پر اپنے ایک مقالے[3] میں اس مصنوعی کربلا کے سلسلہ جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر دل کٹ کٹ جاتا ہے اور رونا آتا ہے بعض اپنوں کی سادہ دلی پر اور اور دشمنوں کی سازشوں سے بے خبری پر ،
مقالے کے کچھ اہم نکات :
ہاولورسن، دیگر سلامتی و تحفظاتی اسٹراٹجیکل پالسییوں کی طرح نرم رویہ کو اپناتے ہوئے کولڈ وار کے ذریعہ ایران کے خلاف اپنی رائے کو نرم انداز میں حکومت کا تختہ الٹنے کی پالیسی کو تجویز کرتے ہیں
وہ آگے لکھتے ہیں :
ایسی چیز جوایک حقیقی روایت کو کو اس کے بالکل برخلاف پیش کر سکے ، اسکے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے
انجام کار وہ یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ کربلا کی روایت مذکورہ بالا تنیوں نکتوں کے تحقق کی صلاحیت کو اپنے اندر رکھتی ہے جسے ایران کی موجودہ رژیم کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
ہالورسن کا ماننا ہے کہ شیرازی طرز فکر امام حسین علیہ السلام کی طرفداروں کا رول پلے کر نے کے لئے ایک بہترین آپشن رہے گا جو جعلی یزید یعنی اسلامی جمہوریہ کے مقابلہ کے لئے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔
سیکورٹی سے متعلقہ اس صاحب نظر شخصیت نے تجویز کئے گئے اپنے طریقہ کار کے مناسب ہونے کے اثبات میں متعدد دلائل ذکر کئے ہیں :
ا۔ اس طرز فکر کی قیادت کا سید ہونا
۲۔ اس طائفہ کے اکثر طرفداروں کا اہل کربلا ہونا
۳۔ اسلامی حکومت کا ناقد و مخالف ہونا
انجام کار ہالورسن نے ان باتوں کے نشر کرنے کا بہترین موقع اور اپنی تجویز کو عملی کرنے کی بہتر فرصت ،اپنے پیغامات کو پہونچانے کا بہترین وقت ماہ محرم اور عاشور سے نزدیک ایام کو قرار دیا دیتے ہوئے آگے لکھا ہے : یہ وہ وقت ہے کہ جب شیعہ مسلمان ، جذبات و معنویت سے سرشار ہوتے ہیں ، اور کربلا سے آگاہ بھی اور اس واقعہ سے نزدیک بھی ، ایسی صورت میں اس پیغام کو پہچائے جانے کے سلسلہ سے جو بھی رکاوٹ کھڑی کی جائے گی یا اس کے نشر کو روکنے کے سلسلہ سے جو بھی اقدام ہوگا ،وہ ہمارے حق میں ہوگا حتی شیرازیوں کو اگر سرکوب کیا جائے گا تو یہ سبب بنے گا کہ روایت کربلا کا یہ عنصر غالب آئے کہ ایرانی رژیم یزید کا کردار ادا کر رہی ہے اور جتنا بھی اسکی جانب سے سیاسی دباو بڑھایا جائے اتنا ہی ہماری جانب سے پیش کئے جانے والے ستم گر یزید کا رنگ و روپ سامنے آئے گا اور یزیدی کردار واضح و آشکار ہوگا جو ہمارا مطلوب ہے ۔
ہالورسن نے اپنے مقالہ کے اختتام میں امریکی سینٹ کو پیش کی گئی ایک تجویز کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرز فکر کی مدد کےلئے ضروری ہے کہ اجتماعی روابط عامہ کے وسائل جیسے سٹلائٹ چینل ، انٹر نیٹ ، اور مختلف سائٹس وغیرہ کل ملا کر ہر وہ چیز جو انسانی افکار پر اپنا اثر چھوڑتی ہے سب کے سب انکی مدد کے لئے آمادہ ہونا چاہیے، اور اس کے لئے شیرازی طرز فکر ایک بہترین آپشن ہے ۔
گزشتہ چند دنوں میں شیرازی طرز فکر کے منصوبوں کے کھلنے اور انکی جانب سے ہونے والی کاروائی کو اگر دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ کچھ دنوںمیں جو بھی ہوا ہے وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ وہی سب کچھ ہے جسے ہالورسن نے بیان کیا ہے اور اسی منصوبہ کا حصہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا
اپنی بات کے ثبوت میں ہم کہہ سکتے ہیں :
مثلا یزیدی حکومت ، کا اشاریہ وہی ہے جس سے اس طرز فکر کے حامی ایران کے نظام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں
دورسری طرف مظلومیت کی عنصر پر تاکید کرنا اور اپنی مظلومیت کا اثبات اسی پروجیکٹ کا ایک ایسا حصہ ہے جس سے آگے بڑھ کر اس خبیث منصوبہ کی تکمیل کی جا سکتی ہے ، چنانچہ سید محمد شیرازی کے ہارٹ اٹیک کے چلتے گزر جانے کے بعد ہالورسن کا اشارہ یہ ہے کہ انکی مظلومیت کو پیش کیا جائے اور انکے قتل کی افواہوں کو لوگوں میں پھیلایا جائے ، جس پر ابھی ہی عمل ہوا اور سید حسین شیرازی نے اس مظلومیت کو اپنی تقریر میں پیش کرنے کی کوشش کی اور عجیب بات یہ ہے کہ شیرازی طرز فکر اپنے چینلز کے سلسلہ سے یہ یوں تو کوشش کرتا ہے کہ جہاں جہاں انکے چینلز ہیں وہاں کی حکومت کی پالسییو ں کا لحاظ کیا جائے اس ملک کے قوانین کا احترام کیا جائے جہاں سے یہ اپنے خدمات پیش کر رہے ہیں لیکن جب بات اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کی آتی ہے تو بارہا نہ صرف اپنے ملحوظات کو نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ کے قوانین کو پیروں تلے روند کر اپنے مقاصد کی تکمیل کی جاتی ہے ۔
تبرائی اسلام پر افراط کی حد تک تاکید وہ مفروضہ ہے جو طولانی مدت اسکتباری منصوبہ میں اسکتبار کی اس علاقہ میں تعاون ومدد کا سبب ہے ، اس وقت جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی کوشش ہے کہ برادران اہلسسنت کے اختلافات کو سمجھتے ہوئے انکے ساتھ ایک محترمانہ تعلقات کی داغ بیل ڈالی جائے چنانچہ ایران سےاندر اور باہر رہنے والے برادران اہلسنت کے ساتھ مل کر علاقے کے توازن کو اپنے حق میں کرتے ہوئے دشمن سے مقابلہ کے لئے مل جل کر آگے بڑھنے کی خاطر جہاں ایران کوششیں کر رہا ہے جہاں ایران کی کوشش ہے کہ برادران اہل سنت کو مشترکہ دشمن سے مقابلہ کی سمت لے جایا جائَ وہیں اس شیرازیت کی شکل میں تبرائی فکر اختلافات کو بھڑکانے کے ساتھ علاقے میں شیعوں اور اہل سنت کے ما بین علاقائی جنگ کا سبب ہے ۔
ان تمام باتوں کا مقصد کسی خاص گروہ کی توہین اور کسی خاص عقیدے کے حامل افراد کے جذبات کا مشتعل کرنا نہیں ہے بلکہ اپنی ذمہ داری کو ان نازک حالات میں سمجھنا ہے جہاں طول تاریخ میں کربلا کے مقابل ہار سےدوچار ہونے کے بات جدید و مارڈن یزیدیت نے کربلا کو کربلا کے خلاف استعمال کرنے کی سازش رچی ہے ایسے میں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ سوچیں ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہم کسی کا دفاع کر رہے ہوں ، کسی کی مظلومیت کا رونا رو رہے ہوں لیکن خیمہ حسین ع میں نہ ہو کر مصنوعی کربلا کے اس عالیشان محل میں ہوں جہاں چہرے پر نقاب ڈالے ابن زیاد ہماری بصیرت کا امتحان لے رہا ہو۔
یقینا یہ ایک سخت گھڑی ہے ، جب اپنے ہی کربلا کا نام لیتے رہیں لیکن اس کی روح کا سودا کر لیں ، جب اپنے ہی نام حسین ع کالیں لیکن جانے انجانے دشمن کے بہکاوے میں آکر کام وہ کریں جو یزیدیت کی تقویت کا سبب ہو جب اپنے ہی اپنی غیرت و حمیت کو بیچ کھائیں تو انہیں ذلتوں کے گڑھے میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے جب اپنے ہی دشمن کی بساط کے مہرے بن جائیں تو انسان کس سے فریاد کرے ، سوائے اسکے کہ ایک بار پھر اپنے خون میں ڈوبے ، زخمی و غریب عصر عاشور پشت فرس پر ڈگمگاتے آقا کو آواز دی جائے ، شاید ہماری نحیف سی یہ آواز ہمارے درد و کرب کی داستان کو ہمارے آقا تک منتقل کر دے
''حسین آؤ کہ اب شہادت کا لفظ معنی بدل رہا ہے
حسین آؤ کہ وقت انساں کو اپنے ہاتھوں مسل رہا ہے
حسین آؤ کہ اب تو آنکھوں کی بینائی پانی میں ڈھل گئی ہے
حسین آؤ کہ آج کے آدمی کی ہیئت بدل گئی ہے
حسین میری نحیف سانسوں کو پھر ضرورت ہے انبیا کی
حسین آؤ کہ آج دنیا کو پھر ضرورت ہے کربلا کی۔‘‘
Imambara Ghufranmaab
Add : Maulana Kalbe Husain Road, Chowk, Lucknow-3 (INDIA)
مجلس علماء ھند پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں۔ ادارہ کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔