اسلام ایک عالمی مذہب اور ایک آخری شریعت ہے جس میں وہ تمام چیزیں پائی جاتی ہیں جس میں انسان زندگی کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس دین کو ماننے والی امت اسلام کی قیادت اور ذمہ داری پیغمبر اسلامؐ کے ہاتھوں میں رہی جب تک آپ زندہ رہے اور کیا یہ مناسب ہے کہ ہمیشہ باقی رہنے والی شریعت کی قیادت کو پیغمبر اسلامؐ کے بعد امت اسلامی کے عام افراد یا اتفاقات اور حادثات یا صحابہ کے ذاتی اجتہاد کے حوالہ کردیاجائے اور پھر ان کے ذاتی اخلاقیات ونظریات کا شکار ہوکر امت اسلامی کے انتشار اوراسلامی اقتدار کے خاتمہ پر جاکر منتہی ہو۔
ہرگز نہیں
اسی لئے حجۃ الوداع کے بعد میدان غدیر پر پوری امت اسلامی یا اس کی نمائندگی کی موجودگی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ذمہ داری اسلام کی راہ میں سب زیادہ قربانیاں پیش کرنے والے نبی اکرم ص کے بعد فضائل و کمالات میں سب نمایاں اپنے چچازاد بھائی اپنے داماد ولی پروردگار حضرت علی علیہ السلام کے حوالے کردی اور یہ واقعہ تاریخ کے دامن میں واقعہ غدیر کے نام سے ثبت ہوگیا
عید غدیر اور اسلامی تاریخ
خداوند عالم کی مشیت تھی کہ یہ تاریخی واقعۂ غدیر پر زمانے اور ہر صدی میں اس طرح زندہ رہے کہ اس کی طرف دل و دماغ جھکتے ہوئے نظر آئیں اور اس کے بارے میں ہر دور میں اسلامی مصنفین کتابیں تحریر کرتے رہیں خطباء و واعظین اپنے اپنے خطابات اور شعراء اپنے اشعار میں غدیر کی عظمت اور فضیلت بیان کریں اور ساتھ ساتھ غدیر کے مرکزی کردار مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کو اس انداز میں نقل کریں کہ پھر اس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہ رہ جائے۔
انسانی تاریخ میں عام طور پر اور اسلامی تاریخ میں خاص طور پربہت کم ایسے واقعات ہوں گے جن کی چھاپ واقعۂ غدیر کی طرح تاریخ کے ایک بڑے حصہ پر محسوس کی جا سکے
اس عظیم واقعہ کے باقی رہ جانے کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ اس واقعہ پر ثقلین یعنی قرآن مجید اور اہل بیت علیہم السلام کی خاص توجہ ہے
قرآن مجید میں کم از کم دو آیتوں کے نزول کی مناسبت غدیر ہے جب تک قرآن مجید باقی رہے گا اور جب تک اس کلام پاک کی تلاوت ہوتی رہے گی اور جب تک محافظ قرآن اہل بیت علیہم السلام کی فرد زمانے کے امام کی امامت اور تعلیمات اہل بیت علیہم السلام۔ باقی رہیں گی ۔ یہ عظیم واقعہ ہمیشہ ہمیشہ قلب و دماغ کو تازگی عطا کرتا رہے گا۔
ماضی میں اسلامی معاشرہ کے تمام افراد اور خاص طور پر اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے اس پاکیزہ دن کو ایک بڑی اسلامی عید کے طور پر مناتے ائےہیں۔ یہ دن امت اسلامی میں عید غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی شہرت کا عالم یہ ہے کہ ابن خلکان تک نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ مستعلی ابن مستنصر کی بیعت عید غدیر کے دن کی گئی جو ۱۸؍ذی الحجہ ۴۸۷ھ کو انجام پائی۔
مستنصر باللہ العبیدی کے حالات میں ملتاہے کہ ماہ ذی الحجہ کے جب ۱۲؍دن باقی رہ گئے تھے تب اس کی وفات ہوئی یعنی اس کی وفات شب ۱۸؍ذی الحجہ میں ہوئی ہے۔ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب الآثار الباقیہ میں اس دن کو ان دنوں میں شمار کیا ہے جس دن امت اسلامیہ عید کے طور پر مناتی ہے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جو شخص بھی ۱۸؍ذی الحجہ کو روزہ رکھے خداوند عالم اسے ۶؍مہینے (یا سال بھر) کے روزے کا ثواب عطا فرماتا ہے۔ یہ عید غدیر کا پاکیزہ دن ہے جس دن رسول اسلامؐ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور اعلان کیا :
من کنت مولاہ فعلی مولاہ، اللہم وال من ولاہ و عاد من عاداہ وانصر من نصرہ
جس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔ بار الٰہا! اسے دوست رکھ جو علیؑ کو دوست رکھے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھے، اس کی مدد فرما جو علیؑ کی مدد کرے۔ اس کے بعد عمر ابن خطاب نے کہا:
بخ بخ لک یابن ابی طالب ! اصبحت مولای و مولیٰ کل مسلم
مبارک ہو مبارک ہو اے ابوطالب کے لال! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ہو گئے۔
ثعالبی نے بھی امت اسلامی کے درمیان عید غدیر کی اہمیت و اعتبار کا تذکرہ کیا ہے۔ اس پاکیزہ دن کے عید منانے کی تاریخ کا آغاز خود واقعۂ غدیر سے ہوتا ہے اس لئے کہ پیغمبر اسلامؐ نے انصار اور مہاجرین کو بلکہ اپنی ازواج کو بھی حکم دیا کہ علی ؑکے پاس جا کر انہیں اس عظیم فضیلت کی مبارکباد پیش کریں۔
زید ابن ارقم کا بیان ہے کہ سب سے پہلے پیغمبر اسلامؐ اور حضرت علی علیہ السلام سے مصافحہ اور بیعت کرنے والے افراد ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ زبیر اور دیگر مہاجرین و انصار تھے اس کے بعد بقیہ مسلمانوں نے بیعت کی۔ اس عظیم واقعہ کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ ایک سو بیس اصحاب پیغمبرؐ نے اس واقعہ کی روایت کی ہے البتہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس عظیم واقعہ کے راویوں کی تعداد انہیں ایک سو بیس راویوں پر منحصر ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ایک سو بیس راویوں کا تذکرہ اہل حدیث اور اہل تاریخ کی کتابوں میں پایا جاتاہے ورنہ دوسری صدیوں میں واقعۂ غدیر کے راویوں میں مختلف مذاہب اسلامی کے علماء کا انبوہ کثیر ہے اور جسے ان میں سے بہت سے علماء نے صحیح قرار دیا ہے اور اس واقعہ کی روایت کے متواتر ہونے پر اتفاق کیا ہے
غدیر سیرت اہل بیت علیہم السلام کی روشنی میں
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور غدیر
ایک دن جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا احد کے میدان میں اپنے والد بزرگوار رسول اسلام ص کے چچا " سید الشہداء جناب حمزہ" کے مزار پر گریہ و زاری میں مشغول تھیں۔ جب جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی گریہ و زاری ختم ہوئی تو محمود بن لبید نےان سے پوچھا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی! کیا آپ کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت اور وصایت کے بارے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی قول یاد ہے؟
جناب فاطمہ (س) نے فرمایا:
و اعجبا انسیتم یوم غدیر خم؟... اشهد الله تعالى لقد سمعته یقول: على خیر من اخلفه فیكم و هو الامام و الخلیفة بعدى و سبطاى و تسعة من صلب الحسین، ائمة ابرار، لئن اتبعتموهم وجدتموهم هادین مهدیین و لئن خالفتموهم لیكون الاختلاف فیكم الى یوم القیامة.
کتنے تعجب کی بات ہے! کیا تم لوگ غدیر کےدن کو فراموش کرچکے ہو؟! ۔۔۔ میں خدا کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں نے خود رسول اللہ ٓصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ: علی علیہ السلام ان تمام لوگوں میں سب سے بہتر ہیں، جنہیں میں تمہارے درمیان چھوڑ کر جا رہا ہوں؛ علی علیہ السلام امام اور میرے بعد خلیفہ ہوں گے۔
میرے دو نواسے حسن ع اور حسین ع اور حسین ع کی نسل سے نو افراد پاک اور نیک امام اور رہنما ہیں۔ اگرتم ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو گے، تووہ تمہاری ہدایت کرنے والے ہادی اور مہدی ہوں گے۔ اور اگر ان کی مخالفت کرو گے، تو قیامت تک تمہارےدرمیان اختلافات رہیں گے۔
الف: سلیم بن قیس ہلالی کہتے ہیں : ایک دن میں عثمان کے زمانہ خلافت میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیٹھا ہوا تھا۔ مسجد میں کچھ اور لوگ بھی موجود تھے جو آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھے۔ اسلام سے متعلق اپنی خدمات گنوائیں اور سب نے ان کی باتوں کی تصدیق کی۔ اس کے بعد انہوں نے غدیر خم کے بارے میں فرمایا:
جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ولایت اور وصایت کے بارے میں سوال کیا۔تو خداوند عالم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اپنے بعد اپنے جانشین اور خلیفہ کا تعارف کرائیں اور اس بارے میں ضروری وضاحت کریں بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے نماز، روزہ اور حج کی تفسیر فرمائی۔
اس کے امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
"فنصبنی للناس علما بغدیر خم... فقال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ایها الناس اتعلمون ان الله - عز و جل - مولاى و انا مولى المؤمنین و انا اولى بهم من انفسهم قالوا بلى یا رسول الله. قال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: قم یا على، فقمت. فقال: من كنت مولاه فعلى مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه" (احتجاج طبرسى، ج 1،صص214 - 213.
پس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خداوند عالم کے حکم سےغدیر خم میں مجھے ولایت کے عہدے پر فائز کیا اور فرمایا: اے لوگو! جان لو کہ خداوند عالم میرا مولا ہے۔ میں مومنین کا مولا ہوں۔ کیا میرا حق تم پر تمہاری جانوں سے بھی زیادہ نہیں ہے؟ سب نے یک آواز ہوکر جواب دیا: ہاں! اے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ایسا ہی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اےعلی علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھو۔ میں اپنی جگہ سے اٹھا۔ تو آپاللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جان لو کہ جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے۔ اے خدا! علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کو دوست رکھ اور اس سے دشمنی کرنے والوں کو دشمن رکھ ۔
ب: جنگ صفین کے دوران حدیث غدیر کا بیان:
ایک دن علی علیہ السلام نے اپنے سپاہیوں کے درمیان (جن میں بعض مہاجرین اور انصارجیسے ابوهیثم بنتیهان، خالد بنزید، ابوایوب انصارى، عمار بن یاسر و ... جنگ بدر کے کل ستر مہاجرین اور انصار اس موقع پر موجود تھے۔) پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے اپنی فضیلتیں بیان کیں۔ اس کے بعد "انما ولیكم الله و رسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلاة... (المائدہ: ۵۵)" اور "لم یتخذوا من دون الله ولا رسوله ولا المؤمنین ولیجه (۔توبہ)" کی تلاوت کی اور فرمایا: لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا: کیا ان آیات میں بیان ہونے والی "ولایت" چند خاص لوگوں کے لئے مخصوص ہے یا تمام لوگ اس کے حقدار ہیں؟ خداوند عالم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ انہیں سمجھائیں کہ یہ آیت کس کے لئے نازل ہوئی ہے اور ان کے لئے ولایت کی وضاحت کریں بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے نماز، روزہ اور حج کی تفسیر فرمائی۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خداوند تعالی کے حکم کی اطاعت کے لئے غدیر خم کے دن مجھے ولایت کے عہدے پر فائز کیا اور ان سے اس طرح خطاب فرمایا:
" ان الله ارسلنى برسالة... من كنت مولاه فعلى مولاه..." (۔ بحارالانوار، ج33، صص147 -146)
غدیر خم، امام حسن مجتبی علیہ السلام کے خطبے کی روشنی میں:
حسن بن علی علیہ السلام نے شام کے طاغوتی نظام اور کوفہ کے لوگوں کے درمیان ایک خطبہ دیا جس میں آپ نے لوگوں کو اہل بیت علیہم السلام کی حاکمیت جیسی عظیم ترین نعمت یاد دلائی۔ اپنی شائستگی اور شرعی خلافت کا ذکر فرمایا۔ پھر غدیر کے یاد رہ جانے والے دن کی کہانی ان الفاظ میں بیان فرمائی: وقد سمعت هذه الامة جدی - صلى الله علیه و آله - یقول: ما ولت امة امرها رجلا و فیهم من هو اعلم منه الا لم یزل یذهب امرهم سفالا حتى یرجعوا الى ما تركوه و سمعوه - صلى الله علیه و آله - یقول لابى: انت منى بمنزلة هارون من موسى الا انه لا نبى بعدى. و قد راوه و سمعوهصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حین اخذ بید ابی بغدیر و قال لهم: من كنت مولاه فعلی مولاه اللهم وال من والاه و عاد من عاده ثم امرهم ان یبلغ الشاهد منهم الغائب ثم قال...
لوگوں کو میرے نانا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات یاد ہے جو فرماتے تھے: جب بھی لوگ اپنے لئے کسی ایسے انسان کو رہبر اور رہنما کے طور پر منتخب کریں، جس سے زیادہ لائق اور زیادہ آگاہ انسان موجود ہو، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے اپنے لئے بدبختی اور مصیبت خرید لی ہے؛ مگر یہ کہ انہوں نے جس چیز کو چھوڑا اور بھلا دیا ہے، دوبارہ اسی کی طرف لوٹ جائیں۔ اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو کچھ میرے والد گرامی کے بارے میں سنا ہے، اس کی پیروی کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: یا علی علیہ السلام تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے ہارون موسی کے لئے تھا، اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی اور پیغمبر نہیں آئے گا۔ پھر امام مجتبی علیہ السلام نے فرمایا: ان لوگوں نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور "غدیر خم" کے موقع پر ان کے ارشادات سنے۔ اس دن میرے نانا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے والد گرامی کا ہاتھ تھاما اور اسے فضا میں لہراتے ہوئے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں ، اس کا علی ﴿ع﴾ مولا ہے۔ اے خدا! جو علی کا چاہنے ولا ہو اسے دوست رکھ، اور جو اس کا دشمن ہے اسے اپنا دشمن سمجھ ۔۔۔ پھر میرے نانا نے پوری تاکید کے ساتھ یہ حکم دیا کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ میرا پیغام ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔
امام حسین علیہ السلام اور منیٰ میں حدیث غدیر کا بیان:
معاویہ کی موت سے ایک سال پہلے، امام حسین علیہ السلام نے حج کے پرشکوہ موقع پر خانہ خدا کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر آپ علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ اس سال وہاں بنی ہاشم کے مردوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے ایام تشریق (یعنی: عید الاضحی کے تین دن بعد جب قربانی کے گوشت کو سکھایا جاتا تھا) میں منا کے مقام پر سب کو جمع ہونے کا حکم دیا۔ لوگوں کا ایک عظیم مجمع اکٹھا ہوا جس میں سات سو سے زائد تابعین اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو سو صحابی شامل تھے۔ یہ سب آپ علیہ السلام کے اردگرد خیمے کے نیچے بیٹھ گئے اور اپنے امام علیہ السلام کے خطاب کا انتظار کرنے لگے۔ امام علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھے اور خداوند تعالی کی تعریف اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
معاویہ نے ہم پر اور ہمارے شیعوں پر جو زیادتیاں کیں، تم اس کے شاہد ہو اور تمہیں اس بارے میں پوری جانکاری حاصل ہے۔ میری باتوں کو سنو اور لکھ کر رکھو [تاکہ آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ ہوکر رہ جائیں] اور پھر انہیں دیگر شہروں، قبیلوں اور مومن افراد جن پر تمہیں پورا اعتماد ہو، تک پہنچاو۔ انہیں ہمار ے حقوق ادا کرنے کی دعوت دو۔ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ وقت گزر جائے گا اور ہمارے حقوق پر ستمگر غالب آجائیں گے؛ اگرچہ خداوند عالم ہمارا سب سے بڑا حامی ہے۔ پھر فرمایا: تمہیں خدا کی قسم! کیا تمہیں یاد نہیں پڑتا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن میرے والد بزرگوار علی علیہ السلام کو اپنا وصی اور اپنے بعد امام قرار دیا اور تمہارے سامنے حدیث ولایت پڑھ کر سنائی اور فرمایا کہ تمام لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس پیغام کو دوسرے لوگوں تک پہنچائیں؟ [لوگوں نے کہا:] جی ہاں! ہمیں یاد ہے
۔ (۔ موسوعة كلمات الامام الحسین(ع)، ص 270/ الغدیر، ج 1، ص 198، ح9، چاپ چهارم.)
امام محمد باقر علیہ السلام اور غدیر کا واقعہ:
فضیل بن یسار، بکیر بن اعین، محمد بن مسلم، یزید بن معاویہ اور ابوالجارود سب امام محمد باقر کی خدمت میں حاضر تھے۔ امام علیہ السلام نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور غدیر کے واقعے کے بارے میں فرمایا:
خداوند تعالی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علی علیہ السلام کی ولایت پر مامور کیا اور یہ آیت نازل کی: "انما ولیكم الله و رسوله و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلاة و یؤتون الزكاة " (مائدہ: ۵۵)
امام صادق علیہ السلام مسجد غدیر میں:
حسان جمال کہتا ہے: میں امام صادق علیہ السلام کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف سفر کررہا تھا۔ میقات جحفہ کے نزدیک جب ہم "مسجد غدیر" کے پاس پہنچے تو امام علیہ السلام نےمسجد کی طرف دیکھ کر فرمایا: یہ وہ جگہ ہے جہاں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کیا اور فرمایا: "من كنت مولاه فعلى مولاه"۔
( مسجد غدیر اور میقات جحفہ کے درمیان تین میل (تقریباً ۵۷۶۰ میٹر) ہے۔ معجم معالم الحجاز، ج 2، ص 124)
امام کاظم علیہ السلام اور مسجد غدیر:
عبدالرحمان بن حجاج نے کہا: ایک دن میں امام موسی ابن جعفر علیہ السلام کی خدمت میں تھا میرا ارادہ سفر کا تھامیں نے امام علیہ السلام سے مسجد غدیر کے بارے میں دریافت کیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس مسجد میں نماز ادا کریں کہ بہت فضیلت اور ثواب حاصل ہوگا۔ میرے والد بزرگوار (اس طرف روانہ ہونے والے ہر شخص کو) حکم دیا کرتے تھے کہ مسجد غدیر میں نماز ضرور ادا کرے۔
(وسائل الشیعه، ج3، ص549، ح 2، ب 61/ فروع كافى، ج 4، ص566، ح 1/ تهذیب الاحكام، ج6، ص 18، ح 21، ب16/ من لا یحضره الفقیه، ج 2، ص559، ح3143
امام رضا علیہ السلام اور غدیر:
احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی کہتا ہے: میں آٹھویں امام علیہ السلام کے گھر میں ان کی خدمت میں حاضر تھا۔ لوگوں کی ایک اور بڑی تعداد بھی امام علیہ السلام کے گھر میں جمع تھی کہ ایسے میں غدیر کے دن کے بارے میں باتوں کا آغاز ہوگیا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ غدیر کا دن صدر اسلام کے دنوں میں نہیں تھا جبکہ بعض دیگر لوگوں نے اس کا شمار اسلامی رسومات میں کیا۔ ایسے میں امام علیہ السلام گویا ہوئے اور فرمایا: میرے والد بزرگوار نے میرے جد "جعفر بن محمد علیہ السلام" سے یوں نقل کیا ہے:
ساکنان عرش غدیر کے دن کو زمین پر رہنے والوں سے زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں۔ خداوند تعالی نے جنت میں ایک بڑی عمارت کو خود سے مخصوص قرار دیا ہے۔ یہ عمارت سونے اور چاندی کی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے، جس میں ایک لاکھ سرخ یاقوت کے گنبد اور ایک لاکھ سبز یاقوت کے گنبد ہیں۔ اس عمارت میں استعمال ہونے والی مٹی اور گارا سب مشک اور عنبر سے ہیں۔ وہاں چار ندیاں دیکھی جاسکتی ہیں جن میں سے ہر ایک میں شراب طہور، شفاف پانی، دودھ اور شہد بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان ندیوں کے کنارے مختلف پھلوں والے درختوں کا ہجوم ہے۔ ان درختوں کے اوپر ایسے پرندوں کی پرواز جاری ہے جن کے بدن موتی اور پر یاقوت کے بنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی پرواز کے ساتھ دل کو لبھا لینے والی مختلف آوازیں ایجاد کرتے ہیں۔
غدیر کے دن اس عظیم محل کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ فرشتے اور اہل افلاک تسبیح پڑھتے ہوئے محل میں داخل ہوتے ہیں۔ پرندے اپنی پرواز شروع کرتے ہیں اور ندیوں کے پانی سے خود کو بھگو لیتے ہیں اور پھر مشک و عنبر سے آلودہ ہوکر اس عطر کو پورے محل کے ملکوتی فضاء میں بکھیر دیتے ہیں۔ فرشتے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام پر ایک دوسرے کو تحفے دیتے ہیں۔ جب غدیر کا دن اپنے اختتام کو پہنچتا ہے، تو فرشتوں سے کہا جاتا ہے کہ چلو اگلے سال تک اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جائو۔ اب سے تم آج کے اس مبارک دن کی طرح ہر قسم کی لغزش سے امان میں ہو۔ جان لو کہ یہ تمام داد و دہش ہمارے عظیم پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے وصی جناب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی وجہ سے ہے۔۔(تهذیب الاحكام، ج6، ص 24، ح9، باب19/ بحارالانوار، ج 94، صص18 - 9)