آیت اللہ العظمیٰ سید العلماء مولانا سید علی نقی نقویؒ
(گنگاپرشاد میموریل ہال امین آباد، لکھنؤ کی ایک تقریر)
اخلاق کی دنیا بہت وسیع ہے یہاں تک کہ بڑی صخیم کتابیں فن اخلاق پر تصنیف ہوچکی ہیں وہ صدیوں سے مستقل علم بنا ہوا ہے۔
بظاہر ایسا بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں اخلاق کے معیاریکساں نہیں۔ بعض ملکوں اور قوموں میں جو باتیں محاسن اخلاق میں سمجھی جاتی ہیں وہیں دوسری جگہوں یا دوسری قوموں میں بری خیال کی جاتی ہیں۔ ایک وقت میں جو چیز خوش اخلاقی میں داخل ہوتی ہے دوسرے وقت میں بداخلاقی قرار پاجاتی ہے۔ اس طرح اخلاق کے حدود کی پوری تعین دشوار محسوس ہونے لگتی ہے۔
لیکن غور کرنے پر سمجھ میں آتا ہے کہ خوش اخلاقی اور بداخلاقی کے حدود میں جو کچھ اختلاف یا ابہام نظر آتا ہے وہ جزئیات کے اعتبار سے ہے مگر وہ کلی معیار جس کے تحت میں آنے سے کوئی شے خوش اخلاقی یا بداخلاقی بن سکتی ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ وہ مفہوم بھی دونوں قسم کے اخلاق کا عدل اور ظلم ہے۔ جو شے عدل کے تحت میں داخل ہو وہ سب کے نزدیک مستحسن ہوگی اور جو ظلم کے تحت میں ہو وہ سب کے نزدیک مذموم۔ یہ اور بات ہے کہ کسی شے کے بارے میں اس امر میں اختلاف ہوجائے کہ وہ ان میں کس عنوان کے تحت داخل ہے۔
عدالت کا جامع اور وسیع مفہوم کیا ہے؟ حقوق وحدود کی حفاظت اور ظلم کیا ہے؟ حقوق وحدود کے خطوط سے تجاوز۔ قرآن مجید نے بھی ظلم کا معیار یہی بتایا ہے: وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ۔ ’’جو قدرت کی مقرر کردہ حدوں سے قدم آگے بڑھاتے ہیں وہ ظالم ہیں۔‘‘
اختلاف صحیح حدود کی تعیین اور جائز حقوق کی تشخیص میں ہوتا ہے مگر حق کو ماننے کے بعد ہر شخص اس سے تجاوز کرنے والے کو ظالم اور اس ظالم کو قابل مذمت وملامت سمجھے گا۔ اختلاف اس میں ہوگا کہ یہ ظلم ہے یا نہیں لیکن ظلم ہر ایک کے نزدیک برا ہوگا۔ چاہے وہ کسی بھی قوم یا ملک کا پرورش یافتہ اور باشندہ ہو۔ یہ اصول اخلاق ہیں۔ انہی کے حکم میں ہیں امانت اور خیانت، سچائی اور دروغ گوئی وغیرہ۔
یقین کیا جاسکتا ہے کہ جو جھوٹا ہے وہ بھی سچ کو اچھا سمجھتا ہے ورنہ سچا بننے کی کوشش نہ کرے اور اگر سچا ہے نہیں تو جھوٹا ہی کیوں قرار پائے۔ جھوٹ کی عمارت خود قائم ہے سچائی کی قدرومنزلت کے احساس پر۔ اسی طرح کوئی بڑے سے بڑا بددیانت ہو اسے ’’بے ایمان‘‘ کہئے تو وہ برا مانے گا اور اسے دشنام سمجھے گا۔ ظالم کو اگر ظالم کہئے تو وہ خوش نہ ہوگا اور خائن کو خائن کہئے تو وہ ہرگز بالیدہ نہ ہوگا۔
یہ دلیل ہے اس کی کہ ان اصول اخلاق کا احساس عقل عمومی اور فطرت بشری میں متفقہ حیثیت سے مضمر ہے۔ ہرشخص ان اچھے اخلاق کو پسند اور برے اخلاق کو ناپسند کرتا ہے۔ چاہے وہ خود ان برائیوں میں مبتلا ہو۔
اس کی ایک آسان پہچان یہ ہے کہ یہ شخص خود جب کبھی کسی کی مذمت کرتا ہے تو دیکھئے وہ اس کے بارے میں کیا کیا کہتا ہے؟ یقینا وہ اس کی برائیوں میں یہی کچھ کہے گا کہ مکار ہے، دغاباز ہے، جعل ساز ہے، جھوٹا ہے، ظالم ہے، بے ایمان ہے وغیرہ وغیرہ۔ بس اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں اس کے نزدیک بھی برائی میں داخل ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ خود عملاً ان سے متصف ہے۔ اسی طرح جب وہ کسی کی تعریف کرنا چاہے تو دیکھئے کیا کہتا ہے؟ سوا اس کے کچھ نہیں کہ وہ بڑا ایماندار ہے، بڑا سچا ہے، بڑا ہمدرد ہے، بڑا منصف ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے ثابت ہے کہ مدح اور مذمت کے اقدار سب کے نزدیک بلا اختلاف معین ومقرر ہیں اور یہ وہ محامد اخلاق ہیں جن کا شعور فطرت انسانی میں مضمر ہے۔
کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَیٰ فِطْرَۃِ الْاِسْلَامِ۔ ہر بچہ فطرت اسلام پر پید اہوتا ہے۔ پھر برائیوں کی طرف کیونکرجاتا ہے؟ خارجی محرّکات سے جن کا جامع عنوان ہے طمع اور خوف طمع کی ایک منزل ہے صرف وقتی حظ نفس، اس کے آگے مال ودولت، جاہ وثروت یا شہرت اور کبھی صرف ہم رنگ جماعت ہونے کی لذت۔
مال ودولت میں بھی انسانوں کی قیمت مختلف ہے۔ کوئی چند پیسوں میں راہ حق سے ہٹنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ کسی کے لئے چند روپیوں کی ضرورت ہوتی اور کسی کا نرخ سیکڑوں یا ہزاروں تک پہنچتا ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کے سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ دس ہزار کی رشوت کسی کے سامنے پیش کی گئی۔ اس نے منھ پھیر لیا۔ آپ نے کہا بڑا دیانتدار ہے مگر آپ کو اس کے دل کی حالت کیا معلوم۔ شاید وہ اس قیمت کو اپنے لئے کم سمجھ کر روگردان ہوا ہو۔ اگر اس رقم کو دونا کردیا جاتا تو وہ معاملہ کے لئے تیار ہوجاتا۔ اسی لئے سچائی کے سب سے بڑے علم بردار حضرت محمد مصطفیؐ کے سامنے جب ان کی حق پرستی کے مقابلہ میں قیمتیں پیش کی گئیں کہ جس عرب خاندان میں کہئے آپ کی شادی کردی جائے۔ جتنا مال ودولت کہئے حاضر کردیا جائے، فرمائیے تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کرلیں تو اگرچہ ان لوگوں نے اپنے پیمانۂ نظر کے مطابق بڑی سے بڑی چیزیں پیش کی تھیں مگر آپ نے جواب میں صرف انکار پر اکتفا نہیں فرمائی کیونکہ اس میں اس تصور کی گنجائش تھی کہ اگر اس سے بڑھ کر کوئی چیز لائی جائے تو شاید نفس بک جائے بلکہ آپ نے جواب میں اپنی طرف سے ایک ایسا پیمانہ پیش کردیا جو حدودوامکان سے خارج ہے یعنی یہ کہ اگر میرے ایک ہاتھ پر چاند رکھ دو اور دوسرے ہاتھ پر سورج تو بھی اس پیام حق کی تبلیغ نہ چھوڑوںگا۔ اس کے بعد کوئی منزل نہیں رہ جاتی اس تصور کی کہ کوئی شئے ایسی ہوسکتی ہے جو کہ انھیں جادۂ حقیقت سے متزلزل بنا سکے۔
دوسری چیز ہوتی ہے خوف اس میں بھی منزلیں مختلف ہوتی ہیں کوئی زرا سے مالی نقصان کو نہیں برداشت کرسکتا، کوئی مالی نقصان کی پرواہ نہیںکرتا مگر جان کی نوبت آجائے تو خائف ہوتا ہے۔ کوئی آبروریزی سے ڈرکر متاثر ہوتا ہے اور ان تمام خطرات سے تحفظ کبھی عقلی وشرعی معیار پر مستحسن بھی ہوتا ہے۔ یہ اس وقت جب کہ مقصد ان سے زیادہ اہم نہ ہو۔ پھر بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جنھیں صرف خطرات موہوم لب کشائی سے مانع ہوتے ہیں اور بعض ایسے جو خطروں کے یقینی ہوجانے کے بعد سپرانداختہ ہوتے ہیں۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ اخلاق حسنہ کی تحریک کم از کم ان کی تائید فطرت میں داخل ہے لیکن یہ خارجی محرکات یعنی طمع اور خوف وہ ہیں جو اس راستے سے ہٹاتے ہیں اور افراد انسانی کو عملاً بداخلاقی کی طرف لے جاتے ہیں تو اب اصلی مدرس اخلاق وہ نہیں ہے جو دنیا کے سامنے بس ان سبقوں کو دہرائے کہ حق پر قائم رہنا اچھی چیز ہے۔ عدل وانصاف اچھی چیز ہے۔ امانت ودیانت اچھی چیز ہے۔ یہ درس اپنی جگہ ہے بالکل درست مگر وہ اس لئے زیادہ وزنی نہیں کہ ان باتوں کو اچھا تو خود ہر انسان کا ضمیر سمجھتا ہے مگر وہ سمجھنا کس کام کا جس کے مطابق عمل نہ ہوسکے اور عمل نہیں ہوتا فطرت پر دبائو ڈالنے والے انہی رجحانات یعنی طمع اور خوف سے۔ پھر اصل درس اخلاق کہاں ملے گا اور حقیقی مدرسۂ اخلاق کسے سمجھنا صحیح ہے۔ اسی مرکز کو جہاں ان رجحانات کو شکست دے کر عملاً دکھا دیا گیا ہو اور نمونہ پیش ہوا ہو کہ کس طرح ایک مرد خدا کو دنیا کی کوئی طمع اور کسی قسم کا خوف وخطر راہ حق سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ جس نے عملی طور پر یہ مثال پیش کردی ہو وہی سب سے بڑا معلم اخلاق ہے۔ اس کی بارگاہ سے ہمیں یہ درس ملے گا کہ کس طرح ہم اچھائی اور سچائی کے راستے پر قائم رہیں اور بڑی سے بڑی طاقت ہم کو اس سے ہٹا نہ سکے۔
ہمارا عالم کیا ہے؟ ذرا اپنے نفسیات کا جائزہ لیجئے۔ صرف ایک عدد آدمی۔ جی ہاں فقط ایک وہ بڑا آدمی ہے ہم سے کسی بات کو کہتا ہے جسے ہم سمجھتے ہیں کہ غلط ہے مگر چونکہ وہ بڑا آدمی ہے اس لئے ہمیں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اس سے انکار کردیں۔
الیکشن میں کیا ہوتا ہے؟ طے کئے ہوئے ہوتے ہیں کہ اب فلاں کو ووٹ نہ دیںگے مگر الیکشن سے پہلے ایک بڑی ہستی غریب خانہ پر آگئی۔ حالانکہ اس کے پہلے یہ ہستی وہ تھی کہ راستے میں ملتی اور یہ غریب جھک کر سلام کرتا تو وہ منھ پھرا لیتے یا گوشۂ ابرو سے جواب سلام دیتے مگر آج ووٹ لینا ہے تو وہ خود غریب خانہ پر تشریف لائے ہیں۔ بس جناب! اب تو منھ سے نہیں نکل سکتا کہ جی میں تو دوسرے شخص کو بہتر سمجھتا ہوں اب سوا اقرار کے انکار ممکن ہی نہیں اور نتیجہ میں کیا ممکن کہ سوا اس شخص کے کسی دوسرے کو ووٹ مل جائے۔ اگر کسی نے پوچھ لیا کہ ارے، یہ کیا تم ان کی بہت برائیاں کرتے تھے۔ اب ووٹ انہی کو دے رہے ہو، کہا کیا بتائوں، فلاں صاحب غریب خانہ پرخود تشریف لائے، اب مخالفت کیونکر ہوسکتی ہے؟ یہاں نہ توپ ہے، نہ بندوق۔ نہ تلوار کچھ نہیں۔ بس فقط ’’بڑے آدمی‘‘ اور ’’انھوں نے یہ فرمایا‘‘ نظام جمہوریت میں اکثریت کے آراء اکثر اسی قسم کے رجحانات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی اکثریت حقانیت کی ضمانت دار کہاں ہوسکتی ہے مگر عام طور سے اہل دنیا اسی راستے پر چلتے، اسی سیلاب میں بہتے اور اسی ہوا میں اُڑتے ہیں۔
بڑے آدمی کے خلاف چھوٹا، اکثریت کے مقابلہ میں کوئی ایک آدمی اول تو سوچتا ہی نہیں۔ عموما ایک آدمی انہی ہزار کی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ اپنی آنکھ کی طاقت سے کام نہیں لیتا اور اگر سوچتا ہے یعنی دماغ کی طاقت جواب نہیں دیتی تو دل کی ہمت ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ جو کچھ سوچا ہے اور سمجھا ہے اس کے مطابق کہہ نہیں سکتا او رعمل نہیں کرسکتا۔
تمام بداخلاقیوں اور غلط کاریوں کا سرچشمہ اس قسم کے محرکات ہیں لہٰذا جس نے ان محرکات میں سے ہر چیز کو شکست دے دی ہو اس سے بڑھ کر معلم اخلاق کون ہے؟
حسینؑ اسی ہستی کے ورثہ دار تھے جس کا اعلان یہ تھا کہ اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمُ مَکَارِمَ الْاَخلْاَقِ ’’میں صرف اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاق فاضلہ کی تکمیل کروں‘‘۔ اور جسے خالق نے سند یہی عطا کی تھی کہ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ’’آپ عظیم اخلاق کے درجہ پر فائز ہیں‘‘ حسینؑ نے ان کی گود میں پرورش اسی دن کے لئے پائی تھی کہ یہ ان کے کام کو عملی دنیا میں انتہائی نقطہ پر پیش کرکے دکھا دیں۔ انھوں نے ثابت کردیا کہ میرے جدبزرگوار کے اخلاقی تعلیمات کوئی خیالی حیثیت نہیں رکھتے جو علمائے اخلاق کے خوبصورت درس کی طرح کتابوں کے صفحات میں محدود رہیں بلکہ یہ عملی حیثیت رکھتے ہیں، ایسی جو کم از کم بہتر افراد کی جماعت کے اندر جیتی جاگتی شکل میں نظر آرہے ہیں۔
کسی مذہب کی تاریخ میں ڈھونڈھنے سے بیک وقت دوچار فردیںشاید مل جائیں جو اس کے تعلیمات کا معیاری نمونہ پیش کرسکیں لیکن یہ اسلام کے مدرسۂ اخلاق کی خصوصیت تھی۔ اہلبیت رسولؐ کے زیرتربیت بیک وقت اتنی بڑی جماعت دنیا کے سامنے پیش ہورہی تھی جس کی مثال صفحۂ کائنات پر دوسری نہیں ملتی۔
اس سے سمجھئے کہ کربلا کے واقعہ کو دنیائے انسانیت کے لئے کب تک یاد رکھنے کی ضرورت ہے؟ جب تک اس کا قائم مقام کوئی دوسرا مل نہ جائے اور یہی راز ہے اس کارنامہ کی ہمہ گیر کشش اور اس کے تذکرہ کی دائمی بقا کا۔
حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کے سامنے وہ تمام چیزیں تھیں جو کسی انسان کو راہِ حقیقت سے ہٹایا کرتی اور مکارم اخلاق کے جادہ سے منحرف بناتی ہیں۔
شخصیت کے اعتبار سے دیکھئے تو بیعت طلب کرنے والا یزید تھا جو عالم اسلامی کا شہنشاہ بنا ہوا تھا۔ کثرت اس طرف تھی اور کیسی کثرت۔ بلامبالغہ تمام دنیائے اسلام اس کے سامنے سر جھکا چکی تھی اور سب ہی بیعت کرچکے تھے اور اگر سب بیعت نہ کرچکے ہوتے توتاریخ ان اشخاص کے ناموں کو شمار کرکے ہمارے سامنے کیوں پیش کرتی جنھوں نے بیعت نہیں کی تھی۔ خود یزید کے باپ امیرشام معاویہ کے یہی الفاظ تاریخ میں درج ہیں جو یزید سے مخاطب ہوکر کہے تھے کہ میں نے تمام مسلمانوں کی گردنیں تیرے لئے جھکا دیں ہیں۔ صرف چار آدمیوں سے مجھے دغدغہ باقی ہے۔ یہ چار بھی کہنے کو چار تھے ورنہ امیرشام خوب جانتے تھے کہ ان میں اصل حسینؑ ہیں چنانچہ انھوں نے مدینہ میں آنے کے بعد امام حسینؑ کو دیکھ کر یہی کہا تھا کہ ابھی تک چار آدمی الگ ہیں جن میں قیادت کرنے والے آپ ہیں۔
پھر اس شخصیت اور اکثریت کے مقابلہ میں امامؑ کا یہ فرمانا کہ بیعت نہیں کروںگا، اس میں خطرات کیا درپیش تھے؟ جتنے قسم کے خطرے کسی کے پیش نظر ہوسکتے ہیں وہ سب مجموعی طور پر امام کے پیش نظر تھے چنانچہ وہ خطرے تدریجی طور پر واقعیت کی شکل اختیار کرتے رہے مگر حسینؑ نے جو انکار کیاتھا وہ کب تک باقی رہا؟ اس کی حد کون بتا سکتا ہے۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ ظلم وتشدد کے امکان میں آگے بڑھنے کی گنجائش نہ رہی اور حسینؑ کا انکار اپنے محل پر برقرار رہا۔ یہاں تک کہ یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ کسی رسول، کسی نبی،کسی مصلح، کسی داعی حق کے بارے میں ہم معین کرکے یہ بتا سکتے ہیں کہ اس نے کیا قربانی پیش کی مگر امام حسینؑ کے بارے میں تو یہ ڈھونڈھنا ہے کہ کون چیز قربان نہیں کی اور ڈھونڈھنے پر اس تلاش میں کامیابی ناممکن معلوم ہوتی ہے۔
دشمن اسلحہ بڑھاتا رہا۔ دبائو زیادہ سے زیادہ کرتا گیا مگر وہ ذرّہ بھر بھی حسینؑ کو متاثر نہ کرسکا۔ حُر کے ساتھ والا ایک ہزار کا رسالہ ہی کیا کم تھا۔ زہیربن قین کہہ رہے تھے کہ مولا ہمیں ان سے نپٹ لینے دیجئے ورنہ اتنی بڑی فوج آجائے گی جس کا ہم مقابلہ نہ کرسکیںگے مگر ایک ہزار اور ایک لاکھ میں فرق تو وہ دیکھے جو کسی نقطہ پر بھی کثرت تعداد سے مرعوب ہوسکتا ہو۔ امامؑ کو تو اصول پیش نظر تھا۔ اخلاقی اصول کہ ہم جنگ میں ابتدا نہیں کرنا چاہتے۔ اس کے نتیجہ میں چاہے ایک ہزار کالشکر بڑھ کر تیس ہزار تک پہنچے اور چاہے ایک لاکھ تک۔
۶؍محرم تک زمین کربلا کثرت لشکر سے چھلکنے لگی۔ ساتویں سے پانی بند کردیا گیا۔ حسینؑ اکیلے نہیں تھے۔ ان کے ساتھ عورتیں اور چھوٹے چھوٹے بچے موجود تھے۔ ایک دو وقت نہیں تین دن گذر گئے۔ بچے العطش العطش کہہ رہے تھے۔ خود امام کی پیاس سے یہ حالت تھی کہ معلوم ہوتا تھا آنکھوں کے سامنے دھواں چھایا ہوا ہے مگر اس پر بھی انکار بیعت کے عزم میں کچھ بھی ضعف نہ تھا۔ امام کا کیا ذکر کوئی بچہ تک یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ اب تو سختیاں نہیں اُٹھ سکتیں۔ اب یزید کی بیعت ہی کرلی جائے۔
اس کے بعد عاشور کے دن جو کچھ ہوا کسے معلوم نہیں، دشمن کے پاس کوئی حربہ باقی نہیں رہا۔ سب حربے ختم ہوگئے مگر حسینؑ پر اثر نہ ڈال سکے۔ آخر میں ظالم بے بس ثابت ہوا اور صبر کا اقتدار اپنی جگہ قائم رہا۔
آخر میں نیزوں پر سر تھے اور لٹا ہوا اسیروں کا قافلہ تھا۔ اسے ظالم اپنی فتح کا اعلان سمجھ رہا تھا مگر وہ تو درحقیقت حسینؑ کی فتح کا اعلان تھا۔ نیزوںپر وہ سر نہ تھے۔ انکار بیعت پر قیام کے علم تھے جو دشمنوں کے ہاتھوں ہی سے بلند تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ تماشا دیکھنے والوں چاہے تم تماشا ہی دیکھتے رہے مگر تم گواہ رہنا کہ کہ ہم نے بیعت نہیں کی اور پیغمبراسلام کے وارث اور ان کے پورے خاندان نے یزید کو جائز خلیفہ نہیں مانا۔
حسینؑ اور ان کا کارنامہ جس کے پیش نظر رہے وہ ممکن نہیں کہ سچائی اور اچھائی کی راہ کوکسی بھی ناجائز دبائو سے چھوڑ دے۔ انسان اگر حق سے ہٹے گا تو حسینؑ کو بھول کر ہی ہٹے گا اور یہی مکارم اخلاق کے بقا و قیام کا سنگ بنیاد ہے۔
اس کے علاوہ جزئی طور پر بھی امام حسینؑ نے کربلا میں جن مکارم اخلاق کے ہر شعبہ پر عمل کرکے ہر ایک کے لئے ایک مثال قائم کردی، حقوق اللہ اور حقوق الناس کسی شعبہ کو تشنۂ عمل نہیں چھوڑا۔ حالانکہ یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کی پابندی کا عموما سکون واطمینان کے اوقات میں موقع سمجھا جاتا ہے۔ مصیبت واضطراب کے ہنگام تو مستثنیات میں داخل ہوتے ہیں اور اس وقت اگر اخلاقیات میں سے کسی اصول کی پابندی نہ بھی کی جائے تو اسے فروگزاشت نہیں سمجھا جاتا جیسے ایک شخص انتہائی پابند شرع، نماز فریضہ کو اول وقت بجا لانے کا پابند ہے مگر مصیبت، خوف ودہشت یا کسی بھی اضطراب کے موقع پر نماز دیر سے پڑھتا ہے اور بلا کسی شرم وندامت کے کہتا ہے کہ آج اتنا پریشان تھا کہ نماز بھی اول وقت نہ پڑھی اور عقلاء بھی اس کو ذرہ برابر موردالزام نہیں سمجھتے۔
ایک نہایت بااخلاق شخص ہمیشہ خود سے سلام کرنے کا عادی اور کسی پریشانی کے ہنگام میں دوسرا سلام کرتا ہے، وہ جلد اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور قابل معافی سمجھا جاتا ہے۔
اب کربلا سے بڑھ کے تصور کیجئے کہ کیا کوئی ہنگام مصیبت ودہشت واضطراب ہوسکتا ہے؟ اور اس کے باوجود امام کا نماز کے متعلق اہتمام دیکھئے۔ اعزاء کے ساتھ سلوک میں حفظ مراتب کا خیال دیکھئے اور ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک دیکھئے۔
ان مواقع پر اخلاق کو برت کر حسینؑ نے دماغِ انسانی میں ان اخلاق کے جذب ہوجانے کی وہ صلاحیت پیدا کردی ہے جس کا محو ہونا غیرممکن ہے۔
انتہا یہ ہے کہ اس وقت جب آپ رخصت آخر کے لئے درخیمہ پر تشریف لائے ہیں اس وقت کے عالم کا خیال کیجئے۔ انصار رخصت ہوچکے ہیں، اعزاء داغ مفارقت دے چکے ہیں، بھائی کے مارے جانے سے کمر ٹوٹ چکی ہے، جوان بیٹے کو دم توڑتے آنکھوں سے دیکھا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ابھی شیرخوار بچہ کی قبر بناکر اٹھے ہیں۔ اب خود سفر آخرت کے لئے جارہے ہیں ایسے عالم میں اخلاق کا خیال ہے۔
حالانکہ خیام حسینؑ میں سب حسینؑ سے ہر حیثیت سے چھوٹے ہی ہیں مگر امام درخیمہ پر آکر سلام کرتے ہیں اور نام بنام کسی طبقہ کو نظرانداز نہیں کرتے یہاں تک کہ گھر کی کنیز فضہ تک کو یاد فرماتے ہیں۔ کیا یہ عام انسانی طاقت فہم سے بالا نمونہ نہیں ہے؟
اور ملاحظہ کیجئے۔ میدان جہاد سے جس نے آواز دی حسینؑ وقت آخر اس کے سرہانے پہنچے۔ اس میں امام پر تعب ومشقت کتنا بڑھ گیا۔ خیمہ گاہ سے مقتل کا فاصلہ اور اس تمازت آفتاب اور تین دن کی پیاس میں اتنی دفعہ جانا اور اتنی دفعہ آنا مگر کیا ممکن تھا کہ حضرت امام حسینؑ اپنے اس دستور میں کوئی فرق آنے دیتے۔
بلکہ جس میں احساس کمتری کا اندیشہ تھا اس کے لئے خصوصیت بڑھا دی۔ جون غلام ابو ذر کے سرہانے فقط گئے ہی نہیں بلکہ اس کے رخسارہ پر رخسارہ رکھا اور بارگاہ الٰہی میں اس کے لئے دعائیں فرمائیں۔
یقینا یہ وہ اخلاقی اصول کی انجام دہی تھی جو ان حالات میں حسینؑ کے سوا کسی کے بس کی بات نہ تھی۔
عراق کے راستے میں امام حسینؑ نے دشمنوں کی فوج کو پانی پلایا تھا۔ یہی اخلاق کا عمل کیا کم تھا مگر اس سے بڑی معراج اخلاق اس میں نظر آتی ہے کہ کربلا میں جب انہی دشمنوں نے پانی بند کردیا اور چھوٹے بچے تک پیاس کی شدت سے بیتاب تھے اور پانی کے لئے تڑپ رہے تھے تو امام نے ہر طرح پانی مانگا مگر کبھی اپنا وہ سلوک یاد نہیں دلایا کہ میں نے پانی پلایا تھا۔ اس لئے کہ احسان کرکے اسے یاد دلانا بلند ظرفی کا مقتضا نہیںہے۔
ایسے ہی کتنے درس اخلاق ہیں جو کارنامۂ حسینی کے تفصیلات میں مضمر ہیں جن کی یاد قائم رکھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا انسان کو حقیقی انسانیت سے روشناس بنانے کا ضامن ہے۔
’’جنھیں یہ احساس ہے کہ ہمارا مالک اللہ ہے اور وہ اس پر قائم وبرقرار رہتے ہیں انھیں نہ قبل وقوع واقعہ خطرہ ہوگا اور نہ بعد وقوع واقعہ افسوس ہوگا‘‘
اب اس معیار پر واقعات کی روشنی میں دیکھئے کہ واقعہ کربلا کے پہلے خوف کسے تھا؟ حسینؑ کو یا ان کے مخالفین کو اور بعد وقوع افسوس کسے ہوا؟ حسینؑ کو یا یزید کو؟
ظاہری اسباب کی بنا پر تو سلطنت وقت کو خوف کی کوئی وجہ نہ تھی اس لئے کہ تمام عالم اسلامی بیعت کرچکا تھا۔ معدودے چند تھے جنھوں نے بیعت نہیں کی تھی۔ ان میں بھی بعض کے متعلق معلوم تھا کہ وہ کمزور دل کے اشخاص ہیں۔ مضبوط ارادے کے مالک جو تھے وہ ایک حضرت امام حسینؑ تھے۔ پھر بھی یزید مبتلائے خوف تھا۔
حضرت امام حسینؑ سے طلب بیعت خود خوف کا نتیجہ تھا وہ جانتا تھا کہ سب سہی مگر حق میری طرف نہیں۔ یہی خلش کہ حق میری طرف نہیں محرک ہوئی کہ علم بردار حق سے بیعت لی جائے۔ یزید جانتا تھا کہ حسینؑ کو امت اسلامیہ پر حکومت کا حق ہے اور حقیقی سردار مسلمانوں کے حسینؑ ہیںیہی وجہ رقابت ہوسکتی تھی ورنہ بادشاہ کو فقیر سے، ایک صاحب تاج وتخت، مالک جاہ وحشم کو ایک زاہد گوشہ نشین سے رقابت کے معنی ہی کیاہیں۔
پھر اگر یزید کی حکومت بنام دنیا ہوتی تو بھی یہ کد نہ ہوتی مگر وہ حکومت تو بنام دین تھی بنام جانشینی رسول تھی اور حسینؑ محافظ دین اسلام اور حقیقی جانشین رسولؐ تھے بس یہ وجہ عنادومخالفت تھی اور یہ خوف تھا کہ نہ جانے کب دنیا اصل مرکز کی طر ف کھنچ جائے۔ اس لئے حصول بیعت کی فکر تھی۔
مگر حسینؑ …وہ مطمئن تھے۔ انھیں کوئی خوف نہ تھا کیونکہ وہ اللہ کو اپنا رب سمجھتے تھے جب انھوں نے کہا کہ میں بیعت نہیں کروںگا تو چاہے دنیا نہ سمجھتی ہو مگر وہ جانتے تھے کہ اس کے نتائج کیا ہوںگے۔ انھوں نے سب کچھ سمجھ کر کہا تھا کہ میں بیعت نہیں کروںگا۔ اس کے مفہوم میں یہ سب داخل تھا کہ بیعت نہیں کروںگا چاہے وطن چھوڑنا پڑے بیعت نہیں کروںگا چاہے سب انصار قتل ہوجائیں بیعت نہیں کروںگا چاہے برابر کا بھائی جوان بیٹا، بھتیجے بھانجے سب کام آجائیں۔
دنیا نے دیکھ لیا کہ حسینؑ نے اس وقت انکار کیا تھا جب تمام انصار واعزا موجود تھے اور حسینؑ اس وقت بھی انکار پر قائم رہے جب کوئی پاس نہ رہا بلکہ اس وقت بھی جب سر قلم کردیا گیا۔ یزید کا طلب بیعت تھا خوف کا نتیجہ اور امام حسینؑ کا انکار بیعت تھا بے خوفی کا نتیجہ۔
اس کے بعد یہ کہ کیا یزید اور ابن زیاد کے ذرائع خبر رسانی یہ نہ بتا رہے تھے کہ امام حسینؑ کے ساتھ کتنے آدمی ہیں تو پھر ذرا غور کیجئے کہ عام نظام اسباب کے مطابق سو ڈیڑھ سو افراد کے لئے کتنی فوج درکار ہے؟ ظاہر ہے کہ زیادہ سے زیادہ پانچ سو افراداور زیادہ لے لیجئے ایک ہزار۔ پھر کربلا میں یہ تیس ہزار فوج کیوں اکٹھا کی گئی؟ یہ صرف خوف کا اثر ہوسکتا ہے جو بے اطمینانی ضمیر کا نتیجہ ہے حقانیت کی بے پناہ طاقت سے یہ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ جو فوج بھیجی جائے اسی میں کے بہت سے افرا دکہیں حسینؑ کی طرف نہ چلے جائیں۔ اس خطرہ کی صحت حُر کی شکل میں ظاہر ہوگئی۔
لشکر کی تعداد کا بڑھانا خود ان میں سے ہر فرد کے ضمیر پر دبائو ڈالنا تھا۔ اب کسی ایک کا اس فوج سے الگ ہونا تیس ہزار کے قصد وآہنگ سے جنگ کرنا تھا۔ نفسیاتی طور پر ساتھیوں کی کثرت ہر فرد کے لئے بہت شدید زنجیر ہوتی ہے اس کے لئے ایسا ہی قوی ارادہ کا مالک تیار ہوسکتا تھا جو تیس ہزار کے متحدہ راستے کے خلاف اپنا جادہ بنا سکے۔
یہ تو اُدھر کے خوف کا عالم تھا اور امام کی بے خوفی دیکھئے کہ جو جماعت قلیل ساتھ تھی اُسے بھی رخصت کررہے تھے ایک فقرہ تو امام نے ایسا کہہ دیا کہ شاید اصحاب بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہوںگے کہ کہیں واقعی امام ہمیں رخصت کردینا ہی تو مناسب نہیں سمجھتے۔ وہ فقرہ یہ تھا کہ ’’میرے عزیزوں کو بھی اپنے ساتھ لیتے جائو‘‘ حالانکہ اس ارشاد میں اس کا اظہار مضمر تھا کہ یہ ساتھ چھوڑنے کی تحریک بے اعتمادی یا بے گانگی کے احساس کی بنا پر نہیں ہے اور بے اعتمادی کا تصور یوں بھی ختم فرمایا کہ آپ نے وفاداری کی سند پہلے ہی دے دی تھی کہ انی لا اعلم اصحابا اوفی من اصحابی ولا اہل بیت ابر ولا اوصل من اہل بیتی۔ یہ بے خوفی کا اعلان نہیں تو اور کیا ہے کہ امام اصحاب کی زندگیاں ان کو واپس کئے دیتے ہیں اور وہ انھیں امام کے قدموں پر ڈالے دیتے ہیں آپ ان سے بے نیاز اور وہ اپنی زندگیوں سے بے نیاز۔