-
صلح – دین اسلام کا اک اہم رکن
- مذہبی
- گھر
صلح – دین اسلام کا اک اہم رکن
1792
مصنف: تقدیس نقوی
09/05/2020
0
0
(یوم ولادت امام حسن ع پرخاص مضمون)
مصنف: تقدیس نقوی
صلح فساد کی ضد ہے. دو فریقوں میں کسی نزاع یا جھگڑے کے وقت باہمی مفاہمت کے ساتھ اختلافات کو ختم کردینے سے فساد کو روکا جاسکتا ہے جس کے نتیجہ میں دونوں فریقوں کو نقصانات سے بچایا جاسکتا ہے. مگر یہ مشکل عمل دونوں فریقوں سے قربانی اور ایثار کا طلبگار ہوتا ہے. یکطرفہ ایثار فساد کو وقتی طور سے موخرتو کرسکتا ہے لیکن پائدار امن قائم نہیں کرسکتا. اس لئے صلح کے لئے ضروری ہے کے دونوں فریق صدق دل اورنیک نیتی سے صلح کی شرائط قبول کریں . صلح میں مضمر توقعات اور خدشاتکے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ اسکی شرائط کو ایک کتابی شکل دی جائے اور اس پر کچھ گواہ بھی مقرر کئے جائیں جسے عام طور سے صلح نامہ کہا جاتا ہے. اس لئے صلح کرنا یا کروانا دین اسلام میں ایک نہائیت نیک ' پسندیدہ اورقابل ستائش عمل مانا گیا ہے.
اللہ تعالی نے قران کریم میں صلح کرنے کی تاکید فرمائی ہے. سورہ الحجرات آیت نمبر9میں ارشاد رب العزت ہورہا ہے : " وان طائفاتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما" ) اور اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب انکے درمیان صلح کرآو ( . اسی سورہ کی ایت نمبر 10میں ارشاد ہورہا ہے : " إنما المؤمنون اخوة فأصلحوا بين أخويكم" )مومنین آپس میں بھائی بھائ ہیں لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو.)
دین اسلام کی یہ صلح پسند پالیسی صرف مومنین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کفاراورمنافقین کے ساتھ معاملات میں بھی صلح کو ترجیح دینے کی تاکید کی گئی ہے. بعض معاملات میں کچھ فریق ہٹ دھرمی پر اتر آتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے فریق کے سامنے ایسی شرائط رکھیں جو اس کے لئے قبول کرنا آسان نہ ہو تاکہ وہ فساد برپا کرسکیں. ایسی صورت حال سے نپٹنے کے لئے بھی اللہ تعالی کی ھدایات موجود ہیں. سورہ الکافرون اس حقیقت پر شاہد ہے. ارشاد رب العزت ہورہا ہے : " قل يا أيها الكافرون .لا اعبد ما تعبدون . ولا أنتم عابدون ما اعبد. ولا انا عابد ما عبدتم . ولا أنتم عابدون ما اعبد . لكم دينكم ولي دين" ( اے رسول کہہ دو اے کافروں جس کی تم عبادت کرتے ہو میں اس کی عبادت نہیں کرتا اور نہ تم اس کی عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ میں اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں. تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ہے)
اس ایت مبارکہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ نے کافروں کو بت پرستی کی کھلی چھوٹ دیدی ہے. بلکہ یہ حکم اس لئے دیا جارہا ہے تاکہان کی ہٹ دھرمی کے باعث ان کو انکے حال پر چھوڑکر ان کے ساتھ کسی تنازعہ سے بچا جاسکے اور وہ فساد پھیلانے کے اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہوسکیں. یہی فلسفہ حضرت امام حسن علیہ السلام کی امیر معاویہ کے ساتھ کی گئی صلح میں نظر اتا ہے. امام نے اس صلح کے ذریعہ معاویہ کو دین اسلام میں اپنی مرضی چلانے کی کھلی چھوٹ نہیں دی تھی بلکہ انسانی جانوں کے زیاں کو بچانے اور فوری امن او امان قائم رکھنے کی غرض سے دین اسلام کے تحفظ کی خاطر یہ مشکل اقدام اٹھایا تھا.
تاریخ اسلام میں دو صلح نامےبہت اہمیت کے حامل اور قابل زکرہیں. پہلا صلح نامہ جد حسن مجتبی حضرت محمد مصطفے صل اللہ علیہ و الہ وسلم سے منسوب صلح حدیبیہ کا ہے اور دوسرا سبط اکبر حضرت امام حسن ابن علی علییہ السلام سے منسوب ہے. پندرہ رمضان المبارک یوم ولادت حضرت امام حسن مجتبی کی یاد کے طور ہم ان دونوں صلح ناموں کی مشترکہ خصوصیات اور مختصر پس منظربیان کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں جس سے اسلام میں صلح کی اہمیت منکشف کرنا مقصود ہے.
صلح حدیبیہ وہ مشہور صلح نامہ ہے جو سرورکائینات حضرت محمد مصطفے صل اللہ علیہ والہ وسلم نے سنہ6 ھجری میں فتح مکہ سے قبل کفارمکہ کے ساتھ کیا تھا.سبط اکبر حضرت امام حسن علیہ السلام سے منسوب صلح نامہ اس صلح کے لئے کیا گیا تھا جو آپ کے اورامیر شام معاویہ ابن ابی سفیان کے درمیان سنہ 41ھجری میں قرار پائی تھی.دونوں صلح ناموں کا مقصد ایک ہی تھا کہکسی طرح انسانی جانوں کے زیاں کوروکا جائےتاکہ امن وآشتی کے ذریعہ اپنے دین کا تحفظ کیا جاسکے.دونوں صلح ناموںکے یہ مقاصد حسن تدبیر کے ساتھ بخیروخوبی حاصل ہوئے. کیونکہ ان دونوں ہی صلحوں میں مرضئ پروردگار شامل تھی اس لئے دونوں کی شرائط کی تکمیل سے پہلے ہی حریف کی بدنیتی ظاہر کردی گئی تھی. آس وقت صلح کی یہ مدبرانہ پیش کش مستقبل میں باطل کے چہرے سے عیاری کی نقاب ہٹانےاورحق کی فتح مندی میں بہت معاون ثابت ہوئ.
دونوں صلحوں میں اک یہ بات بھی مشترک تھی کہ دونوں کی تکمیل کے وقت نانا اور نواسے دونوں پراپنے ہی ساتھیوں نے نہ صرف انکی قیادت اور صلاحیت پر اپنے شکوک کا کھل کر اظہار کیا بلکہ اپنے اس مکروہ اقدام سے دشمن طاقتوں کے حوصلے بھی بڑھائے تھے. کیونکہ دونوں مواقع پر تنگ نظری سے تجزیہ کرنے پرمخالف کی جانب سے پیش کی گئی شروط ناجائز' یکطرفہ اور جارح تصور کی جارہی تھیں اس لئے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم اور انکے نواسے امام حسن علیہ السلام کے لئے صلح نامہ قبول کرنا کوئی آسان کام نہ تھا.صلح حدیبیہ کا منفرد معرکہ جنگی اسلحے اور سازوسامان کے بغیرخالص بیت اللہ کی زیارت کے مقصد سے سر کیا گیا تھا جبکہ امام حسن علیہ السلام نے قلت افراد اور اپنے ساتھیوں کی عین وقت جنگ میدان کارزار میں بیعت توڑ کر دشمن کے ساتھ مصالحت کرنے پر باقی ساتھیوں کی جان کی حفاظت اور باطل کے خلاف حتمی جنگ ہونے تک مہلت حاصل کرنے کی خاطر یہ مشکل فیصلہ کیا تھا.
صلح حدیبیہ کو نہ صرف دشمنان اسلام نے جنگی اور سیاسی اعتبار سے قابل اعتراض گردانا تھا بلکہ کچھ کمزور ایمان اور ضعیف العقیدہ مسلمانوں اورمنافقین نے بھی یہ جاننے کے باوجود کہ اللہ کے رسول کا کوئی اقدام بغیر وحئ الہی کے انجام نہیں پاتا اس کی حقانیت اوراس کی موثر حکمت عملی پر اپنےشکوک کا اظہار کیا تھا. لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اسکے مثبت نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ اللہ کے رسول کا تدبروتحمل اور حکمت عملی سیاسی ' جنگی اور انسانی اعتبار سے کتنے موثر اور کارگر ثابت ہوئے جن کو دیکھ کر وہیمخالفین انگشت بدنداں رہ گئے. اس واقعہ کے کچھ ہی عرصے بعد فتح مکہ کے موقعہ پر یہی کفار قریش جو صلح نامہ پر حضور کے نام کے ساتھ رسول اللہ لکھوانا پسند نہیں کررہے تھے وہی اب حضور کے سامنے اسی مکہ میں رہنے کے لئے امان مانگتے ہوئے گڑگڑا رہے تھے. اسی لئے اللہ کے رسول کےاس دلیرانہ اقدام کو اللہ تعالی نے اسکی تصدیق میں سورہ الفتح نازل کرکے اسے " فتح مبین" سے تعبیر فرمایا.
ازل سے ہی جنگی حالات میں کسی فریق کی جانب سے اپنے حریف کو صلح کی پیش کش اسکے پرخلوص جذبئہ امن و آشتی اور ھمدردانہ تحفظ انسانیت کے ھدف کو نظر انداز کرتے ہوئے اسکی مادی کمزوری' قلت وسائل اور اسکی متوقع شکست کے احتمال پر محمول قرار دی جاتی رہی ہے. یہی صورت حال امام حسن علیہ السلام کے ساتھ صلح کرتے وقت پیش آرہی تھی.
امام حسن علیہ السلام کے متعلق مشہور حدیث نبوی ہے : " الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنتہ" ( حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں ) دوسری متفقہ علیہ روایت میں ہے کہ آںحضرت فرمایا کرتے تھے " حسن میں خدا نے ہیبت اور سرداری اور حسین میں جرائت و ہمت ودیعت کی ہے "
تو جب نواسہ رسول کو آللہ کے رسول کی دی ہوئی سرداری کی سند دی جاچکی ہے تو اب انکی قیادت اور ہدایت پر کوئی شک کرنا گویا خود رسول کریم پر شک کرنا تصور کیا جائیگا جو ماضی میں کچھ مسلمان پہلے ہی کرچکے ہیں.
ممکن ہے تاریخی واقعات کو سطحی نظر سے دیکھنے والے کچھ حضرات کو یہ بات قابل قبول نہ ہو کہ حضور ص نے کفار قریش کی ہر شرط مانتے ہوئے نہ صرف دشمن کے سامنے معازاللہ ہتھیار ڈالدئے بلکہ بغیر مکہ میں داخل ہوئے اور عمرہ ادا کئے ہوئے مدینہ واپس آکر اپنا اس سفر کا مقصد بھی حاصل نہیں کیا. تو پھر یہ صلح نامہ کس طرح مسلمانوں کے لئے قابل تقلید عمل کہا جاسکتا ہے. مگر فرزند رسول حضرت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کرکے اپنے جد کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے یہ بات دہرا دی کہ امن او آشتی اور دین اسلام کے تحفظ کی خاطر وقتی ذاتی نقصانات مقدم نہیں رکھے جاتے.
مقام صلح جو مکہ کے قریب تھا کے پیش نظر صلح حدیبیہ کا نامصلح مکہ ہونا چاہئے تھا مگر اس کو حدیبیہ کا نام دیکر اللہ اور اسکے رسول نے تاقیامت آنے والے مسلمانوں کو یہ بات واضح کردی ہے کہ رسول اللہ نے اس صلح سے قبل حدیبیہ پر جو مکہ کے قریب ایک کنواں کا نام تھا تمام آصحاب سے بیعت لی تھی جسے تاریخ میں بیعت الرضوان سے جانا جاتا ہے. اب اس بیعت کے بعد کسی صحابی کو رسول اللہ ص کے کسی اقدام پر شک یا اعتراض کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں تھی مگر لوگوں نے بیعت کا احترام نہ کرتے ہوئے اس اقدام کی مخالفت کی تھی. یہ ہی صورت حال امام حسن علییہ السلام کی صلح کے فیصلہ کے وقت موجود تھی. اپنے پدر بزرگوار امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی 21رمضان سنہ 40 ھجری کو شھادت کے فورا" بعد مسجد کوفہ میں اکابر صحابہ کی موجودگی میں ہزاروں لوگوں نے امام کے ہاتھ پر بیعت کی. ان اکابر صحابہ کو امام حسن علیہ السلام کی رسول خدا ص سے قربت اورنسبت کا بخوبی علم تھا اور وہ ان کی عظمت سے واقف بھی تھے. اکثر صحابہ کرام تو ان واقعات کے چشم دید گواہ بھی تھے جب رسول کریم نے امام حسن کے حالت سجدہ میں پشت پر آجانے کے سبب اپنے سجدے کو طول دیدیا تھا. ان لوگوں نے وہ منظر بھی دیکھا تھا کہ جب آںحضرت کے خطبہ کے دوران امام حسن کا پاوں عبا میں الجھ گیا تھا اور آپ گر گئے تھے تب رسول کریم ص نے اپنا خطبہ روک کر امام حسن علیہ السلام کو اپنی گود میں آٹھا کر پیار کیا تھا. اتنے عظیم صحابہ کی موجودگی میں ہونے والی امام کے ہاتھ پر بیعت کے بعد انہیں لوگوں نے معاویہ کی فوج کے سامنے دنیاوی لالچ میں اس بیعت کو توڑ دیا اور امام کو تن تنہا میدان میں چھوڑ کر چلے گئے.لوگوں کی امام سے اس عہد شکنی کے بعد باطل قوتوں کے چہرے سے نقاب اتر چکی تھی اور اب جہاد اکبر کے لئے ماحول سازگار ہونے لگا تھا. گویا امام حسن علیہ السلام کی یہ قربانی دین کی حفاظت کے لئے سپر بنی ہوئی تھی.
اسی لئے دونوں صلحوں کے بعد دین اسلام کو جو فتح و کامرانی اور سرخ روئی نصیب ہوئی وہ دین اسلام کی صلح جوئ اوراورامن وآشتی قائم رکھنے کی پالیسی کی تائید کرتی ہیں.
کچھ لوگ جنھیں یا تو امام کی معرفت نہیں ہے یا وہ ان جھوٹی روایتوں اور تبصروں پر یقین کرتے ہیں کہ جو معاویہ کے دور میں پیسے دے کر لکھوائ جاتی تھیں امام پر معترض ہوتے ہیں کہ انھوں نے معاویہ سے صلح کیوں کی تھی باوجود اس کے کہ وہ منصب خلافت پر تھے جبکہ امام حسین علیہ السلام نےباوجود قلت افراد کے جہاد بالسیف کیا.
اس صورت حال کی سب سے بڑی وجہ تو یہ تھی کہ بظاہرساتھ دینے والے لوگوں نے امام حسن علیہ السلام سے بیعت کرکے دنیاوی دولت اور حکومت کے بدلے بیعت توڑ دی تھی. نہ صرف لوگوں نے ساتھ چھوڑا بلکہ امیر شام کی سازشوں میں شریک ہوکر اپ کی جان کے دشمن بھی ہوگئے. اور جب امام نے حالات کے مطابق اور جنگ و جدال میں انسانی جانوں کو بچانے کی خاطر معاویہ سے صلح کرلی تو بعد میں وہی لوگ معاویہ کی ان سازشوں میں بھی شریک ہوگئے جن سے امام کی شان میں کھلےعام گستاخیاں کی جارہی تھیں اوراپکی مسلسل کردار کشی بھی کی جارہی تھی. لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی امام نے اپنی شھادت تک صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور جنگ سے پرہیز کیا. تاریخی واقعات شاہد ہیں کہ اپنی پوری دس سالہ دور امامت میں امام اپنے باوفا اصحاب اور رفقا اور عزیزوں کو برابر صبر وتحمل کی تلقین فرماتے رہے کیونکہ وقت کی مصلحت یہ تھی کہ دشمن کی سازشوں میں نہ آتے ہوئے اس وقت کسے جھگڑے میں شامل نہ ہوا جائے اور آنے والے وقت میں کربلا کے میدان میں جہاد اکبر کا انتظار کیا جائے.
امام حسن علیہ السلام کی صلح سے متعلق تاریخی حقائق اورعقلی دلائل کا تجزیہ کرنے سے قبل یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ قول وعمل میں حسنین علیھم السلام کے درمیان کوئ فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں رسول خدا کے بیٹے ہیں اور دونوں ہی رسول خدا' علی مرتضی ع اور سیدہ کونین کے پرروردہ ہیں. دونوں حکم خدا و رسول کے پابند تھے جن کا وہ دونوں ہی اجرا اور بقا چاہتے تھے. اب اگر یہ مقصد صلح کرنے سے حاصل ہوتا ہے تو صلح کرینگے اور اگر جنگ کرنے سے حاصل ہوتا ہے تو یہ جنگ کرینگے. اس لئے اگر امام حسن ع کے سامنے وہی حالات ہوتے جو امام حسین ع کو درپیش تھے تو وہ بھی اسی طرح جہاد کرتے جس طرح امام حسین ع نے کیا. اوراسی طرح امام حسین ع بھی صلح کرتے جس طرح امام حسن نے کی. دونوں کے موقف میں یکسانیت کی اس سے بڑی تاریخی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ امام حسین ع کے ساتھ کربلا میں آنے والے اعزا اور آصحاب میں سے کس ایک نے بھی کسی مقام پر بے انتہا مصیبتیں برداشت کرنے کے باوجود بھی امام کو صلح کرنے کی صلاح نہیں دی حتی کہ کمسن بچوں نے بھی باوجود شدت پیاس کے ایک لمحہ کے لئے بھی یہ شکوہ نہیں کیا کہ ہماری یہ مصیبت کب اور کس طرح ختم ہوگی. اور صرف یہی نہیں بلکہ امام حسن ع کے ساتھ بھی نہ صرف خود امام حسین ع اور انکی اولاد اور حضرت عباس جیسے جری موجود تھے جو انکی صلح میں شریک تھے بلکہ انھوں نے امام کی آطاعت اور صلح نامہ کی شرائط کے مطابق بیعت یزید کے سوال تک صلح نامہ کی سختی سے پابندی کی. معرکتہ کربلا میں تمام اولاد امام حسن علیہ السلام اپنے چچا کے ساتھ اپنی شھادت پیش کرتے نظرآتے ہیں.
اسی لئے صلح کا وہ دور دراصل باطل طاقتوں کے لئے وہ مہلت تھی جس کے ختم ہوجانے پرایک جانب حق و باطل میں ایک واضح فرق نظر آنے لگا تودوسری جانب باطل نے بھی حق کو للکارتے ہوئے بیعت کا مطالبہ کیا جس کے بعد اب سوائے جنگ کے اور کوئ چارا باقی نہ تھا.
تاریخ اسلام میں نانا اور نواسے کی ان دو اہم صلحوں کے بعد دین اسلام کو ملی کامیابیاں اور انکے مثبت اثرات اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ صلح جوئدین اسلام کا اک اہم رکن ہے.
※※※※※※※※※※※※※※※