مولانا سید حیدر عباس دانش
کربلا تاریخی کتب کا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک ایسا مکتبۂ فکر ہے جس سے عبادت،شجاعت،حریت،آزادی،صبر،استقلال،جوانمردی،ایثار وقربانی اورعفت جیسے دیگر انسانی اقدار ملتے ہیں۔بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کربلا کو آئینہ کی نگاہ سے دیکھیں تا کہ سید الشہداء حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کا مقصد باقی رہے اور ہم خود کو سچا حسینی کہنے کے حقدار قرار پائیں۔ذیل میں تاریخی اعتبار سے کربلا قارئین کے لئے پیش خدمت ہے:
دوم محرم:
سرزمین کربلا پر سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام بروز جمعرات ۲؍محرم الحرام ۶۱ ھ۔ق میں وارد ہوئے ۔(۱)ابو اسحاق اسفراینی نے ذکرکیا امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے ساتھ تھے کہ آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں کچھ لوگ زندگی بسر کرتے تھے،امام عالی مقام نے اس سرزمین کا نام دریافت کیا۔جواب ملا:اسے ’’شط فرات ‘‘کہتے ہیں ۔امامؑ نے پوچھا:کیا اس کا اور بھی نام ہے؟جواب دیا:اسے ’’کربلا‘‘کہتے ہیں ۔اس کے بعد امام عالیمقام نے گریہ کیا اور فرمایا:’’خدا کی قسم!یہ زمین کرب وبلا ہے۔‘‘امام نے سرزمین کربلا کی خاک ایک مشت میں رکھا اور اپنے پاس سے دوسری مشت سے خاک نکالی،اس کے بعد فرمایا:’’یہ وہ خاک ہے جسے جبرئیل پروردگار کی جانب سے میرے نانا رسول خدا کے پاس سے لائے تھے اور فرمایا تھا کہ یہ خاک حسین ابن علی علیہ السلام کی تربت کی خاک ہے اس کے بعد آپ نے فرمایا:ان دونوں مٹھیوں میں موجود خاک کی خوشبو ایک ہی ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں نقل ہوا ہے کہ امام ؑ نے کربلا کا نام سننے کے بعد فرمایا:’’یہیں پر رُکو اور آگے نہ بڑھو۔‘‘اس کے بعد امام ؑ کے اصحاب اپنی اپنی سواریوں سے اترے،سامان اتارا اور اہل حرم اترے۔(۲)
آج ہی کے دن حر ابن یزید ریاحی نے عبید اللہ ابن زیاد کو خط لکھ کر امام حسین علیہ السلام کے کربلا آنے کی خبر دی ۔(۳)
سوم محرم:
امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کے ایک دن بعد یعنی تیسری محرم الحرام کو عمر ابن سعداہل کوفہ سے چار ہزار فوجیوں کے ہمراہ کربلا پہنچا۔(۴)بعض مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ بنو زہرہ یعنی قبیلۂ عمر ابن سعد کے افراد اس کے پاس آئے اور اس کو خدا کی قسم دینے کے بعد اس سے درخواست کی کہ اس بات کا خیال ذہن سے نکال دو اور حسین نواسۂ رسول ؐ سے جنگ کا ارادہ بدل دو کیونکہ اس سے ہم میں اور بنی ہاشم میں دشمنی پیدا ہوجائے گی۔عمر بن سعد نے عبید اللہ بن زیاد کے پاس جاکر استعفیٰ دیا لیکن اس نے عمر کے استعفیٰ کو نامنظور قرار دیا اور پھر وہ اس کے سامنے سرتسلیم خم کر بیٹھا۔(۵)
بعغ دیگر مؤرخین نے تحریر کیاکہ عمر بن سعد کے دو بیٹے تھے ،ایک کا نام حفص تھا جو امام سے مقاتلہ کی تشویق وترغیب کر رہا تھا لیکن دوسرا بیٹا سختی سے اپنے باپ کو امام ؑ سے جنگ کی نہی کر رہا تھا۔آخر کار حفص اپنے باپ کے ساتھ کربلا کی طرف چل پڑا۔(۶)
چہارم محرم:
آج کے دن عبید اللہ بن زیاد نے لوگوں کو مسجد کوفہ میں جمع کیا اور منبر پر جانے کے بعد کہا:اے لوگو!تم نے آل ابوسفیان کو آزمایا اور انہیں اپنے من مطابق پایا اور یزید کو تم سب اچھی طرح پہچانتے ہو کہ حسن اخلاق کا مالک ہے اور وہ اپنے ما تحت پر احسان کرتا ہے اور اس کے عطایا و ہدایا بجا ہیں ،اس کا باپ بھی ایسا ہی تھا اور اب یزید نے حکم دیا کہ تم لوگوں کو ہدایا و عطایا زیادہ دوں اور اس نے کچھ پیسے بھیجے ہیں جو تمہارے درمیان تقسیم ہونے ہیں اور تم لوگوں کو اس کے دشمن حسین سے جنگ کے لئے روانہ کروں ،ان باتوں کو غور سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔اس کے بعد وہ منبر سے اترا اور اس نے اہل شام کے لئے بھی کچھ عطایا وہدایا معین کئے اور حکم دیا کہ پورے شہر میں منادی کر دی جائے کہ لوگ حرکت کرنے کے لئے آمادہ ہو جائیں ،خود اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نخیلہ کی جانب حرکت کی اور حصین بن نمیر،شیث بن ربعی اور شمر بن ذی الجوشن کو کربلا کی جانب روانہ کیا تا کہ یہ لوگ عمر بن سعد کی کربلا میں حسین سے جنگ کے موقع پر مدد کریں۔(۷)عمر بن سعد کے میدان کربلا کی طرف کوچ کرنے کے بعد شمر بن ذی الجوشن پہلا شخص تھا کہ جس نے چار ہزار تجربہ کار فوجیوں کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کی آمادگی ظاہر کی اور اس کے بعد یزید بن رکاب کلبی دو ہزار لوگوں کے ساتھ ،حصین بن نمیرچار ہزار لوگوں کی معیت میں،مضایر بن رھینۂ مازینہ تین ہزار لوگوں کے ہمراہ اور نصر بن حرثمہ دو ہزار لوگوں کو لے کر (کہ جن کی کل تعداد تیس ہزار افراد پر مشتمل تھی)کربلا کی جانب چلے۔(۸)
پنجم محرم:
آج کا دن جو کہ اتوار کا دن تھا ،عبید اللہ ابن زیاد نے ایک شخص کو شیث بن ربعی کی تلاش میں بھیجا کہ وہ دار الامارہ پہنچے ۔شیث نے بیماری کا بہانہ کیاا ور اس کی خواہش یہ تھی کہ ابن زیاد اسے کربلا نہ بھیجے لیکن عبید اللہ نے اس کے پاس پیغام بھیجوایا کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ تم ان لوگوں میں سے قرار پائو جن کے بارے میں خدا نے قرآن میں فرمایا:جب مومنین کے پاس پہنچتے ہیں کہتے ہیں ہم ایمان لانے والوں میں سے ہیں اور جب کہ اپنے دوستوں (جو کہ شیاطین ہیں)کے پاس جاتے ہیں کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ،ہم تو مومنین کا مضحکہ اڑاتے ہیں ۔(۹)اور اسے یاد دہانی کرائی کہ اگر ہمارے فرمانبردار ہو اور ہماری اطاعت کرتے ہو تو تمہیں ہمارے پاس حاضر ہونا پڑے گا ۔شیث بن ربعی رات میں ابن زیاد کے پاس آیا تا کہ وہ اس کے چہرے کے رنگ کو بخوبی نہ پہچان سکے،ابن زیاد نے اسے داد وتحسین سے نوازا اور اپنے برابر میں جگہ دی اور کہا:تمہیں کربلا جانا ہوگا اس نے قبول کر لیا۔عبید اللہ نے اس کے ہمراہ ہزار سوار روانہ کئے۔(۱۰)اس کے بعد عبید اللہ نے زمر بن قیس نامی شخص کو پانچ سو سواروں کے ہمراہ صراط نامی پر پر بھیجا تا کہ وہ کوفہ سے امام حسین علیہ السلام کی مدد کرنے والوں کو کربلا جانے سے روکے ۔عامر بن ابی سلامہ نامی ایک شخص صراط نامی ایک پل پر پہنچا جو امام ؑ کی نصرت کے لئے جارہاتھا ۔زہیر بن قیس نے اسے روکا کہ ہمیں معلوم ہے کہ تم کس ارادے سے باہر نکلے ہو ،واپس چلے جائو لیکن عامر اس کے سپاہیوں پر حملہ آور ہوئے اور لشکر کے درمیان سے چل دئیے کوئی بھی ان کا پیچھا نہ کرسکا ۔عامر کربلا پہنچ کر امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہوئے اور شہادت کے عظیم درجہ پر فائز ہوئے ۔آپ امیر المؤمنین کے باوفا اصحاب میں سے ہیں ،آپ نے امام علی علیہ السلام کے ہم رکاب ہو کر متعدد جنگوں میں دشمنوں سے برسرپیکار ہونے کا شرف حاصل کیا۔(۱۱)
ششم محرم:
آج کے دن عبید اللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کو ایک خط لکھا کہ میں نے لشکر کی کثرت (سوار وپیادے اور دیگر وسائل)میں کوئی کمی نہیں کی ہے ۔تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میرے پاس تمہارے ہر شب وروز کی کارکردگی رپورٹ آتی ہے ۔
ہفتم محرم:
آج کے دن عبید اللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کے پاس ایک خط بھیجا اور اسے حکم دیا کہ وہ اپنے سپاہیوں کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام آپ کے اصحاب اور نہر فرات کے درمیان فاصلہ قائم کر دے اور امام کو ایک قطرہ پانی بھی پینے کی اجازت نہ دے بالکل اسی طرح جیسے عثمان بن عفان کو پانی پینے کی اجازت نہیں دی گئی۔(۱۳)عمر بن سعد نے بھی فوراً عمرو بن حجاج کو پانچ سو سوارکے ساتھ نہر فرات کے کنارے مستقر کیا یہ لوگ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کے لئے پانی پینے میں مانع ہوئے ،یہ غیر انسانی کردار امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے تین روز قبل انجام پایا ۔اسی موقع پر عبید اللہ بن حصین ازدی نامی ایک شخص نے با آواز بلند کہا:اے حسین!اس پانی کو اب تم آسمانی رنگ میں نہیں پائو گے ،خدا کی قسم! اس نہر کا ایک قطرہ نہیں پی سکو گے یہاں تک کہ پیاس سے جان دے دو۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:خدایا!اسے پیاس سے موت دے ،اس شخص کو ہرگز اپنی مشمول رحمت قرار مت دینا۔
حمید بن مسلم کہتا ہے:خدا کی قسم!اس گفتگو کے بعد میں ا س کے دیدار کے لئے گیا جبکہ وہ بیمار تھا ،قسم اس خدا کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے دیکھا کہ عبید اللہ بن حصین اتنا پانی پیتا تھا کہ اس کا پیٹ پھول جاتا تھا پھر وہ چلاتا تھا:العطش،پھر پانی پیتا تھا لیکن پھر بھی سیراب نہ ہوتا تھا ۔اسی حالت میں اس کی موت ہوگئی۔(۱۴)
ہشتم محرم:
کربلا میں اصحاب ،انصار و اعزاء امام حسین علیہ السلام کی پیاس روز بروز بڑھتی جا رہی تھی ،مخصوصاً بچوں کے لئے پیاس کا برداشت کرنا ایک ناممکن امر تھا۔اصحاب امام حسین علیہ السلام میں ایک صحابی جناب یزید بن حصین ہمدانی (جو کہ اپنے زہد،تقویٰ اور عبادت میں مشہور روزگار تھے)امام عالی مقام کی خدمت میں آنے کے بعد فرماتے ہیں:مولا!مجھے عمر بن سعد کے پاس جانے کی اجازت دیجئے تا کہ میں پانی کے سلسلہ میں اس سے گفتگو کروں ،شاید وہ اپنا ارادہ بدل دے ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:اس بارے میں تم خود مختار ہو ۔
وہ عمر بن سعد کے خیمہ میں بغیر سلام کئے داخل ہوئے،عمر بن سعد نے کہا:اے ہمدان کے رہنے والے!کس سبب تم نے مجھے سلام نہیں کیا؟کیا میں مسلمان نہیں ہوں؟اور کیا میں خدا اور اس کے رسول پر ایمان نہیں رکھتا ہوں؟!
امام عالیمقام کے اس صحابی نے فرمایا:اگر تجھے خود کو مسلمان ہونے کا گمان ہے تو کیوں خاندان نبوت کو قتل کرنے کے در پے ہو؟آب فرات جسے جانور تک پیتے ہیں کیوں ان پر بند کر رکھا ہے؟ان سب چیزوں کے باوجود گمان کرتے ہو کہ کدا اور اس کے رسولؐ کی معرفت رکھتے ہو!!
عمر بن سعد اپنے سر کو نیچے جھکا کر کہتا ہے :اے ہمدان کے رہنے والے!مجھے معلوم ہے کہ اس خاندان کو اذیت پہنچانا حرام ہے ۔لیکن عبید اللہ بن زیاد نے مجھے اس کام پر مجبور کیا ہے۔میں اپنی زندگی کے عجیب موڑ پر ہوں ،مجھے نہیں سمجھ آرہا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟!کیا شہر رے کی حکومت ٹھکرا دوں،ایسی حکومت کہ جس کی لالچ میں گرفتار ہوں؟!یا یہ کہ حسین ابن علی علیہ السلام کا کون کر کے اپنا ہاتھ آلودہ کروں جبکہ مجھے معلوم ہے کہ اس کام کا نتیجہ جہنم ہے ۔لیکن شہر ری کی حکومت میری آنکھوں کی بصارت کے مانند ہے ۔اے ہمدان کے رہنے والے!مین اپنے اندر حکومت شہر ری کو ٹھوکر مار کر اس عفو ودرگزر کو نہیں پاتا ہوں!!یزید بن حصین ہمدانی واپس آکر امام عالی مقام سے عرض کرتے ہیں:مولا!میری اور عمر بن سعد کی یہ گفتگو ہوئی ہے ۔میں نے اس گفتگو سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عمر بن سعد حکومت شہر ری حاصل کرنے کی لالچ میں آپ کو قتل کردے گا۔(۱۵)
نہم محرم:
عبید اللہ بن زیاد اور عمر بن سعد کے درمیان خط وکتابت جاری تھی ۔۹؍محرم کو شمر نے عبید اللہ بن زیاد سے خط لیا اور اپنے کو نخیلہ سے ۹؍ محرم الحرام بروز پنجشنبہ قبل از ظہر تیزی سے کربلا پہنچایا اور پھر اس نے عبید اللہ بن زیاد کا کط عمر بن سعد کے لئے پڑھا ۔ابن سعد نے شمر سے کہا:وائے ہو تم پر!تمہارا خانہ خراب ہو۔کتنا برا پیغام میرے لئے لے کرآئے ہو ،خد اکی قسم!تم نے عبید اللہ کو اس چیز کے قبول کرنے سے روک دیا جو میں نے اسے لکھا تھا،تم نے کام خراب کر دیا ۔میں منتظر تھا کہ یہ کام صلح کرکے ختم ہو جائے۔خدا کی قسم!حسین تسلیم ہونے والے نہیں ہیں۔کیونکہ ان کے والد کی روح ان کی روح میں ہے ۔شمر نے اس سے کہا:بتائو کہ کیا کہنا چاہتے ہو؟کیا تم امیر کی اطاعت کروگے اور ان کے دشمن سے جنگ کروگے یا پھر پیچھے ہوگے اور مجھے لشکر کی ذمہ داری اپنے سر لینی پڑے گی؟عمر بن سعد نے کہا:لشکر کی ذمہ داری تمہیں نہیں سونپوں گا ،تمہیں اس کام کے لائق نہیں پاتا ،میں خود اس کام کو انجام تک پہنچائوں گا ۔تم پیادہ فوج کی ذمہ داری قبول کرو۔آخر کار عمر بن سعد نے بروز پنجشنبہ نویں محرم الحرام شام کے وقت اپنے آپ کو جنگ کے لئے آمادہ کر لیا ۔(۱۶)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:نویں محرم کا دن وہ ہے جس دن امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کو محاصرہ میں لے لیا اور شام وکوفہ کے لشکر نے آپ کو اپنے درمیان لے لیا۔اب مرجانہ اور عمر بن سعد کی زیادتی کی بنا پر فخر ومسرت کا اظہار کر رہے تھے ۔آج ہی کے دن ان دشمنوں نے حسینؑ کو تنہا اور غریب الدیار پایا اور وہ یہ جان گئے کہ اب کوئی یاور وناصر حسینؑ کے لئے آنے والا نہیں ہے،اہل عراق ان کی مدد کرنے والے نہیں ہیں،پھر امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:میرے باپ فدا ہوں اس ذات پر کہ جسے تنہا چھوڑا گیا اور اسے کمزور بنانے کی ناکام کوشش کی جاتی رہی۔(۱۷)
حوالہ جات:
(۱)الامام الحسین واصحابہ:ص؍۱۹۴؛البدء والتاریخ،ج؍۶،ص؍۱۰
(۲)لہوف:ص؍۳۵
(۴)الارشاد شیخ مفیدؒ،ج؍۲،ص؍۸۴
(۵)طبقات ابن سعد:ترجمہ امام حسینؑ،ص؍۶۹
(۶)مجمع البحرین:ج؍۵،ص؍۴۶۱،لغت کربل
(۷)الاخبار الطوال:ص۲۵۴۳
(۸)بحار الانوار:ج؍۴۴،ص؍۳۸۶
(۹)واذا لقوا الذین آمنوا قالوا آمنا واذا خلو الیٰ شیاطینھم قالوا انا معکم انما نحن مستھزئون۔(سورۂ بقرہ؍۱۴)
(۱۰)عوالم العلوم:ج؍۱۷،ص؍۲۳۷
(۱۱)مقتل الحسینؑ مقرم:ص؍۹۹
(۱۲)بحار الانوار،ج؍۴۴،ص۳۸۷۳
(۱۳)انساب الاشراف،ج؍۲،ص؍۸۶
(۱۴)ارشاد شیخ مفیدؒ:ج؍۲،ص؍۸۶
(۱۵)کشف الغمہ:ج؍۲،ص؍۴۷
(۱۶)ارشاد شیخ مفیدؒ:ج؍۲،ص؍۸۹
(۱۷)سفینۃ البحار:ج؍۲،ص؍۱۲۳،کلمہ تسع