کائنات کے دفترِ حیات میں اگر کوئی سطر سب سے روشن ہے تو وہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام ہے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو یہ داستان ادھوری رہتی، یہ تخلیق بے معنی رہتی، یہ آسمان و زمین محض خاموش گواہ ہوتے اور لوح و قلم بے مصرف۔
وہی محمدؐ ہیں جن کی آمد سے تاریخ کا دھارا بدل گیا۔ وہی محمدؐ ہیں جن کے نور سے صحرائے عرب کے اندھیرے دور ہوئے۔ وہی محمدؐ ہیں جنہوں نے انسان کو انسانیت سکھائی اور غلام کو آزادی کا تصور دیا۔
مدینہ کی خاک آپؐ کے قدموں سے متبرک ہوئی۔ حرا کی تنہائی آپؐ کی تجلی سے جگمگائی۔ فرشتے آپؐ کی دہلیز پر نیاز گزار ہوئے اور جبرئیلِ امین وہ بھی، جو وحی لے کر آتے تھے، آپؐ کے سامنے ادب سے رک گئے۔ قرآن خود گواہی دیتا ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾ (الانبیاء:107)
“ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔”
یہ رحمت محض الفاظ کی لذت نہیں تھی بلکہ ایک انقلابی حقیقت تھی۔ یتیموں کو سہارا ملا، عورت کو عزت ملی، غلام کو آزادی ملی اور مظلوم کو پناہ۔ وہی محمدؐ ہیں جنہوں نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ طاقت کی اصل بنیاد عدل ہے، اور عزت کا سرچشمہ تقویٰ۔
آپؐ کی معراج اس حقیقت کی شہادت ہے کہ جہاں عقل دم توڑ دیتی ہے اور جہاں جبرئیل کے پر جلنے لگتے ہیں، وہاں بھی یہ محبوبِ خدا آگے بڑھتے ہیں۔ ﴿فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى﴾ (النجم:9) — یہ قربت کسی بشر کو نہ ملی، یہ مرتبہ کسی فرشتے کو نہ ملا۔
آج اگر ہم انصاف سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ تاریخ نے بڑے بڑے نام پیدا کیے: سکندر کے لشکر، قیصر و کسریٰ کے محلات، ارسطو و افلاطون کے فلسفے، نیوٹن و آئن اسٹائن کی سائنس — مگر یہ سب ایک گوشے میں کھڑے نظر آتے ہیں اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کے سامنے ایک چراغ کے سامنے آفتاب کی طرح ماند پڑ جاتے ہیں۔
تاریخ کے سارے فاتحین اپنی تلواروں کے زور پر یاد رکھے گئے، لیکن ایک ہستی ہے جو اخلاق کے زور پر دلوں کی سلطنت پر قابض ہوئی۔ باقی سب بادشاہتیں زمین پر تھیں، محمدؐ کی بادشاہت دلوں پر ہے۔
یہ محمدؐ ہیں جن کی ذات میں کعبہ بھی ہے، قبلہ بھی ہے، اور قبلہ نما بھی۔ یہ وہی چراغ ہے جس کے نور سے سارے راستے روشن ہوتے ہیں۔ اگر یہ چراغ نہ ہوتا تو زندگی کی شام کبھی سحر نہ ہوتی۔
اگرچہ فلسفہ نے عقل کو جِلا دی، مگر ضمیر کو بیدار نہ کر سکا؛ اگرچہ سیاست نے سلطنتیں قائم کیں، مگر عدل نہ دے سکی؛ اگرچہ سائنس نے کائنات کے راز کھولے، مگر انسان کے اندر کا انسان نہ پہچانا۔ یہ سب کچھ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا۔
سچ تو یہ ہے کہ جس نے زمین پر انصاف چاہا، وہ محمدؐ کے در کا محتاج ہے؛ جس نے دل میں روشنی چاہی، وہ محمدؐ کے ذکر کا مقروض ہے؛ اور جس نے خدا کو پہچانا، وہ محمدؐ کے وسیلے کے بغیر نہ پہچان سکا۔
پس قصہ مختصر یہ کہ بعد از خدا اگر کسی کو بزرگ کہنا ہے تو وہ صرف محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہے۔ وہی کائنات کی زینت، وہی رسالت کی معراج، وہی انسانیت کی آخری امید ہیں۔
اللھم صل علی محمد و آل محمد۔