فرزند رسول حضرت امام علی نقی علیہ السلام فرماتے ہیں:"اگر کوئي شخص تم سے دوستی کا دم بھرے اور نیک مشورہ دے تو تم اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کی اطاعت کرو".(1)
فرزند رسول حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے والد ماجد حضرت امام محمد تقی علیہ السلام، شیعوں کے نویں امام ہیں اور آپ کی والدہ حضرت سمانہ مغربیہ سلام اللہ علیہا ہیں۔(2)حضرت امام علی نقی علیہ السلام اپنی والدہ کے بارے میں فرماتے ہیں: میری والدہ میری نسبت عارفہ اور بہشتیوں میں سے ہیں، شیطان کبھی بھی آپ کے نزدیک نہیں جا سکتا اور جابروں کے مکر و فریب آپ تک نہیں پہنچ سکتے، آپ خدا وندعالم کی پناہ میں ہیں جو سوتا نہیں اور وہ صدیقین اور صالحین کی ماؤں کو اپنی حالت پر نہیں چھوڑتا"(3)۔ امام علی النقی الھادی علیہ السلام کی ولادت مدینہ منورہ کے ایک گاؤں " صریا " میں ہوئی،صریا مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے جسے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے آباد کیا اور کئی برس تک آپ کی اولاد کا وطن رہا ہے۔حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور آپ کے فرزند ارجمند حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام "عسکریین" کے نام سے بھی مشہور ہیں(4) کیونکہ عباسی خلفاءآپ کو سنہ 233 ہجری قمری میں سامرہ لے گئے اور آخر عمر تک آپ کو وہیں نظر بند رکھا۔(5)آپ کی مشہور کنیت ابوالحسن ہے(6) چونکہ امام موسی کاظم علیہ السلام اور امام علی رضاعلیہ السلام کی کنیت بھی ابوالحسن ہے اسی لئے اشتباہ سے بچنے کے لئے امام کاظم علیہ السلام کو ابوالحسن اول، امام علی رضا علیہ السلام کو ابوالحسن ثانی اور امام علی نقی علیہ السلام کو ابوالحسن ثالث کہا جاتا ہے۔(7)آپ کا اسم گرامی علی اور لقب ،ہادی، نقی ، نجیب ،مرتضی ، ناصح ،عالم ، امین ،مؤتمن ، منتجباور طیب ہیں البتہ ھادی اور نقی معروف ترین القابات میں سے ہیں۔(8)
ماہ ذیقعدہ سن دو سو بیس ہجری میں جب آپ کے والد گرامی" نویں امام" شہید کۓ گۓتو میراث امامت کے اعتبار سے امامت کے منصب پر فائز ہوۓ،شایان ذکر ہے کہ جب امام علی نقی علیہ السلام امامت کے منصب پر فائز ہوۓ توآپ کی عمر آٹھ برسپانچ مہینے سے زیادہ نہ تھی۔(9)آپاپنے والد کی طرح بچپن میں ہی امامت کےعظیم الہی منصب پر فائز ہوۓ،حضرت امام علی نقی علیہ السلام کا دور امامت، عباسی خلفاء معتصم ، واثق، متوکل ،منتصر ،مستعیناور معتز کے ہمعصر تھا۔حضرت امام علی النقی علیہ سلام کے ساتھ عباسی خلفا کا سلوک مختلف رہا البتہ سب کے سب خلافت کو غصب کرنے اور امامت کو چھیننے میں متفق اور ہم عقیدہ تھے،جن میں سے متوکل عباسی، اہل بیت کی نسبت دشمنی رکھنے میں زیادہ مشہور تھا اوراس نے خاندان رسالت کو آزار و اذیت پہچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ، حد تو یہ تھی کہ ائمہ علیہم السلام کیہر یاد گار کو مٹانا چاہتا تھا اس نے اماموں کی قبروں کو مسمار کیا ، خاص کر قبر مطہر سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور اس کے اطراف کے تمام گھروں کو مسمار کرکے وہاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیدیا۔ متوکل نے حضرت امام نقی علیہ السلام کو سن 243 ہجری میں مدینہ منورہ سے نکلوا کر سامرا نقل مکانی کروائی اسطرح آپ کو آپ کےآبائی وطن سے دور کردیا۔
دعا اور زیارت حضرت امام علی نقی علیہ السلام کا ایک ایسا نمایاں کارنامہ ہے جس نے شیعیان اہل بیت علیہم السلام کی تربیت اور انہیں شیعہ معارف و تعلیمات سے روشناس کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ دعائیں اگرچہ ایک طرف سے خدا کے ساتھ راز و نیاز پر مشتمل تھیں تو دوسری جانب مختلف صورتوں میں ایسے سیاسی اور معاشرتی مسائل کی طرف اشارہ بھی کرتی ہیں جو شیعوں کی سیاسی زندگی میں بہت مؤثر رہیں اور منظم انداز سے مخصوص قسم کے مفاہیم کو مذہب شیعہ تک منتقل کرتی رہی ہیں۔
زیارت جامعۂ کبیرہ ائمہ معصومین علیہم السلام کا اہم ترین اور کامل ترین زیارت نامہ ہے جس کے ذریعے آپ سب کی دور یا نزدیک سے زیارت کی جا سکتی ہے۔یہ زیارت نامہ شیعیان اہل بیت علیہم السلام کی درخواست پر حضرت امام ہادی علیہ السلام کی طرف سے صادر ہوا۔ (10)زیارت نامے کے مضامین حقیقت میں ائمہ علیہ السلام کے بارے میں شیعہ عقائد، ائمہ کی منزلت اور ان کی نسبت ان کے پیروکاروں کے فرائض پر مشتمل ہے۔ یہ زیارت نامہ فصیح ترین اور دلنشین ترین عبارات کے ضمن میں امام شناسی کا ایک اعلی درسی نصاب فراہم کرتا ہے۔ زیارت جامعہ حقیقت میں عقیدۂ امامت کے مختلف پہلؤوں کی ایک اعلی اور بلیغ توصیف ہے۔(11)
حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو سامرا " عباسیوں کے دار الخلافہ" میں 11 برس ایک فوجی چھاؤنی میں قید اور اس دوران مکمل طور لوگوں کے ساتھ ملاقات کرنے سے محروم رکھا گیا۔سامرا پہنچنے پر امام ہادی علیہ السلام کا عوامی سطح پر بہت زیادہ خیر مقدم کیا گیا اور آپ کو خزیمہ بن حازم کے گھر میں رکھایا گيا۔(12)مشہور محدث و فقیہ شیخ مفید علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ : سامرا میں پہنچنے کے پہلے روز متوکل نے حکم دیا کہ آپ کو تین دن تک "دار الصَّعَالِيكِ" میں رکھاجائے اور اس کے بعد آپ کو اس مکان میں منتقل کیا گیا جو آپ کی سکونت کے لئے معین کیا گیا تھا۔ صالح بن سعید کی روایت کے مطابق متوکل نے یہ اقدامات امام علیہ السلام کی تحقیر کی غرض سے کیا تھا۔(13)
حضرت امام علی نقی علیہ السلام آخر عمر تک اسی شہر میں مقیم رہے۔ علامہ شیخ مفید علیہ الرحمہ سامرا میں امام علیہ السلام کے جبری قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ: خلیفہ بظاہر امام علیہ السلام کی تعظیم و تکریم کرتا تھا لیکن درپردہ آپ کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا تھا گو کہ وہ کبھی بھی ان سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکا۔حضرت امام علی نقی علیہ السلام سامرا میں اس قدر صاحب عظمت و رأفت تھے کہ سب آپ کے سامنے سر تعظیم خم کرتے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کے سامنے منکسرالمزاجی کا اظہار کرتے اور آپ کا احترام کرتے تھے۔امام علیہ السلام سامرا میں جبری اقامت بیس برس اور نو ماہ کی مدت کے دوران ظاہری طور پر آرام کی زندگی گزار رہے تھے مگر متوکل آپ کو اپنے درباریوں میں لانا چاہتا تھا تا کہ اس طرح وہ امام علیہ السلام کی مکمل نگرانی و جاسوسی کر سکے نیز لوگوں کے درمیان امام کے مقام کو گرا دے۔(14)
آخر کار تین رجب المرجب سن 254 ہجری قمری میں معتز عباسی کی خلافت کے دور میں خلیفہ کے بھائی معتمد عباسی کے ہاتھوں زہر دے کر آپ کوشہید کرادیا گیا،(15)شہادت کے وقت آپ کے سرہانے انکے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے سوا کوئي نہ تھا. حضرت امام علی نقی علیہ السلام کا جنازہ نہایت شان سے اٹھا اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے چاہنےوالوں ، فقہا ، قاضیوں، دبیروں اور امیروں کے علاوہ خلیفہ کے دربار کے بزرگوں نے شرکت کی اور امام علیہ السلام کوآپ کے حجرہ میں دفن کردیاگیا،اس وقت آپ کا مرقد مطہر عراق کے شہر سامرا میں ہے جھاں آپ کے جوار میں آپکے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام ، آپ کی بہن حکیمہ خاتون ، امام محمد تقی علیہ السلام کی دختر گرامی کے علاوہ حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ شریف کی والدہ ماجدہ حضرت نرگس خاتون سلام اللہ علیہا بھی دفن ہیں.(17)
سامعین ہم اپنے اس مختصرمقالے کو امام علیہ السلام کے ایک نورانی کلام پر ختم کرتے ہیں جس میں امام علیہ السلام فرماتےہیں: جس پر تمہارا تسلط نہیں اس پر غصہ ہونا عاجزی ہے اور جس پر تسلط ہے اس پر غصہ ہونا پستی ہے۔ ()
حوالہ جات
1۔تحفالعقول،ص483
2۔ الارشاد ص 635، بحارالانوار ج 50 ص 115 ،حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ ص 499
3۔اعلام الوری ص 355 ، الارشاد ص 327
4۔ تذکرۃ الخواص ج 2 ص ،492 حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ ص 500
5۔ ۔ تذکرۃالخواصج 2 ص 493، معانی الاخبار ص 65
6۔ مناقب اربلی ج 4 ص 432
7۔ اعلام الوری ص 355، بحارالانوار ج 50 ص 113
8۔ مناقباربلیج 4 ص 432 ، مناقب آل ابی طالب ج 4 ص 401 ، منتہی الآمال ج 3 ص 834
9۔ اصول کافی ج 1 ص 381 ، سیرہ پیشوایان ص 595
10۔ زاد المعاد ص 301 ، التہذيب ج 6 ص 96 ، من لا یحضرہ الفقیہ ج 2 ص 610
11۔ بحارالانوار ج 8 ص 666، ابن بابویہ ج 2 ص610
12۔اثابت الوصیہ ص 200
13۔ الارشاد ص 468
14۔ اعلام الوری ج2 ص 126
(15)سیرہ پیشوایان ص567، فرق الشیعہ ص 134 ، منتخب التواریخ ص 705 ، دلائل الامامۃ ص 409
16۔ کشف الغمہ ص 40
17۔کشفالغمہص 40
18۔مستدركالوسائل ج12،ص11،ح61337