مولاناسید حیدر عباس رضوی
بی بی دوعالم،مریم کبریٰ،حوراء انسیہ،بتول وعذرا،نکتۂ پرکار اصحاب کساء،مدافع حریم ولایت عظمیٰ،مادر قتیل نینوا،شجنۃ المصطفیٰ،مبلغۂ ولایت عظمیٰ،ام ابیہا،ام الأئمہ،صدیقۂ کبریٰ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات والا صفات میں تمام صفات حسنہ پائے جاتے ہیں۔آج کے اس پر آشوب دور میں معصومۂ عالمیان کے معصوم لبوں کی جنبش سے نکلنے والے کلمات ہم عاشقان اہلبیت اطہار علیہم السلام کے لئے بالخصوص اور دیگر تمام دنیائے انسانیت کے لئے بالعموم جادۂ ہدایت اور مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔مندرجہ ذیل سطور میں آپ بی بی زہرا سلام اللہ علیہا کے بعض ارشادات وفرمودات کا مطالعہ فرمائیں گے۔امید کہ ہم سب ان اقوال کی روشنی میں زندگی بسر کرتے ہوئے اپنا معاشرہ جنت نظیر بنانے میں ضرور کامیابی حاصل کریں گے ۔انشاء اللہ
حضرت زہرا علیہا السلام کی تین محبوب چیزیں:
حضرت فاطمہ ؑ نے فرمایا:’’تمہاری دنیا میں سے مجھے تین چیزیں پسند ہیں:تلاوت قرآن مجید،رسول اعظم ؐ کے چہرے پر نظرکرنا اور راہ خدا میںخرچ کرنا ۔‘‘(نہج الحیاۃ،ص؍۳)
نکتہ:ہم میں سے بعض نے تلاوت کلام پاک کو صرف ماہ مبارک رمضان سے مخصوص کر دیا ہے جبکہ قرآن کریم اور اہلبیت اطہار علیہم السلام نے تلاوت کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس عظیم عبادت سے دوری کے نتیجہ میں روز قیامت قرآن کریم کی فریاد کے زد میں آ جائیں جبکہ خود مرسل اعظمؐ بھی خدا وند عالم کے سامنے اپنی امت کے لئے گلہ مند ہوں گے کہ انہوں نے قرآن کریم کا دامن چھوڑ دیا تھا۔
نماز کو سبک سمجھنے کی سزا:
حضرت فاطمہؑ فرماتی ہیں:میں نے اپنے والد رسول خدا سے ان عورتوں اور مردوں کے بارے میں پوچھا جو نماز کو سبک سمجھتے ہیں تو آنحضرتؐ نے فرمایا:ہر وہ مرد وزن جو نماز کو سبک شمار کرے خدا وند عالم اسے پندرہ بلائوں میں مبتلا کرتا ہے:
[۱]خدا وند عالم اس کی عمر سے برکت ختم کر دیتا ہے۔
[۲]خدا وند عالم اس کے رزق و روزی سے برکت اٹھا لیتا ہے۔
[۳]خدا وند عالم صالحین کے خصوصیات اس کے چہرے سے محو کر دیتا ہے۔
[۴]اس کے کسی بھی عمل پر سے جزا و ثواب نہیں ملے گا۔
[۵]اس کی دعا بارگاہ خدا وندی میں قبول نہیں ہوگی۔
[۶]اسے صالحین کی دعائوں سے کچھ بھی فائدہ نہیں ملے گا۔
[۷]ذلت ورسوائی کے ساتھ اسے موت آئے گی۔
[۸]بھوکا مرے گا۔
[۹]پیاسا مرے گا۔کچھ اس طرح کہ اسے ایسی تشنگی لاحق ہوگی کہ اگر پوری دنیا مل کر بھی اسے پانی پلائے پھر بھی اس کی پیاس ختم نہیں ہوگی۔
[۱۰]خدا وند عالم ایک فرشتہ کو اس کی قبر میں عذاب پر مامور فرمائے گا۔
[۱۱]اس کی قبر تنگ کر دی جائے گی۔
[۱۲]اس کی قبر تاریک ہوگی۔
[۱۳]خدا وند عالم ایک فرشتہ کو حکم دے گا کہ اسے منھ کے بل زمین پر گھسیٹا جائے جبکہ تمام مخلوقات عالم اس کا نظارہ کر رہی ہوں گی۔
[۱۴]اس کا حساب وکتاب نہایت دشوار ہوگا۔
[۱۵]اور خداوند عالم اس کی طرف نظر نہیں فرمائے گا ،اسے معاف نہیں کرے گا نیز اس کے لئے عذاب شدید ہوگا۔(سخنان گوہربار؍ص۱۲)
ماں کی عظمت ومنزلت:
حضرت فاطمہؑ ماں کی عظمت ومنزلت کے سلسلہ میں فرماتی ہیں:’’ماں کے خدمت گذار بنو کیونکہ جنت ،اس کے قدموں تلے ہے۔‘‘(دلائل الامامۃ،ص؍۲۸)
نکتہ:ماں!کائنات کا حسین ترین کلمہ۔دنیا کی ہر زبان کا پسندیدہ لفظ ماں۔ماں !ایک ایسا وجود جو خود کو پریشانیوں میں مبتلا کر کے اپنے جگر گوشہ کی فکر کرتی اور اسے ہر آن ہر لحظہ اپنی اولاد کی پرواہ ہوتی ہے ۔ماں کے قدموں تلے جنت یعنی ہماری بقا کی ضامن ماں۔اب اگر کوئی ماں جیسی عظیم نعمت کی خدمت سے گریز کرے تو وہ اس کے حق میں ظلم کرنے والا شمار ہوگا اور ظالمین سے خدا وند عالم انتقام لینے والا ہے۔
حیائے فاطمہؑ:
حضرت فاطمہؑ نے فرمایا:’’اے ابوالحسن!مجھے اپنے پروردگار سے حیا محسوس ہوتی ہے کہ میں اس چیز کا آپ سے تقاضا کروں جو آپ کی توان وطاقت سے خارج ہے۔‘‘(نہج الحیاۃ،ص؍۱۶)
نکتہ:آج کی اس زرق وبرق والی دنیا میں بعض نا فہم خواتین کی جانب سے دوسروں کی دیکھا دیکھی کئے جانے وا لے مطالبات اتنے گراں ہوتے ہیں جس کے بوجھ تلے دب کر مرد اپنا سارا سُکھ چین اور اطمینان کھو بیٹھتا ہے نتیجہ میں گھر کا شیرازہ بکھرتا نظر آئے تو تعجب کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے۔اب اگرکسی گھر نامی چھوٹے ادارے میں بے قراری ،نفرت اور حسد و تعصب کے کالے بادل نظر آئیں تو اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔
عقیق کی انگوٹھی:
حضرت فاطمہؑ نے فرمایا:’’عقیق کی انگوٹھی پہننے والا،ہمیشہ خیر ونیکی دیکھے گا۔‘‘(امالی،ج۱۳،ص؍۳۱۸)
نکتہ:مومن کی علامات جب معصوم علیہ السلام نے بیان فرمائیں تو ان میں سے ایک انگوٹھی پہننا بتایا۔روایات کے مطابق قنوت میں اگر عقیق کی جانب نگاہ ہو تو معبود کی بارگاہ میں دعا مستجاب ہوتی ہے۔
حقیقی سعادت مند:
حضرت فاطمہؑ نے فرمایا:’’حقیقی سعید وہ ہے جو علیؑ سے ان کی زندگی میں اور شہادت کے بعد ان سے محبت کرنے والا ہو۔‘‘(کشف الغمہ،ج؍۱،ص۴۵۰)
نکتہ:امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے بغیر تاریخ اسلام کورے کاغذ کے مانند نظر آتی ہے۔خوشا بحال ان کا کہ جو عاشق علی ؑ ہونے کے ساتھ مطیع علیؑ ہیں۔وہ کہ جن کی زندگی کا سرنامہ مولیٰ کے ارشادات و فرمودات قرار پائیں یقیناًفتح و ظفر ہونے ہی نصیب ہوگی کیونکہ محبت کا تقاضا ہی ہے کہ محب ،محبوب کے اشارے پر رقص کرتا ہوا نظر آئے ۔جس چیز کا حکم دے اسے بجا لائے اور جس سے روک دے اسے ترک کر بیٹھے۔
خاتون کے لئے بہترین چیز:
حضرت فاطمہؑ نے فرمایا:’’بتحقیق عورت کے لئے بہترین چیز یہ ہے کہ وہ کسی مرد کو نہ دیکھے اور نہ ہی مرد اسے دیکھے۔‘‘(دعائم الاسلام،ج؍۱،ص؍۲۶۸)
نکتہ:یقینا حضرت کا فرمان ہے کہ عورت کے لئے بہترین زیور حیا و عفت ہے۔نہ دیکھنے کا مطلب یہ کہ خواہشات نفسانی کے لئے دیکھنا گناہ ہے۔آج ترقی کے نام پر بے پردگی کا چلن کھلا چیلنج ہے دنیائے انسانیت کے لئے کہ کیسے عورت کے حقوق پائمال کئے جائیں۔ترقی یافتہ ممالک میں بھی جب خواتین سے پوچھا گیا کہ آپ کہاں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ پاتی ہیں تو اکثر کا جواب تھا گھر کی چہار دیواری میں!!!
روزہ:
حضرت فاطمہؑ نے فرمایا:’’جب روزہ دار اپنی زبان،کان،آنکھ اور دیگر اعضائے بدن کو گناہوںسے نہ بچائے تو اس کے روزے کا کیا فائدہ؟!‘‘(شفیعۂ محشر،ص۳۸۶)
نکتہ:روزہ صرف بھوک اور پیاس کا نام نہیں بلکہ مکمل وجود کا اطاعت خداوندی میں مشغول رکھنا روزے جیسی عبادت کے ثواب کا حقدار بناتا ہے۔لہٰذا روزے کے عالم میں جھوٹ بولنا،غیبت کرنا ،نامحرم کو دیکھنا،لغویات سنناوغیرہ روزے کے معنوی آثار کو ختم کر دیتے ہیں۔
ہمارا شیعہ:
حضرت فاطمہؑ نے فرمایا:’’اگر ہمارے بتائی باتوں پر تم نے عمل کیا اور ہماری منع کی ہوئی چیزوں سے اجتناب و پرہیز کیا تو تم ہمارے شیعہ کہلائوگے ورنہ نہیں۔‘‘(بحار الانوار،ج؍۶۵،ص؍۱۵۴)
نکتہ:شیعہ ہونے کے لئے صرف دعواکافی نہیں بلکہ عمل بھی درکار ہے۔سچا اور حقیقی شیعہ بننے کے لئے ہمیںقرآن کریم کی آایات اور معصومین علیہم السلام کے ارشادات و فرمودات کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنی ہوگی۔وگر نہ خسر الدنیا والآخرۃ کے ہم مصداق قرار پائیں گے۔
شب قدر کی اہمیت:
حضرت فاطمہؑ نے فرمایا:’’حقیقی محروم وہ ہے جو اس مبارک و مسعود شب کی نیکیوں سے بے بہرہ اور محروم رہ جائے۔‘‘(مستدرک الوسائل،ج؍۷،ص؍۴۷۰)
نکتہ:شب قدر اور بی بی زہرا سلام اللہ علیہا میں ایک خاص ربط پایا جاتا ہے۔اس موضوع پر علماء کرام کی گفتگو اور ان کی تحریریں دیکھنا ضروری ہے۔شب قدر ایسی عظیم رات کہ جس کے لئے قرآن کریم نے آواز دی:خیر من الف شھر
شوہر کی رضایت:
حضرت فاطمہؑ نے فرمایا:’’وای ہو اس عورت پر جو اپنے شوہر کو ناراض کرے اور خوشا بحال اس کا جس سے اس کا شوہر راضی ہو۔‘‘
سیدہ زہرائے مرضیہ کی نام لیوا خواتین کو اگر آپ کی کنیزی کا دعویٰ ہے تو کردار میں وہی جھلک درکار ہے جو کردار فاطمی کا عکاس کہلا سکے جس سے کردار فاطمی کی بو محسوس کی جا سکے ۔تا کہ وہ اس کردار کے ذریعہ اپنے گھر کو گلزار بنا سکے اور یہ پر بہار گلستاں ،خزاں میں تبدیل نہ ہونے پائے۔
پڑوسی:
ایک روز امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو محراب عبادت میں مشغول عبادت پایا ۔بی بی زہرا ؑ نے تمام مومنین و مومنات کے لئے دعا فرمائی لیکن خود اپنے لئے کچھ طلب نہ کیا ۔جب امام حسن علیہ السلام نے اس کی علت دریافت کی تب آپ نے فرمایا:’’بیٹا!پہلے پڑوسی پھر گھر (اور گھر والے)۔‘‘(علل الشرائع،ج؍۱،ص؍۱۸۲)
نکتہ:بلا شک وشبہہ خاندان نامی ادارہ کا مرکز ومحور میاں اور بیوی ہوا کرتے ہیں لیکن اس کے متعدد مراحل ہیں ۔جن میں سے ایک پڑوسی ہوا کرتے ہیں ۔اسلام میں پڑوسی کے پاس ولحاظ کا حکم دیا گیا ہے کچھ اس طرح کہ چالیس گھر دائیں اور چالیس گھر بائیں جانب ؛ان سب کی خبر گیری ہر مسلمان پر فرض ہے۔رشتے اور تعلقات با ہمی کے لئے جہاں ہمدردی،اعانت کی ضرورت ہے وہیں خبرگیری اور دلجوئی بھی بیحد ضروری ہے۔
امید کہ ان زرین اقوال پر عمل کرتے ہوئے ہم حقیقی شیعہ اورحقیقی دوستدار اہلبیت اطہار علیہم السلام کہلانے کے حقدار بن سکیں گے۔یہ نہایت
عاجزانہ مگر خلوص سے لبریز نذرانہ لے کر بارگاہ معصومۂ کونین میں چلتے ہیں اور فریاد کرتے ہیں: بی بی!ہم گنہگار ہیں لیکن آپ کی محبت ہمارے رگ وپے میں رچی بسی ہے او راپنی بساط بھر نیک اعمال بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں۔بی بی! ہمیں اپنی شفاعت سے محروم نہ کیجئے گا ۔