کربلا انسانی تاریخ کی وہ واحد جنگ ہے کہ جس میں تعدا د کے اعتبار سے برتری رکھنے والی فوجِ یزیدی بھی چند نفوس پر مشتمل فوج حسینی کے وفادار ،بہادر اور شجاع فوجیوں کے حوصلوں کو زیر کرنے میں ناکام رہی ۔جس کے حتمی نتائج حقیقی اسلام کی سربلندی و کامرانی کی صورت میں سامنے آئے۔ اس جنگ نے قیامت تک کے لیے حق و باطل کے درمیان ایسی خط فاصل کھینچ دی کہ کربلا حق شناسی کا استعارہ بن گئی،اور یزید طوق لعنت و ملامت کا سزاوار ٹھہرا۔
حسینؑ کے مختصر سے لشکر میں شامل افراد کے کرداروں پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک شجاعت ،اقامت،،شرافت،فراست اور وفاداری جیسے انسانی اوصاف میںاپنی مثال آپ تھا۔ہر کردار انسانی خوبیوں کا ایسا پیکر نظر ٓتا ہے کہ اس کے حالات پڑھ اور سن کر لگتا ہے کہ کربلا کا ہیرو تو یہی ہے۔کربلائی کرداروں میں ایسا ہی ایک کردار جناب حبیب ابنِ مظاہر کا بھی ہے،جو کئی اعتبار سے یکتا ہے۔کربلا میں جام شہادت نوش کرنے والوں میں حبیب ایسے تنہا شخص ہیں کہ جنھوں نے دور رسالت بھی دیکھا اور جنھیں مولائے کائنات کا صحابی ہونے کا فخر بھی حاصل رہا۔کئی جنگوں میں مولا علیؑ کے ساتھ شرکت کی،اورمام حسن ؑ کے صحابی ربھی رہے۔
حبیب کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ بنی اسد سے تھا،لیکن جب مولائے کائنات نے اپنے دور خلافت میں کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا تو آپ بھی کوفہ آبسے۔آپ کی پیدائش سن 605کو ہوئی اور 9اکتوبر سن 680(61ہجری)کو 75سال کی عمر میںکربلا میںدوران جنگ آپ کو شہید کر دیا گیا۔حبیب ان لوگوں میں شامل تھے کہ جنھوں نے یزید کے تخت نشین ہونے کے بعد اس کی بیعت سے انکار کر دیا تھا اوردیگر اہل کوفہ کے ساتھ امام حسین کو خط لکھ کر کوفہ آنے اور یزید کے خلاف قیام کی دعوت دی تھی۔امام عالی مقام نے جب اپنے بھائی مسلم بن عقیل کو حالات جاننے اور اپنے حق میں بیعت لینے کے لیے کوفہ بھیجا تو حبیب ابن مظاہر مسلم بن عوسجہ کے ساتھ مل کر امام کے حق میں فضا ہموار کرتے رہے اور لوگوں سے بیعت لیتے رہے،لیکن جب حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ میں شہید کر دیا گیا اور دیگر حامیان امام حسین پر ابن زیاد کا دبائو بڑھا اور انھیں قتل کیا جانے لگا تو موت کے خوف سے بہت سے لوگوں نے امام حسین کی بیعت ترک کرکے یزید کی بیعت قبول کر لی ۔ان حالات میںحبیب نے کوفہ چھوڑکر امام کی خدمت میں حاضر ہونے کا فیصلہ کیا ۔اس درمیان آپ کو معلوم ہو گیا تھا کہ امام کربلا آگئے ہیں،لہٰذا آپ بھی دشمنان حسینؑ سے خود کو بچاتے ہوئے کربلا آگئے تاکہ امام حسین کی نصرت کر سکیں،اور نذرانہ شہادت پیش کر سکیں۔
صاحب ’اسرار الشہادۃ‘ سے یہ بھی روایت ہے کہ امام حسین ؑ نے آپ کو خط بھیج کر کربلا بلایا۔حالانکہ یہ بات طے ہے کہ آپ مسلم ابن عوسجہ سے گفتگو کے بعدپہلے ہی امام کی نصرت کا قصد کر چکے تھے۔ روایات میں ہے کہ جب حبیب نے کربلا آکردیکھا کہ یزید کی افواج میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے تو امام مظلوم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو قبیلہ بنی اسد سے مدد و نصرت طلب کی جائے۔امام نے اس کی اجازت دے دی تو آپ اپنے قبیلے والوں کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ نصرت امام کے لیے کربلا آئیں۔اس موقع پر آپ نے اپنے قبیلے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ،
’’میں تمھارے لیے بہترین تحفہ لایا ہوں،وہ یہ کہ درخواست کرتا ہوں کہ فرزند رسولؐ کے لیے تیار ہو جائو۔نواسہ رسولؐ آج بائیس ہزار کے لشکر کے محاصرے میں ہے،تم میرے ہم قبیلہ ہو،میری بات پر توجہ کرو تاکہ دنیا و آخرت کی سعادت تتمھیں نصیب ہو سکے۔خدا کی قسم تم میں سے جو بھی فرزند رسول خدا کے قدموں میں جان قربان کریگا مقام اعلیٰ علیین پر حضرت رسول خدا کے ساتھ محشور ہوگا۔(الفتوح،
صفحہ 159 )حبیب کی اس موثر تقریر نے قبیلے کے بہت سے لوگوں کو آمادہ جہاد کر دیا،لیکن اس درمیان یہ خبر کچھ جاسوسوں نے ابن زیاد تک پہنچا دی اور اس نے قبیلے کے ہی ایک فرد ارزق بن حرب کوپانچ سو اور بعض روایات کے مطابق چار ہزار افراد کے ساتھ حامیان امامؑ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا، اور اس نے حملہ کر کے انھیں منتشر کر دیا۔کئی افراد اس میں شہید بھی ہو گئے۔ناچار و لاچار حبیب کو کربلا کا رخ کرنا پڑا اور امام کی خدمت میں حاضر ہو کر پورا واقعہ آپ سے بیان کیا۔
9محرّم یعنی عاشور کی شب جب امام حسینؑ نے عبادت کے لیے شب بھر کی مہلت دشمن سے طلب کی تب بھی حبیب یزیدی لشکر کو راہ راست پر لانے اور نواسہ رسولؐ کی عظمت کو دیکھتے ہوئے ان کے مقابل جنگ پر آمادہ نہ ہونے کے لیے کوششیں کرتے رہے ۔آپ نے عمر سعد کے لشکر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا،’’خدا کی قسم کتنی بری قوم ہوگی جو روز محشر میںاپنے پیغمبر کے حضور حاضر ہوگی تو اس حال میں کہ اسی رسول کے نواسے اور ان کے یاور و انصار کے خون سے اس کے ہاتھ آلودہ ہونگے۔‘‘
حبیب نواسہ رسولؐ اور ان کے دین کی حرمت پر قربان ہوجانے کو اپنے لیے کتنا باعث اعزاز اور پروانہ نجات جانتے تھے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ شب عاشور آپ اپنے ساتھی اور دوست یذید بن حصین سے مذاق کرتے ہیں تو یذید بن حصین سوال کرتے ہیں کہ یہ مذاق کا کون سا وقت ہے کہ ہم دشمنوںکے نرغے میں ہیںاورموت سے قریب ہیں۔حبیب جواب دیتے ہیں کہ،’’اس سے بڑی خوشی کیا ہوگی کہ ہم عنقریب اپنے دشمن کے ہاتھوں شہید ہو کرجنت پہنچنے والے ہیں۔(اخبار الرجال،صفحہ 274)شوق شہادت کے تعلق سے آپ سے منسوب اور بھی کئی روایات ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نواسہ رسول پر قربان ہونے کو اپنے کتنی بڑی سعادت سمجھتے تھے اور سن رسیدہ ہونے کے باوجود آپ کا عزم و حوصلہ جوان تھا۔
جب صبح عاشور نمودار ہوئی اور امام نے اپنے مختصر سے لشکر کو منظم کیا تو علم کے ساتھ ساتھ قلب لشکر کی سپہ سالاری حضرت عبّاسؑ کو سونپی،جبکہ دائیں طرف کے لشکر کی ذمہ داری زہیر بن قین اور بائیں طرف کے لشکر کا کمانڈر حبیب ابن مظاہر کو بنایا ۔جنگ شروع ہونے پر جب دشمن نے حسینی جاں بازوں کو چیلنج کیا تو حبیب فوراً اس کے لیے آمادہ ہو گئے،لیکن امام ؑ نے حبیب کو ظہر تک کے لیے روک لیا۔ظہر میں جب امام نے نماز کے وقت جنگ بندی کے لیے عمر سعد کی فوج سے کہا تو ایک گستاخ حصین بن تمیم نے امام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نعوذ باللہ تمھاری نماز قبول نہیں ہوگی۔یہ سن کر حبیب غیض میں آگئے اور یہ کہتے ہوئے اس ملعون کی طر ف بڑھے کہ آل پیغمبر کی نماز تو قبول نہ ہو ا ور تیری نماز قبول ہو جائے گی؟یہ کہتے ہوئے آپ نے اسے زمین پر گرا دیااور رجز پڑھتے ہوئے دشمن فوج کے مقابل آگئے۔فاضل دیوبند ی کی ’’اسرار الشہادۃ‘‘ میں ہے کہ حبیب ابن مظاہر لشکر کے کسی بھی حصے سے جب کوئی مدد کے لیے پکارتا تو فوراً اس کی مدد کو پہنچ جاتے تھے۔اپنی جنگ کا آغاز حبیب نے اس رجز سے کیا کہ ’’اے نام و نسب کے اعتبار سے بد ترین لوگو،میں حبیب ابن مظاہر ہوں۔جب جنگ کی آگ بھڑک گئی تو میں اکیلا میدان جنگ میں آیا ہوں۔گرچہ تم لوگ ظاہری قوت و طاقت کے اعتبار سے کثرت میں ہو ،مگر میں تم سے زیادہ قوی اور وفادار ہوں۔‘‘ روایات کے مطابق اس کے بعد آپ نے 62دشمنان حسینؑ کو واصل جہنم کیا ۔اسی دوران بدیل بن عفقانی نے آپ پر حملہ کیااور آپ کی پیشانی پر تلوار کا ایک وار کیا،پھر نیزے سے حملہ کرنا شروع کر دیا۔حبیب زخمی ہو کر گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے۔تبھی بدیل نے آپ کا سر قلم کر دیا۔اس طرح امام حسین کا یہ بوڑھا لیکن عزم کا جواں صحابی درجہ شہادت کو پہنچا اور رہتی دنیا تک کے لیے اپنا نام انصاران حسینی میں درج کرا لیا۔