تحریر: حجت الاسلام مولانا سید تقی رضا عابدی (حیدرآباد)
اگر انقلاب اسلامی ایران اس صدی کا درخشاں باب ہے تو فتنۂ شیرازیت دامنِ تشیع پر بدنما داغ ہے۔ایک ایسا داغ جو تاریخ تشیع کو خون کے آنسو رلا رہا ہے۔اگر یہ سب جاہلوں، نادانوں، بدکاروں اور ظالموں کا خاندان ہوتا تو شاید اتنا افسوس بھی نہ ہوتا، اور نہ اتنا بڑا نقصان۔
یہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا نقصان ہے، ایک ایسا نقصان جسکی پابجائی آج ہمارے بس میں نہیں ہے، اور نہ کسی طاقت و ملک کے بس میں!
کوئی سونچ بھی کیسے سکتا تھا کہ وہ خاندان جس کا ماضی اتنا درخشاں ہو، جس خاندان میں علماء، مجتہدین، اور استعمار سے پنجہ آزمائی کرنے والے جیالے گزرے ہو، جس خاندان کے بزرگوں نے شاہوں کا حقہ پانی بند کر دیا ہو، جس خاندان نے اسلامی سر زمین پر سازشوں کے جال کو بے نقاب کیا ہو، اور جس خاندان نے استعماری طاقتوں کو ذلت کی کھائی میں ڈھکیل دیا ہو، جس خاندان کی دور اندیشی و فراست و حکمت عملی نے دشمن کو ناامید کردیا ہو، جس خاندان کی علمی و ادبی حیثیت اپنے دور میں مسلم رہی ہو، اور جس خاندان کا چرچہ سیاسی حلقوں کو متاثر کیا ہو، اور دنیائے جہان میں اپنی شہرت اور مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے ہو، بھلا اس خاندان کے بزرگ میرزاے شیرازی سے بھلا کون واقف نہیں ہے،لیکن اب وہی خاندان استعمار کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائے اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہو سکتی ہے، خاندان شیرازی پر دنیائے تشیع کو افتخار تھا، اور ان کی مقبولیت سارے عراق میں پھیلی ہوئی تھی،برسہا برس پہلے ایران کے شہر شیراز سے نکل کر جن کے بزرگوں نے نجف اشرف کو اپنا مسکن بنایا تھا، لیکن آنے والی پیڑھی نے کربلا کو جائے سکونت بنا یا، چنانچہ مہدی شیرازی کے بڑے فرزند آیت اللہ محمد شیرازی نے کربلا میں سکونت اختیار کرلی، خوف تھا کہ شاید نجف کے بزرگ علماء میں ان کا نمبر دیر سے آتا، لہذا اپنا مقام بہت جلد مراجع تقلید میں بنانے کے شوق میں انہوں نے کربلا کو ترجیح دی، ظاہر ہے نجف کی عوام علماء کی برکت سے اتنی سوجھ بوجھ تو رکھتی ہی ہوگی، جو خوئی اور شیرازی کا فرق سمجھتی ہو گی، وہ کمال تو شہید صدر کا تھا جنہوں نے اپنی قابلیت کا لوہا نجف کے جید اور برجستہ علماء سے منوالیا تھا، لیکن وہ دنیاوی مقام و مرتبہ کی لالچ سے بہت دور تھے، جن کی تقلید آیت اللہ خوئی کی موجودگی میں ہوا کرتی تھی، خاندان حکیم ہو یا خاندان صدر، نجف اشرف میں اپنا ایک خاص علمی مقام رکھتا تھا، شیرازیوں کی یہی فراست تھی کہ انہوں نے نجف کے مقابل میں کربلا کا انتخاب کیا، جہاں بزرگ علماء کی کمی تھی، اسی سے فائدہ اٹھا کر آقای محمد شیرازی نے وہاں جاکر بہت کم عمری ہی میں مرجعیت جہان تشیع کا اعلان کر دیا، اس اعلان سے نجف اشرف کا علمی حلقہ ہل کر رہ گیا، اور جب ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ ان کی مرجعیت کی تصدیق کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب میں اپنی لاعلمی کا اظہار کیا، البتہ اس اعلان کے بعد بھی محمد شیرازی اپنا علمی سفر جاری رکھے، اور دھڑا دھڑ کتابوں پر کتابیں لکھتے چلے گئے، ایسا لگتا تھا کہ گویا وہ اُن علماء کا جواب دے رہے ہو، اور دیکھتے ہی دیکھتے آقائے محمد شیرازی جو بلا کی ذہنیت اور بلا کا حافظہ رکھتے تھے، کتابوں کا انبار لگاتے چلے گئے، وہ صرف کتابوں کی زحامت اور صفحات کی گنتی پر نظر رکھتے تھے، چاہتے تھے کہ تعداد میں اضافہ ہو چاہے جیسی کیفیت ہو مگر کتب صفحات سے بھری ہوئی ضرور ہونی چاہئے، مجلادات کی فہرست بڑھاتے بڑھاتے وہ سو، دوسو، تین سو، چار سو، کتابیں لکھنے والے چنندہ مصنفین کی صف میں شامل ہوگئے۔
ان کی کتابیں تو سینکڑوں میں دکھائی دیتی تھی، بدقسمتی سے اُن کی کتابوں کو مقبولیت حاصل نہیں ہوئی، سوائے چند کے۔
اپنے کو جاہل اور غیر مجتہد کہنے والوں کو عملی جواب دینے کی فکر میں لگے محمد شیرازی کتابوں کا انبار لگانے لگے، ایک کتاب سے چھوٹی چھوٹی کتابیں وجود میں آنے لگی، جیسے ماں کے شکم سے بچے جنم لے رہے ہوں ، یکے بعد دیگرے فوت پاتھ کی زینت بنتی دکھائی دینے لگی۔
پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا تھا، اور مزہ دار بات یہ ہے کہ ہر کتاب کے صفحے پر الامام الشیرازی لکھنا شروع کردیا، یہ وہ دور تھا جب حضرت امام خمینی(رح) باحیات تھے، اُنکی موجودگی میں اپنے کو امام کہلواکر، گویا برابری کا دعویٰ کر رہے ہو، محمد شیرازی سے امام خمینی رح واقف تھے اور اسکی وجہ بڑی دلچسپ ہے کے محمد شیرازی اور اُنکا خاندان حکومت اسلامی کا خواب دیکھتا چلا آرہا ہے کہ ایک دن اقتدار ہمارے ہاتھ میں ضرور آئیگا، امام خمینی اپنی جلاوطنی کے دور میں زیارت کی غرض سے کربلا تشریف لے گئے تھے، جب وہ کربلا پہنچے اُنکے استقبال کے لئے محمد شیرازی اپنے خاندان اور اصحاب کے ساتھ جو اپنی جگہ واقعاً پرامید تھے، خاص طور پر ایرانی انقلاب کے کامیاب ہونے کے بعد محمد شیرازی کو کافی امید تھی کہ اس استقبال کی پاداش میں امام خمینی ضرور نوازینگے ، اگر امام خمینی کا شاہانہ مزاج ہوتا تو یقیناً اپنی تعریف اور تمجید سنکر بیت مال کے خزانے کے دہانے کھول دیتے اور بےشمار اشرفیوں سے اُنکا منھ بھر دیتے، لیکن چونکہ امام خمینی درویش صفت انسان تھے ایسا نہ کرسکے، گویا محمد شیرازی کی امید اس وقت ٹوٹ گئی جب امام خمینی نے عراق کے مستقبل کا فیصلہ کرنے ولی ایک سیاسی جماعت " مجلس اعلیٰ " کی تشکیل دی۔ اور اسکا صدر آیت اللہ العظمیٰ حکیم کے دانشمند بیٹے جوان سالہ عالم آیت اللہ باقر الحکیم کو بنادیا، امام خمینی اس خاندان کا بڑا احترام کرتے تھے، اور عراق کے مستقبل کو بہتر بنانے کی غرض سے آپ نے یہ قدم اٹھایا ، البتہ دیگر گروہوں کے افراد بھی اسمیں شامل کیے گئے، محمد شیرازی کے بھانجے ہادی مدرسی کو بھی عہدہ دیا گیا، واضح رہے کہ مدرسی خاندان محمد شیرازی کے رشتے میں بھانجے لگتے تھے ہیں، اسکے باوجود محمد شیرازی راضی نہیں تھے، وہ یہ سمجھتے تھے کہ مجھے نظرانداز کیا گیا ہے، یہی وہ پہلی چنگاری تھی جو شیرازی خاندان کے خرمن پر بجلی بنکر گری۔
محمد شیرازی وقتاً فوقتاً اپنا غصه انقلاب اسلامی سے نکالتے رہے۔
آخری قربانی جو اس خاندان کی طرف سے دی گئی وہ محمد شیرازی کے چھوٹے بھائی سید حسن شیرازی کی تھی، سید حسن شیرازی انقلابی فکر رکھنے والے ایک مدبر انسان تھے ، اُنہونے دمشق میں حوزہ زینبیہ کی بنیاد رکھی، حسن شیرازی لاولد تھے، البتہ اپنی ہمشیرہ کے فرزند اُنہیں کے ہمنام سید حسن قزوینی کو گود لیے لیا تھا، جو قم میں مدرسہ علوم اسلامیہ چلایا کرتے تھے، عربی زبان کا یہ مدرسہ حوزہ زینبیہ کے نصاب پر چلا کرتا تھا، حقیر بھی کچھ عرصہ اس مدرسہ کا طالبعلم رہ چکا ہے۔
سید حسن شیرازی کو استعمار نے اس وقت گولی کا نشانہ بنایا جب وہ شہید صدر کی مجلس ترحیم سے خطاب کرنے کےلئے جارہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب خاندان شیرازی کا جھکاؤ کسی شخصیات کی طرف نہیں تھا، خاندان شیرازی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شام میں، کویت میں، عراق میں، اور ایران میں بےشمار مرید اور مقلد رکھتے ہیں۔
محمد اور حسن شیرازی کے بعد اس خاندان کے بزرگ بنے اُنکے چھوٹے بھائی سید صادق شیرازی مگر وقت کے گزرتے خاندان کے بچے اور بچوں کے بچے بڑے ہوتے چلے گئے، ویسے بھی یہ خاندان بڑا ہے، اسی خاندان کے داماد بنکر آئے یاسر الحبیب جو اصل میں کویتی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ لوگ حوزہ میں نہیں جاتے بلکہ اپنے گھر ہی میں علم دین حاصل کرتے ہیں اور سارے بچے معمم ہوتے ہیں۔
ٹھکانہ تو قم المقدس میں تھا، محمد شیرازی کے انتقال پر یہ لوگ اپنے گھر میں دفن کرنا اور وہی اُنکا شاندار روضہ تیار کرنا چاہتے تھے اور اپنے کویتی مقلدین کے ذریعے بڑا حرم تیار کرتے اور اس پر "الامام الشیرازی" بورڈ نصب کرتے لیکن ایرانی حکومت نے ایسا کرنے نہیں دیا، اور اُنکا جنازہ روضہ حضرت معصومہ میں دفن ہوگیا، جن پر چراغ پا خاندان شیرازی کا خون گرمایا اور حکومت ایران سے بڑھنے لگے اختلافات، جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے، اور اسکا پورا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے برطانیہ اور استعماری ایجینٹ، آج وہ آقائے خامنہ ای حفظہ للہ کے مقابل صادق شیرازی کی مرجعیت کا اعلان چاہ رہے ہیں، جسکے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے، جسکے آثار ہندوستان میں بهی دیکھے جا سکتے ہیں، خاص طور پر لکھنؤ اور پھر حیدرآباد و دیگر ریاستوں میں۔ ہم امید کرتے ہیں کے خاندان شیرازی ماضی کو فراموش کرکے تشییع کی فلاح و بہبود کے لیے اور آپسی اتحاد کو مظبوط کرنے کے لیے قدم آگے بڑھائے، اوراسی طرح عراق کے مختلف گروہوں سے راہ رسم برقرار رکھے اور اسی طرح ولایت فقیہ کو تسلیم کرکے انگریزی تشیع دست بردار ہو کر اپنے پورے خاندان کو سمیٹ کر، ایک مرکز پر جمع ہوجائیں، اللہ سے دعا ہے کے شیعہ قوم کو جمع کرے