٨ شوال المکرم ۱۳۴۴؍ہجری وہ دردناک تاریخ ہے جس میں آل سعود کے حکم اور درباری مفتیوں کے فتوے کے تحت مدینہ منورہ میں واقع جنت البقیع نامی قبرستان میں شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرؐا اور آپ کی ذریت طاہرہ سے چار ائمہ معصومین ؑکے مزارات مقدسہ کو منہدم کر دیا گیا۔رسولؐ اور بنت رسولؐ کو قبروں میں بھی سکون سے نہیں رہنے دیا گیا۔ ہمارے معاشرہ میں یہ رائج ہے کہ اگر کسی سے دشمنی ہوتی ہے تو وہ اس کی موت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتی ہے لیکن نہ جانے ظالموں کو آل رسوؐل سے کس قدر بغض وکینہ تھا کہ بعد شہادت بھی سکون سے نہ رہنے دیا!۔ پیغمبراسلام ؐ کا جوارمبارک، جس کی شان یہ ہونی چاہئے کہ نظارہ کرنے والے لوگ ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہ جائیں، اس کا یہ عالم ہے کہ مومنین ٹکٹکی باندھ کر ضرور دیکھتے ہیں لیکن ان کی ٹکٹکی کے ساتھ ہچکیاں بھی بندھی ہوتی ہیں۔ افسوس کہ دشمنوں نے حضوراکرؐم کا بھی ذرّہ برابر پاس ولحاظ نہیں کیا! اگرانھیں آل رسولؐ سے کینہ کا اظہار کرنا تھا تو کم سے کم اتنا توسوچ لیتے کہ اگرہم اپنے دلوں کا کینہ نکالیں گے تو جوار رسولؐ کی بے حرمتی ہوگی! لیکن انھوں نے نہ تو خداکا خوف کیا نہ ہی رسولؐ کا پاس ولحاظ، بلکہ اپنے شیطانی ارداوںکے ہمراہ آگے بڑھے اور حضوؐر کا جوار،کردیامسمار۔
جنت البقیع کا مختصر تعارف:لغوی اعتبار سے بقیع کے معنی ہرے بھرے درختوں کا باغ ہے، یہ مدینہ میں ایک قبرستان ہے، اس قبرستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقبرہ صدر اسلام سے نہایت ہی محترم مقام رکھتا تھا ۔ حضرت رسول خدؐا نے جب مدینہ منورہ ہجرت کی تو قبرستان بقیع مسلمانوں کا اکلوتا قبرستان تھا اور ہجرت سے پہلے مدینہ منورہ کے مسلمان اپنے مردوں کو بنی حراماوربنی سالمکے مقبروں میں ہی دفناتے تھے ۔ اور کبھی کبھی تو اپنے ہی گھروں میں ہی دفن کردیاکرتے تھے، اور ہجرت کے بعد رسول خدا حضرت محمد مصطفےٰؐ کے حکم سے بقیع کہ جس کا نام بقیع الغرقدبھی ہے مقبرہ کیلئے مخصوص ہو گیا۔جنت البقیع ہر اعتبار سے اہم اور مقدس ہے ۔اس قبرستان کاآغاز تاریخی شواہد کے پیش نظر ٣ شعبان ٣.ھ کو رسول خدؐا کے مخلص صحابی اور حضرت علی کے حقیقی جانثارعثمان بن مظعون کے دفن سے ہوا ۔ اس کے بعد یہاں آنحضرؐت کے فرزند ارجمندحضرت ابراہیم دفن ہوئے ۔ حضرت رسول خدؐانے جنگ احد کے بعض شہدا کو بھی جنت البقیع میں دفن کیا ۔ اس کے علاوہ مکتب محمد وآل محمد کے پیروکاروں کیلئے بقیع کے سے اسلامی اور ایمانی وابستگی ہے کیونکہ جناب فاطمہ زہرا کے علاوہ یہا ں پر چار معصوم اماموں( دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیہما السلام ، چوتھے امام حضرت علی بن حسین زین العابدین علیہما السلام ، پانچویں امام حضرت محمد بن علی الباقر علیہما السلام اور چھٹے امام حضرت جعفر بن محمد صادق علیہما السلام )کا مدفن ہے ۔ آنحضرتؐکے دوسرے رشتہ دار صفیہ ،عاتکہ اور فاطمہ بنت اسدبھی اسی قبرستان میں دفن ہیں ،امت مسلمہ کے تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان جنت البقیع سے ملحق باہر دفن ہوئے تھے لیکن بعد میں اس کی توسیع میں ان کی قبر بھی بقیع کا حصہ بن گئی۔ بقیع میں دفن ہونے والوں کو آنحضرؐت خصوصی دعا ئوںمیں یاد فرمایاکرتے تھے، اس طرح بقیع کا قبرستان مسلمانوں کے لئے ایک تاریخی امتیاز و تقدس کا مقام بن گیا۔٧.ھمیں عمر بن جبیر نے اپنے مدینہ کے سفر نامہ میں جنت البقیع میں مختلف قبور پر تعمیر شدہ قبوں اور گنبدوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں حضرت ابراہیم فرزند محمد مصطفےٰؐ،عقیل ابن ابی طالب ،عبداللہ بن جعفر طیار، امہات المومنین، عباس ابن عبدالمطلب کی قبور شامل ہیں۔ قبرستان کے دوسرے حصہ میں حضرت امام حسن کی قبر اور عباس ابن عبدالمطلب کی قبر کے پیچھے بیت الحزن نامی حجرہ ہے جہاں جناب سیدہ اپنے والد پر گریہ فرمایا کرتی تھیں۔ تقریبا ًایک صدی بعد ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامہ میں جو بقیع کا خاکہ بنایا ہے وہ اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے اور سیاحوں اور سفرناموں سے تاریخ اسلام کے آثار قدیمہ کی حفاظت اور موجودگی کا پتہ ملتا ہے از جملہ جنت البقیع کہ جس کی دور وہابیت تک حفاظت کی جاتی تھی اور قبروں پر کتیبہ لکھے پڑے تھے جس میں صاحب قبر کے نام ثبت تھے، وہابیوں نے سب محو کردیا۔یہاں تک کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی قبروں پر جو روضے تعمیر تھے ان کو بھی مسمار کردیا ۔جنت البقیع کے آثار کے بارے میں مصرکے محمد لبیب مصرینامی شخصیت کے سفر نامے میں بھی ملتا ہے جنہوں نے١٣٢٧.ھ میں سعودی عرب کا سفر کیا تھا۔ وہ اپنے سفرنامے میں جنت البقیع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:جنت البقیع میںقبہ البیننامی معروف گنبد ہے جہاں پر ایک حجرہ ہے جس میں ایک گڑھا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں پر پیغمبر خدؐاکے دندان مبارک گرے ہیں ۔ اور قبہ کے اندر امام حسن کی ضریح مبارک ہے جوا سٹیل کی بنی ہوئی ہے، اس پر فارسی خطاطی بھی ہے، میرے خیال سے غیر عرب شیعوں کے آثار ہوں گے ۔سلطنت عثمانی نے بھی مکہ اور مدینہ کی رونق میں اضافہ کیا اور مقامات مقدسہ کے فن تعمیر اور زیبائش میںاضافہ کیا اور ١٨٧٨.ء کے دوران دو انگریزی سیاحوں نے بھیس بدل کر ان مقامات کا دورہ کیا اور مدینہ کو استنبول کے مشابہ ایک خوبصورت شہر قرار دیا۔ (www.shianews.com) اس طرح گزشتہ ٢١ صدیوں تک جنت البقیع کو ایک قابل احترام جگہ کے نام سے پہچانا جاتا تھاجو وقتاً فوقتاً تعمیر کے مراحل سے گزرتی رہی۔عالمِ اسلام میں افراتفری کے متذکرہ تاریخی عوامل نے عبدالعزیز ابن سعود کو حجاز پر پیش قدمی کا موقع فراہم کردیا اور تمام یقین دہانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جنوری ١٩٦٣.ء میں سلطان ابن سعود نے حجاز پر اپنی حاکمیت کا اعلان کردیا۔ وہابیت جو ریاستی مذہب بن گئی تھی بزور شمشیر اہل حجاز پر تھوپی جارہی تھی، سعودی حملہ آور جب مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے جنت البقیع اور ہروہ مسجد جوان کے راستہ میں آئی اس کو منہدم کردیا اور سوائے روضہ نبوی کے کسی قبر پر قبہ باقی نہ رہا۔آثار ڈھائے گئے اکثر قبروں کے تعویض اوران کی تختیوںکو توڑ دیا گیا ۔انہدام جنت البقیع کی خبر سے عالم اسلام میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی، ساری دنیا کے مسلمانوں نے احتجاجی جلسے کئے جن میں سعودی جرائم کی تفصیل پیش کی گئی۔ کئی سال تک عراق، شام اور مصر سے حج اور دیگر امور کے لئے آنے والے زائرین پر پابندی عائد کردی گئی اور کہا گیاکہ اگر وہ وہابیت قبول کریں گے تو زیارت کرسکیں گے ورنہ ان کو نکال کر باہر کردیا جائیگا۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان، وہابیوں کے مظالم سے تنگ آکر مکہ اور مدینہ چھوڑ نے پر مجبور ہو گئے۔ مسلمانوں کے مسلسل احتجاج پر سعودی حکمرانوں نے مزارات مقدسہ کی تعمیر کی یقین دہانی کرائی لیکنوہ وعدہ آج تک پورا نہ ہوسکا۔ اس ضمن میں تحریک خلافت کمیٹی کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔ مسلکی اختلافات کی وجہ سے خلافت کمیٹی کوئی مضبوط موقف نہیں اختیار کرسکی اور یوں یہ کمیٹی پاش پاش ہو گئی اور یہ معاملہ ختم ہوگیا ۔
انہدام جنت البقیع کا ماجرا:ابن قیم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے : جو تعمیرات قبور پر بنائی گئی ہیں انہیں منہدم کرنا واجب ہے اور قبر پر حتی ایک دن کیلئے آثار کا باقی رکھنا جائز نہیں ہے۔ جب سعودیوں نے١٣٤٣.ھ میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر تسلط حاصل کیا انہوں نے بقیع اور پیغمبراکرؐم کے اصحاب منتجبین کے آثارکو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کیا؛ جس کا آغاز٨شوال ١٣٤٣.ھمطابق مئی١٩٢٥.ء کو ہوا، جو کہ آج بھی جاری ہے ۔جب آل سعود کے حکام نے مکہ و مدینہ کے اطراف کو پوری طرح اپنے تحت تسلط لے لیا تو انھوں نے اہلبیت رسوؐل سے اپنی دشمنی کے اظہار کے لئے جنت البقیع نامی قبرستان کو منہدم کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا۔ اس کے لئے انھوں نے قاضی القضاۃسلیمان بن بلیہد کو مدینہ روانہ کیا تا کہ وہ وہاں کے مفتیوں سے اپنی مرضی کے فتوے حاصل کرے اور جنت البقیع کو شہید کرنے کا راستہ ہموار کرے، اہلبیت اطہار سے بغض و دشمنی کی آگ میں جلنے والے درباری مفتیوں نے جنت البقیع کو منہدم کرنے کا فتوی دے دیا اور آل سعودکے سرکاری کارندوں نے سرکار دو عالم کی دختر گرامی حضرت فاطمہ زہر ا اور ان کے چار معصوم فرزندوں کے روضہ اطہر کو منہدم کر دیا اوراس انہدام نے صرف جناب فاطمہ زہرا اور آپ کے اردگرد مدفون ائمہ اطہار کے مزارات مقدسہ کو ہی مسمار نہیں کیا بلکہ اس انہدام نے قلب رسول کو پارہ پارہ کردیا اور اہل بیت رسوؐل پر غم واندوہ کا ایک عظیم پہاڑ ڈھایا گیا، جن خبیثوں نے کل پہلوئے فاطمہ زہرا کو شکستہ کیا تھا ان ہی کی ناپاک نسلیں آگے بڑھیں اور اس فعل حرام کی مرتکب ہوئیںچونکہ یہ لوگ شقی القلب ہیں لہٰذاان کے دلوں پر خداورسوؐل کے احکام وفرامین کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے یہی سبب ہے کہ ایک کے بعد ایک، عظیم سے عظیم جنایت کے مرتکب ہوتے چلے جارہے ہیں اور ان کو ہوش نہیں آرہا ہے کہ یہ کس ڈگرپر چل پڑے ہیں، کل جب میدان محشر سجایاجائے گا اور فاطمہ زہرا کے سامنے ان کے دشمنوں کو بلاجائے گا تو یہ کیا جواب دیںگے! اگر رسول خدؐا نے یہ سوال کرلیا کہ میری معصوم ذریت نے تمہاراکیا بگاڑا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا تو یہ لوگ کیا کہیں گے!؟ لیکن انھیں روز محشر کی کوئی فکر نہیں ہے بلکہ قرآنی آیات کے پیش نظر یہ کفار کا وہ گروہ ہے جس کو قیامت ومعاد اور آخرت پر کسی قسم کا اعتقاد نہیں ہے اور ان کا تمام ہمّ وغم صرف دنیاوی لذتوں کے حصول پر موقوف ہے۔
انہدام جنت البقیع کے بعد: اس دلخراش واقعہ کے بعد عالم اسلام میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی اور بین الاقوامی سطح پر روضہ اطہر کی دوبارہ تعمیر کی تحریک چلائی گئی مگرجن وہابیوں کو سامراجی طاقتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے انھوں نے ابھی تک عالم اسلام کے اس مطالبہ کو عملی جامہ نہیں پہنایا! ۔جنت البقیع کے انہدام کے بعد تمام شیعہ سنی علما ء نے مل کر تحریک چلائی تھی اور سعودی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ روضہ اطہر کی دوبارہ تعمیر کرائے مگر یہ شدت پسند وہابی حکومت ابھی تک روضہ مبارکہ کی تعمیر میں آج کا کام کل پر ٹال رہی ہے اور عالم اسلام پر یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ ہم جنت البقیع کی تعمیر کرنے کے حق میں ہیں لیکن حالات اس بات کی اجازت نہیں دے رہے ہیں کہ ہم تعمیرکا آغاز کرسکیں لیکن یہ شیطانی خیالات کے شیطانی نمائندے جان بوجھ کر ایسا کررہے ہیں اور تمام عالم اسلام کو ٹوپی پہنارہے ہیں۔ ایرانی حکومت نے بھی بارہا سعودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جنت البقیع کے روضے کی دوبارہ تعمیر کرائے اور اس سلسلے میں ہم بھی ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہیں؛ آٹھ شوال کو ہر سال اہل بیت رسوؐل کے چاہنے والے پوری دنیا میں مجالس غم اور احتجاجی جلسے کر کے جنت البقیع کے انہدام جیسے انتہائی سفاکانہ اقدام کی مذمت کرتے ہوئے مذکورہ جگہ پر روضے کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں ۔آٹھ شوال کی تاریخ ہر سال اہل بیت رسوؐل سے آل سعود اور وہابی مفتیوں کی دشمنی کی یاد پوری دنیا کے سامنے تازہ کر دیتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنت البقیع کے مزارات کی تعمیر کی تحریک کو جس کی ابتدامیں شیعہ سنی سب برابر کے شریک تھے لیکن وقت گزر نے کے ساتھ گزشتہ ٧ دہائیوں یعنی ٧٠ سال میں ہمارے سنی بھائیوں نے بھلا دیا اورآخرکار یہ کارِخیر صرف اہل تشیع کی ذمہ داری بن کر رہ گیا ہے۔ اور یوں گزشتہ ٧٠ سال سے ہر سال ٨ شوال کو ہم یوم انہدام جنت البقیع منا کر اہلیبت سے مودت کا فریضہ اور اجر رسالت ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم سب مسلمان متحدہ طور پر اپنے اسلامی غیرت کا اظہار کرتے رہیں گے تو وہ دن دور نہیں جب جمہوری اسلامی ایران کی طرح ہر اسلامی ملک کے حکام بھی ہمارے ساتھ ہم آواز ہو جائیں گے جس سے استکبار کی نابودی کا آغاز ہو جائے گا اور عدل و انصاف پر مبنی ماحول دنیا بھر میں حاکم رہے گا ۔ پھر نہ اسلامی آثار محو کئے جائیں گے نہ مسلمانوں کا داخلی اختلاف رہے گا اور نہ ہی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کسی قسم کی ناچاری موجود رہے گی ۔ پروردگار عالم! ہمیں اتنی توفیق مرحمت فرما کہ ہم اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور کہیں اور نہ سہی تو اس مقام پر اپنے اتحاد کا مکمل ثبوت دیں۔ آمین۔ والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ ۔