دین اسلام میں عبادت الہی بجالانے کے کچھ مخصوص طریقے اور ارکان اوقات ، ایام اور تعداد کے ساتھ مقرر کردئے گئے ہیں۔ مثلا" نماز ہر روز پانچ بار مخصوص اوقات میں اک متعین طریقہ سے ادا کی جاتی ہے۔ روزہ سال کے ایک مہینہ رمضان کے تیس دن مقررہ مدت کے لئے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح حج کی عبادت کو ہر مسلم کی زندگی میں ایک بار واجب کیا گیا ہے جسے ایک خاص مقام مکہ معظمہ اور خاص ایام 9/10/11/ 12 ذوالحجہ میں ہی کچھ خاص مقررہ طریقے اور ارکان کو ادا کرنے پر انجام دیا جاتا ہے۔ حج کی عبادت کے یہ خاص مقررہ طریقے یا ارکان شرعی اصطلاح میں مناسک کہے جاتے ہیں۔ دراصل حج کے ارکان کے لئے یہ اصطلاح قرآن میں اللہ تعالی نے ہی مخصوص فرمائی ہے۔ سورہ البقرۃ کی آیت 200 میں ارشاد ہورہا ہے:
" پھر جب اپنے حج کے ارکان {مناسککم } ادا کرچکو تو جس طرح پہلے اپنے آباو اجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح اب اللہ کا ذکر کرو۔۔۔"
حج کی عبادت اس کے مناسک کے اعتبار سے جو مخصوص ایام اور مکان تک محدود اور متعین ہیں بہت منفرد اور انتہائی مشقت آمیز اور دشوار گذار ہے۔ نہ صرف دوردارز کا سفر طے کرکے لوگ یہ ارکان ادا کرنے کے لئے مکہ معظمہ پہنچتے ہیں بلکہ وہاں پہنچ کر بھی تین چار دن لق و دق چٹیل میدان میں بے سایہ جگہوں پر ارکان ادا کرتے ہیں جو جسمانی اعتبار سے اک بہت مشکل ترین چیلنج ہوتا ہے خصوصا" عمر رسیدہ ، کمزور اور بیمار لوگوں کے لئے۔
حج کی اس انفرادیت اور مشقت کے سبب ہی اس کا بہت اجر و ثواب رکھا گیا ہے اور ساری زندگی میں صرف ایک بار واجب قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ وہ شخص جسمانی اور مالی دونوں طرح سے اسے ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ سورہ آل عمران کی آیت 97 میں ارشاد ہورہا ہے : " لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا وہ اس کا حج کرے"
اللہ تعالی نے جب لوگوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی تو یہ بھی واضح کردیا کہ یہاں آنے والے سب انسان برابر ہیں یعنی بادشاہ کو بھی اسی لباس اور طریقہ سے یہاں آکر اس کے گھر کی زیارت کرنا ہے جس طرح ایک فقیر کو۔ یہاں شاہ و گدا سب برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر فوقیت اور فضیلت حاصل نہیں ہے۔ مقامی اور باہر سے آنے والے لوگوں کے حقوق برابر ہیں۔ کسی کو مقامی ہونے کے باعث کسی غیر وطنی شخص پر کسی قسم کی فوقتیت حاصل نہ ہوگی۔ یعنی اللہ کا گھر کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہاں ہر اہل ایمان کو آکر عبادت کرنے کا حق حاصل ہے۔ سورہ الحج کی آیت 25 میں ارشاد ہورہا ہے : " جسے { خانہ کعبہ} ہم نے سب لوگوں کے لئے بنایا ہے جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں۔"
اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین میں اس سے بہتر مساوات اور تحفظ حقوق انسانی کی مثال نہیں دکھائی جاسکتی۔ اللہ تعالی نے نہ صرف ویاں حاضر ہونے کو حقوق انسانی کو مساوی قرار دینے کا ذریعہ قرار دیا بلکہ وہاں پہنچنے والوں کے لباس اور ارکان کی ادائیگی کے بارے میں بھی یکسانیت کا خیال رکھا ہے۔ اسی لئے وہاں پہنچنے سے قبل ہر شخص کو عام دنیاوی لباس کو بدل کر ایک ایسا لباس پہننے کا حکم دیا ہے جو اک معمولی حیثیت رکھنے والا شخص بھی بآسانی پہن سکتا ہے۔
ارکان حج و عمرہ کو اس طور سے ترتیب دیا گیا ہے جن کے ذریعہ بیت اللہ اور شعائر اللہ یعنی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم اوراکرام کرنے کا افضل ترین اظہار ہوتا ہے۔ ان ارکان کو ادا کرنے میں سادگی اور یکسانیت برقرار رکھنے اور اوقات کی پابندی کرانے پر انتہائی تاکید کرنے کا مقصد بھی یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو وہاں ان مخصوص ایام میں حآضر ہو وہ اپنی دنیاوی منصب و جاہ و حشم کو ترک کرکے صرف اور صرف اپنے رب کی بارگاہ میں ایک حقیر بندہ کی حیشیت سے حاضر ہو۔ بیشتر روحانی بیماریاں تکبراوررعونت کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ارکان حج کا یہی طریقہ بندہ کے روحانی کمال کوحاصل کرنے کا وسیلہ بنتا ہے۔
روحانی رفعت اوراعلی مرتبہ حاصل کرنے کے لئے افضل ترین رکن یہ ہے کہ انسان کی عبادات اور دیگر اعمال خالص اللہ تعالی کی ذات کے لئے کئے جائیں۔ اس کی خوشنودی ، رضا اور قربت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے اور اپنی عبادت کو ریا ، ظاہرداری اور دنیا پرستی سے پاک رکھ کر ادا کیا جائے۔ مناسک حج کی ادائیگی اس کا بہترین موقعہ اور طریقہ فراہم کرتے ہیں۔
روحانی کمال حاصل کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس عبادت کی جگہہ پر امن و امان قائم ہو اور وہ ہر قسم کے انتشار اور بدامنی سے پاک ہو۔ اسی لئے جب اللہ تعالی نے اپنے گھر کو خالص عبادت کرنے والوں کے لئے پاک و ہاکیزہ قراردیا تو سب سے پہلا حکم اس مقام کو جاء امن قرار دینے کے لئے دیا۔ خصوصا" ایام حج کے چار مہینے کے دوران کسی قسم کے جنگ و جدال کو حرام قرار دیا تاکہ یہاں آنے والا ہر شخص پر امن طریقہ سے خود کو صرف اور صرف اللہ کی ذات کے لئے وقف کرسکے۔ سورہ آل عمران کی آیت 97 میں بیان کردیا گیا: " جو اس میں داخل ہوگیا وہ محفوظ ہوجائیگا۔"
حج کی عبادت کے لئے ایک وقت اور ایک مقام پر مسلمانوں کو جمع کرنے کا بظاہر مقصد یہی ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے مختف نسل ، تہذیب و زبان کے لوگوں میں باہمی اتحاد اور ربط پیدا ہو، ان میں آپس میں انس و محبت پیدا ہوا، ایک دوسرے کی ثقافت ، تہذیب اور زبان سے واقفیت ہو اور عالمی سطح پر ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل پر گفتگو کا موقعہ فراہم کیا جائے۔ پوری دنیا میں متعدد ادیان اور مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے طور سے مذہبی اجتماع کرتے رہتے ہیں مگر حج جیسا دینی اجتماع اتنی بڑی تعداد میں متواتر ہرسال منعقد کئے جانے کی کہیں کوئی مثال نظر نہیں آتی۔
حج کے مناسک کی تفصیل قرآن میں بیان کردی گئی ہے اور ان کی عملی صورت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے حجتہ الوداع کے موقعہ پر امت کو دکھادی تھی۔
مناسک حج میں سب سے پہلا رکن احرام پہننا ہے۔ مردوں کے لئے احرام سفید رنگ کی سوتی معمولی دو چادروں پر مشتمل ہوتا ہے جسے ایک مقررہ مقام جو میقات کہلاتا ہے پہنا جاتا ہے۔ اس مخصوص لباس کو پہننے کے لئے امیر غریب ، کالے گورے کی تفریق نہیں کی جاتی۔ حج و عمرہ کے لئے ہر آنے والے پر فرض ہے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنا روز مرہ کا دنیاوی لباس اتارکر اسی مختصر معمولی لباس میں پہنچے۔ یہاں ہر شخص کی پہچان اک عبد الہی کی ہوتی ہے۔ اس لئے یہاں سب یکساں ہیں۔ یکساں لباس پہنوانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ کسی شخص کی کسی دوسرے پر کوئی دنیاوی امتیازی شان باقی نہ رہے۔ سب کو اپنے معبود کی بارگاہ میں آنے کے لئے سب سے پہلے اپنی دنیاوی زیب و زینت ، آرائش و تزئین کو ترک کرنا ہوتا ہے تاکہ وہاں کوئی شخص کسی اپنے سے کم تر شخص کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھے۔ یکساں لباس میں ملبوس اس مجمع میں نہ کوئی شہنشاہ نظر آتا ہے نہ فقیر۔ حج کے اس اہم عالمی اجتماع میں سماج کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کے لباس میں یکسانیت رکھ کر اللہ تعالی نے ہر مغرور اور متکبر شخص کے اندر اس احساس برتری کو ختم کردیا جس کے سبب وہ اپنے سے کم تر اپنے کسی دینی بھائی کے قریب جانے سے اجتناب کرتا تھا۔ اسی طرح احرام کے معمولی لباس میں وہاں موجود مجمع میں ایک معمولی حیثیت رکھنے والا شخص بھی کبھی کسی بادشاہ اور امیر کے ساتھ کھڑے ہوکر اس سے اس طرح مرعوب نہیں ہوتا جس طرح حج سے پہلے ان کے لباس فاخرہ اور شاہی زیبائش سے مرعوب ہوتا رہا ہے۔
حج وعمرہ کا یہ مخصوص لباس پہنے کےبعد ہر شخص پر کچھ پابندیاں اور کچھ کام حرام ہوجاتے ہیں۔ مردوں کے لئے ان کے جسم پر سفید سوتی چادروں جومثل کفن ہوتی ہیں کےعلاوہ دنیاوی چیزوں میں سے کوئی اک معمولی شئی بھی باقی نہیں رکھ سکتے۔ حتی کی سر کو بھی نہیں ڈھک سکتے۔ مزید یہ کہ مرد و زن کسی طرح کی زینت و آرائش کا سامان بھی اپنے جسم پر باقی نہیں رکھ سکتے حتی کہ کوئی خوشبو بھی استعمال نہیں کرسکتے۔ ان تمام پابندیوں کے نفاز کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان حج کی عبادت کرتے وقت اللہ کی بارگاہ میں ہر دنیاوی اور مادی چیز کوترک کرکے اپنی روح و جسم کو پاک کرکے خالص اللہ کی جانب متوجہ ہوسکے۔ احرام کا لباس اور اس سے متعلق تمام پابندیاں حج کے اختتام تک اس لئے باقی رہتی ہیں کہ ان کے باعث انسان کے اندر ہر لمحہ یہ احساس باقی رہے کہ وہ اس مخصوص موقعہ پر ان مخصوص ایام میں ہمہ وقت حالت عبادت میں ہے۔ یہی احساس انسان کی روحانی تربیت کے لئے بہت ضروری ہے اور اسی کے توسط سے انسان روحانی اعلی مدارج طے کرسکتا ہے۔
دوسرا اہم رکن حج و عمرہ کا طواف خانہ کعبہ ہے۔ طواف سےمراد خانہ کعبہ کی عمارت کے گرد سات بار چکر لگانا ہے۔ اس رکن کو بجالانے کے لئے ہزاروں کا مجمع اک مختصر سے دائرہ میں چکر لگاتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہوتی ہے کہ جب ہر شخص دوسرے شخص کے کندھے سے کندھا ملائے یکساں لباس میں اک دوسرے کے آگے پیچھے دائیں بائیں چلتا ہے تو یہ احساس ختم ہو جاتا ہے کہ قریب میں چلتا ہوا شخص بادشاہ ہے یا کوئی فقیر۔ بس اللہ تعالی کے بتائے گئے اسی اہتمام سے انسان کی روحانی تربیت کا انتظام کیا گیا ہے جہاں سب برابر ہوجاتے ہیں۔ طواف کے دوران یہ منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ کبھی جب اک کم حیثیت فقیر و مسکین شخص یا غلام کسی بادشاہ یا دنیا کے کسی طاقتور شخص کے آگے آگے چلتا نظر آتا ہے تو کیا مجال ہے کہ وہ بادشاہ اس فقیر کو اپنے شاہی حکم سے خود سے پیچھے ہٹادے۔ اس موقعہ پر اس کی بادشاہت کسی کام کی نہیں رہتی۔ یہاں آج سب لوگ بادشایوں کے بادشاہ کی بارگاہ میں اسکے اک عبد حقیر کی حیثیت سے حاضر ہیں۔
مادی دنیا اور اس کے وسائل کی حقارت اور کم مائیگی کےاظہار کا اس سے زیادہ موثر طریقہ کسی دین میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔
اسی طرح کا منظر اس سے اگلے رکن صفا و مروہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان سعی کرتے ہوئے دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان دوپہاڑیوں کے درمیان وہ امیر ترین اور صاحب اقتدار و بارعب لوگ معمولی غلاموں اور خدمت گاروں کی طرح دوڑتے نظر آتے ہیں جو حج سے پہلے بڑی تمکنت اور ٹہراو کے ساتھ اپنا اک اک قدم اپنے لاو لشکر اور مصاحبین کے ہمراہ اٹھانے کےعادی تھے۔ مگر بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوکر ہزاروں سال قبل وقوع پذیر اک واقعہ کی تاسی میں بظاہر اک بے مقصد نظر آنے والے عمل کو انجام دیتے ہوئے اک لمحہ کے لئے بھی نہیں ہچکچاتے۔ یہ ہی وہ روحانی طاقت ہے جو کسی بھی طاقتور انسان کو اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اس بظاہرمعمولی عمل کو کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنے دیتی۔
یہی کیفیت حج کے اگلے مراحل یعنی وقوف عرفات ، مشعر الحرام اور منی میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اک ایسا شخص جو اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنے بالوں کی آرائش میں مہنگے ترین ہیر اسٹائلسٹ کی خدمات حاصل کرتا رہا تھا اور اپنے بالوں کوصحتمند رکھنے کے لئے ہزاروں روپوں کی کریمیں اورشمپو استعمال کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتا رہا تھا اب اللہ کے حکم کی تعمیل میں بے چون وچرا منی میں اپنا سر منڈوارہا ہوتا ہے۔ یہ وہی لوگ تھے جن کی شاہی اور مہنگی ترین سواریوں کی زد میں آکر بےشمار لوگ ہلاک ہوتے رہے تھے۔ مگر آج وہی لوگ دھوپ سے تپتی زمین پرعرفات اور منی کے بے آب و گیاہ میدانوں میں پاپیادہ دوڑتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے بس ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے تعمیل حکم الہی۔
اگر ان تمام مناسک حج کی کیفیات اور لوازم کا بغور تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی کو اس خاص عبادت کے ذریعہ اپنے بندہ کے روحانی درجات بلند کرنا مقصود ہیں تاکہ بندہ کو اپنے پروردگار کا قرب حاصل ہوسکے۔ اس روحانی رفعت کو حاصل کرنے کی پہلی منزل دنیاوی اور مادی آسائشوں اور لذتوں سے اک مقررہ مدت کے لئے ترک کرنا ہے جو نہ صرف اس بے ثبات اور عارضی دنیا کی حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ضروری ہے بلکہ اس بندہ کو روزمحشر درپیش ہونے والے حالات سے روشناش کرآنا بھی ہوتا ہے جہاں پوری بنی نوع انسان اپنے اپنے کفن میں ملبوس شدید گرمی سے تپتے میدان میں بے یارو مددگار بے حال و پریشاں اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے دوڑ رہی ہوگی۔ حج کی عبادت آخرت کی اسی منزل کے لئے ایک بہترین تربیت گاہ ہے۔