پچھلے تیس سالوں سے کرناٹک میں ہر طرف صحافی حضرات ، مذہبی حضرات اور شعرا حضرات حکومت سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ انہیں ایک اردو ہال بنا کر Ghulam Ghousدے . اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم مسلمان اس اردو ہال کو کس طرح استعمال کر نے والے ہیں . یقینی طور ہر وہاں ہم گانا ، بجانا ، ڈانس ، کھیل کود اور جوا وغیرہ تو نہیں کھیلیں گے بلکہ ہم وہاں ملیْ مسائل پر ، سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور مذہبی مسائل پر بات کریں گے ، ڈبیٹ کریں گے اور کانفرنس کریں گے . اردو ہال میں جو بھی ہو گا وہ مسلمانوں کی بھلائی کے لئے ہو گا . پچھلے تیس سالوں سے ہم ہر کسی کر دروازے پر آواز دیتے رہے ، میمورینڈم پر میمورینڈم دیتے رہے . خود اپنی قوم کے اندر موجود مالداروں سے گزارش کر تے رہے مگر آج تک کسی نے اسے منظور نہیں کیا . اس سلسلہ میں میرے دوست ا ڈوکیٹ ضیا کرناٹکی ، منظر قدوسی ، منیر احمد ، فیاض قریشی اور دیگر کئی احباب دن رات کوشش کر تے رہے مگر کامیابی کہیں نہیں ملی . بہت غور و خوص ہوا اور بے شمار بحث مباحثے ہوے اور پھر ایک دن مجھے انکشاف ہوا کہ ارے بھائی تمہاری قوم کے پاس تو 300 سے زیادہ بے استعمال ہال ( بنگلور میں ) موجود ہیں تو پھر تم کیوں ایک اور ہال کے لئے تڑپ رہے ہو . اگر میں اپنی زبان سے کچھ کہوں تو میرے کچھ پہچان والوں کو اعتراض ہو گا ، اسلئے میں لکھنو کے ایک دانشور مصنف جناب عادل فراز نقوی صاحب کی کہی ہوی بات دھراتا ہوں . آپ لکھتے ہیں " کم فہم مسلمانوں نے اسلامی عبادت گاہوں کو فقط اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا یا زیادہ سے زیادہ نماز پڑھنے سے مخصوص کر دیا تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کر سکیں . کیا مسلمانوں کے مسائل صرف نماز کی ادائیگی سے حل ہو سکتے ہیں یا مساجد کے سلسلہ میں یہی سنت نبوی ہیں . عہد رسول ﷺ میں مسجد محراب عبادت تھی ، دانش گاہ علمی تھی ، مرکز اخوات و صداقت تھی ، آمادہ جنگ کا مرکز تھی ، مرکز عدالت و قضاوت، غیر مسلموں کو درس اسلام دینے کی جگہ اور مرکز اطلاعات و رابطہ عامہ کی جگہ تھی . ( اب سوچنا یہ ہے کہ کیا ہمارے مساجد آج بھی ان تمام اغراض و مقاصد کے لئے استعمال ہو رہے ہیں ) مساجد کا اہم مقصد یہ تھا کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے میل جول رکھیں . مسجد میں آنے کا ایک مقصد رابطہ عامہ communication ہے . وہ مسلمان جو اپنے مسلمان بھائی کی ضرورتوں اور پریشانیوں کو دور کر نے کی فکر نہ کرے وہ در اصل مسلمان ہی نہیں ہے . درد قوم اور درد ملت کے ساتھ ہی عبادت قابل قبول ہے . رب کی خوشی صرف مسجدوں میں نمازوں سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ امت مسلمہ کے مسائل پر غور و خوص بھی ضروری ہے . مساجد کو ڈیکوریٹ کر نا ، عالیشان عمارتیں تعمیر کر نا ، کنگورے بنا نا ، بلبد مینار بنوانا مکروہات کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ یہ علامتیں مکبرانہ ہیں اور مسجد اللہ کا گھر ہے جسے سادہ اور عام عمارت کی طرح ہو نا چاہیے جسمیں نہ تو شاہانہ رعونت ہو اور نہ تکبر کی آمیزش بلکہ مسجدوں کو ایسا بنانے کی تاکید کی گئی ہے کہ ایک مزدور بھی عمارت کو دیکھ کر ذاتی طور پر اس سے وابستہ ہو جائے اور بادشاہ بھی دیکھے تو وہ اللہ کے گھر کی سادگی پر اپنے دل کی شان و شوکت سے بیزاری کی بنیاد پر اللہ سے قریب تر ہو . " مطلب یہ کہ آج ہم مسجدوں کو اس سننت طریقے سے استعمال نہیں کر رہے ہیں جس طرح اللہ کے رسول ﷺ استعمال کر تے تھے . مذہبیت کی آڑ میں کچھ نیم تعلیم یافتہ لوگوں نے اسے صرف پانچ وقت کی نماز پڑھنے کے لئے رکھ لیا ہے .
اگر مندرجہ بالا خیالات دل میں اتر گئے ہوں تو میں اصل مدعے پر تا ہوں . ہمارے بڑے بڑے شہروں میں کم از کم ستر فیصد دو منزلہ مسجدیں ہیں . یہ سچائی ہے کہ ہر دن نماز کے لئے جو لوگ آتے ہیں ان سے دو یا چار صف ہی بنتے ہیں . اس طرح نچلا حصہ آدھا بھی نہیں بھر تا جبکہ اوپری منزل ہمیشہ خالی رہتی ہے . صرف جمعہ کے دن صرف ایک گھنٹے کے لئے اوپری حصہ استعمال ہو تا ہے . باقی تمام دن وہ خالی ہی رہتا ہے . بڑی بڑی مسجدوں میں حالت اس سے بھی خراب رہتی ہے . اب سوچنا یہ ہے کہ کیا ایسے بے استعمال ہال کا استعمال غیر شرعی ہے یا عین اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے . شہر بنگلور میں ایسے قریبا تین سو مساجد ہیں . ایسے میں ہر ایک علاقے کی بڑی مسجد کو اگر ہم اردو ہال کے طور پر استعمال کریں تو کیا خباحت ہے . یہ مذہبی مسلے سے زیادہ سوشیل مسلہ ہے اسلئے کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اگر ملت میں اس مسلے پر ڈبیٹ ہو جائے تو بہتر ہے . جو چیز ہمارے ہاتھ میں ہے اسے استعمال کر نے کے بجائے اس چیز کے لئے پریشان کیوں ہو نا جو ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے . وہاں پر ہم صرف ملیْ اور مذہبی مسائل پر بات چیت ، جلسے اور ڈبیٹ کریں گے اور کچھ نہیں ( مشاعرے تو بلکل نہیں ) . حالت ایسی ہے کہ اگر ہم کوئی میٹنگ یا چھوٹا جلسہ بھی کر نا ہو تو ہال کے لئے دو سے پانچ ہزار روپیے کرایہ دینا پڑتا ہے . اسلئے ہمارے جلسے اور میٹنگ بہت کم ہو تے ہیں . اگر مسجدوں کے یہ خالی ہال استعمال کریں تو کیا یہ دین کے خلاف ہو سکتا ہے ؟ اس سے لوگ اور زیادہ مسجدوں سے قریب ہو جائیں گے جیسے ترکی ، مصر ، یوروپ اور امریکہ میں ہو تا ہے . دوسرا مسلہ جو ماہ رمضان میں سامنے آ رہا ہے وہ ہے مسجدوں کے باہر جو خالی جگہ یا فٹ پاتھ ہے اسکے استعمال کا . ہم جب ملازمت میں تھے تو ہمارے غیر مسلم بھائی پوچھتے تھے کہ یار آپکا بھوکے رہنے کا رمضان مہینہ کب آ رہا ہے اور کیا تم ہمیں عید کی دعوت پر بلا رہے ہو . مگر آج وہی دوست پوچھتے ہیں کہ یار وہ مہینہ کب آ رہا ہے جب چاروں طرف مزیدار مرغن غذائیں تمہاری مسجدوں کے اطراف ملتے ہیں ؛ اب تو ہم ہر رات تمہاری مسجدوں کے پاس آ تے ہیں اور جی بھر کر گوشت ، بریانی اور کباب وغیرہ کھا کر جاتے ہیں . ہمیں ہمیشہ اس مہینے کا انتظار رہتا ہے . یہ سنکر ہم میں سے اکثر کو شرم سی محصوس ہو تی ہے . مسجد کی کمیٹیان اس طرح کے بازاروں کو سجانے کی اجازت دیتے ہیں یہ میں مان نہیں سکتا کیونکہ ہماری مسجدوں کی کمیٹیوں میں اکثر متقی اور پرہیزگار لوگ ہو تے ہیں . اگر مسجد کے اراکین جاہل ، گنوار اور اسلان کے دشمن ہو تے تو ہم مان سکتے تھے . آجکل چند بے شرم مسلمان مسجدوں کے اطراف بے شمار ہوٹل اور اسٹال لگا کر خود بھی نماز کو نہیں جاتے اور نہ ہی دوسروں کو جانے دیتے ہیں بلکہ انہیں لبھا کر وہیں کھڑا لیتے ہیں . بازار ایسا جگمگاتا رہتا ہے اور ایسے بے حیا لباس میں مرد و عورت آ تے ہیں کہ انہیں دیکھ کر ہر کسی کا دل مچل جائے گا . مرغن غزائیں خرید کر کاروں میں شراب نوشی بھی ہو تی ہے . اسکی مثال فریزر ٹاون کی بڑی مسجد ہے جسکے چاروں طرف شراب کی باٹلیں ملی تھیں . پکوان کی خو شبو کچھ مسجدوں کے اندر اسطرح آ تی ہے کہ نماز چھوڑ کر باہر اس تماشے میں شامل ہو جائیں . میرے ایک دوست بتا رہے تھے کہ آجکل رمضان المبارک کی مبارک بادی کا یس یم یس اور ای میل آتا ہے تو اسکے نیچے سموسہ اور کباب کی تصویر ہو تی ہے . اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا یہ خوشی کی بات ہے یا شرمندگی کی . مجھے شرمندگی اس سوال پر بھی ہو تی ہے کہ ایسے مقدس مہینے میں اس طرح کی نمائش اور میلے پر آپکے مذہبی حضرات کیوں خاموش رہتے ہیں ؟ کیوں اسکی مذمت نہیں کر تے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کچھ مسجد کمیٹیاں اپنی جگہ کرایہ لے کر ایسے بازار لگانے کی اجازت دیتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ غلط ہے کیونکہ اس سے مسجد کے احترام میں کمی آ جا تی ہے کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں مسجد تعمیر کر نے کی بیحد ضرورت ہے مگر غیر مسلم تو دور کی بات خود کچھ مسلمان بھی جگہ نہیں دیتے کیونکہ ہمارے لوڈ اسپیکر اور کھانے کے میلے اور شور شرابے سے لوگ پریشان رہنا نہیں چاہتے ۔ یہی بات ہم لوڈ اسپیکر کے غلط استعمال کر نے پربھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہم جس جگہ رہتے ہیں وہاں غیر مسلم بوڑھے اور بچے بھی ہو تے ہیں اور کالجوں میں پڑھنے والے بھی . کیا وقف بورڈ کچھ کر سکتا ہے یا وہ بھی خاموش رہنے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے ؟ کچھ ساتھیوں نے کہا کہ یہ ایک سیلاب ہے جسے ہم روک نہیں سکتے . اگر میں غلط ہوں تو مجھے کہہ دیجیے میں معافی مانگ لوں گا .