مسجد اقصیٰ میں لیلۃالقدر کی عبادت میں مصروف نہتے فلسطینیوں پر یہودی فورسز کے حملے نے صورتحال کو دھماکہ خیز بنادیا ہے۔جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں ،غزہ میں اسرائیل کی ننگی جارحیت کا کھیل جاری ہے۔وحشیانہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کی کئی بلند وبالا رہائشی عمارتیں زمیں بوس ہوگئی ہیں اور ان میں رہنے والے خاندان اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں میں اب تک 160 سے زیادہ بے گناہ شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔ان میں اچھی خاصی تعدادعورتوں اوربچوں کی بھی ہے۔غزہ میں اس وقت ایک ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہیں۔ سنیچر کی رات اسرائیلی حملے میں غزہ کا ایک رفیوجی کیمپ تباہ ہوگیا ہے جس میں ایک ہی خاندان کے دس افراد شہید ہوگئے ہیں ۔ پانچ ماہ کا ایک شیرخوار بچہ ہی زندہ بچا ہے، جسے شدید زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں واقع عالمی میڈیا کی 13 منزلہ عمارت کو پوری طرح تباہ کردیا ہے تاکہ غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت سے دنیا واقف نہ ہوسکے۔ اس عمارت میں الجزیرہ اور امریکی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے بھی دفاتر تھے۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اب تک دس ہزار باشندے غزہ سے نقل مکانی کرچکے ہیں ۔
وحشیانہ اسرائیلی بمباری کا جواب راکٹوں سے دیا جارہا ہے اور اب تک غزہ سے تقریباً 1800 راکٹ فائر کئے گئے ہیں۔اس کے نتیجے میں 6 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ 100سے زیادہ زخمی ہیں۔ اسرائیل نے اپنے ملک پر ہونے والے میزائل حملوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنے دفاعی نظام ’ آئرن ڈوم‘( آہنی گنبد) کوسرگرم کر دیاہے۔ اس جدید ترین دفاعی نظام کی وجہ سے حماس کے راکٹ اسرائیل کی طرف بڑھتے تو ہیں ، لیکن راستے میں ہی گرکر تباہ ہوجاتے ہیں۔لیکن اس بار حماس نے اس تعداد میں راکٹ فائر کئے ہیں کہ اسرائیل کا یہ دفاعی نظام بھی ناکارہ ثابت ہوا ہے۔ یہ راکٹ مشرقی یروشلم اور تل ابیب تک تباہی مچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کارنے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں اور حماس کے راکٹوں کی وجہ سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال وسیع پیمانے پر جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امورکا کہنا ہے کہ اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقہ میں بچوں اور عام فلسطینی شہریوں کی پریشان کن تصاویر منظرعام پرآرہی ہیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ صہیونی ریاست نے فلسطینیوں پر شعلوں کی بارش کی ہے ۔ بربریت اور درندگی کا یہ گھناؤنا کھیل برسوں سے یونہی بلا روک ٹوک جاری ہے۔مہذب دنیا اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود اسرائیل کو اس کی جارحیت اور انسانیت سوز کارروائیوں سے باز رکھنے میں ناکام رہی ہے۔اقوام متحدہ کی سینکڑوں قرار دادوں کو اپنے پیروں تلے روندنے والی ظالم اورغاصب صہیونی ریاست سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی زمین اور گھروں سے بے دخل کرنے اور انھیں یوں تہہ تیغ کرنے کا اختیار اس کو کس نے دیا ہے۔مہذب دنیا کے اسی دوغلے کردار اور عرب ملکوں کی بزدلی نے ہی یہ دن دکھائے ہیں کہ اسرائیل مسلسل فلسطینیوں کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔وہ آج بھی فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرکے وہاں یہودی بستیاں قایم کررہا ہے۔تازہ تنازعہ مشرقی یروشلم کے شیخ جراح ضلع میں فلسطینی باشندوں کو بے دخل کرنے سے شروع ہوا ہے۔ یہاں اسرائیل نے یہودی آبادکاروں کو بسانے کا منصوبہ بنایا ہے جس کی فلسطینی باشندوں کی طرف سے زبردست مخالفت ہورہی ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ 1947میں اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین دونوں کے قیام کامنصوبہ بنایا تھا ، لیکن اس دوران جنگ چھڑنے کے نتیجے میں اسرائیل نے فلسطین کے بیشتر حصے پر ناجائز قبضہ کرلیا۔ وہ تبھی سے اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں پر کاربند ہے۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت کو دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ ان میں سب سے بڑی طاقت امریکہ ہے جواسرائیل کی ننگی جارحیت اور انسانیت دشمنی کو اپنی حمایت دیتا رہا ہے ۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے یواین اومیں اسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی ہر قرارداد کو ویٹو کردیا ہے ۔ اب ایک بار پھر تازہ جارحیت کے خلاف پیش ہونے والی قرار داد کی راہ میں امریکہ نے یہ کہہ کر روڑے اٹکائے ہیں کہ اس سے صورتحال مزید بگڑے گی۔تاہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے شیخ جراح اور سلوان کے علاقوں سے فلسطینی خاندانوں کی ممکنہ بے دخلی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ انہدام اور بے دخلی کے عمل کو عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی روشنی میں روک دے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھنے کا اپنا عزم دوہرایااور اسرائیل پرزور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں، بین الاقوامی قوانین اور دوطرفہ معاہدوں کی بنیاد پر تنازعات کو حل کرے۔‘‘
اقوام متحدہ کا یہ موقف کوئی نیا نہیں ہے۔ اس کی قیادت ہمیشہ ہی ان الفاظ کو دہراتی رہی ہے،لیکن زمینی سطح پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ کیونکہ اسرائیل اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ جن طاقتوں کے ہاتھوں میں اقوام متحدہ کی جان ہے، وہ روز اول سے اس کے حمایتی اور فلسطینیوں کے بدترین دشمن ہیں۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے وہ عرب ممالک جن کے سینے پر یہ صہیونی ریاست وجود میں آئی ہے ، اب آہستہ آہستہ اسرائیل کے ہم نوا اور حمایتی بنتے جارہے ہیں۔ پچھلے دنوں جب متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے سفارتی رشتے استوار کیے تھے تو تمام انسان دوست طاقتوں نے اس کی مذمت کی تھی، لیکن امارات پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے رشتوں کو مزید بلندیوں پر لے جانے میں مصروف ہے۔ ترکی اور ایران ہی دوایسے ملک ہیں جو پوری مضبوطی اور قوت کے ساتھ فلسطینیوں کی پشت پر کھڑے ہیں اور انھیں ہرممکن مدد فراہم کررہے ہیں۔ترکی کے صدر طیب اردگان سفارتی سطح پر اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ کسی طرح اسرائیل اپنی جارحیت سے باز آجائے۔ انھوں نے اس سلسلے میں روس کے صدر پوتن سے بھی بات چیت کی ہے۔ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکرنے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور فلسطینی عوام کے قتل میں غاصب صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم برادری اس نسل کشی کے خلاف کھڑی ہے۔ادھر اوآئی سی نے عالمی برادری سے فلسطینی عوام کے تحفظ کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل کا اصل نشانہ یروشلم ہے جسے وہ اپنا سب سے بڑا مذہبی مرکز قرار دینے پر مصر ہے۔ مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کربیٹھا ہے کہ یہ وہی یروشلم ہے جہاں قبلہ اول موجود ہے اور جس کے ساتھ تمام دنیا کے مسلمانوں کی مذہبی وابستگی ہے۔اسی یروشلم میں موجود ٹیمپل ماؤنٹ کی مغربی دیوار ہے جسے عرف عام میں دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے۔ عیسائی بھی اس کو مقدس شہر تسلیم کرتے ہیں۔ یروشلم کا قدیم شہر دراصل چار حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہ چاروں حصے عیسائی، یہودی،مسلمان اورآرمیینائی لوگوں کے ہیں۔ چونکہ آرمینائی بھی عیسائی ہی ہیں توزیادہ حصہ عیسائی مذہب سے متاثر ہے مگراسرائیل یروشلم کے بڑے حصہ پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے ناجائز قیام کے بعدجو سات لاکھ فلسطینی رفیوجی ہوگئے تھے ، ان کی تعداد بڑھ کر اب70 لاکھ ہوچکی ہے۔ یہ آگئے تو یہودی اقلیت میں آجائیں گے۔اقلیت میں آجانے کا خوف ہی دراصل صیہونی ریاست کو ہر قسم کے ظلم وبربریت پر آمادہ کیے ہوئے ہے۔
فلسطین دنیا کا وہ واحد علاقہ ہے جو پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی سامراجیت کا سب سے زیادہ شکار ہوا۔مظلوم فلسطینی گزشتہ73 سال سے سامراجیت اور صیہونیت سے لوہا لے رہے ہیں۔ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنادیا گیا ہے۔ انسانیت سوز مظالم اور فلسطینی شہریوں کو دربدر کرنادرندہ صفت صیہونی افواج کا روز کا معمول ہے۔ فلسطینیوں کے جذبہ حریت کو کچلنے کے لیے ہرقسم کے ہتھکنڈے اختیار کیے جاتے رہے ہیں۔غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں تعمیر کی جانے والی140بستیوں میں چھ لاکھ سے زیادہ یہودیوں کو آباد کیا جاچکا ہے۔اسرائیل پوری طرح فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کرکے یہاں اپنا راج قایم کرلینا چاہتا ہے، لیکن جانباز فلسطینیوں کی مزاحمت اس بات کی گواہ ہے کہ وہ اپنے خون کے آخری قطرے تک ناجائز صہیونی ریاست سے لوہا لیتے رہیں گے اور اپنے مادروطن کی بازیابی کے لیے سب کچھ قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔