حجۃ الاسلام مولانا سید کلب جواد نقوی
دین اسلام کی ایک اہم ضرورت کا نام پردہ ہے۔ جان بوجھ کر اگر کوئی اس کا انکار کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوسکتا ہے۔ پردہ قلعہ ہے قید نہیں، عفت وپاکدامنی ہے پابندی نہیں، عزو شرف اور متانت ہے پسماندگی اور ذلت نہیں، خداوندعالم کا حکم اور فاطمۃ الزہراء کی سیرت ہے لہٰذا دشمنوں کے پروپیگنڈے اور ان کی شماتت کا کوئی اثر نہیں۔
مسلمان خاتون کے لئے تو پردہ باعث عزوافتخار ہے کیونکہ نبی اکرمؐ کی بیٹی فاطمۃ الزہرا صلوات اللہ علیہا کو حجاب اور پردہ سے محبت تھی۔ اگر مسلمان خاتون صدیقہ کبریٰ کی سیرت کا بغور مطالعہ کرے تو وہ مغربی تبلیغ سے متاثر ہوکر پردہ کو پابندی اور ذلت کا سبب نہیں سمجھے گی بلکہ حجاب کو اپنے لئے طرۂ امتیاز سمجھتے ہوئے دیگر خواتین کو بھی باحجاب رہنے کی تلقین کرے گی اور ان کو باوقار زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھائے گی۔
پردہ بہترین زیور
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی سے پوچھا ’’ای شئی خیر للمرأۃ‘‘؟ عورت کے لئے بہترین چیز کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ان لا تری رجلاً‘‘ عورت کے لئے سب سے اچھی چیز یہ ہے کہ وہ کسی نامحرم مرد کو نہ دیکھے۔
یہ جواب سن کر پیغمبراکرمؐ کو اتنا پیار آیا کہ آپ نے بیٹی کو سینے سے لگا لیا اور فرمایا: ’’ذریۃ بعضھا من بعض‘‘ اس حدیث شریف میں عورت کے لئے بہترین چیز یہ بتائی گئی ہے کہ وہ نامحرم کو نہ دیکھے۔ ایک دوسری روایت میں حضرت زہرائے مرضیہ نے فرمایا کہ عورت کا کمال یہ ہے کہ کوئی مرد اس کی خوشبو بھی محسوس نہ کر پائے لہٰذا نابینا والی مشہور روایت میں جب نبی اکرمؐ نے اجازت طلب کی اور نابینا کی ہمراہی کا تذکرہ کیا تو گذشتہ معیار کو عملی جامہ پہناتے ہوئے فرمایا: ’’ان لم یکن یرانی اراہ وہو یشم الریح‘‘ اگر وہ مجھے نہیں دیکھ رہا ہے تو کیا ہوا میں تو اسے دیکھ لوںگی اور وہ میری خوشبو محسوس کرلے گا۔ اس جواب میں رسالت ونبوت کے ایسے مقاصد پوشیدہ تھے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً فرمایا: ’’اشھد انک بضعۃ منّی‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم میرے وجود کا ایک حصہ ہو۔
مقصد خلقت
تمام مخلوقات خصوصاً انسان کی خلقت کا آخری مقصد خداوند متعال کا تقرب ہے۔ قرآن مجید میں خلقت کا مقصد جو عبادت بیان کیا گیا ہے وہ بھی تقرب خدائے متعال کو بیان کررہا ہے۔ جو انسان جس قدر خدا سے مقرب ہوگا اتنا ہی محبوب بارگاہ الٰہی ہوگا۔ اس مقصد تک رسائی کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ انسان ربانی دعوے یا چند اچھے کام انجام دے کر اس درجہ تک پہنچ جائے بلکہ اس درجہ تک پہنچنے کے لئے انسان کو اپنی زندگی کا ہر لمحہ خدا کے لئے وقف کرنا پڑتا ہے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حقیقت کے پیش نظر اصحاب سے یہ سوال کیا کہ عورت کس وقت اپنے خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہوتی ہے؟ اصحاب میں سے کسی کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔ حضرت علی علیہ السلام یہ صورت حال دیکھ کر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس تشریف لائے اور آپ کو ساری داستان سنا دی تو آپ نے فرمایا: ’’ارجع علیہ فاعلمہ ان ادنیٰ ما تکون من ربہا ان تلزم قعر بیتھا‘‘ جائیے اور بابا سے کہہ دیجئے کہ جب عورت اپنے گھر کے گوشے میں ہوتی ہے تو اس وقت خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہوتی ہے۔ جب حضرت علی علیہ السلام نے جواب دیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یا علیؑ یہ آپ کا جواب نہیں ہے تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: فاطمہؐ نے مجھے یہ جواب بتایا ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’صدقت ان فاطمۃ بضعۃ منّی‘‘۔
اس حدیث سے بہت سارے مطالب قابل استفادہ ہیں مثلاً جس فن کا ماہر ہو اسی سے اس کا سوال کرنا چاہئے عورت سے متعلق سوال کو حضرت علی علیہ السلام نے جزورسالت سے دریافت کیا۔
حضرت علی علیہ السلام کبھی بھی سوال کے جواب میں پیچھے نہیں رہے جو سوالات آپ سے مربوط تھے اسے بلافاصلہ حل کیا اورجو سوالات خود سے مربوط نہیں تھے اسے بالواسطہ جزو رسالت کے ذریعہ حل کیا۔
عورت گھر میں رہ کر مشکل سے مشکل مسئلہ حل کرسکتی ہے ہر وقت گھر سے باہر نکلنا ضروری نہیں ہے بلکہ جس قدر اپنے گھر میں رہے اتنا ہی اپنی خلقت کے مقصد اور خداوندعالم سے نزدیک رہتی۔ البتہ اگر ضرورت ہو تو کامل حجاب کے ساتھ باہر نکلے جس طرح خطبہ فدک کے لئے حضرت زہرا صلوات اللہ علیہا باہر نکلی تھیں یا نصارائے نجران کے مقابلہ میں سامنے آئی تھیں۔ سیرت فاطمی پر عمل کرنے والی خواتین کو فقط باہر نکلنا یاد نہیں رہنا چاہئے بلکہ باہر نکلنے کا طرز اور انداز بھی مدنظر رہنا چاہئے اور واقعی ضرورت کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ کردار فاطمۃ الزہرا صلوات اللہ علیہا میں حجاب اور پردہ داری کے اتنے باکمال عناصر موجود ہیں کہ مسلمان خاتون اگر صحیح سے اس کا مطالعہ کرے تو وہ کسی بھی سیاسی نعرہ کے فریب میں آکر دھوکہ نہیں کھائے گی۔ اگر خواتین فاطمۃ الزہرا صلوات اللہ علیہا کی اس روایت کا مطالعہ کرلیں جس میں پیغمبراکرمؐ نے شب معراج کی داستان سناتے ہوئے عورتوں کے عذاب کا تذکرہ کیا ہے تو کوئی خاتون بھی بے پردگی کا تصور نہیں کرے گی۔ فقط ان عذابوں میں سے ایک عذاب بعنوان نمونہ پیش کئے دیتا ہوں کہ جو عورت اپنے بالوں کو نامحرم سے نہیں چھپاتی ہے قیامت کے دن اپنے بالوں سے لٹکائی جائے گی اوراس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔
واضح رہے کہ جو انسان مرد ہو یا عورت اپنے مقصد خلقت کو فراموش کردے گا اور خداوندعالم سے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے پردہ کو چھوڑ کر بدحجابی یا بے پردگی کو ترجیح دیںگے اور اس کے لئے نئے نئے بہانے تراشیںگے تو ایسے انسانوں کے لئے ایسا عذاب کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
فاطمۃ الزہرؐاء کی خوشحالی
جب پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھر کے کاموں کو تقسیم کرتے ہوئے باہر کا کام حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کیا اور گھر کے اندر کا کام حضرت فاطمہ زہراؑ کے حوالے کردیا، توحضرت زہرا مرضیہؑ نے فرمایا کہ خدا کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم کہ میں اس تقسیم سے کتنی خوش ہوں کہ پیغمبر نے وہ کام جو مردوں سے مخصوص ہیں جس میں مردوں سے رابطہ ہوتا ہے وہ میرے ذمہ نہیں فرمایا۔
گل پژمردہ کی مسکراہٹ
مرسل اعظمؐ کی وفات کے بعد زہرائے مرضیہ کا چین و سکون ہی ختم ہوگیا۔ کبھی آنسو بہانے پر پابندی تو کبھی گھر پر آگ اور لکڑی، کبھی محسن کی شہادت کاغم تو کبھی پہلو شکستگی کا درد اِنہی غم والم نے فاطمۃ الزہرا صلوات اللہ علیہا کے گوشت وپوست کو آب کردیا جسم پر گوشت وپوست کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ آنسو اور نالہ وشیون آپ کی زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکا تھا، گل رسالت کی پتیاں بکھر رہی تھیں اور آہستہ آہستہ اس گل پر پژمردگی کے آثار نمایاں ہورہے تھے بھلا اس موقع پر ہنسی کیا مسکراہٹ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن تاریخ نویسوں نے اس پژمردہ گل رسالت کی مسکراہٹ کا تذکرہ کیا ہے اور بابا کی وفات کے بعد یہ سب سے پہلی مسکراہٹ تھی۔ ہوا یوں کہ زندگی کے آخری لمحات میں جب پہلو کا درد اور بازو کا ورم شدید ہونے لگا تو اسماء سے فرمایا: اسماء مجھے یہ بالکل اچھا نہیں لگتا کہ عورتوں کو مرنے کے بعد ایک ایسی چیز پر لٹا کر ایک چادر ڈال دی جاتی ہے جس سے ان کے بدن کا حجم نمایاں ہوتا ہے۔ یہ سنتے ہی اسماء نے عرض کیا: بی بی حبشہ میں ہم نے ایک تابوت دیکھا ہے جس کے اندر میت کو رکھا جاتا ہے پھر اسماء نے وہ تابوت بناکر دکھایا تاریخ کہتی ہے کہ یہ دیکھ کر فاطمۃ الزہراؑ کے چہرہ پر مسکراہٹ کے آثار نمایاں ہوئے بعد رسولؐ خدا صدیقہ کبریٰ کے چہرہ پر یہی اول وآخر مسکراہٹ تھی جسے تاریخ نے اپنے سینے پر ثبت کیا۔ مسکراتے ہوئے اسمہ سے فرمایا: ’’اصفی لی مثلہ استرینی سترک اللّٰہ من النار‘‘ (اے اسماء) میرے لئے بھی ایسا ہی تابوت بنانا، میرے جنازہ کا پردہ کرنا خدا تمہیں جہنم کی آگ سے پردہ میں رکھے (محفوظ رکھے)۔
صدیقہ کبریٰ کی شہادت کے بعد آپ کو وصیت کے مطابق ایسے ہی تابوت میں رکھا گیا اور تاریخ اسلام میں سب سے پہلی بار تابوت آپ ہی کے لئے استعمال ہوا۔ جب کسی نے معصوم سے پوچھا کہ سب سے پہلے تابوت کس کے لئے بنایا گیا تو آپ نے فرمایا فاطمہ بنت رسولؐ کے لئے۔
بنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے جانگسل اور روح فرسا موقع پر ہم سب کو مل کر اس بات کا عہد کرنا چاہئے کہ اگر اب تک کوتاہیوں کے نتیجے میں ہماری مائیں بہنیں اور بیٹیاں بے پردہ تھیں تو آج کے بعد وہ کبھی بے پردہ نہیں رہیںگی اور تمام خواتین کو بھی مصمم ارادہ کرنا چاہئے کہ بنت رسولؐ کی خوشنودی کے لئے ہم خود بھی باحجاب رہیں اور دوسری خواتین کو بھی پردہ کی افادیت بیان کرکے انہیں باحجاب رہنے کی تلقین کریںگے۔
(ماخوذ از ماہنامہ شعاع عمل لکھنؤ اُردو و ہندی، ناشر نور ہدایت فائونڈیشن امام باڑہ غفران مآب ، مولانا کلب حسین روڈ، چوک ، لکھنؤ ۔۳ (یوپی) انڈیا)