انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی بلاشبہ عصری تاریخ کی سب سے بااثر اور مذہبی شخصیت تھے، جنہوں نے ایک ایسا اسلامی انقلاب برپا کیا، جس نے ظالم حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنیوالے شیطانوں کے ایوانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ چار عشرے گزر جانے کے بعد یہ ایوان آج بھی لرزہ براندام ہیں، جو کسی بھی وقت گرسکتے ہیں۔ ایرانی عوام کی انقلابی تحریک کی قیادت اور اسلامی حکومت کی تشکیل میں امام خمینیؒ کا کردار کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان کی واضح مثال تھے۔ جس میں امام علیہ السلام نے فرمایا. "لوگوں کو صرف اپنی زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے دعوت دو" اور واقعی امام خمینی نے اپنے پُرعزم عمل سے طاغوت کو مٹا کر رکھ دیا اور اپنے کردار سے نہ صرف ایک بہترین راہ عمل دیا، بلکہ لوگوں کے دلوں پر آج تک حکومت کر رہے ہیں۔
امام خمینیؒ نے اپنی ذات کو مذہبی اخلاقیات کیلئے وقف کر رکھا تھا، فکری اور ذہنی مشاغل کی مصروفیات کے باوجود آپ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ آپ کے گھر والوں میں سے ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ امام دوسروں سے زیادہ اس سے محبت کرتے ہیں، کیونکہ وہ ہمیشہ سب کو دیکھ کر مسکراتے تھے۔ امام کی اچھی صحبت اور ان کا حسن سلوک تمام لوگوں کیلئے نمونہ تھا، چونکہ ہمارے انبیاء اور اولیاء اللہ اور پیغمبروں کا طریقہ یہی رہا ہے کہ وہ ہمیشہ لوگوں کیساتھ حسن سلوک اور مہربانی سے پیش آتے تھے، اسی نقشے قدم پر چلتے ہوئے امام خمینیؒ بھی لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ امام کے شاگردوں سے نقل کیا گیا ہے، جب ہم آپ کی خدمت میں آتے تو دس پندرہ میٹر کے فاصلے پر سے ہی سلام کرنے کی کوشش کرتے، تاکہ وہ سمجھ جائیں لیکن وہ ہمیشہ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی ہمیں خوش آمدید کہتے اور سلام کرتے۔ انہوں نے اپنی بابرکت زندگی میں نماز کو ہمیشہ اول وقت کی ادائیگی کیساتھ برقرار رکھا اور قرآن کی مسلسل تلاوت پر زور دیا۔
معاشرتی طور پر انہوں نے نچلی اور عام سطح پر زندگی بسر کی۔ انہوں نے ہمیشہ سادگی اور قناعت اختیار کرتے ہوئے ظاہری خوبصورتی اور صفائی کا خیال رکھا۔ یہ بات ان کی زندگی کے مختلف حالات میں دیکھی جا سکتی ہے کہ امام خمینیؒ اپنی زندگی کی حقیقی راہ میں اپنی شخصیت اور تحریک کی نشوونما اور ترقی کیلئے ہمیشہ فکر مند رہے۔ انہوں نے 24 گھنٹوں میں اپنے اوقات کار کو آرام عبادت مطالعہ اور سفر جیسے مختلف کاموں کیلئے حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا، اسی طرح وہ تمام کاموں میں منصوبہ بندی کے پابند تھے۔ مثلاً رات کے کھانے کے وقت دستک دی جاتی تو امام فرماتے کھانے میں ابھی دس منٹ باقی ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس وقت کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ وہ ایک فقیہ، اصول پسند، صوفی اور استاد تھے۔ امام خمینیؒ میں خدا کی عطا کردہ بے مثال خصوصیات تھیں، جو انہوں نے قرآنی تعلیمات سے سیکھیں۔ جس نے امام خمینیؒ کو ایک پرکشش اور اثر انگیز شخصیت میں بدل دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کا خیال ہے کہ امام خمینیؒ کیلئے تقویٰ اور رحمت الہیٰ کے دروازے کھل گئے تھے اور وہ انقلاب کی تمام کامیابیوں کو امام خمینیؒ کے تقوٰی کی وجہ سمجھتے ہیں۔
عرفان حسینی میں فنا ہونے کیلئے ہم بھی ہم امام خمینیؒ کے عرفان کو ذریعے کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ سالار شہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی عرفانی شخصیت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ امام خمینیؒ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کی گئی شخصیت کے پوشیدہ ترین پہلو میں سے ایک ان کا عرفانی سلوک کا پہلو ہے، لیکن اسے جاننے کیلئے ہمیں ان کی عظیم شخصیت کی شناخت کرنا ہوگی، کیونکہ امام خمینیؒ کی عرفانی دنیا میں قدم رکھنے کیلئے پہلے تو ان کی قرآن و سنت اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مکاتب عرفانی کو سمجھنے کیلئے ہمیں اس قابل بننا پڑے گا، تاکہ اس معراج تک پہنچ سکیں، جو کہ بذات خود ایک مشکل ترین پہلو ہے، کیونکہ نہج البلاغہ میں مولا فرماتے ہیں ہمارا کام بہت ہی مشکل ہے اور کوئی اسے برداشت نہیں کر سکے گا، مگر وہ کہ جس کا دل اللہ نے ایمان سے جانچا ہو اور ہماری بات کو نہیں سمجھے گا، مگر وہ جن کے عقل پختہ ہوں اور جن کے سینے امین ہو۔
امام خمینیؒ کا عرفان ایک ایسے حسینی عرفان کا نور ہے، جو ظلمت کی تاریکی میں عرفان کے دریچے سے تاریکی کو منور کرتا ہے، جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے متصل ہے اور قرآن کریم کی ہدایت یافتہ روشنی ہے۔ ایک ایسی روشنی جس سے ظلم کے تاریک زندان کی آنکھیں چندھیا جائیں۔ یہ عرفان حضرت نوح کی اس کشتی کی مانند ہے، جو طوفانوں سے بچ کر بلندی پر لنگر انداز ہو جاتی ہے۔ جو نجات کا راستہ ہے، جو عرفان حسینی کیلئے ہدایت کا راستہ ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ "بے شک حسین علیہ السلام ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے۔" امام خمینیؒ کا جوش و جذبہ حسینی عرفان کی وہ حرارت ہے، جو آج بھی ان کے ساتھیوں پیروکاروں اور نقش قدم پر چلنے والوں کے خون کو گرمائے ہوئے ہے۔ ایک ایسی حرارت جو قیامت تک ٹھنڈی نہ ہوسکے اور یہ حسینی انقلابی نور کی صورت محبان کے راہ عمل کو روشن کرتی رہے گی۔
امام خمینیؒ کا عرفان ان کی زندگی کے آخری وقت تک نظر آتا ہے، حتٰی کہ زندگی کے آخری لمحات میں وہ اپنے ابرووں کے اشارے سے نماز حقیقی ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ بادشاہ اور حاکم بڑے بڑے محلوں اور ایوانوں میں رہتے ہیں، لیکن دنیا میں تہلکہ مچا دینے والے انقلاب اسلامی کا بانی ایک باکردار شخصصیت، صوفی، فلسفی اور درویش صفت انسان آخری وقت تک ایک چھوٹے سے گھر میں ہی رہتا ہے۔ ایک ایسا گھر جو خود اس کے نام پر بھی نہیں بلکہ ان کی بیگم کے نام پر ہے۔ یہ چھوٹا سا گھر جس میں امام خمینیؒ آخری وقت تک سکونت پذیر رہے، آج بھی لوگوں کیلئے عشق حقیقی کا مرکز ہے۔ یہ عظیم انسان انقلاب کی بنیاد ڈالنے کیلئے جلا وطنی کاٹ کر جب ایران آیا تھا تو اس کے استقبال کیلئے ساٹھ لاکھ ایرانی موجود تھے، لیکن جب اس چھوٹے سے گھر سے عظیم انسان کا عظیم الشان جنازہ اٹھا تو جنازے میں شریک افراد کی تعداد 90 لاکھ تھی۔
عرفان کے عروج پر موجود یہ عظیم انسان دیکھیں اپنے بیٹے کو کیسے وصیت کرتا ہے کہ بیٹا یہ گھر کے قالین لوگوں نے مجھے تمہارا باپ کہہ کر نہیں دیئے بلکہ ایک عالم دین کہہ کر دیئے ہیں، اس لیے میری وفات کے بعد یہ قالین کسی مسجد میں دے دینا، اسی طرح لائبریری میں موجود کتابیں مجھے لوگوں نے تمہارا باپ کہہ کر نہیں دیں بلکہ عالم دین ہونے کے ناطے دی ہیں، اس لیے میرے بعد انہیں کسی لائبریری میں دے دینا۔ بلاشبہ ان اعمال کی بلندیوں سے انہوں نے حسینی عرفان کی معراج کو پا لیا ہوگا۔ بظاہر امام خمینیؒ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، لیکن ان کے کردار اور علم و عمل کی روشنی مسلم دنیا کو منور کرتی رہے گی۔