ماہ عزا کے اختتام پر آپ کو ہر طرف اس نوحہ کی گونج سنائی دے گی اس کے مضمون پر توجہ دیں تو غم واندوہ کے بادل ذہنوں پر چھا نے لگتے ہیں اور امام باڑے اور عزاخانےسنسان وویران نظر آنے لگتے ہیں کہ کیا واقعا عزت وشرافت والاعظیم مہمان ہم سے رخصت ہو جائے گا اور
دل پر پتھر رکھ کر کہنا پڑے گا ۔۔۔
کرب وبلا کے پیاسہ مہمان خدا حافظ ۔۔۔
کس زبان سے کہوں کس دل سے کہوں ہم نے تو یہی سوچا تھا کہ اب کہ بار زھرا کے چاند عرش بریں کے تارے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کو اپنے دل میں مہمان کروں گا انہیں کبھی بھی رخصت نہیں کروں گا اورشہزادہ کونین کو اپنی زندگی میں بسا لوں گا جینا اور مرنا انہیں کے اصولوں کے مطابق ہوگا۔۔۔
مگرشاید ہم اچھے میزبان نہیں ٹہرے اورجیسا ہمارا مہمان ہے اس طرح کی پذیرائی نہ کر سکے ۔۔۔ وہ ہم سے صداقت کے طالب تھے ہم جھوٹ بول تے رہے وہ ہم سے امانت داری کے طالب تھے ہم اپنے ساتھ اور اپنی قوم کے ساتھ خیانت کرتے رہے وہ ہم سے دینداری کا مطالبہ کرتے رہے اور ہم نے دین کو کوئی اہمیت نہیں دی وہ ہم سے تحصیل علم کے طالب تھے اور ہم نے جادہ علم کو دوسروں کے لئے رہا کردیا وہ ہم سے آپس میں وحدت ومحبت کے فروغ کا مطالبہ کرتے رہے اور ہم آپسی اختلافات کو ہوا دیتے رہے۔۔۔
خدایا ؛
ہم نے اپنے عزیز مہمان کی کون سی بات مانی ہے کہ ہم یہ دعویٰ کریں کہ انہیں رخصت کررہےہیں جبکہ اس عالم میں وہ ہمارے مہمان ہی کب ہوئے؟؟
اللہ اللہ یہ تلخ نوائی نہیں ہے اظہار حقیقت ہے
حسین والوں کو دورحاضر میں کس مقام پر ہونا چاہئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ نہیں ؟
ایسا امام ایسا مکتب دنیا میں کس کے پاس ہے؟
جو پاک وپاکیزہ عقل و خرد اور طیب وطاہر جزبات وعواطف سے ھماھنگ بھی ہو اور انسانی تقاضوں کے موافق بھی کچھ آگے بڑھ کر بھی سوچناہے یا نہیں؟ ۔۔۔