صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی زندگی کا ایک اہم درس ، حق اور حقانیت کا ساتھ دینا ہے اور اسی راہ میں آپ کی شہادت بھی واقع ہوجاتی ہے جس کا سب سے واضح نمونہ پیغمبر گرامی اسلام کی رحلت کے بعد دین مبین اسلام میں پیش آنے والا انحراف تھا جس کے مدمقابل آپ کھڑے ہوگئیں اور یعسوب الدین امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور خلافت بلافصل کا دفاع کیا اور لوگوں کے سمجھایا حتی اس راہ میں آپ کی شہادت بھی واقع ہوگئی۔
لہذا ضروری ہے سب سے پہلے اسلامی تعلیمات میں حق و حقانیت کے مصادیق روشن ہوجائیں تاکہ اس کی روشنی میں ہم خاتون جنت شافعہ محشر صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے اقدامات کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور آپ کی عظیم قربانی اور اعلی مقصد سے خود بھی روشناس ہوسکیں اور دوسروں کو بھی روشناس کراسکیں۔
اسلامی تعلیمات میں حق کا ساتھ دینے کی بہت زیادہ تاکید وارد ہوئی ہے نیز حق کے مصادیق کا بھی تفصیلی تذکرہ ملتا ہے نیز حق کا معیار و ملاک بھی ذکر ہوا ہے ، قرآن حکیم کی متعدد آیات اور اہلبیت طاہرین علیہم السلام سے منقول مختلف روایات میں حق کے سلسلے سے بیانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ذات پروردگار حق ہے:
پروردگار عالم سورہ انعام کی آیت نمبر ۶۲ میں ارشاد فرما رہا ہے کہ حق کا سب سے اعلی اور ارفع مصداق خود پروردگار عالم ہے ، ذات اقدس الہ ہے ، جو عین واقعیت اور ہستی مطلق ہے ، ارشاد ہوتا ہے : پھر سب اپنے مولائے برحق پروردگار کی طرف پلٹا دئیے جاتے ہیں ... آگاہ ہوجاؤ کہ فیصلہ کا حق صرف اسی کو ہے اور وہ بہت جلدی حساب کرنے والا ہے۔ (۱)
اس آیت کریمہ میں رب العزت خود کو حق و حقانیت کے عنوان سے پہچنوا رہا ہے اور لوگوں کو بتانا چاہ رہا ہے کہ پروردگار عالم خود بھی حق ہے اس کی صفات بھی حق ہیں اس کے تمام افعال بھی حق ہے یعنی وہ اور اس سے متعلق ہر چیز حق ہے اور حقانیت و صداقت و خیر کا لباس زیب تن کئے ہوئے ہے۔
دین اسلام حق ہے:
اسی طرح دین مبین اسلام کو بھی حق اور حقانیت کے محور اور مرکز کے عنوان سے پیش کر رہا ہے ، پروردگار عالم سورہ فتح کی آیت نمبر ۲۸ میں ارشاد فرماتا ہے : وہی وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان عالم پر غالب بنائے اور گواہی کے لئے بس خدا ہی کافی ہے۔ (۲)
اس آیت کریمہ میں اللہ کے بھیجے ہوئے دین ، آئین اور شریعت یعنی دین مبین اسلام اور شریعت محمدی کو حق اور حقانیت کا معیار و ملاک بنا کر پیش کر رہا ہے تاکہ بشریت کو سمجھا سکے کہ محبوب کبریا رحمت للعالمین اور اپنے آخری نبی کے ذریعہ پروردگار عالم نے جس دین ، شریعت اور آئین کو بھیجا ہے یہ دین ، شریعت ، آئین اور قوانین کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا بلکہ رہتی دنیا تک اب اللہ کا قانون یہی شریعت اور یہی قوانین ہیں جنہیں فخر موجودات نبی گرامی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لے کر آئے ہیں اور اللہ کے نزدیک یہی دین ، دین حق ہے اور اسی راستے سے اللہ تک پہونچا جاسکتا ہے۔
لہذا قرآن حکیم میں دوسرے مقامات پر ارشاد ہوتا : بے شک خدا کے نزدیک سچا دین صرف اسلام ہے۔(۳) مزید ایک اور آیت کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے : اور جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی بھی دوسرا دین اختیار کرے گا تو اس کا دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔ (۴) اسی طرح ایک دوسری آیت کریمہ میں مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : اور جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (۵)
پہلے فرماتا ہے صرف دین خدا حق ہے اس کے بعد راہنمائی کرتا ہے کہ یہ دین وہی دین ہے جو نبی گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لے کر آئے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کیا اس کی تبلیغ کی پھر بیان کرتا ہے کہ اللہ انسان سے صرف اسی صورت دین کو قبول کرے گا جبکہ نبی کے دین کی پیروی کرے آپ کی اطاعت کرے ، اسی لئے قرآن حکیم میں ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے : (اے رسول! میری محبت کے دعویداروں سے) کہہ دیں کہ اگر تم خدا سے (سچی) محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (۶) اسی طرح ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے : اور جو کچھ رسول(ص) تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ بےشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (۷)
قرآن حکیم حق ہے:
اسی طرح سورہ مائدہ کی ۴۸ نمبر آیت کریمہ میں خود قرآن حکیم کو حق کے عنوان سے پیش کر رہا ہے ارشاد ہوتا ہے : اور (اے رسول(ص)) ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے۔ جو تصدیق کرتی ہے۔ ان (آسمانی) کتابوں کی جو اس سے پہلے موجود ہیں اور ان کی محافظ و نگہبان ہے۔ لہٰذا آپ ان کے درمیان وہی فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے اور اس حق سے منہ موڑ کر جو آپ کے پاس آگیا ہے۔ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کی ہے اور اگر خدا (زبردستی) چاہتا، تو تم سب کو ایک ہی (شریعت) کی ایک ہی امت بنا دیتا۔ مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزمائے (ان احکام میں) جو (مختلف اوقات میں) تمہیں دیتا رہا ہے بس تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم سب کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں آگاہ کرے گا۔ ان باتوں سے جن میں تم اختلاف کرتے ہو۔ (۸)
اس آیت کریمہ میں قرآن حکیم جو کہ آخری آسمانی کتاب ہے اور اللہ نے اسے معجز نما بنا کر اپنے آخری نبی سید الانبیاء والمرسلین کے قلب اقدس پر نازل کیا تاکہ یہ کتاب قیامت تک باقی رہے اور الہی دستور بن کر بشریت کی راہنمائی کرتی رہے لہذا اس کتاب کو بھی پروردگار حق کے عنوان سے پہچنوا رہا ہے۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام حق ہیں:
امیرالمومنین امام المتقین سیدالوصیین قائدغرالمحجلین یعسوب الدین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل اور مناقب میں اہل سنت اور شیعہ منابع میں کثیر تعداد میں احادیث اور بیانات دیکھنے کو ملتے ہیں اگرچہ آپ کے فضائل و مناقب پر پردہ پوشی کی بے انتہا کوششیں کی گئیں ، منبروں سے آپ پر سب و شتم تک کیا گیا لیکن اس کے باوجود آپ کی شان میں اتنی مقدار میں احایث اور روایات کا پایا جانا ایک معجزہ سے کم نہیں ہے یہ روایتیں آپ کی بے نظیر شخصیت کا پتہ دیتی ہیں ، انہیں میں سے بعض روایات ایسی ہیں جن میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کو حق کا محور اور حق و باطل کی شناخت کا معیار بتایا گیا ہے ، یہ بات اور یہ مطلب ، احادیث میں مختلف تعبیرات کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ (۹)
مندرجہ بالا روایت میں نبی گرامی اسلام نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کو حق کا محور اور مرکز قرار دیا ہے یعنی جہاں جہاں حضرت علی علیہ السلام ہوں گے وہاں وہاں حق ہوگا۔
یہ حدیث ہمیں حق کو باطل سے پہچاننے کا صحیح معیار اور صحیح ملاک بتا رہی ہے اور وہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں ، لہذا ہم روایات میں دیکھتے ہیں کہ آغاز اسلام میں جب مومنین اور منافقین کی شناخت نہیں ہوپاتی تھی تو مومن کو منافق سے پہچاننے کا جو معیار رائج تھا وہ یہی معیار تھا یعنی امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے ذریعہ مومن کو منافق سے پہچانتے تھے یعنی تشخیص کا معیار حضرت علی علیہ السلام کی ذات اقدس تھی۔ (۱۰)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روایت میں جناب عمار یاسر کو خطاب کرکے ارشاد فرماتے ہیں : اے عمار جب تم علی کو دیکھنا کہ ایک جانب جا رہے ہیں اور دوسرے تمام لوگ دوسری جانب جا رہے ہیں تو تم علی کے ساتھ جانا اور دوسرے لوگوں کو چھوڑ دینا ، یقین جانو کہ وہ تمہیں ہلاکت کے راستے پر نہیں لے جائیں گے اور ہدایت کے راستے سے خارج نہیں کریں گے۔ (۱۱)
اسی طرح آپ ایک دوسری حدیث میں جناب ابن عباس سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتے ہیں : اے ابن عباس عنقریب لوگ داہنے اور بائیں جائیں گے جب ایسے حالات پیدا ہوں تو تم علی اور ان کے گروہ کی پیروی اور اتباع کرنا کیونکہ علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہونچیں۔ (۱۲)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان احادیث کے ذریعہ ہماری راہنمائی فرما رہے ہیں کہ میرے بعد حق کا راستہ ، فقط راہ علی ہے ، اللہ کے دین تک پہنچنے کا راستہ صرف امیرالمومنین حضرت علی علیہ السّلام کا راستہ ہے ، اس راہ کے علاوہ ہر راستہ گمراہی ہے ، ضلالت ہے ، دین خدا سے دوری ہے ، انحراف ہے۔
ان روایات کا مطالعہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امیرمومنین حضرت علی علیہ السلام کی ذات والا صفات ، خیر کا منبع اور سعادت بشر کا سرچشمہ اور انسانی ہدایت کا راستہ و نشان ہے ، اور یہیں سے صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا کے اقدامات کی اہمیت ہمارے لئے واضح اور روشن ہوتی ہے کہ آپ نے بشریت کو اس راستے کی جانب راہنمائی فرمائی جس راستے کو پروردگار عالم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کی ہدایت کے لئے معین کیا تھا ، اور اس راہ میں آپ نے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیا
۱۲: علی بن محمد خزاز ، کفاية الأثر في النص على الأئمة الإثني عشر ، ج ۱ ، ص ۲۴ ؛ علامہ مجلسی ، بحارالانوار ، ج ۳۶ ، ص ۲۸۶ ، یا بنَ عَبّاسٍ، سوفَ یأخُذُ النّاسُ یمینا و شِمالاً، فَاِذا کانَ کذلِک فَاتَّبِع عَلِیا و حِزبَهُ؛ فَاِنَّهُ مَعَ الحَقِّ وَ الحَقُّ مَعَهُ، و لا یفتَرِقانِ حَتّی یرِدا عَلَی الحَوضَ۔