ہر دور میں جہالت ، بے ایمانی ،بے غیرتی اور بے حیائی نے لوگوں کونقصان پہنچایاہےجسکی وجہ سے معاشی و اقتصادی نظام پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے لوگوں کی عادتیں اور طبیعتیں رسم و رواج اور خرافات کا مرکز بن کر معاشرے کو تباہ برباد کرتی نظر آتی ہیں اسکی بہترین مثال عرب کی جہالت ہے جسکے بارے میں مورخ ابوالفداء لکھتا ہے کہ عربوں میں جہالت کوٹ کوٹ کر بھری تھی خوں ریزی،غارت گری ،بے رحمی اور رہزنی وغیرہ سے انھیں قدرتی میلان تھا ۔کینہ پرور ایسے کہ عمریں گزر جاتیں مگر کینہ برقرار رہتا تھا ،خورد سال بچے دیوتاؤں پر بھینٹ چڑھائے جاتے تھے ،لڑکیاں زندہ دفن کردی جاتی تھیں ،مردہ جانوروں کا گوشت انکےلئے عمدہ اور لذیذتین غذا تھی ۔عرب کا پورہ معاشرہ ایک ہی رنگ میں رنگا ہوا تھا قمار بازی،بدکاری اور شراب نوشی انکا محبوب مشغلہ تھا انکی حرام کاری،بے حیائی اور بے شرمی کی یہ حالت تھی کہ کنواری لڑکیاں اور بیاہی عورتیں دونوں ہی زنا کو فخر سمجھتی تھیں ،باپ کے مرنے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماؤں پر زبردستی قابض اور متصرف ہوجاتا تھا ،یتیموں اور بیواؤں کا مال کھانے میں انھیں کوئی شرم نہیں تھی الغرض اسطرح کی قبیح رسمیں و عادتیں انکے اندر کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔
ایسے بدتر ماحول میں سرکار رسالتمآب ؐنے کام شروع کیا جسے قرآن نے ضلال مبین اور کھلی گمراہی سے تعبیر کیا ہے اور اسقدر کامیابی سے کام تمام کیا کہ پروردگار نے اپنی رضامندی کا اعلان کردیا۔
لیکن اس بات سے اکثر افراد بے خبر ہیں پیغمبر اسلامؐ کی تحریک کیسے کامیاب ہوئی اس راہ میں کن مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ خباثتوں کے معادن نے آنحضرتؐ کی راہ میں کانٹے بچھائے ،پتھر برسائے اور طرح طرح کی اذیتیں پہونچائیں یہاں تک کے حضوؐر نے اعلان فرمایاکہ جسقدر مجھے ستایا گیا ہے اسقدر کسی نبی کو اذیت نہیں دی گئی ۔
جیسے ہی اس نے اپنی تحریک کا آغاز کیا کفار و مشرکین کے دل و دماغ میں یہ خیال گردش کرنے لگا کہ اب رسوم و عادات کا قلعہ مسمار ہوجائیگا ،آباء و اجداد کے بنائے ہوئے اصول تباہی کے گھاٹ اترجائیں گے اور خود ساختہ مذہب کے بجائے الہی قانون زندگانی بشر پر حکمرانی کرے گا ،وہیں سے پیغمبر کے کرادر کو مجروح کرنے کی سازش شروع ہوگئی اور صادق و امین کہنے والے افرا د ہی جادوگر و دیوانہ کہنے لگے پھر بھی دین حق کے قبول کرنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا رہا جسکے بعد کفار نے بھی محسوس کر لیا کہ یہ تحریک صرف الزامات سے رکنے والی نہیں ہے لہذا سڑکوں پر گھراؤ کا پروگرام بنایا گیا اور اسمیں ساری قوم کو شریک کیا گیا خاندان عبدالمطلب کو شعب ابیطالب میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیااسکے بعد بھی پیغمبر اسلؐام کا رسوخ بڑھتا گیا اور اسلام کا دامن وسیع تر ہوتا گیا گویا انکا یہ حربہ بھی ناکام ہوگیا اور منھ کی کھانی پڑی جس پر بوکھلاہٹ اتنی بڑھ گئی کہ بچوں کا پتھر مارنے کا کام سونپا گیا ،عورتوں کو کوڑا پھینکنے کا کام ملا،بزرگوں کو ہر محفل و اجتماع میں نئے نئے الزامات تراشنے اور انکی تشہیر کی ذمہ داری ملی ،کسی نے حالت نماز میں پیغمبر ؐ رحمت پر غلاظت پھینکی ،کسی نے آپکا مذاق اڑایا اسطرح کی ایذا رسانی ،عداوت اور دشمنی میں جن خباثتوں کے معادن نے اہم ترین کردار ادا کیا انمیں سر فہرست ابوسفیان، ابولہب، ابو جہل،ولید بن مغیرہ،عاص بن وائل ،عتبہ بن ربیعہ ،عقبہ بن ابی معیط اور امیہ بن خلف جیسوں کے نام ہیں ۔ آخر کا رانھوں نے رات کی تاریکی میں پیغبر اکرمؐ کے خاتمے کا منصوبہ بنایاجسے علی ابن ابیطالب نے ناکام بنایا اور پیغمبر ؐ حکم خدا سے ہجرت کرگئے مگر جیسے ہی کچھ دنوں کے بعد یہ خبر انکے کانوں تک پہنچی کہ ابوطالب ؑ کے بھتیجے کو ہی کامیابی مل رہی ہے انکے دل میں کینے کی آگ اور بھڑک اٹھی لہذا یہ طے کیا گیا کہ مدینہ پر حملہ کیا جائے چناچہ کبھی تنہا اپنی طاقت کے سہارے ،کبھی یہودیوں کو ساتھ لیکر ،کبھی منافقین کو بھی اپنی سازش میں شامل کرکے متعدد حملے کئے لیکن سبکا نتیجہ یہ نکلا کہ ساری کامیابی پیغمبر اسلامؐ کے حصے میں ہی آئی اور آج جب پوری دنیا میں دین اسلام کے پیروکار بڑھ رہے ہیں تو دوبارہ وہی سازشیں رچی جا رہی ہیںاور کچھ لوگ کھلے عام دشمنان اسلام کے آلہ کار بن کر کبھی قرآن کریم جیسی پاکیزہ کتا ب کو مورد الزام قرار دیتے ہیں تو کبھی پیغمبر اسلام ؐ کی توہین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں انھیں خباثتوں کے معادن کی ایک کڑی ہے وسیم لعنتی جس نے حال میں قرآن اور پیغمبر اسلام ؐ کی توہین کرتے ہوئے اپنی فکری خباثتوں کا اعلان کیا ہے
البتہ تاریخ گواہ ہے کہ جتنا زیادہ اسلام ،قوانین اسلام اور اسلام کے رہبروں کو مورد تہمت قرار دیکر انکی شان میں گستاخیاں کی گئیں اور مسلمانوں پر حملے کئے گئے ،مسجدیں مسمار کی گئیں ،اذان پر پابندی لگائی گئی اسلام بھی اسی طرح بہت تیزی سے پھیلتا رہا ہے اور پھیلتا رہے گا انکے جیسے لوگ آتے رہیں گے اور فنا ہوجائیں گے ۔
خدا وند متعال سے یہی دعا ہے کہ ہمارے ملک میں امن و امان کو قائم و دائم فرما۔۔الھی آمین