فلسطین کی قومی بیخ کنی
تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی
یوم قدس وہ دن ہے جب دنیا کے تمام مسلمان متحد ہو کر بیت المقدس کی آزادی کے لئے احتجاج کرتے ہیں۔ اس بار کرونا کی وبا کے پیش نظر یہ احتجاج زیادہ تر مقامات پر سڑکوں پر تو نہیں ہو سکتا ہے لیکن مجازی پلیٹ فارم خاص کر سوشل میڈیا پر دنیا بھر کے مسلمان روایتی انداز سے ہٹ کر زبردست احتجاج کر رہے ہیں یہ احتجاج اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ظلم کے خلاف کبھی خاموش نہیں بیٹھ سکتے احتجاج کا انداز ضرور وقت کے تقاضوں کے پیش نظر بدل سکتا ہے لیکن احتجاج ضرور ہوگا اس لئے کہ یہ متحرک و زندہ قوموں کی علامت ہے ۔
شک نہیں کہ اس ایک بار پھر پچھلی ہی دفعہ کی طرح قدس ان حالات میں منایا جا رہا ہے جب ہر طرف کرونا کی وبا سے ہاہاکار مچی ہوئی ہے ۔ ان دنوں کے حالات ہیں بہت ہی سنگین ہیں ، روز ہی کسی نہ کسی اپنے قریبی عزیز یادوست و آشنا کے انتقال کی خبر آ رہی ہے اسپتالوں میں ہاہاکار مچی ہے ، لوگ آکسیجن سلینڈر کی لائنوں میں لگے ہیں ، ماوں کے قدموں میں جوان بیٹے دم توڑ رہے ہیں دوسری طرف اتنظامیہ کی جانب سے بے توجہی اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی بنیاد پر مسلسل ان ہلاکتوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے جس کو روکا جا سکتا ہے ۔ سوچیں ساری دنیا جب کرونا کی وبا سے جوجھ رہی ہے تو کتنی پریشان ہے ایسے میں ان لوگوں کے بارے میں کوئی سوچے جو کرونا کے ساتھ ساتھ صہیونیزم کی وبا سے جوجھ رہے ہیں ایک طرف کرونا ہے تو دوسری طرف انسانیت کے قاتل ہیں بچوں کے قاتل ہیں ، انکے مظالم کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے یہ لوگ بچوں کو قتل کر تے ہیں پھر سوشل میڈیا پر تصاویر بھی وائرل کرتے ہیں آپکے علم میں ہوگا کہ کس طرح مشرقی بیت المقدس میں ایک یہودی لیڈر نے دو فلسطینی بچوں کو اپنی گاڑی سے کچل دیا اور فرار ہو گیا بچوں کو مارنا عورتوں کو ستانا مردوں کو اسیر کرنا اور قتل و غارت گری انکے وحشی پن کوبیان کرنے کے لئے کافی ہے اسکے باوجود دنیا انکے مظالم پر آنکھ بند کئے بیٹھی ہے ، روز قدس ان کے مظالم کو بیان کرنے انکے وحشی پن کو برملا کر نے کا دن ہے ایک ملک سے اس کے اصلی باشندوں کو ملک بدر کر کے زبردستی اس پر قبضہ کرنے والے صہیونیوں کے ظلم و ستم سے دنیا کو آشنا کرنے کا دن ہے ۔ ایک قوم کی بیخ کنی کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی سفاکیت کو دنیا کے سامنے لانے اور مظلوموں کے ساتھ حمایت کے اعلان کا دن ہے یہ وہ بات ہے جسے نہیں بلکہ خود اسرائیلی مورخ تسلیم کرتے ہیں چنانچہ ہم آپکے سامنے ایک ایسی کتاب کا تعارف پیش کر رہے ہیں جس میں ایک اسرائیلی مورخ نے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ صہیونی فکر اسلامی شدت پسند تنظیموں سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ ایلان پاپے کے بے باک انداز میں اپنے خیالات کے اظہار کی بنا پر ان پر اسرائیل کی حیفا یونیورسٹی میں خدمات پیش کرنے پر روک لگا دی گئی تھی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں تھیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صہیونی فکر محض فلسطینیوں کے خلاف نہیں ان پر ہی ظلم و ستم کے پہاڑ نہیں توڑے جا رہے ہیں بلکہ اس فکر کے خلاف جو بھی آواز اٹھاتا ہے اسکا حال کسی فلسطینی باشندے سے کم نہیں ہوتا بالکال ویسے ہی جیسے حالات اب ہندوستان میں ہوتے جا رہے ہیں کہ ایک خاص رنگ یا فکر کی مخالفت کے پاداش میں ملک سے غداری کا تمغہ سجا دیا جاتا ہے اور انسان سوچتا رہتا ہے کہ اسکا جرم کیا تھا ؟ اسنے نہ تو ملک کے خلاف کچھ کہا نہ ملک کے آئین کے خلاف بلکہ وہ تو ملک سے محبت کرتا ہے آئین پر بھروسہ کرتا ہے ۔ جو کچھ ہمارے یہاں اب ہو رہا ہے فلسطین میں کس طرح ہوا ہے اسکے لئے روز قدس کے موقع پر حاضر ہے اسرائیلی مورخ ایلان پاپے کی کتاب کا بہت مختصر سا تعارف جس کے مطالعہ سے کسی حد تک ہم اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اسرائیل میں کیا ہوا ہے اور ہمارے ملک میں کیا ہونے جا رہا ہے ۔
کچھ کتاب کے بارے میں :
فلسطین کی قومی بیخ کنی یانسلی صفائی Ethnic Cleansing of Palestine» ایک ایسی کتاب ہے جسے اسرائیلی مورخ ایلان پاپے Ilan Pappé نے2006 ء میں ون ورلڈ آکسفورڈ سے شائع کیا. ۔ یہ کتاب ایک بھیانک حادثہ اور اسکے اثرات و نتائج کے سلسلہ سے لکھی گئی ہے ۔
مصنف کا اجمالی تعارف : (ایلان پاپے Ilan Pappé אילן פפה؛ پیدائش ۱۹۵۴) اسرائیل کے مورخ اور سوشلسٹ نقطہ نظر رکھنے والے ایک متحرک سماجی کارکن ہونے کے ساتھ برطانیہ کے سماجی علوم اور بین الاقوامی مطالعہ برطانیہ کے علاوہ یونیورسٹی کے شعبہ یورپی سینٹر برائے مطالعہ فلسطینی کے ڈائریکٹر، اور ایتھن سیاسی مطالعہ کے لئے منظور شدہ سینٹر کے شریک ڈائریکٹر و پروفیسر ہیں.انکی پیدائش حیفا میں ہوئی برطانیہ آنے سے قبل، وہ حیفا یونیورسٹی (1984-2007) میں سیاسی سائنس کے ایک سینئر لیکچرار اور (2000-2008ء) میں حیفا میں فلسطینی اور اسرائیلی مطالعہ کے لئے ایمیل ٹوما انسٹی ٹیوٹ کے صدر تھے ۔
پاپے اسرائیل کےان نئے تاریخ دانوں میں شمار ہوتے ہیں ، جو 1 948 میں ابتدائی برطانوی اور اسرائیلی حکومتی دستاویزات کی کے سامنے آنے کے بعد انہیں دستاویز کے تحت اپنی ایسی رسرچز کے لئے مشہور ہیں جن پر موافق ومخالف دونوں ہی نے تنقیدیں کی ہیں اسی لئے انکے طریقہ کار پر دوسرے مؤرخوں کی طرف سے حمایت کے ساتھ تنقید بھی نظر آتی ہے ، پاپے جہاں فلسطینیوں کی نسلی صفائی کو منصوبہ بند مانتے ہیں وہیں وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ صیہونیزم اسلامی عسکریت پسندی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔ فلسطین و اسرائیل دونوں ہی کے حقوق کی محافظت ہو سکے اسی بنا پر وہ ایک ایسی ریاست کی حمایت کرتے ہیں جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لئے مشترکہ ریاست کے تصور کو پیش کرتی ہو انہیں اپنے کام کے طریقہ کار اور نظریات کی بنیاد پر کئی مرتبہ قتل کی دھکمی بھی دی جا چکی ہے ۔
007 ء میں اسرائیلی یونیورسٹیوں کے بائیکاٹ کے بعد 2007ء میں انہوں نے حیفا یونیورسٹی کوچھوڑ دیا تھا،یا یوں کہا جائے کہ در اصل انہیں وہاں کی یونیورسٹیز سے استعفی دینے پر مجبور کیا گیا اور اسرائیلی معاشرہ میں عدم برداشت کے چلتے ان کو اپنے تمام تر ان حقائق کے ساتھ اسرائیل کو خیرآباد کہنا پڑا جو ان کو ایک ظالمانہ حکومت کی غلامی سے زیادہ عزیز تھے چنانچہ ایک قطری روزنامہ کو دئیے گئے انٹرویو میں وہ اپنے فیصلے کی وضاحت کے ساتھ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ کس طرح اسرائیل میں سچ اور صداقت کی بنیاد پر ان کے اوپر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیابقول خود انکے : "میرا اپنی ہی یونیورسٹی سے بائکاٹ کر دیا گیا تھا مجھے روز دھمکیاں مل رہی تھیں اسرائیلی معاشرہ میں میں اب جینا دوبھر تھا مزے کی بات یہ کہ کچھ بہروپیے یہ سمجھ رہے تھے گوکہ میں عرب ایجنسیز کے لئے کام رہا تھا ۔
پاپے کی اہم کتب :
، جدید مشرق وسطی (2005)،
فلسطین جدید کی تاریخ
ایک زمین، دو قومیں (2003)،
اور برطانیہ اور عرب-اسرائیلی تنازعات (1988).
نظریہ اسرائیل، طاقت اور علم کی تاریخ
کتاب کا اجمالی تعارف :
اس کتاب کا موضوع ، فلسطینیوں کی زبردستی ہجرت اور اسرائیل و عربوں کے ما بین جنگ کی وجوہات و دلائل کو بیان کرنا ہے ، مصنف نے اس کتاب میں ۶۰ سال سے اوپر جو کچھ بھی برطانوی حکومت کی حمایت و پشت پناہی کے ذریعہ انجام پایا ہے اسکی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی ہے اور اس دوران ہونے والے ظلم وستم کے سلسلہ سے اپنے مخاطب کوآگاہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔
پاپے اس کتاب کے ایک حصہ میں لکھتے ہیں : روز تباہی و بربادی یا نکبت جسے عربی میں یوم النکبہ کہا جاتا ہے ۱۹۴۸ کی پندرہ مئی کے ایک ایسے دن سے مطابق ہے جب فلسطین میں ملک اسرائیل کے بننے کا اعلان کیا گیا ۔
فلسطین میں ۱۹۴۸ کی ہونے والی جنگ میں دسیوں ہزار لوگ لقمہ اجل بن گئے اور قریب ۷۰ ہزار فلسطینیوں کو زور زبردستی کر کے انکے گھروں سے کھدیڑ کر دربدر کر دیا گیا ، دسیوں چھوٹے چھوٹے شہر اور ٹاون سٹیز ، پانچ سو سے زیادہ دہیات سکونت سے خالی ہوکر ویران ہو گئے ۔
یہ اپنے ملک سے دربدر پناہ گزیں و رفیو جی جنکی آج تعداد دسیوں لاکھ سے متجاوز ہے اردن (بیس لاکھ)، لبنان (چار لاکھ)، شام (۵ لاکھ)، فلسطین کے مغربی کنارے پر( 8 لاکھ) غزہ پٹی( گیارہ لاکھ )کے علاوہ خود اسرائیل میں کم از کم ڈھائی لاکھ کی تعداد میں ادھر سے ادھر ہو گئے اور یوں اپنی سر زمین سے بکھر کر رہ گئے ہیں ، اپنی جمع پونجی اور اور اپنی ملکیتوں سے ہاتھ دھونے اور زبردستی فلسطین کے لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کے ساتھ تباہی و لاچاری و بربادی کے علاوہ اس روز تباہی و نکبت نےا نہیں کیا دیا ۔ پاپے نے اس کتاب میں بتانے کی کوشش کی ہے کہ جو کچھ بھی ہوا وہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت ہوا اور اسی لئے انہوں نے اس کتاب کا نام فلسطینیوں کی قومی بیخ کنی یا نسلی صفائی رکھا ہے ۔