معتبر روایات کے مطابق حضرت امام جعفر ابن محمد الصادق علیہ السلام کی شھادت بتاریخ ۱۵ شوال سن 148ھجری کو مدینہ میں ہوئی تھیاور اپکا مدفن اپکے والد گرامی اور جد بزرگوار کے پہلو میں جنت البقیع مدینہمیں ہے.
یہ حقیقت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور امامت میں بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان حکومت کے لئے رسہ کشی کے سبب امام کو اتنا وقت میسر ہوگیا تھا کہ اپ تبلیغ دین اسلام کے لئے درس وتدریس کا ایک مستحکم سلسلہ قائم کرسکے مگر یہ عظیم کارنامہکسی طرح بھی خطرات سے خالی نہ تھا. ایک جانب پہلے اموی حکمران اور پھر بعد میں عباسی خلفاء اپکو اپکے اباوآجداد کی طرح اپکے جد پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ والہ والسلم کی وراثت کے امین ہونے کے سبب اپکے ازلی دشمن تھے تو دوسری جانب مسجد نبوی میں اپکے قائم کردہ دانشگاہ میں جہاں تمام عالم اسلام سے لوگ حصول علم کے لئے جوق در جوق جمع ہورہے تھےجوآپکی شہرت اور مقبولیت کا باعث بنا ہوا تھا جسے حکومت وقت کسی قیمت بھی برداشت نہیں کرسکتی تھی. اسی لئے جیسے ہی پہلے عباسی خلیفہ ابو السفاح کی وفات ہوئی اور اسکے بعد اسکے بھائ منصور دوانقی نے عنان حکومت سنبھالی اس نے اپکے قتل کی سازشیں کرنا شروع کردیں. جبکہ خاندان اہلیبیت کا دنیاوی معا ملات خصوصا" حکومتی معاملات سے کوئی تعلق نہ تھا مگر ان کے روحانی اقتدار سے بادشاہ ہمیشہ خوف زدہ رہتا تھا.چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام پر روز بروز ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ اپکے والد گرامی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی حیات ہی میں بنی امیہ کے حکمرانوں کے ہاتھوں شروع ہوچکا تھا.
بنی امیہ کے دور حکومت میں کیونکہ اموی خلیفہ ھشام ابن عبدالملک کیحکومت انتشار اور مختلف مقامات پر بغاوت کا شکار تھی اس لئے ھشام ہرکسی کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھتا تھا اور جھوٹے خوشامدیوں کی خبروں پر کسی کابھی قتل کرنے سے نہ چوکتا تھا. چنانچہ اپنی عمر کی آخری دور میں ھشامحج کے لئے جب مکہ معظمہ پہنچا تو وہاں امام محمد باقر علیہ السلام بھی اپنے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ آئے ہوئے تھے. اسی دوران امام جعفر صادق علیہ السلام نے وہاں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ ہم روئے زمین پر خدا کے خلیفہ اور حجت خدا ہیں. ھشام اسکی اطلاع پاکر وہاں تو خاموش رہا مگر دمشق پہنچ کر دونوں ائمہ کو مدینہ سے دمشق بلوالیا اور وہاں اپ دونوں کو قید کردیا. لیکن دونوں حضرات کی عوام میں مقبولیت اور پیروی کے باعث اسے انھیں مدینہ واپس بھیجنا پڑا. سنہ 114 ھجری میں امام محمد باقر علیہ السلام کو زہر دلوانے کے بعد سنہ 125ھجریمیں ھشام فوت ہوگیا. اسکے تقریبا" چھ سال بعد اموی حکومت کا تختہ پلٹ کر عباسیوں نے اہلیبیت کی جھوٹی حمایت کا سہارا لیکر تخت خلافت پر قبضہ کرلیا.
اس حقیقت کے پیش نظرکہ عباسیوں کو حکومت اہلیبیت پر بنی امیہ کے ذریعہ مسلسل ڈھائے جانے والے مظالم کا انتقام لینے کے دعووں کے سبب ملی تھی ہونا یہ چاہئے تھا کہ بنی عباس اس وقت موجود اہلیبیت کے حقیقی نمائندہ شخصیت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو انکا جائز حق دیتے مگر جو حکومت دنیا وی اغراض و مقاصد حاصل کرنے کے لئے قائم کی گئی تھی اور حمایت اہلیبیت صرف عوام کی حمایت حاصل کرنے کا ایک بہانہ تھا وہ بھلا کیوں امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ کوئی منصفانہ سلوک روا رکھتی.
عباسی خاندان کا پہلا خلیفہ ابوالسفاح چار برس حکومت کرکے مرنے سے پہلے عنان حکومت اپنے بھائ منصور دوانقی کے حوالے کر گیا. یہ وہ سخت ترین دور تھا کہ جب کھلے عام سادات کی نسل کشی کی گئ . سادات کو دیواروں میں چنوایا گیا انکو مقید کرکے بھوکا اور پیاسا رکھا گیا. اس دوران امام جعفر صادق علیہ السلام کا قیام مدینہ ہی میں رہا. یوں تو کچھ سیاسی مصلحتوں کے تحت حکومت وقت امام سے بظاہر کوئ تعرض نہیں کررہی تھی مگر منصور کے سادات پر روز بروز بڑھتے مظالم خصوصا" امام حسن علیہ السلام کی اولاد کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم دیکھ کر امام بہت مضطرب اور پریشان رہنے لگے. اور پھر وہ دور بھی شروع ہوا جب منصور براہ راست امام کو اذیتیں دینے کے بہانے تلاش کرنے لگا.
خصوصا" اپکی عمر کا آخری وہ دور جب منصوردوانقینے آپکے قتل کے ارادے سے اپکو مدینہ سے بغداد کئی بار بلوایا. اپ پر اپنے جھوٹے مخبروں اور چغلخوروں سے بے بنیاد الزام لگوا کر اپکے قتل کے بہانے تلاش کرتا رہا. ایک بار اپکو بغداد بلاکر اسنے جھوٹے خطوط دکھا کر الزام لگایا کہ وہ خطوط گویا اپنے اہل خراسان کو لکھے تھے اور وہاں کے لوگوں کو حکومت کے خلاف بغاوت کے لئے آمادہ کیا تھا. لیکن کسی ثبوت کی عدم موجودگی میں اور امام کی حقانیت کے باعث وہ اپنے ناپاک ارادے میں کامیاب نہ ہوسکا . امام ابھی منصور کے پاس بغداد ہی میں تھے کہ وہاں مختلف علماء سے مناظرے کئے اور انھیں شکست فاش دی. ایسے واقعاتسے عوامم الناس میں امام کی مقبولیت اور بڑھ گئی جس سے خلیفہ منصور امام سے مزید خوف زدہ ہوگیا اور اس نے اپکوواپس مدینہ جانے دیا.بظاہر تو اس نے امام کو عزت واحترام کے ساتھ رخصت کیا لیکن دل میں اپکے قتل کا تہیہ کرلیا اور اپکے قتل کے طریقے سوچنے لگا. آخر کار اس نے اپنے والی مدینہ کو حکم دیا کی وہ امام کو بمعہ اہل وعیال انکے گھر میں آگ لگا کر ختم کردے. والی مدینہ نے رات کے وقت امام کے گھر کو نذر آتش کردیا جب کہ تمام اہل خانہ سو رہے تھے. اس اچانک مصیبت کے لئے کوئ بھی تیار نہ تھا. لیکن جو اللہ کی پناہ میں ہو اسے کوئ ضرر نہیں پہنچا سکتا. امام نے آگ کو بجھانے کی تدبیر کی اور یوں سب اہل وعیال اس مصیبت سے اس وقت بچ گئے. امام اور انکے اہل وعیال کےاس معجزانہطریقہ سے محفوظ رہنے کی خبرخلیفہ منصور کو ضرور ناگوار گذریہوگی اسی لئے اس نے فورا" ہی امام کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا.
تاریخ گواہ ہے کہ اپنے آباواجداد کی طرح ہی امام جعفر صادق علیہ السلام کے خلاف بھی حکومت وقت کے مسلسل مظالم اور پھر قتل کی بنیادی وجہ ان حکمرانوں کا وہ خوف تھا جو انھیں ان معصوم ہستیوں کے اعلی کردار' انکی حقانیت اور انکی رسول کریم سےقرابت کے باعث ہر لمحہ پریشان کئے رہتا تھا کہ کہیں عوام ان مظلوم ہستیوں کے ذاتی اور خاندانی فضائل کی بناء پر انکے حقوق کی مدافعت کے لئے حکومت کے خلاف کھڑے نہ ہوجاتیں جس کا مظاہرہ وقتا" فوقتا" مختلف مقامات پر ہوتا رہتا تھا.
گو کہ ان ظالم حکومتوں نے امام کو کبھی چین سے رہنے نہ دیا لیکن اس بارمصلحت خداوندی کے تحت امام کو اپنے فرائض امامت کی ادائیگی کے لئے وہ دور ملا کہ جب اموی اور عباسی خاندانوں کے درمیان حکومت کے لئےرسہ کشی جاری تھی.کیونکہ عباسیوں کی اموی حکومت کے خلاف ریشہ دوانیاں بڑھتی جارہی تھیں اور سیاسی بساط پر جگہ جگہ علویوں کو بھی اہمیت دی جارہی تھی اس لئےآخری دور کے اموی خلفاء کو پہلے امام محمد باقر علیہ السلام اور پھر انکے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف خاطر خواہ توجہ اور انکے خلاف کھلے عام کسی کاروائ کرنے کا موقعہ نہ مل سکا جس کے باعث دونوں ائمہ نے اپنی پوری زندگی تبلیغ دین اورفروغ علم کے لئے وقف کردی. جس کے لئے انہوں نے مدینہ میں مسجد نبوی ہی میں ایک عظیم دینی دانشگاہ قائم کردی. اس لئے تاریخ اسلام میں یہ دور علوم و معارف کے اعتبار سے زریں دور تھا. کیونکہ حکومت اپنے سیاسی خلفشار سے نپٹنے میں مصروف تھی اس لئے عوام کو بھیامام کی اس دانشگاہ تک پہنچنے میں کوئ دقّت نہ تھی اور اس طرح صرف مدینہ یا اسکے آطراف کے علاقوں ہی سے نہیں بلکہ دور دراز مقامات جیسے عراق، شام ، کابل ، سندھ ، بلاد روم اور یوروپ سے آئے ہوئے شائقین علم اپکی درسگاہ سے مستفید ہوتے تھے. اور اس طرح یہ عالم اسلام کی امام کی سرپرستی میں پہلی دانشگاہ قائم ہوئ.
اسی دانشگاہ میں اپکے شاگردوں میں دیگر فنون کے علماء کے علاوہچار سو مصنفین نے آصول کی چارسو کتب تدوین کیں جو آصول اربعمائہ کے نام سے مشھور ہوئیں.ان ہی چارسو کتابوں سے بعد کے علماء نے احادیث اخذ کرکے فقہ اور احادیث کی کتب مدون کیں. امام سے جس قدر علوم ماخوذ اور منقول ہوئے اتنے کسی سے نہیں ہوئے .
اکابر محدثین اورائمہ فقہ نے اپکے جن اصحاب سے احادیث روایت کی ہیں انکی تعداد چار ہزار تھی. ان محدیثین میں امام مالک ابن انس، امام شافعی ، امام احمد حنبل ، سفیان ثوری، ابن جریح، حسن بن صالح، ابو لہب سجستانی، روح بن قاسم وغیرھم شامل ہیں. امام مالک کا کہنا ہے کہ علم و فضل ، عبادت و ورع میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے افضل نہ کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سنا ، نہ کسی کے تصور میں آیا. امام ابو حنیفہ نے بھی آما م سے کسب علم کیا اور وہ مسلسل امام کی خدمت میں حاضر ہوکر مختلف مسائل کو حل کرانے کے لئے امام سے رجوع کرتے تھے .
امام کے اس دور میں جب اپکے فیض علم کی ہر طرف شہرت تھی حاکم وقت منصور کے سامنے کئی بار ایسے مراحل آئے کہ جب اسکے اپنے دربار کے تنخواہ دار علماء سے غیرمسلم یا جادہ حق سے منحرف علماء نے مناظرے کرکےانکو بے بس کیا تو دین اسلام کی حفاظت کی خاطر اسے امام کیضرورت پڑی اور اپ کو اپنے دربار میں بلوایا. کئی بار ایسا بھی ہوا کی اسکے دربار میں دنیا بھر سے جمع ہونے والے علماء سے جب وہ خود مرعوب ہوتا تھا تب بھی امام کو اپنے دربار میں اس لئے طلب کرتا تھا تاکہ امام کو ایسے علماء سے مناظرے کراکر اپنے زعم ناقص میں سب کے سامنے رسوا کرے . لیکن جنکو تمام علوم سے اللہ نے نوازا ہو انکو کون زیر کرسکتا ہے.ایسے ہی واقعات سے خوف زدہ ہوکر خلیفہ منصور امام کے قتل کے نئے منصوبے بنانے لگا. سن 147 ھجری میں جب وہ حج کو گیا تو وہاں بھی لوگوں نے امام کے متعلق اسکو جھوٹی باتیں بتائیں کہ وہ تیرے خلاف کوئ مہمچلا رہے ہیں. واپسی پر وہ مدینہ میں رکا اور وہاں اپنے معتمد خآص ربیع کے ذریعہ امام کو طلب کیا. لیکن امام کی باتیں سن کر قتل کے ارادہ سے باز رہا. مگر بغداد پہنچ کراس نے پھر امام کو وہاں طلب کیا. اس بار اس نے اپنے دربار میں کچھ ایسے سو لوگ اکھٹا کیے کہ جو بلکل جاہل تھے اور انکو امام کے قتل کا حکم دیا. ان لوگوں نے جب امام کو دیکھا تووہ سب اپکے قدموں میں گر پڑے اور منصور کو بتایا کہ یہ توہمارے امام وقت ہیں جو ہماری ہر وقت خبر گیری کرتے ہیں. اس بارپھر منصور خوف زدہ ہوگیا اور امام کو علی الاعلان قتل نہ کر سکا. منصور نے امام کو قتل کرنے کے لئے جتنی بھی تدابیر کی تھیں ان میں ناکام ہونے کے بعد آخر میں اپکو قتل کرنے کا وہی بزدلانہ حربہ استعمال کیا کہ جو بادشاہان وقت اپکے پدربزرگوار اور جد امجد کےقتل کے لئے کرچکے تھے.
منصور نے اس وقت کے اپنے والئی مدینہ محمد بن سلیمان کے پاس زہر آلود انگور بھیجے اور اسے حکم دیا کہ جس طرح ممکن ہو یہ زہر آلود انگور جعفر ابن محمد ع کو کھلادئے جائیں. چنانچہ ؤالئی مدینہ نے وہ انگور اپنے ایک معتمد شخص کے زریعے امام کی خدمت میں بھیج دئے. امام نے ان انگوروں کو نوش فرمایا تو فورا" ہی زہر اپکے تمام جسم میں پھیل گیا. اور اسی زہر کے اثر سے ۱۵ شوال سنہ 148 کو مدینہ منورہ میں آپکی شھادت واقع ہوئ اور اک عظیم منارہ ھدایت منہدم ہوگیا. امام کو اپکے جد اور بابا کے پہلو میں جنت البقیع میں دفنایا گیا. اپکی قبر مبارک اپنی جدہ سیدہ کونین ص' اپنے جد اور بابا کی قبروں کی طرح بے سایہ نوحہ کناں ہیں جہاں اسی ماہ شوال کی آٹھ تاریخ کو دشمنان اہلیبیت نے روضہ اطہر کو منہدم کردیا تھا.