ڈاکٹر محمدطاہر القادری، پاکستان
(ڈاکٹر طاہر القادری کی یہ یزیدیت شکن تقریر جو مضمون کی شکل میں شائع کی جارہی ہے وقت کی اہم ضرورت ہے اور وہ افراد جو حامیاں یزید اور اسکی شفاعت کے ٹھیکیدار بن کر ابھرے میں یا ماضی میں ابھرچکے ہیں یا مستقبل قریب میں ابھرنا چاہتے ہیں اُن سب کی زباں بندی کے لئے مُہرثقیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ بعض وہ مقامات جہاں متن تفصیل و تفسیر کا طالب تھا قارئین کی سہولت کے لئے حاشیہ پر ضروری معلومات فراہم کرادی گئیں ہیں تاکہ ذہنی الجھنوں سے محفوظ رہا جاسکے۔)
بِسمِ اﷲ الرّحمٰنِ الرّحِیم انّ الّذِین یؤذون اﷲ و رسولہ لعنھم اﷲ فیِ الدّنیا والآخِرِۃ واعدلھم عذابا مھِیناo والّذِین یؤذون المؤمِنِین والمؤمِناتِ بِغیرِ مااکتسبوا (احزاب ؍۵۷۔۵۸)
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیّت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دیتے ہیں بغیر اس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنی اذیت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اذیت کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور فرمایا جو مجھے اذیت دیتا ہے وہ دراصل میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو اذیت دینے کی سزا ان پر دنیا وآخرت میں لعنت مقرر کی ہے۔ سورہ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۷ اور ۵۸ میں یؤذون المؤمِنِین والمؤمِناتمیںاذیت دینے کا عمل ایک ہے لیکن دونوں میں فرق ہے۔ مسلمانوں کی اذیت کو اللہ تعالیٰ نے کہاکہ انہوں نے کھلا ارتکاب کیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا محض گناہ کبیرہ نہیں کہا بلکہ اس کی سزا کفر، ارتداد، ذلت آمیز عذاب اور دنیا و آخرت کی لعنت مقرر کی ہے۔بعض لوگ واقعہ کربلا کی بحث کرتے ہوئے اس قسم کی آیات اور دلائل لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کوئی مومن مرد کو قتل کرے اس کو اتنا عذاب ہے، یزید اور اس کے لشکر نے امام عالی مقام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو شہید کیا۔ انہوں نے اتنا بڑا گناہ کیا لہٰذا وہ فاسق و فاجر ہوگئے۔ گویا وہ امام عالی مقام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی اس انداز کی شہادت کو یؤذون المؤمِنِین والمؤمِناتمیں شامل کرنا چاہتے ہیں اس سے بڑی جہالت، بغض اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے عداوت اور کوئی نہیں۔ کیونکہ گناہ کبیرہ کا کوئی عمل جو مسلمانوں کے ساتھ ہو وہ ظلم اور گناہ ہے مگر وہی عمل اہل مدینہ سے کوئی کرے تو اس کا معاملہ جدا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓروایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لایرِید احد اھل المدِینۃِ بِسواِلا عذبہ اﷲ فِی النارِ ذوب الرصاص اوذوب المِلحِ فیِ المائِ۔
( مسلم،الصحیح، کتاب الحج؍۲،۲۹۲، رقم:۱۳۶۲)
جو شخص اہل مدینہ کو تکلیف دینا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ میں اس طرح پگھلائے گا جس طرح آگ میں سیسہ پگھلتا ہے یا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے۔
کیا قرآن میں اہل مدینہ کے سوا کسی انسان کے ساتھ برائی کا ارادہ کرنے والے کی ایسی سزا کا حکم ہے؟ کیا ہرانسان کو اذیت دینا برابر ہے؟ نہیں! مگر اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل مدینہ اور عام انسان میں فرق کردیا ہے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
المدِینۃ حرم مِن کذا اِلی کذا لا یقطع شجرھا ولا یحدث فِیھا حدث من احدث فِیھا ھدثا فعلیہِ لعن اﷲِ والملائِکۃِ والناسِ اجمعِین۔
( بخاری، الصحیح، ۲،فضائل المدینۃ؍۶۶۱، رقم:۱۷۶۸)
مدینہ منورہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک حرم ہے اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ اس میں کوئی فتنہ بپا کیا جائے جو اس میں کوئی فتنے کا کام ایجاد کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔
کسی کو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ شاید یہ حکم حضور علیہ (وآلہ)الصلوۃ والسلام کی ظاہری حیات کے لئے تھااور وصال کے بعد کونسی اذیت رہ گئی۔ اس کا جواب سورۂ احزاب میں ہے کہ اذیت جس طرح حیات مبارکہ میں تھی اسی طرح وصال کے بعد بھی ہے۔ ارشاد فرمایا:
وما کان لکم ان تؤذوارسول اﷲِ ولا ان تنِکحوا ازواجہ مِن بعدِہِ ابدااِنّ ذلِکم کان عِنداﷲِ عظِیما(الاحزاب؍۵۳)
اور تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچائو اور نہ یہ جائز ہے کہ تم ان کے بعد ابد تک ان کی ازواجِ مطہرات سے نکاح کرو، بے شک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
فرمان الٰہی سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی اسی طرح ہیں جیسے وصال سے قبل تھے۔ ان کی رحمتیں، اذیتیں، تعظیم و تکریم اور ادب و احترام ابدی ہے۔ اس لئے کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گلشن کا کوئی ایک پھول بھی توڑے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گوارا نہیں بلکہ اذیت ہوگی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کے درخت کاٹیں تو انہیں اذیت ہوتی ہے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا گلا کٹے پر کیا رسولؐ کو اذیت نہیں ہوگی۔ سیدنا علی اکبر رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا جائے اور حضرت سکینہ رضی اللہ عنہا کو رلایا جائے تو کیا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت نہیں ہوگی۔ان کو اذیت دینا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا ہے اور ان سے محبت کرنا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرناہے۔ ان کا ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہے۔ ان کا غم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غم ہے۔ میں پوری ایمانداری، توکل، تحقیق اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ غم حسین رضی اللہ عنہ غم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہ سنت خدا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ امت، کربلا پر سوگوار کیوں ہے؟ ذکر حسین رضی اللہ عنہ پر آنکھیں کیوں نم ہوتی ہیں۔ واقعہ کربلا کو ۱۴سو سال گزرجانے کے بعد بھی غم حسین رضی اللہ عنہ میں کیوں رویا جاتا ہے؟ سادہ بات ہے کہ جس سے پیار ہواس کو کوئی تھوڑی سی تکلیف در پیش ہواور صدیاں بھی گزرجائیں پیارکرنے والے اس کا ذکر غم سے کرتے ہیں اگر یہ بات سمجھ میں نہ آئے تو صرف سورۂ مریم ہی کو پڑھ لیں۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: فحملتہ فانتبذت بِہِ مکانا قصِیاoفاجاء ھا المخاض اِلیٰ جِذعِ الّنخلِۃ قالت یا لیتنِی مِتُّ قبل ھذاوکنت نسْیا منسِیاّ(مریم؍۲۲،۲۳)
پس مریم علیہاالسلام نے اسے پیٹ میں لے لیا اور آبادی سے (الگ ہوکر دور ایک مقام پر جابیٹھیںo پھر در دِزہ انہیں ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، وہ پریشانی کے عالم میں کہنے لگیں: اے کاش! میں پہلے سے مر گئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہوچکی ہوتی۔
صدیوں پہلے جو واقعہ بیتا اللہ تعالیٰ نے صدیوں بعد اس کا ذکر قرآن میں فرمایا۔ لوگ مثال دے کر کہتے ہیںکہ واقعہ کربلا میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہ کا ذکر کیوں کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے پوچھتے ہیںکہ اس نے حضرت مریم علیہاالسلام کے دردِزہ کا ذکر قرآن میں کیوں کیا؟ شدت تکلیف سے جناب مریم علیہاالسلام کی زبان سے جو کلمہ نکلا اس کا نقشہ ایک لمحہ میں کیوں کھینچ لیا؟ اگر اس پورے بیان کا مقصد اللہ کے یہاں صرف محبوبوں کا ذکر ہے تو ہم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوبوں کے غم کا ذکر کیوں نہ کریں۔ اولیا، عرفا، صلحاء کرام علیہم الرحمۃ اور محبت کرنے والے غم حسین رضی اللہ عنہ میں روتے تھے۔
جریر بن عبداللہ ابتریؓ روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام نے فرمایا: میں تم پر سورہ الھم التکاثرکی تلاوت کرتا ہوں۔ فمن بکی فلہ الجنۃجوروئے گا وہ جنت میں جائے گا کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم رو پڑے اور کچھ نہ روسکے۔ جنہیں رونا نہ آیا انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم نے بری کوشش کی کہ ہمیں بھی رونا آجائے لیکن ہم رو نہیں سکے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: میں دوبارہ پڑھتا ہوں جو رو پڑے ان کے لئے جنت ہے اور جس کو کوشش کے باوجود رونا نہ آئے وہ رونے والی شکل ہی بنالے یا رونے والوں میں شامل ہوجائے۔ (ترمذی، نوادرالاصول فی احادیث الرسول، ۲:۱۹۸) سو غم کے ذکر میں رونا سنت ہوگئی۔ آقا علیہ السلام کو اپنے قلب و باطن میں رقت، شکستگی پیدا کرنے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رقت و بکا کی تعلیم دیتے تھے گویا اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے غم میں رونا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت صحابہ رضی اللہ عنہم ہے۔ کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت صحابہ رضی اللہ عنہم ہے۔ کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو اذیت دے یہ رب کو گوارا نہیں کیونکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا علیہم السلام اس کائنات میں تشریف لائے لیکن کبھی کسی اور نبی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسی بات نہیں فرمائی، جیسے سورہ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۳میں فرمائی جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانے پر دعوت دی تو انہوں نے واپس جانے میں دیر کردی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کہ تمہارا دیر تک بیٹھے رہنا میرے محبوب کو اذیت دیتا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ اگر یہ تکلیف بھی رب کو گوارا نہیں تو دس محرم الحرام یوم عاشورہ کی اذیتوں کا عالم کیا ہوگا۔ کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے گھر کھانے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم بیٹھے رہیں تو رب تعالیٰ فرماتا ہے: باتوں میں دل لگا کر نہ بیٹھا کرو اس سے میرے محبوب کو تکلیف ہوتی ہے پھر بات یہاں ختم نہیں کی بلکہ مزید فرمایا: تم جانتے ہو کہ میرا محبوب بڑا حیادار ہے وہ اپنی زبان سے تمہیں کبھی نہیں کہے گا کہ اب چلے جائو۔ یہ بات کہنے میں میرے محبوب کو حیا آتی ہے۔ اس لئے ہر ہر لحظہ ہر قسم کی اذیتوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میںمحافظ ہوں۔ دوسرے مقام پر سورہ توبہ میں فرمایا: والذِین یؤذون رسول اﷲِ لھم عذاب الِیم(التوبہ؍۶۱)
اور جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی بدعقیدگی، بدگمانی اور بدزبانی کے ذریعے اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ توآقائے دوجہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہے مگر یوم عاشورا کے روز اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی اذیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت تھی یا نہ تھی۔ ان سے محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت تھی یا نہ تھی۔ ان کی خوشی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی تھی یا نہ تھی اور انہیں تکلیف دینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دینا تھا یانہ تھا۔
یہاں پر بنیادی بات جو بتانا چاہتا ہوں وہ سیدۂ کائنات رضی اللہ عنہا کی شان اقدس کے متعلق ہے حضرت مِسور بن محزمہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’فاطمۃ بضعت مِنِی فمن اغضبھا اغضبنِی۔ ویؤذِینیِ ماآذاھا‘‘ (بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، ۳، ۱۳۶۱، رقم: ,۵۳۱۰ مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، :۱۹۰۳، رقم ۲۴۴۹)
میری جان کے دو حصے فاطمہ رضی اللہ عنہا میں ہیں پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔
بضع عربی زبان میں تین سے نو تک کے عدد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں سورہ یوسف اور سورہ روم میں بضع کا لفظ سات سالوں کے لئے آیا ہے۔ جب آپ دس کے یونٹ میں سات کو دیکھیں تو ساڑھے تین ایک تہائی، ساڑھے تین دو تہائی اور ساڑھے تین ساڑھے نو بن گیا، تو دس کے یونٹ میں ۷ دو تہائی بنتاہے۔ اس لئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ رضی اللہ عنہا سے میرا تعلق یہ ہے کہ دوتہائی جان میری فاطمہ رضی اللہ عنہا سے میراتعلق یہ ہے دوتہائی جان میری فاطمہ رضی اللہ عنہا میں ہے۔ لہٰذا جس نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔ جس نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔ اذیت کی بات ہورہی ہے تو کیا اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو اذیت دینا اور پھرجنت کی توقع کرنا، مسلمانی کا دعویٰ کرنا، ایمان کی بات کرنا اور آخرت میں کسی حصے کی امید رکھنا، یہ حق کسی کو نہیں ہے۔ اس لئے کہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت ہی ایمان ہے اور جنت اسے ہی ملے گی جس کو سید فاطمۃ الزہرا علیھا السلام دینا چاہیں گی جنت اور آخرت ان ہی کی ہے۔ جس کو سیدہ فاطمہ علیھاالسلام، حسن و حسین علیھما السلام نہیں چاہیں گے اس کو جنت نہیں مل سکتی۔ وہ جنت کے وارث ہوں گے اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اخبرنِی رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان اول من یدخل الجنۃ انا وفاِطمۃ والحسن والحسین قلت: یارسول اﷲِ، فمحِبونا؟قال: مِن ورائِکم۔
(حاکم، المستدرک، ۱۶۴، رقم: ۴۷۲۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا کہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں، میں یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسولؐاللہ! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ تمہارے پیچھے پیچھے جنت میں ہوں گے۔
اسی حدیث کو حضرت عمرفاروقؓ نے روایت کیاہے۔ یہ بات اس لئے بھی سوچنے والی ہے کہ کون کون سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور امہات المومنین میں سے ہیں جنہوں نے ان کی شان میں حدیثیں روایت نہ کی ہوں۔ جن سے دل میں محبت اور پیار نہ ہوکیا وہ ایسی روایتیں بیان کرتے ہیں۔ یہ اعزاز آقا علیہ السلام کے صحابہ کو ہی نصیب ہوا ہے۔ دراصل یہ اس امت کو ایک دائمی اور نہ ختم ہونے والے رنگے و فساد میں مبتلا کرنے والے قصے ہیں جنہوں نے دلوں سے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کو نکال دیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں حضرات کی احادیث کی کتابیں جس زمانے میں مدوّن ہوئیں اس وقت دو ادوار گزررہے تھے۔ پہلا دور بنوامیہ کا اور دوسرا بنو عباس کا تھا۔بنوامیہ کے حکمرانوں سے انعام اور شاباشی لینے کے لئے کچھ لوگ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ یا اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے خلاف اور بنو امیہ کی شان میں باتیں گھڑگھڑ کر بیان کرتے اور ان سے حدیثیں منسوب کرکے روایت کرتے اور کتابیں لکھتے۔جب بنوعباس کا دور آیا تو اس دور کے کچھ لوگ بنو عباس کے حکمرانوں کو خوش کرنے اور انعامات وصول کرنے کے لئے بنو امیہ کے خلاف اقوال گھڑتے تاکہ وہ ان کے محب کہلائیں اس طرح دونوں ادوار بیتے اور دونوں میں وضع حدیث کا فتنہ تھا۔ دونوں ادوار میں اپنے اپنے مطلب کو پورا کرنے کے لئے جھوٹے اقوال گڑھے گئے، انھیں احادیث کا نام دیاگیا۔ اس طرح صدیوں سے وہ وضع کی گئیں حدیثیں کتابوں میں اب تک منتقل ہوتی آرہی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس فتنے نے امت کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ آج امت ان اصل روایات سے لاعلم ہے جنھیں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے خود رسول اسلامؐ کی زبان اقدس سے سن کر اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی شان میں بیان کیں تھیں۔ حضر سیدنافاروق اعظم، حضرت ابوموسی اشعری، حضرت عائشہ، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن مسعود نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی شان میں احادیث روایت کی ہیں۔ بتانا مقصود یہ تھا کہ ایک تو ان (اہل بیت رضی اللہ عنہم) کی محبت حضوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور ان کو اذیت دینا حضوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا ہے اور دوسرا یہ کہ قیامت اور جنت کے وارث ہی یہی ہیں۔ علامہ آلوسی روح المعانی میں فرماتے ہیں: میری بصیرت و تحقیق کہتی ہے کہ یزید بدبخت آقاعلیہ السلام کی رسالت پر ہی یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ بے ایمان کافر تھااگررسالت پر یقین رکھتا ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح سے اذیت نہ دیتا۔ جو لوگ یزید کو بچاتے پھرتے اور اس کی عزت وناموس کا تحفظّ کرتے ہیںاور اس کو خلیفہ اور امیرالمومنین بناتے ہیں وہ یہ توجان لیں کہ وہ خبیث تمہیں کیا دے گا، دوزخ ہی دے گا جہاں خود جل رہا ہے۔ شاید دوزخ کا کوئی درجہ بھی اس بے ایمان کو قبول کرے گا یا نہیں۔ اس لئے ان کی نوکری کرو جو جنت کے مالک ہیں تاکہ کچھ مل جائے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’الحسن و الحسین سیدِ اشبابِ اھلِ الجنۃِ‘‘۔
(ترمزی،السنن، کتاب المناقب، ۵:۶۵۶ رقم ۳۷۶۸)
حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں شہزادے جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
آپ غور کریں اس حدیث کے راوی حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابوحذیفہ، حضرت علی المرتضی، حضرت انس بن مالک، حضرت عمر فاروق، حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ یہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہیں جو اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی سیادت کا اعلان احادیث روایت کرکے کررہے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود سے حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: من احبنیِ فلیحِب ھذانِ۔‘‘
( بن حبان، الصحیح، ۱۵:۴۲۶ رقم ۶۹۷۰)
جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرے۔آپ نے اندازہ کیا کہ آقا علیہ السلام کو اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے کتنی محبت ہے۔ قیامت، جنت سب ان (رضی اللہ عنہم) کی ہے۔ جس طرح اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے ایک رخ محبت کا ہے اسی طرح دوسرا رخ بغض کا ہے۔ حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم روایت کررہے ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: من ابغضھما فقد ابغضنِی۔‘‘
(ترمذی، تہذیب الکمال، ۸:۴۳۷)
جس نے ان دونوں (حسن و حسین رضی اللہ عنہما) سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
توگویا اہل بیت رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والے غیرالمغضوب علیہم میں شامل ہیں اور جس سے اللہ بغض رکھے گا وہ سیدھا دوزخ میں جائے گا۔ اب امام حسین رضی اللہ عنہ کو جواذیت دے اس کا عالم کیاہے۔ حدیث میں ہے یزید بن ابوزیاد اور یحی بن ابوکثیر روایت کرتے ہیں۔’’خرج النبیِ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مِن بیت عائشۃ فمر علی فاطِمۃ فسمِع حسینا یبکِی رضی اﷲ عنہ فقال الم تعلمِی ان بکاہ یؤذِینی۔‘‘
(طبرانی، المعجم الکبیر، ۳،۱۱۶، رقم: ۲۸۴۷)
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہؓ کے گھر سے نکلے، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے گھر کے پاس سے گزرے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو روتے ہوئے سنا تو فاطمہ سے فرمایا: کیا تم نہیں جانتیں کہ مجھے اس کا رونا تکلیف دیتا ہے۔
جب حسین رضی اللہ عنہ کا رونا آپؐ برداشت نہیں کرسکتے تو کربلا میں آقا علیہ السلام سے ان کی تکلیف کیسے برداشت کی ہوگی؟ اور کیسے برداشت کی ہوگی؟ یہی وجہ تھی کہ سیدناعثمان غنی بھی شہید ہوئے۔ سیدنا فاروق اعظم بھی شہید ہوئے۔ سیدنا مولاعلی المرتضیٰ بھی شہید ہوئے۔ سب شہادتیں اکبرواعظم ہیںمگر کسی کی شہادت کے دن اس کے مشہد پر خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف نہیں لے گئے۔ دوسری طرف یہ عالم کہ کربلا کا دن ہے۔ ادھر شہادتیں ہورہی ہیں اور ادھر آقا علیہ السلام بنفس نفیس صبح سے آخری شہادت تک میدان کربلا میں خود موجود ہیں۔ مشہدِ حسین رضی اللہ عنہ اور میدانِ کربلا میں خود موجود رہنا یہ شرف آقا علیہ الصلوۃوالسلام نے کسی اور کو نہیں دیا۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی۔ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کو مٹی دی اور فرمایا کہ جب یہ سرخ ہوجائے تو سمجھ لینا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں حتی کہ میدان کربلا اور سن شہادت کی خبر بھی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی، کتب حدیث میں کثرت سے اس پر احادیث موجود ہیں۔ صحیح بخاری کتاب العلم میں حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو طرح کی خبریں اور علم سیکھے۔ ایک قسم اس علم کی ہے جو میں مجمع عام میں ہرکس و ناکس کے سامنے بیان کرتا رہتا ہوں، وہ علم احکام شریعت اور احکام طریقت کا ہے۔ دوسرا علم ایسے حقائق و واقعات اور خبریں ہیں کہ اگر وہ لوگوں کے سامنے بیان کردوں تو میری گردن حلق سے کاٹ دی جائے۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث کتاب العلم میں ہے اس پر امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ علم جو سیدنا ابوہرہرہ نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا اور جسے عوام الناس کے سامنے بیان کرتے کتراتے اور خواص کے سامنے بیان کرتے تھے اس علم میں سے یہ بھی تھا کہ جب دس ہجری کا سن قریب آگیا تو سیدنا ابوہریرہؓ کہتے تھے’’اے اللہ میں سن ساٹھ ہجری اور تخت سلطنت پر نوعمر لونڈوں کے حکمران بن کر بیٹھنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور سن ساٹھ ہجری کا سورج طلوع ہونے سے پہلے مجھے دنیاسے اٹھالینا۔‘‘
امام حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
یزید کے حکومت پر بیٹھنے سے ایک سال پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ کی دعا قبول کی اور انہیں اپنے پاس بلالیا۔ امام بخاریؒ روایت کرتے ہیں اس علم میں سے ایک یہ بھی تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں مروان بن حکم سے خطاب فرمایا:’’ اے مروان! میں نے صادق المصدق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قریش کے خاندان میں سے ایک گھرانے کے نادان، بیوقوف لونڈوں کے ہاتھو میری امت برباد ہوجائے گی۔ گویا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری امت کی ہلاکت قرار دیاہے۔ اس وقت تو مروان نے یہ سن کر کہاکہ ان لونڈوں پرخدا کی لعنت ہو لیکن اسے خبرنہ تھی کہ اس کے ہی خاندان کے لونڈوں کی بات ہورہی ہے۔‘‘
امام حجر عسقلانی فرماتے ہیںکہ قریش کے وہ بیوقوف لونڈے جنہوں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو تباہ کیاتھا ان میں سے پہلا لونڈا یزید تھا۔ صحیح ترمذی میں سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃالسلام نے خواب دیکھا کہ بنوامیہ کے لوگ میری قبر پر کھیل رہے ہیں۔ آقا علیہ السلام کا قلب اطہر مغموم ہوا۔ آپ لیٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر اور سورۃ القدر نازل کی اور فرمایا کہ یہ ایک رات ایک ہزار مہینے سے افضل ہے۔ یعنی میدان کربلا میں جواہل بیت رضی اللہ عنہم نے ایک رات گزاری وہ مثل لیلۃ القدر تھی وہ بنوامیہ کے ہزار مہینوں سے افضل تھی۔
لوگ حدیث قسطنطنیہ کا نام لیتے ہیں کہ اس میں حضوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو پہلا لشکر قسطنطنیہ پر حملہ کرے گا میں ان کی بخشش و مغفرت کی بشارت دیتا ہوں یہ جہالت کی انتہا ہے۔ متن حدیث میں قسطنطنیہ کا نام تک نہیں بلکہ مدینہ، قیصر کا نام آیا ہے۔ لفظ قسطنطنیہ کا ذکر دوسری سینکڑوں احادیث میں اس ضمن میں آیا ہے کہ قریب قیامت امام مہدی علیہ السلام قسطنطنیہ فتح کریں گے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اس بشارت والی حدیث میں قسطنطنیہ کا ذکر ہے تو وہ مغالطے میں ہیں اصل متن یہ ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
اول جیش مِن امتِی یغزون مدِینۃ قیصر مغفور لھم۔
(بخاری، الصحیح، ماقبل فی قتال الروم، ۳، ۱۰۶۰، رقم: ۲۷۶۶)
میری امت کا جو پہلا لشکر قیصر روم کے پایہ تخت میں جنگ کرے گا اس کے لئے بخشش و مغفرت کی بشارت ہے۔
اس حدیث مبارکہ میں پہلی بار جانے والے لشکر کی بخشش و مغفرت کی بشارت دی گئی ہے جبکہ یزید بطور سزا جس لشکر میں بھیجا گیا تھا وہ آٹھواں لشکر تھا۔ تو جسے سزا کے طور پر بھیجا جائے کیا وہ مغفرت کا حقدار بنے گا؟
وہ یزید جس نے تین دن روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خچر باندھے اور تین دن مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اذان نہ ہوئی۔جس نے معرکہ کربلا برپا کیا اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تڑپایا۔ شہرمدینہ میں خون بہایا، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرانور اور مسجد نبوی کو ویران کیا، مکہ پر پتھروں کی بارش کی اور خانہ کعبہ کی چھت کو جلادیا وہ بدبخت مغفرت کا حقدار کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کا انجام تو یہ ہوا کہ کعبہ جلانے کے عمل کے دوران وہ تین دن تڑپااور چوتھے دن واصل جہنم ہوا۔ اس کو تو توبہ بھی نصیب نہیں ہوئی اگرکرتا بھی تو قبول نہ ہوتی۔ جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہاقافلہ لے کر دمشق پہنچی تو بازاروں اور گھروں کی چھتوں پر لوگ جمع ہوگئے کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ کٹے ہوئے سرکن کے ہیں اور یہ جو قیدی آرہے ہیں کون ہیں؟ صرف اتنا اعلان کیا ہواتھا کہ حکومت کے کچھ باغیوں اور خارجیوںکو قتل کردیا گیا ہے اور ان کے سر یزید کے دربارمیں پہنچائے جارہے ہیں۔ لوگ باغیوں کو دیکھنے کے لئے چھتوں پر چڑھ رہے تھے۔ بازاردمشق میں ہجوم ہوگیا۔ قافلہ رک گیا۔ آج وہ بازار حامدیہ کہلاتا ہے بھوک، پیاس اور پریشان حالی تھی۔ چھت سے ایک خاتون نے دیکھا کہ قیدی ہیں پریشان حال ہیں تو اس نے پانی، کچھ کھانے کی چیزیں، کچھ کپڑے، دوپٹے اور ضرورت کا سامان بھیجا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے سارا کچھ دیکھ کر اس خاتون کو بلوایا۔ جب وہ قریب آئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بی بی تونے ہمارے ساتھ بڑی نیکی کی ہے۔ کوفہ سے لے کر دمشق تک کسی نے ہمیں پوچھا تک نہیں۔ کسی نے ہمارے حال کی خبر نہیں لی۔ تم کون ہو؟ اور ہمیں کیاسمجھ کر ہم سے اتنی بھلائی کی۔ اس نے کہا: میں اور کچھ نہیں جانتی دراصل میں اپنی اوائل عمر میں مدینہ رہتی تھی اور حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھی۔ جب ان کا وصال ہوگیا تو مدینہ چھوڑ کر دمشق آگئی۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اگر تم نے اتنی نیکی کی ہے تو تمہیں کیامعلوم ہے ہم کون ہیں؟ اس نے جواب دیا: مجھے اور تو کچھ معلوم نہیں لیکن جب سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے وصال کا آخری وقت تھا تو میں نے عرض کیا: بی بی مجھے کچھ وصیت کردیں اس وصیت پر عمر بھر عمل کروں گی۔ وہ مجھے جانتی تھیں کہ میں دمشق سے ہوں۔ انہوں نے مجھے وصیت کی کہ بیٹا ایک ہی وصیت ہے کبھی قیدی نظر آئیں تو ان سے اچھا سلوک کرنا۔ میں نے سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی وصیت پر عمل کیاہے۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں۔ اللہ تیرا بھلا کرے۔ بتاتونے ہم سے اتنی نیکی کی ہم تیرے لئے کیا دعا کریں۔ ہم تو اس وقت خود مہاجر ہیں۔ قیدی، مظلوم، بے یارومددگار ہیں ہم تیرے لئے کیادعا کرسکتے ہیں۔ اس نے کہا: بی بی میری ایک ہی آرزوہے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے پوچھا: کیا آرزو ہے؟ اس نے کہا: جب میں وہاں سے چلی تھی اس وقت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے چھوٹے چھوٹے شہزادے تھے۔ حسنؑ اور حسین رضی اللہ عنہا اور بی بی زینب رضی اللہ عنہا۔ اب زمانہ گزر گیا ۔ میری اس وقت سے آرزو ہے کہ مجھے حسن و حسین رضی اللہ عنہما اور زینب رضی اللہ عنہا کی زیارت ہوجائے۔ آپ دعا کردیں کہ مجھے ان کی زیارت ہوجائے۔ بی بی زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تیری دعا قبول ہوگئی ہے۔ میں زینب (رضی اللہ عنہا) ہوں، قیدی ہوں اور یہ جو سر کٹا ہوا نیزے پر دیکھ رہی ہو یہ حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔
پھر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا قافلہ لے کر دربار یزید میں پہنچتی ہیں۔ اس بدبخت نے حکم دیا تھا کہ قیدی میرے سامنے پیش کئے جائیں وہ گستاخانہ انداز کے ساتھ حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے ساتھ وہ ضعیف خاتون تھی جو سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا خادمہ تھی جنہوں نے اپنی گود میں حسن وحسین رضی اللہ عنہا اور زینب رضی اللہ عنہا کو پالاتھا۔ ان کا نام حضرت فضہؓ تھا۔ حضرت فضہ رضی اللہ عنہا کا مزار آج بھی دمشق کے قبرستان میں ہے۔ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی کمر جھک گئی تھی مگر جوش میں سیدھی کھڑی ہوگئیں اور فرمانے لگیں۔ ’’بدبخت یزید تو جس کو لونڈی کہہ رہا ہے خبردار! یہ دنیاوآخرت اور کل کائنات کی وارث ہیں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہزادیاں ہیں۔ تمیز سے بات کر۔‘‘ یزید نے اپنے فوجیوں کو دیکھا اور کہاکہ یہ بوڑھی خاتون کون ہے؟ جو ہمارے دربار میں بے ادبی کررہی ہے اس کی خبرلو۔ اس کے فوجی اٹھے۔ انہوں نے تلوار لہرائی حضرت فضہ رضی اللہ عنہا کو بس اتنا عمل کرنے کی دیر تھی کہ خود یزید کے فوجیوں میں سے حشبہ کے رہنے والے یزید کی اپنی فوج کے سینکڑوں حثبی جوان تلوار نکال کر کھڑے ہوگئے۔ ان کی قومی غیرت اور وطن کی محبت نے جوش مارا۔ اور کہا : خبردار ! یہ ہمارے وطن حبثہ کی رہنے والی ہے،اگر کسی نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو تلواروں سے گردنیں کاٹ دیں گے۔ جب حبثہ کی ایک خاتون کی خاطر تلواریں لہرائی گئیں تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے مڑ کر مدینہ کی طرف ہاتھ اٹھائے اور عرض کی: بابا ! آج حثبہ کی ایک بیٹی کے لئے سینکڑوں تلواریں نکل آئیں مگر آج آپ کی بیٹیوں کی حفاظت کے لئے کوئی نہیں۔
وما علینا الاالبلاغ
٭٭٭