شاہدؔکمال
رثائی ادب کی ایک قدیم اور حساس ترین صنف سخن نوحہ پر گفتگو کرنے کا مقصد اپنے اعتقاد کے اظہار سے زیادہ اپنے ادبی یقین کی آسودگی ہے۔رثائی ادب میں مرثیہ اور سلام کی طرح نوحہ بھی ایک مستقل صنف سخن کی حیثیت رکھتا ہے ۔ علمائے ادب نے مرثیہ اورسلام کی ادبی افادیت کے پیش نظر اس کے کچھ اصول و ضوابط وضع کئے ہیںاوربیشترشعرا نے ان اصناف سخن میں خوب خوب طبع آزمائی بھی کی اور انیسؔ و دبیرؔ نے بھی اپنی خداد ادشاعرانہ صلاحیتوں کے ذریعہ وہ مقام سعادت عطا کی جو دیگر اصناف سخن کو میسر نہ ہوسکی۔
نوحہ پر گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ عزائیہ شاعری کی دو اہم صنف سخن ’’روایت‘‘ اور ’’ماتم‘‘ کابھی ضمنی طور سے تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
’’روایت ‘‘مثنوی کی طرح ایک طویل نظم ہوتی ہے ۔جس میں واقعات کربلا کو حکایتی انداز میں نظم کیا جاتا ہے ۔مثنوی اور ’’روایت ‘‘ میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ مثنوی میں مطلع کے بعد کے تمام اشعار مطلع کے قوافی کے پابند نہیں ہوتے۔ لیکن اس کے برخلاف ’’روایت‘‘ میںہر دوسرے شعر میں مطلع کے قافیہ کی پابندی لازمی ہوتی ہے ۔
’’ماتم‘‘ ’’روایت ‘‘کی طرح نوحہ کی ایک الحاقی نظم ہے جس میں شاعر کربلا کے کسی ایک شہید کے واقعات و حالات کو تسلسل کے ساتھ قلم بند کرتاہے۔نوحہ میں اس طرح کی پابندی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔
ہمارا اصل مقصود نوحہ پر گفتگو کرنا ہے۔ آج جب ہم کسی نقاد یا دانشور سے نوحہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ،تو اس صنف کے حوالے سے وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے پہلی بات تو یہ کہتے ہیں کہ دیگر اصناف سخن کی طرح اس میں وہ شعری محاسن یا ادبیت نہیں پائی جاتی کہ جس کی وجہ سے اسے ادبی زمرے میں رکھا جائے۔ مزید استفسار کی صورت میں اس کا منطقی جواز یہ پیش کیا جاتا ہے۔چونکہ اس کا موضوع آہ و بکا ہے اوریہ صنف محض اظہار حزن والم سے متصف ہے لہذا موضوع و مواد کے اعتبار سے بھی اس کے دامن میں وسعت کا امکان بہت کم پایا جاتا ہے۔ یادوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ ابھی اس صنف کے تعلق سے ماہرین ادب نے زیادہ کچھ لکھا بھی نہیں ہے۔
یہ بات تو اپنی جگہ درست ہے کہ نوحہ سے متعلق رثائی ادب میں ایسا کچھ کام نہیں ہوا ہے ۔لیکن کیا؟ اس طرح کا جواز کسی صنف سخن کے استردادکے لئے صحیح ہے ۔؟ اگراس طرح کی توضیحات کا تاریخی جائزہ لیاجائے ،تو یہ بات وا شگاف ہوتی ہے کہ رثائی ادب کے حوالے سے معاصر عہد کے نقادوں اور دانشوروں کا یہ موقف کوئی نیا نہیں ہے۔ بلکہ اس طرح کے نظریاتی توضیحات کی روایت بہت پرانی رہی ہے ۔فی زمانہ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے یہ ایک نظریہ تھا جو آج ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔لہذا اس طرح کے غیر ادبی رجحانات کو محض ذہنی پسماندگی سے ہی تعبیر کیا جاناچاہیئے ۔
اس لئے کہ اتہام و ایرا د کا یہ سلسلہ محض ’’نوحہ‘‘ سے متعلق ہی نہیں رہاہے۔ بلکہ ابتدا میں مرثیہ جیسی صنف کو بھی یہ کہہ کر معتوب و مطعون کیا گیا کہ یہ صنف محض رونے رلانے اور حصول ثواب تک ہی محدود ہے، یہ ایک ایسی بحث ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔یہ سلسلہ آج بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ جاری و ساری ہے جدید و قدیم کی یہ بحثیں بحث نہ رہ کر ایک قضیہ کی صورت اختیار کر گئیں ہیں جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔
لیکن میں یہاں ایک بات ضرور کہوں گاکہ ادبی کفالت میں پرورش پانے والے اس طرح کے یتیمانہ نظریات اپنے اجتماعی اقلیت کے باوجود ادب میں کسی فرد واحد کی عقلی مجہولیت سے زیادہ اہمیت و حیثیت نہیں رکھتے ۔اس بحث کو مزید طول دینے سے بہتر ہے، کہ اس کے رموز وعلائم کو سمجھنے کے لئے بزرگ ناقدین کی تحریروں کا سہارا لیا جائے۔
پروفیسر ال احمد سرور کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بھی ہوا کہ مغرب میں سیکولر ازم کے فروغ نے مذہب کو کچھ فرسودہ اور دقیانوسی قرارد یدیااور مذہبی شاعری کو بھی خواہ کیسی اچھی شاعری کیوں نہ ہو زندگی سے فرار یا نشے اور خجالت کی شاعری کہہ کر اُسے آج کی زندگی اور اس کے تقاضوں سے بے گانہ سمجھنے کی لَے بڑھنے لگی ۔آزادی سے کچھ قبل کی تنقید میں اقبالؔ کی شاعری جس کا سرچشمہ مذہب و اخلاق ہے اسی روش کا نشانہ بنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن جیسے جیسے ادب کی مخصوص بصیرت کا عرفان بڑھتا جاتاہے ویسے ویسے شاعری اور اس کی عظمت کے لئے کسی مخصوص سیکولر نظام یا کسی مخصوص مذہبی یا اخلاقی نظام کی چھاپ ضروری نہیں سمجھی جاتی۔‘‘
(مضمون’’انیس کی شاعرانہ عظمت ‘‘ آل احمد سرور،مشمولہ ’’انیس شناسی‘‘ مرتبہ گوپی چند نارنگ)
پروفیسر ال احمد سرور کا یہ نظریہ ادب کی کسی صنف کے پرکھنے کے لئے ایک صحت مند رویہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ بات اپنے تمام عقلی تلازمات کے مطابق بھی ہے اس لئے کہ کسی اصناف سخن کے ادبی معیار کو پرکھنے کے لئے اس کے مذہبی یا مسلکی سطح سے بلندہو کر محض اس کو ادبی نکتہ نگاہ سے دیکھنا اور پرکھنا چاہئے۔اگر اس طرح کے منصوبہ بند نظریات کی بنیاد پر کسی تخلیق کے پرکھنے اور جانچنے کے عمل کو جائز اور درست مان لیا جائے تودنیا کا کوئی ادب معرض استرداد سے باہر نہیں نکل سکتا۔
اس طرح کے غیر اعتذاری وجوہات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نوحہ کے حوالے سے صدیوں سے چلا آرہا یہ مصلحتی جمود اب ٹوٹنا چاہئے اور ایک صحتمندانہ ادبی ماحول میں ایک نئی بحث کا سلسلہ شروع ہو، تاکہ اُس سچائی کا انکشاف ہو سکے جس حقیقت پر شعوری طور پر ایک پردا ڈال دیا گیا ہے ۔اس لئے کہ علمائے ادب کی یہ پر اسر ار خاموشی بڑی مصلحت انگیز محسوس ہوتی ہے یہ بات صر ف یہیں پر ختم نہیں ہوتی اب تو بات یہاں تک آ پہونچی کہ اس صنف سخن(نوحہ) کے استرداد ی توضیحات شدت پسندانہ مذہبی عقائد کے تناظر میں جدید موصلاتی نظام کے توسط سے کی جارہی ہے ۔
نوحہ سے متعلق آزاد دائرۃ المعارف ،نوحہ ویکیپیڈیا کی تعریف انگریزی میں۔
Noha (Arabic: ) is a genre of Arabic, Persian, or Urdu prose depicting the martyrdom of the Holy Imams. Strictly speaking noha is the sub-parts of Marsia. Nohas are usually poetry expressing the sorrow felt by Shia Muslims for their leaders."Noha" (Arabic: ) is also an Arabic female name meaning "wisdom". Literally it is the plural of minds. It is mentioned in the
Quran several times.
نوحہ کی اردو میں تعریف آزاد دائرۃ المعارف(نوحہ ویکیپڈیا )
’’نوحہ یعنی میت کے اوصاف ،مبالغہ سے بیان کرنے آواز سے رونا جسے بین کہتے ہیں حرام ہے ۔یوں ہی گریبان پھاڑنا،منہ نوچنا ،بال کھولنا،سر پر خاک ڈالنا ، سینہ کوٹنا،ران پر ہاتھ مارنا یہ سب جاہلیت کے کام ہیںاور حرام ہیں۔یوں ہی سوگ کے لئے کالے کپڑے پہننا مردوں کے لئے ناجائز ہے،یوں ہی بلے لگانا نصاریٰ کی مشابہت بھی ہے ،ہاں رونے میں اگر آواز بلند نہ ہوتو ممانعت نہیں ہے ۔‘‘
نوحہ کی یہ تعریف کس ادبی اندراج کے تحت کی گئی ہے۔ شاید ہی اس کا کوئی معقول جواب ہو لیکن یہ بات تشویشناک ضرور ہے کہ اس طرح ادب کی کسی صنف سخن کو مسلکی زمرہ بندیوں کے تحت بغیر کسی عقلی استدلال کے ُاسے اُس کے ادبی مناصب سے معزول کرنے کاجواز فراہم کرنا تہذیب ادب کے منافی ہے۔ اس لئے کہ کسی صنف کے ادبی وقار کے تعین کے لئے ضروری ہے کہ اس کے فنی لوازم اور ادبی محاسن کا جائزہ لیا جائے ناکہ اس طرح کی افتراپردازی سے۔ویسے بھی ادب اس طرح کے اجتہاد ات اور حلال و حرام جیسے غیر ضروری مباحث کا متحمل نہیں ہوتا۔
جب بات حلال وحرام تک آپہونچی تو اب لازم ہے کہ اس صنف سخن(نوحہ) کو اس نوعیت سے بھی دیکھا اور پرکھا جائےاور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ اس طرح کی تشریحات کتنی عقلی و منطقی ہیں ۔
جیسا کہ علامہ شبلی نعمانی نے ’’موازنۂ انیس ؔو دبیر ؔصفحہ ۸ پر عرب کی نوحہ خوانی‘‘میں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے حوالے اس واقعہ کو کچھ اس نداز میں تحریر کرتے ہیں۔
’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔متمم بن نویرہ(عرب کا ایک شاعر)اسی زمانے (عمر فاروق کا دور خلافت)میںتھا اور وہ بھی اپنے بھائی کا شیفتہ اور عاشق تھا ۔ایک لڑائی میں خالد بن ولید نے اس کے بھائی کو مار ڈالا۔اس پر متمم کی یہ حالت ہوئی کہ گھر بار چھوڑ کر نکلا اور قبائل عرب میں پھرنا شروع کیا جہاں پہونچتا تھا، تمام زن و مرد اس کے گرد جمع ہوجاتے تھے ۔وہ درد انگیز لہجہ میں مرثیہ پڑھتااور ہر طرف سے گریہ و زاری کی آواز بلند ہوتی ۔اس کی یہ حالت دیکھ کر لوگوں نے یہ سمجھا یاوہ اسی حالت میں حضرت عمر کے پاس آیا وہ اس وقت مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے ۔متمم نے مرثیہ کے اشعار پڑھنے شروع کئے حضرت عمراگر چہ نہایت مضبوط دل کے آدمی تھے لیکن ضبط نہ کرسکے بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، متمم مر ثیہ پڑھ چکا تو حضرت عمر نے کہا تیرے غم کی حالت کس حد تک پہونچی ہے ؟ اس نے کہا امیرالمومنین ! بچپن میں مجھے ایک عارضہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میری بائیں آنکھ کی رطوبت جاتی رہی تھی میں کبھی روتا تھا تو اس آنکھ سے آنسو نہیں نکلتے تھے بھائی کے مرنے کے بعد جو اس آنکھ سے آنسو جاری ہوئے تو اب تک نہیں تھمے۔حضرت عمر نے فرمائش کی، کہ اس کے بھائی زید کا مرثیہ لکھے اس نے فرمائش پوری کی لیکن جب دوسرے دن جاکر حضرت عمر کو مرثیہ سنایا تو حضرت عمر نے کہا اس میں تو وہ درد نہیں۔اس نے کہا !امیر المومنین ! زید آپ کے بھائی تھے میرے بھائی نہیں تھے‘‘۔
اب اگر یہ مان لیا جائے کہ نوحہ اور مرثیہ کہنا درست نہیں ہے ۔تومسلمانوں کے امیروخلیفہ کا اس طرح سے نوحہ اور مرثیہ لکھنے کی فرمائش کرنا گویا اس عمل کی تائید کرنا ہے۔ اسی طرح کے اور بہت سے واقعات اکابرین اسلام کی نسبت سے تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیںجسے نوحہ کے مذہبی جواز کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
غالباً اس واقعہ کے تما م تاریخی عوامل کے بعد نوحہ گوئی کے مذہبی تقدس کے باب میں اب کسی طرح کی تشکیک کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
اس سے قطع نظرجب رثائی ادب کی اہم ترین صنف سخن مرثیہ کا تاریخی حیثیت سے جائزہ لیاجاتا ہے۔ تو اس کے ابتدائی نقوش عربی ادب کے قدیم آثار سے ہی دریافت ہوتے ہیں اور محققین نے اس کی تاریخی نشاندہی بھی کی ہے، جس کا تذکرہ بیشتر کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہے ۔
عربی ادب میں مرثیہ اور نوحہ کی معروضی بحث کافی تفصیل طلب موضوع ہے ،ہم یہاں پر صرف نوحہ اور مرثیہ کی تاریخی نشاندہی مولفین و مورخین مراثی کے اس قول کے تناظر میں کریں گے جس پر بالاتفاق رائے تمام علمائے ادب کا اجماع ہے۔
جب مرثیہ کی تاریخ بیان ہوتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے، کہ جتنی قدیم انسانی تاریخ ہے اتنی ہی قدیم مرثیہ کی بھی تاریخ ہے جیسا کہ ڈاکٹر ذاکر حسین فاروقی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں ۔
’’مرثیہ کو دنیا کی قدیم ترین نسل انسانی کی مشترک صنف کلا م قراد دینا شاید غلط نہ ہوگا۔‘‘
مرثیہ کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتاہے۔
’’ حضرت ہابیل علیہ السلا م کی موت پر حضرت آدم علیہ السلام کی آنکھوں سے چھلکنے والاآنسو شاید وہ پہلا خاموش مرثیہ ہے جو فطرت نے ایک درد مند باپ کے صفحۂ عارض پر لکھا۔‘‘
(اردو میں شخصی مرثیے کی روایت،ڈاکٹر عابد حسین حیدری)
اس طرح مرثیہ کا تاریخی خمیر حضرت ہابیل ؑ کی شہادت پر جناب آدمؑ کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں سے ہی تیار ہوتا ہے ۔اصل میں مرثیہ کی یہی تاریخ نوحہ کے تاریخی وجود کا اثبات ہے اور مرثیہ اور نوحہ کے درمیان یہی ایک امتیازی فرق بھی ہے ۔اس لئے کہ مرثیہ محض کسی کی موت پر اظہار تاسف و تاثر کا نام ہے ۔لیکن اس کے بر عکس کسی شخص کی موت پر آنسو بہانے اورسرو سینہ پیٹنے کا نام ہی نوحہ نہیں بلکہ ذات و کائنات کے انفرادی و اجتماعی دردو غم کے اظہار کا نام نوحہ ہے۔ شاید اسی لئے حضرت حوأ کے ہجر میں حضرت آدمؑ کی آنکھوں سے نکلنے والاآنسو کا پہلا قطرہ فطرتِ انسانیت کاسب سے پہلا نوحہ قرار پایا۔ اللہ کے برگزیدہ نبی جناب عبد الغفار ؑ کی اپنی امت کی نجات اور ہدایت کی فکر میںمسلسل آہ وزاری و نوحہ خوانی اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اپنے اس نبی کو ’’نوح ‘‘ کے اعزازی لقب سے یاد کیا ۔بالکل اسی طرح سے حضرت یوسفؑ کے فراق میں جناب یعقوب پیغمبر کی مسلسل نوحہ خوانی اور شدت گریہ سے ان کی آنکھوں کی پتلیوں کا سفید ہوجانایہ ایک نبیؐ کا مرثیہ نہیں بلکہ ایک مغموم و محزون باپ کا نوحہ تھا جوآج بھی تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے اور صبح قیامت تک ہرصاحبان دل سے دردو غم کا خراج وصول کرتا رہے گا۔
ہمارے بیشتر محققین و نقاد مرثیہ کے جغرافیائی تمدن کا نقطہ اول عرب کے قبائلی تہذیب کو ہی قرار دیتے ہیں۔علامہ شبلی نعمانی کی تحقیقی دریافت کے مطابق ۔
’’ عرب میں جو فارسی اور اردو شاعری کا سر چشمہ ہے ، شاعری کی ابتدا مرثیہ سے ہوئی اور یہی ہونا چاہئے تھا عرب میں شاعری کی ابتدا بالکل فطرت کے اصول پر ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
(موازنۂ انیس ؔو دبیر ؔص ۳۸،مرتبین پروفیسر سید مجاور حسین رضوری؍ڈاکٹر سید علی حیدر)
لیکن اس کے برخلاف نوحہ کی جغرافیائی تاریخ کی دریافت جناب عیسی ؑ سے چار ہزار سال قبل ہوچکی تھی ۔جیسا کہ سر جمیس جان فریزر اپنی کتاب ’’گولڈن باڈ‘‘ میں تحریر کرتا ہے ۔
’’مقامی روایات کے بموجب جس کی پلوٹرچ بھی تائید کرتا ہے، جب ایسس (isis) کو اپنے شوہر اوسائرس(osiris) کی لاش ملی تو وہ اپنی بہن نیفاطیس کے ساتھ لاش کے برابر بیٹھ گئی نوحہ و شیون کرنے لگی یہ بین بعد کے زمانےمیں متوفی کے لئے ایک عام نوحہ کی صورت اختیار کر گیا۔‘‘
( مجلہ النجم کراچی ،مضمون نگار افضال حسین نقوی’’مرثیہ اور انیس ‘،مطبوعہ نقوش لاہور دسمبر ۱۹۷۰ ء )
یہاں پر محض نوحہ اور مرثیہ کی تاریخی قدامت پر بات کر نا مقصود نہیں ہے۔ مسئلہ اس بات کا ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جو نوحہ کے تاریخی استناد میں حارج ہوئے ۔جس کی وجہ سے ہمارے محققین کہیں نہ کہیں نوحہ اور مرثیہ کی دریافت میں غیر شعور ی طور پرتحقیقی اشتباہ کے شکار ہوگئے۔ جس کی وجہ سے نوحہ اپنی تاریخی شناخت اور ادبی وقار سے آج تک محروم رہا ۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی ہو کہ محققین نے مرثیہ کی تاریخی استناد کی ترتیب و تنظیم کا کام مرثیہ کی لغوی یا اصطلاحی تعریف کی روشنی میں کم بلکہ انیسؔ ودبیرؔ جیسے قادر الکلام شاعر کی شاعرانہ مہارت اور مرثیہ کے عوامی مقبولیت سے مرعوب ہوکر کی ہے۔ جس کی وجہ سے نوحہ جیسی قدیم صنف سخن تحقیقی حق تلفی کا شکار ہوگئی ۔اس نقطہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے، کہ ہم اس عہد کا جائزہ لیں جہاں سے ہماری اردو شاعری کا آغاز ہوا۔
ہماری اردو شاعری کاابتدائی منبع و ماخذ دکن ہے ۔جہاں اردو کی شاعری اپنے قدوقامت کے ساتھ نمو پذیر ہوئی اس لئے دکن ہماری اردو شاعری کا مرجع اول قرار پایا ۔
شبلی ؔ ’’موازنہ انیس ؔو دبیر‘‘کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’ہندوستان میں شاعری کی ابتدا ولیؔ سے ہوئی ولیؔ نے اگر چہ کربلا کے حالات میں ایک خاص مثنوی لکھی ،لیکن اس کے کلام میںمرثیہ کا پتہ نہیں لگتا یہ معلوم نہیں کہ مرثیہ کی ابتدا کس نے کی لیکن اس قدر یقینی ہے کہ سوداؔ اور میرؔ سے پہلے مرثیہ کا رواج ہو چکاتھا ۔‘‘
مسیح الزماںنے شبلیؔ کی اس تحقیق پر ایراد کیا ہے وہ کہتے ہیں:
’’ کربلا کے واقعات سے متعلق مثنوی ولی دیلوری کی ہے۔مولانا شبلیؔ کو تخلص ایک ہونے کی وجہ سے دھوکہ ہوا ہے۔‘‘
(موازنۂ انیس ؔ و دبیرؔ مرتبین پروفیسر مجاور حسین ؍ ڈاکٹر سید علی حیدر،حاشیہ ،ص۵۵ )
پروفیسر مجاور حسین کی مذکورہ کتاب کے اسی حاشیہ کا یہ اقتباس بھی قابل توجہ ہے :
’’دکن میں مرثیہ کا نقطہ آغاز حضرت شاہ اشرف بیابانی کی نوسر ہار ۱۵۰۳ ء ہے اس کے بعد حضر ت برہان الدین جانم کا نام نامی آیا ہے۔‘‘
سلطان محمد قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں ،ان کے دیوان میں دیگر اصناف سخن کے ساتھ نوحے بھی درج ہیں نوحہ گوئی کا یہ سلسلہ محض سلطان قلی قطب تک ہی نہیں تھا بلکہ یہ اشرف ،وجہی ،غواصی ،نصرتی ،نوری ،شاہی ،کاظم ،مراز،مقیمی ،ہاشمی وغیرہ نے بھی نوحے کہے ہیں۔
ان تاریخی دستاویزوں کی چھان بین سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابتدائی عہد کے شعرا، سے میرؔ و سوداؔ کے عہد تک کے شعرا کے وہ تما م رثائی کلام جو واقعات کربلا سے متعلق تھے اسے بغیر کسی منطقی نشاندہی کے مرثیہ کے نام سے موسوم کر دیا گیا ۔جس کی وجہ سے مرثیہ کی تاریخی شناخت اور نوحہ کی ادبی پہچان مشکوک سی ہوگئی اورجو تحقیقی اشتباہ مرثیہ کی ابتدائی دریافت کے دور میں غیر شعوری طور پر ہمارے ادب میں سرایت کرگئی تھی وہی آج ایک نفسیاتی الجھاؤاور تذبذبانہ رویہ کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔
شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ محققین نے مرثیہ کی دریافت کا عمل اوراس کی تحقیقی نشاندہی کی لغوی تعریف کی بنیاد پر انجام دی جس کے سبب نوحہ اور مرثیہ میں التباس پیدا ہوگیا اور اس التباس میں بنیادی نقصان نوحہ کا ہوا جس کی وجہ سے نوحہ اپنی ادبی مرکزیت سے کٹ سے گیا۔ اس تحقیقی تسامح کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ نوحہ اور مرثیہ کا ان کی مروجہ تعریف کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔
مرثیہ کی لغوی تعریف:
مرثیہ عربی لفظ ہے اس کا مصدر ’’رثا ‘‘ہے جس کے لغوی معنی یہ ہیں’’ مردے کی صفت ،مردے کی تعریف،وہ نظم یا اشعار جن میں کسی شخص کی وفات یا شہادت کا حال اور مصیبتوں کا ذکر ہو‘‘۔
(نور اللغات،ج ۴ ص۲۳۲)
مرثیہ وہ نظم ہے جس میں مردے کے اوصاف بیان کئے گئے ہوں یا وہ نظم جس میں شہدائے کربلا کے مصائب اور شہادت کا ذکرہو
( فیرورز اللغات اردو)
نوحہ کی تعریف:
نوحہ بھی مرثیہ کی طرح عربی لفظ ہے جس کے معنی’’ صیحہ ‘‘کرنے کے ہیں (یعنی بلند آواز سے گریہ کرنے کو کہتے ہیں )ماتم کرنا لاش پر چلا کر رونا۔
مرثیہ اور نوحہ اپنی ظاہر ی ساخت کی بنیاد پر دو الگ الگ لفظ ضرور ہیں ۔لیکن اس کے باوجود معنوی سطح پر دونوں کا مقصود ایک ہی ہے یعنی مردے کی لاش پر گریہ کرنا رونا چلانا سینہ کوبی کرنا وغیرہ
اب اگر اس تعریف کے تنا ظر میں غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نوحہ اور مرثیہ کا استعمال محض لفظی مترادفات کے طور پر ہی نہیں ہوتا بلکہ اس میں معنوی ترادف بھی پایا جاتا ہے ۔اب اگر ایسی صورت میں نوحہ اورمرثیہ کی مذکورہ تعریف کی بنیاد پر اس کے تاریخی تشخص کی بات کی جائے تو اس میں کوئی امتیازی افتراق نہیں رہ جاتالہذاایسی صورت میں مرثیہ کو نوحہ اور نوحہ کو مرثیہ کہا جائے تو اس سے انکار کا کوئی معقول جواز بھی نہیں رہ جاتا۔ لیکن اگر اس کے موضوع کی بات کریں تو دونوں کا عمومی موضوع ایک ہے ۔اگر ہیت کے اعتبا رسے دیکھیں تو نوحہ اور مرثیہ کے درمیان ہیت کے اعتبار سے بھی کوئی امتیازی فرق نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اگر مرثیہ دو بیتی ، مثلث ، مربع ،مخمس ، اور مسدس کی ہیت میں کہے جاتے رہے ہیںتو نوحہ بھی مرثیہ کی طرح مثلث ، مربع، مخمس اور مسدس کی شکل میں کہے گئے ہیں اور کہے بھی جارہے ہیں۔ مرثیہ اور نوحہ اپنی مجموعی کمیت و کیفیت کے اعتبار سے تو ایک ہیں۔ لیکن نوحہ اور مرثیہ میں اگر کوئی امتیازی فرق ہے تو صرف اجزائے ترکیبی کاجسے ’’چہرہ‘‘ ’’گریز‘‘ ’’رخصت ‘‘آمد‘‘ جنگ‘‘ شہادت’’ اور بیان ِ مصائب وغیرہ یہی وہ چیز ہے جومرثیہ کو نوحہ سے ممیز کرتی ہے اوریہ بہت بعد کی ایجاد ہے شاید میرؔ ضمیر جیسے استادِ سخن نے نوحہ اور مرثیہ کے درمیان ایک خط امتیاز پید اکرنے کے لئے مرثیہ کو ایک نئی شکل دی تھی میر ضمیر ؔ کے اس مجددانہ اقدام سے پہلے مرثیہ کا اپنا کوئی انفرادی وجود متعین نہیں تھاجسے وثوق کے ساتھ مرثیہ کہا جاسکے۔لہذا اگر اس بنیاد پر ہم مرثیہ کو نوحہ کی توسیعی شکل کہیں تو یہی زیادہ مناسب اور معقو ل معلوم ہوتا ہے ۔
یہ بات طے ہوگئی کہ مرثیہ کی ایک واحد شناخت اس کے عناصر ترکیبی ہیں دوسرا اس کا موضوع جو محض کربلا کے واقعات سے مختص ہوتا ہے۔ لہذا اس سے ہٹ کر مرثیہ کا تصور ممکن نہیں۔
ڈاکٹر وحید اختر کایہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’ مرثیہ اپنے لغوی معنی کے لحاظ سے اگر رثا کے مقصد کو پورا نہیں کرتا اور محض چند واقعات کا بیان انقلابی نعرے تک محدود رہتا ہے تو اسے مشکل سے مرثیہ کہا جاسکتا ہے ‘‘
(جدید مرثیہ کے محرکات واسالیب)
سید مسعود ہاشمی ۔لاہوری کا مضمون’’جدیدمرثیہ اور عصری شعور‘‘ کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ کریں ۔
’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں قدیم مرثیہ رونے رلانے کا فن بن کر لوگوں کو رُلاکر آخرت کے سنوارنے کی طرف نگاہ مبذول کرتا تھا وہاں جدید مرثیہ لوگوں کوجگا کر جھنجھوڑکر آخرت اور دنیا دونوں کو سنوارنے کا درس دیتا ہے ۔‘‘
(ماخوذ از حکیم الامت سری نگر)
جدید و قدیم کی اس بحث میں یہ بات دلچسپ ضرور ہے کہ قدیم مرثیہ کے مقابل جدید مرثیہ کی تمام تر جدت پسندانہ روایت بھی رونے رلانے اور حصول ثواب کے حصار سے باہر قدم نہ رکھ سکیں، اور ان دونوں کے درمیان اگر کوئی فاصلہ وضع کیا گیا تو محض ایک دنیاوی لاحقہ ہے۔
مولانا الطاف حسین حالی کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ کریں۔
’’ مرثیہ کو صرف کربلا کے ساتھ مخصو ص کرنا اور تمام عمر اسی ایک مضمون کا دہراتے رہنا۔۔۔۔۔۔ شاعری کو محدود کرنا ہے۔‘‘
(مقدمہ شعر و شاعری ص ۲۳۷)
پہلی بات تو یہ کہ مولانا کا یہ نظریہ کہ تمام عمر اسی ایک مضمون کا دہراتے رہنا شاعری کا محدود کرنا ہے ۔ دراصل کربلا کی معنوی وسعتوں سے ناواقفیت پر دلیل ہے کربلا کا مضمون تمام کائنات انسانیت کی سب سے اعلی ترین اخلاقی قدروں سے عبارت ہے جس کے تسلسل اوراد سے نئے نئے مفاہیم و معنی کا جنم ہوتا رہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری شاعری کربلا کے اس آفاقی نصاب سے نوبہ نو علامات و استعارات وضع کرتی رہتی ہے۔
اس ا قتباس سے مولانا کا نظریاتی منشور بالکل واضح اور روشن ہے۔ جو اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ مولانا مرثیہ کے بنیادی اتصاف اور عمومی رجحان کوواقعات کربلاسے ہٹ کر مرثیہ کو ایک نئے عنوان سے متعارف کرانے کی ایک شعوری کوشش کر رہے تھے۔ جس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے مولانا نے واقعات کربلا سے ہٹ کر مرثیہ کاایک نیا تعارف شخصی مرثیہ کے حوالے سے کیا اورانھوں نے اپنے اس اقدام کے عملی جواز کے ثبوت میں اپنے ماسبق شعرا کی وہ تمام رثائی تخلیقات جواپنے ذاتی غم کے اظہار یا دوسرے حادثاتی واقعات اور سانحہ ارتحال سے متعلق تھیں اسے شخصی مرثیہ کے نام سے پیش کیں۔ مولانا کے اس اقدام سے ادب کا جو فائدہ ہوا ،اس سے بحث نہیں لیکن ایک نقصان ضرور ہوا کہ نوحہ ایک بار پھر اپنی اصل شناخت سے محروم ہوگیا کتنا اچھا ہوتا کہ اگرشخصی مرثیہ کو شخصی مرثیہ کے بجائے شخصی نوحہ کہاجاتا ۔
ہندوستان میں مرثیہ نگاروں نے ہندوستانی تہذیب و معاشرت، رسم ورواج اور عقیدت و اعتقاد کی زندہ تصویر یں پیش کی ہیں۔ کرداروں کا لب ولہجہ ، نفسیات، حرکات وسکنات، محاورے، طرز تکلم، حفظ مراتب، طرز تخاطب ایسے رنگ پیش کیے ہیں کہ خالص عربی کردار سراسر ہندوستانی فضا کے چلتے پھرتے کردار نظر آتے ہیں۔ جدید مرثیہ نگاروں نے انہیں کرداروں کو عوام کے پیچیدہ مسائل سے ملا کر مرثیے کا موضوع کائنات گیر بنادیا جہاں مرثیے کے کردار عوام سے مخاطب نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس قدیم و جدید نوحے جن کو بینیہ و تبلیغی نوحے کہا جاتا ہے ہندوستانی معاشرت کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کرنے میں پیچھے نہیں رہے ہیں۔
نوحہ کسی مخصوص ہیت کا پابند نہیں ہوتااور نہ کسی خاص واقعات و شخصیات کا نوحہ اپنے ذاتی جذبہ غم کے اظہار میں کسی مسلکی یا مذہبی رسوم و قیود کا پابند بھی نہیں ہوتا لہذا رثائی ادب میںدیگر اصناف سخن کی طرح نوحہ کو محض کربلا سے مخصوص کر کے نہیں دیکھنا چاہے۔ اس لئے کہ نوحہ ہر انسان کے اپنی ذاتی غم و الم کے اظہار کا بھی نام ہے ۔وہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ انسان کربلا کے اس آفاقی غم کے مقابلے میں اپنے ذاتی غم کو کس طرح سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اگر وہ کربلا کے غم کو اپنے غم سے زیادہ عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اظہار کے لئے اس کے ادبی اختصاص اور مذہبی جواز کی ضرورت نہیں ہے، اور جہاں تک حصول ثواب کا مسئلہ ہے تو یہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے ۔ ویسے بھی غم انسان کے اندر پائے جانے والے سب سے حساس جذبہ کا نام ہے اور اس کی معنوی کائنات میں کافی وسعت پائی جاتی ہے اس لئے کہ گریہ و زاری کے تعلیقاتی عوامل انسانی زندگی کے مختلف شعبے پر محیط وبسیط ہوتے ہیں ۔
مرثیہ کے مقابلے میں نوحہ زیادہ تفصیل طلب موضوعات کا متحمل نہیں ہوتا اس لئے نوحہ کا آغاز نوحیت سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام بھی نوحییت پر ہی ہوتا ہے۔ نوحہ کا ایک مخصوص دائرہ عمل ہے ۔چونکہ انسان فطری طور پراپنے اظہار غم کے لئے کسی طرح کی فضا سازی اور ماحول آرائی کا اہتمام و انتظام نہیں کرتا بلکہ اپنے اندر پیدا ہونے والی ہیجان انگریز المیاتی کرب کا برجستہ اظہار چاہتا ہے۔ لہذا مرثیہ کی طرح نوحہ تمام ترتصنوعات اور تکلفات سے شعوری طور پر گریز کرتا ہے ۔
نوحہ کے بارے میں پروفیسر سید مہدی جعفر کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’نوحے کے تخلیقی آغاز ہی سے اختصار کی شکل میں ’نوحیت‘یعنی بین اور غم والم کا اثر انگیز برتاؤ مرثیے اور نوحے کی درمیان خط امتیاز کھینچتا ہے۔ یہی اس کی فنی جہت ہے ، شاعر کا کمال اس نقطہ عروج پر منحصر ہے کہ نوحہ سننے والے کا دل سنگین اور غمناک صورت گری سے تڑپ اٹھے ۔تخلیق کا ر کے لئے یہ جاں کاہ کوشش انگلیوں کو خونِ دل میں ڈبولینے کے مترادف ہے ۔‘‘
(ماخوذ از ’’سرخ دوپہر‘‘ص ۸)
نوحہ گوئی کا فن نہایت ہی مشکل فن ہے اس میدان میں شاعر کو ایک مخصوص دائرہ کے اندر رہ کر تخلیقی ہنرمندیوں اورمخصوص تکنیک کے ذریعہ اپنے اند ر پیدا ہونے والی ہیجان انگیز کرب کو اپنے جذبات میں تحلیل کرکے اپنی مخصوص لفظیات کے ذریعہ اس کی ترسیل کرتا ہے جس کا اثر اس کے سامع پر کچھ اس طرح ہوتا سے ہوتا ہے کہ وہ گریہ و زاری اور سینہ کوبی کے لئے مجبور ہوجاتا ہے ۔
نوحہ کے متعلق بیشتر نقاد کا یہ اغلب رجحان ہے کہ نوحہ نسائی زبان میں جذبہ غم و اندوہ کے اظہار کا نام ہے ۔ اس سے متعلق یہ اقتباس بہت اہمیت رکھتا ہے ۔
’’لوگ خیال فرماتے ہیںکہ نوحہ تصنیف کرنا بہت آسان ہے ،میرے نزدیک یہ زیادہ مشکل ہے کیونکہ عورتوں کی زبان میں جذبات شاعری اور حسن بندش کا خیال رکھنا اور محاورات کا محل پر صرف کرنا اور واقعات کربلا کو شریک کرنا مضمون کو ان الفاظ کے حوالے کر دینا جن لفظوں کی روشنی میں مطلب اور بھی واضح طور سے نظر آنے لگے کوئی سہل بات نہیں‘‘۔
(دولھا صاحب عروج، جوشِ ماتم ،حصہ اول)
اس سے انکا رنہیں کیا جا سکتا کہ نوحہ گوئی میں نسائی جذبات کی نمائندگی مردوں کے مقابلے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا ایک نفسیاتی اور طبیعاتی پہلو بھی ہے چونکہ عورتیں مردوں کے مقابلے زیادہ جذباتی اور حساس ہوتی ہیں ۔لہذا غم و اندوہ ان کی طبیعت پر بہت جلد اثر انداز ہوتا ہے اور ایک عورت جتنی شدت کے ساتھ غم کو محسوس کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ جذباتی انداز سے اس کیفیت غم کا ظہار بھی کرتی ہے۔ مرثیہ کی طرح ہی ہندوستانی عورت کے جذبات کی یہ مختلف کیفیتیں جو آپ نے مرثیوں میں پڑھیں ہیں وہ بعینہ نوحوں میں بھی پائی جاتی ہیں ۔عراق کی سرزمیں کربلا میں رونما ہونے والے واقعات کو اگر باریکی بینی سے دیکھیں گیں تو آپ یہ محسوس کریں گیں کے ایک ماں اپنے بچے کو میدان قتال میں بھیجنے کے لئے کس طرح تیار کرتی ہے اور کیا نصیحتیں کرتی ہیں یہ موضوع بہت ہی حساسیت سے عبارت ہے ۔معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں جب کربلا کے کسی شہید کی لاش خیمے میں آئی تو ماں اس کے اظہار حزن و الم کا دردانگیز منظر کس طرح بیاں کرتی ہے۔ اس کو سننے کے بعد دل میں ایک عجیب کرب و الم کا احساس بیدار ہوتا ہے۔جو انسان کے اندرون ذات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔مجموعی طور پر کسی واقعہ کے جزیئات کو تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن کسی واقعہ کے اہم پہلووں کو نوحوں میں ضرور بیان کیا جاسکتا ہے۔
پروفیسر اطہر رضا بلگرامی کایہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’نوحوں کا ہندوستان ایک جامع ، مکمل اور متحرک ہندوستان ہے۔ جہاں آپ کو ایک طرف انیسؔ و دبیرؔ کا اودھ کی تہذیب و معاشرت میں رچا بسا ہندوستان نظر آئے گا تو دوسری طرف گنگا جمنا ہمالیہ ،کھیت کھلیان، ندیوں ، باغوں وفصلوں کو سمیٹے ہوئے ہندوستان ملے گا۔ یہاں اگر ایک طرف حفظ مراتب ،طرز تخاطب کی تہذیب ہے تو دوسری طرف سادھو، سنتوں اورصوفیوں کے اپدیش بھی ہیں۔یہاں کہیں سنت کبیرکی آواز اور میرا ؔ کے بھجن گونجتے ہیں تو دوسری طرف انقلاب وللکار بھی سنائی دیتی ہے۔۱۹۴۱ ء میں حسینی یادگار کمیٹی نے تبلیغ حسینی کے سلسلے میں جو ملک گیر کارہائے نمایاں انجام دیئے ان میں سب سے اہم کام واقعہ کربلا اور حسینی پیغام کو ہندوستانی عوام تک پہونچانا تھا۔چونکہ نوحہ کسی مخصوص طبقے سے نہیں عوام سے مخاطب تھا اس لئے وہ انہیں کی زبان ولب ولہجہ میں مخاطب ہوا ۔انہیں کی رسم ورواج واعتقادات کا نمائندہ بنا اور انہیں کے جذبات کی عکاسی کرتا ملا۔ اس لئے نوحوں نے مقامی زبان ولب و لہجہ کو اپنایا۔انہیں کے زباں زد محاورے استعمال کئے اور اس وقت کے مقبول ومعروف عوامی شعراء مثلاً اکبر ؔالہ آبادی، اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کا سہارا لیا۔سنت کبیرؔ ،تلسی داس ، میرابائی کے مقبول عام کلام کا رنگ اپنایا اور اقبال کی ہر دل عزیز نغموں کا چولاپہنا۔انیسؔو دبیرؔ اور ان کے معاصرین نے اپنے مرثیوں میں کبھی عوام کی نمائندگی نہیں کی۔کبھی ہندوستانی عوام کو مخاطب نہیں کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج گجراتی ، کشمیری، ڈونگری،سندھی ، پنجابی اور مختلف شمالی ہندوستان کی زبانوںمیں نوحے تو بہت مل جائیں گے جو اپنے اپنے علاقوں میں مقبول ہیں لیکن مرثیوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ اور جو ہیں بھی وہ اتنے مقبول عام نہیں۔مرثیوں کے مقابلے میں نوحوں کا ہندوستان بہت جامع ، وسیع اور بہت منفرد اور متحرک نظر آتا ہے
’’ نوحہ رثائی ادب کا اہم ستون اورقومی یکجہتی کا آئینہ‘‘
یہ بات بالکل درست ہے کہ نوحہ گوئی دماغ سوزی سے زیادہ جگر سوزی کا کام ہے جیسا کہ امید فاضلی تحریر کرتے ہیں۔
’’ صنف نوحہ گوئی ایک مشکل صنف سخن ہے ۔ اس میں شاعر کو اپنا پتہ پانی کر ناپڑتا ہے تب کہیں جاکر وہ کسی کی آنکھ سے آنسو او ر دل سے آہ نکلوا سکتا ہے ‘‘
(مجلہ ’’ایک آنسو میں کربلا‘‘اسلام آباد)
اردو میں نوحہ کا آغاز دکن سے ہی ہوا ہے، ولی دکنی کے کلام میں رثائی کلام پائے جاتے ہیں ، لیکن مرثیہ کی تاریخ کے محققین اور مولفین نے ان کے اس رثائی کلام کو مرثیہ کے ہی زمرے میں رکھا ہے۔ جب کہ میرے نظریہ کے مطابق یہ درست نہیں ہے، اس لئے کہ مرثیہ کے محققین نے دکن کے شعرا کے جن کلام کو مرثیہ سے تعبیر کیا ہے دراصل وہ مرثیہ نہیں نوحہ ہی ہیں۔ چونکہ ان کلام کو اگر موجودہ رثائی ادب کی صنف نوحہ سے تقابلی جائزہ کریں گے تو وہ نوحہ کے تمام تلازمات کی ہی عکاسی کرتے نظر آئیں گے۔لیکن بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ مرثیہ کی ہیت میں تبدیلی واقع ہوئی ہے اور معاصر عہد میں مرثیہ کے تلازمات اور اس کے ہیت متعین ہوچکی ہے۔ لہذا اس بنیاد پر ان تمام کلام کو جو ابتدائے اردو عہد کی اساسی دور میںجسے مرثیہ سے تعبیر کیا وہ دراصل نوحہ ہی ہے۔ محققین مرثیہ نے ، مرثیہ کے باضابطہ جس عہد کی نشاندہی کی ہے وہ 1503عیسوی میں شاہ اشرف بیابانی کی’’ نوسرہار‘‘ میں موجود رثائی کلام کو مرثیہ کہا ہے اور برہان الدین جانم کے کلام کو بھی مرثیہ کہا ہے،حالانکہ وہ مرثیہ نہیں نوحہ ہے۔اسی طرح سے مرزا برہانپوری اور ہاشمی وغیرہ نے بھی بڑے پر اثر نوحہ تخلیق کئے ہیں۔لیکن ان سب میں قلی قطب شاہ (۹۷۳ھ تا ۱۰۲۰ھ)کو ان تمام نوحہ گو شعرا کا سرخیل کہا جاتا ہے۔لیکن نصیر الدین ہاشمی نے اس بات کااعتراف کیا ہے کہ ’’شیخ اشرف‘‘ نے ’’دہ مجلس‘‘ کے عنوان سے ایک بہت ہی مفصل نظم لکھی ہے جس میں 1800؍اشعار موجود ہیں ،ان اشعار میں بڑے تفصیل کے ساتھ واقعات کربلا کو نظم کیا گیا ،مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں۔
دوجگ اماماں دکھ تھے سب جیو کر تے زاری وائے وائے
تن روں کی لکڑیاں جال کر کرتی ہیں خواری وائے وائے
ساتوگگن آٹھو جنت ، ساتو دریا ، ساتو دھرت
ایکس تھے ایک آپس میں آپ دکہ کرتے کاری وائے وائے
(دکن میں اردو :ص ۲۷۳)
لیکن جب ہم تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو بیشتر محققین و مولفین مرثیہ کی اصل تاریخ کو لے کر تذبذنہ رویہ کے شکار نظر آتے ہیں ،اس لئے کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ مرثیہ کی تاریخ کی دریافت میں کوئی یقینی امکان کی صورت نظر نہیں آتی۔لیکن نوحہ کی باضابطہ تاریخ اردو شاعری کے ابتدائی نقوش میں بہت واضح دکھائی دیتی ہے۔لہذا ابتدائے اردو شاعری کو نوحہ کی ابتدائی تاریخ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔اسی طرح سے جیسے جیسے اردو زبان اپنے مرحلہ وار ارتقائی سفر طے کرتی رہی اسی طرح نوحہ بھی مرحلہ وار اپنی تاریخی امکان کی پیش رفت میں اپنا سفر طے کرتا رہا۔اور یہ سلسلہ محض اردو زبان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ عربی زبان میں بھی نوحہ اسی طرح غیر تفہیمی صورت میں اپنا سفر طے کرتا رہا۔لیکن فارسی زبان میں اردو زبان ہی کی طرح نوحہ غمجہول تحقیقی رویہ کا شکار رہا ہے، اور جو اشعار فارسی میں کربلا کے عنوان سے کہے گئے رثائی اشعار بغیر کسی تحقیقی امتیاز کے مرثیہ کے ضمن میں ہی رکھا گیا۔
فارسی ادب کی تاریخ بہت قدیم ہے ، جس کا تفصیلی ذکر موضوع کی نزاکت کے منافی ہے ۔لیکن فارسی ادب میں نوحہ کے ارتقا کا اہم دور مامون رشید کے عہد کے اس زمانے کو تصور کیا جاتا ہے۔ جب مامون رشید نے خراسان کی زمام حکومت 205 ہجری میں ایران کی ’’طاہریہ ‘‘خاندان کے سپرد کی یہ وہ دور تھا جب فارسی زبان وادب کا ارتقائی دور تصور کیا جاتا ہے ۔اسی عہد میں باضابطہ خانوادہ عصمت و طہارت کی مدح و ستائش کو فارسی شاعری کا ایک اہم حصہ تصور کیا جانے لگا۔لہذا ایسے حالات میں کربلا کے واقعات کے اظہار میں شاعروں نے بڑے فراخ دلی کا مظاہر کیا ،اور یہیں سے نوحہ گوئی اور نوحہ خوانی کوعمومی حیثیت حاصل ہوئی۔
اور فارسی کے بیشترشعرا نے اس صنف میں طبع آزمائی کی یہاں تک مولانا روم کی مشہور زمانہ مثنوی کا دیوان ’’شمس تبریز‘‘ میں کچھ اشعار ایسے بھی ملتے ہیں جسے نوحہ کے ضمن میں رکھا جاسکتا ہے وہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
کجائید ای شہیدان خدائی
بلا جویان دشت کربلائی
کجائید ای سبک روحان عاشق
پرندہ تر زمرغان ہوائی
کجائید ای شہان آسمانی
بدانستہ فلک را در کشائی
کجائید ای در زندان شکستہ
بدادہ و مداران رہائی
کجائید ای در مخزن گشادہ
کجائید ای نوای بی نوائی
دلم کف کرد، کاین نقش سخن شد
بہل نقش و بہ دل رو گر زمائی
بہل نقش و بہ دل رو گر زمائی
کہ اصلِ اصلِ اصلِ ہر ضیائی
فارسی ادب میں مرثیہ کو لے کر محققین میں اختلاف رائے مولانا شبلی نعمانی نے ’’شعرا لعجم‘‘ میں سب سے پہلا مرثیہ گو ملا محتشم کاشانی کوبتایا ہے۔ لیکن پروفیسر مسعود حسن رضوی نے اس سے اختلاف کیا ہے ۔ان کی تحقیق کے مطابق فارسی کا سب سے پہلا مرثیہ گو شاعر ’’آذری‘‘ ہے۔لیکن میں ان محققین کی راےسے اتفاق نہیں رکھتا۔اس لئے کہ پروفیسر مسعود حسن رضوی نے ’’آذری‘‘ کی انتقال کی تاریخ 886 ھجری لکھی ہےجوسن عیسوی کے اعتبار سے 1461ہوتی ہے، اور ملا محتشم کاشانی کی کا دور 1527 عیسوی ہے، لیکن مولانا روم کا عہد (30 September 1207 – 17 December 1273)ہے۔لہذا اس اعتبار سے سب سے پہلے کربلا کے واقعات سے متعلق جس نے اشعار کہے ہیں وہ مولانا روم ہیں۔لیکن مولانا روم اور آذری کے مقابلے میں کربلا کے واقعات کے حوالے سے شعر گوئی میں ملا محتشم کاشانی کو زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔چونکہ ان کے’’ ہفت بند ‘‘کوجو شہرت ملی وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔لیکن بیشتر محققین نے ملا محتشم کاشانی کے ہفت بند کو مرثیہ ہی لکھا ہے ۔ یہ وہی تسامح ہے جو اردو شاعری میں مرثیہ گوئی کی تاریخ کی دریافت میں واقع ہوا ہے۔جس کی وجہ سے نوحہ کی تاریخ سے محققین نے پس اندازی کا رویہ اختیار کیا ہے۔میں یہاں پر ملا محتشم کاشانی کے ہفت بند کے چند اشعار پیش کرتا ہوں۔
چوں خوں زخلق تشنہ او بر زمیں رسید
جوش از زمیں بہ ذرہ عرش بریں رسید
نخل بلند او چو خساں بر زمیں زدند
طوفاں بہ آسماں ز غبار زمیں رسید
کرد ایں خیال وہم غلط کار، کن غبار
تا دامن جلال جہاں آفریں رسید
ہست از ملال گرچہ بری ذات ذوالجلال
او در دل است و ہیچ ولی نیست بے ملال
(2)
ترسم جزای قاتل او چوں رقم زنند
یکبار بر جریدہ رحمت قلم زنند
ترسم کزیں گناہ شفیعان روز حشر
دارند شرم کزگنہ خلق دم زنند
دست عتاب حق بدر آید ز آستیں
چوں اہل بیت دست بر اہل ستم زنند
آہ از دمیکہ باکفن خوں چکاں زخاک
آل علی چوں شعلہ آتش علم زنند
فریاد از ایں زماں کہ جوانان اہل بیت
گلگوں قدم بہ عرصہ محشر قدم زنند
از صاحب حرم چہ توقع کنند باز
آں ناکساں کہ تیغ بصید حرم زنند
بس بر سناں کنند سری راکہ جبرئیل
شوید غبار گیسویش از آب سلسبیل
(3)
بر حر بگاہ چوں رہِ آں کارواں فتاد
شور نشور واہمہ را در گماں فتاد
ہم بانگ نوحہ غلغلہ درشش جہت فگند
ہم گریہ بر ملائیک ہفت آسماں فتاد
چنداں کہ برتن شہدا چشم کار کرد
بر زخم ہائے کاری تیغ و سناں فتاد
ناگاہ چشم دختر زہرا درایں میان
بر پیکر شریف امام زماں فتاد
بے اختیار نعرہ ہذا حسین زد
سرزد چنانکہ آتش از او در جہاں فتاد
پس بازبان پُر گلہ آں بضعۃ البتول
رو در مدینہ کرد کہ یاایھالرسول
(4)
ایں کشتہ فتادہ بہ ہاموں حسین تست
دیں صید دست و پازدہ در خوں حسین تست
ایں غرفہ محیط شہادت کہ روے دشت
از موجِ خونِ اوشدہ گلگوں حسین تست
ایں خشک لب فتادہ ممنوع از فرات
کز خوں او زمیں شدہ جیحوں حسین تست
ایں شاہ کم سپاہ کہ باخیل اشک وآہ
خرگاہ ازیں جہاں زدہ بیروں حسین تست
ایں قالب تپاں کہ چنیں ماندہ برزمیں
شاہِ شہیدناشدہ مدفوں حسین تست
پس روئے در بقیع بہ زہرا خطاب کرد
و حش زمین و مرغ ہوا را کباب کرد
(5)
کائے مونس شکستہ دلاں حال ماببیں
مارا غریب و بیکس وبے آشنا ببیں
تنہائی کشتگاں ہمہ درخاک و کوں نگر
سرہائی سروراں ،ہمہ بر نیز ہ ببیں
آں سر کہ بود بر سر دوش نبی مدام
یک نیزہ اش زدوش مخالف جداببیں
واں تن کہ بود پر درشش درکنار تو
غلطاں بہ خاک معرکہ کربلا ببیں
در خلد بر حجاب دو کوں آستیں فشاں
واند جہاں مصیبت ما برملا ببیں
نے ،نے درآچو،بر خروشاں بکربلا
طغیان سیل فتنہ و موج بلا ببیں
یا بضعۃ البتول !زِ ابن زیاد، داد
کوخاک اہل بیت رسالت بباد داد
ملا محتشم کاشانی کے یہ اشعار نوحیت سے بھر پور ہیں ۔جس کو پڑھنے کے بعد ایک حساس دل ان اشعار کی دلگدازی اور دردانگیزی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا،ان اشعار میں نوحہ کے تمام معنوی تلازمات پائے جاتے ہیں۔یہ بات اپنے جواز میں منطقی استدلال رکھتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نوحہ عربی زبان کے علاوہ ہندوستان کی دیگر مشرقی زبانوں کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی کثرت سے نوحے کہے گئے ہیں۔اس کے ساتھ مغربی زبانوں میں بھی انگریزی ،فرانسیسی اور جاپانی زبان میں بھی نوحے کہے گئے ہیں۔ ہندوستان میں نوحہ کا تعلق عمومی طو رپر نسائی جذبات کی عکاسی کرنے کو کہتے ہیں۔شوکت بلگرامی نے رثائی ادب کی اس صنف سخن کے سلسلے سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ہے۔
’’ اگر چہ بظا ہر نوحوں میں ایسی بات نہیں معلوم ہوتی جس میں شاعر اپنا زور طبیعت دکھا ئے لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ آخر آخر میں جب میں نے نوحوں کو توجہ سے دیکھا تو معلو م ہوا کہ وہ ایک مختصر اور مسلسل نظم ہونے کی حیثیت سے اظہار خیال کا نہایت عمدہ ذریعہ ہیں۔ دوسرے عورتوں کی زبان جو شاعری کی جان ہے، اردو میں ریختی گو شعرا کی عنایت سے اس قابل نہیں رہی تھی کہ ثقات اسمیں زور طبیعت دکھا ئیں مگر نوحوں کا میدان بھی اس کے لئے کھلا پڑا ہے جس میں ہم بے تکلف اپنی طبیعت کی جولانیاں دکھا سکتے ہیں‘‘۔
(جام شہادت: شوکتؔ بلگرامی: مطبع اثنا عشری دہلی: ۱۳۲۶ھ ص ۶۔۵)
رثائی ادب میں نوحہ میں آہ و بکا کے ساتھ اپنے اندرون کرب کا اظہار کرنا بہت ہی اہم ہوتا ہے ، بغیر رثائی کیفیت کے نوحہ ، نوحہ نہیں کہلا سکتا۔اور اس میں بھی زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔اس ضمن میں پر وفیسر محمد کمال الدین ہمدانی کایہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’دیگر اصناف سخن کی طرح نوحہ میںبھی زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اور اردو زبان کی ترقی کے ساتھ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ ابتدا میں نوحہ صرف بینیہ اشعار تک محدود رہا اور نوحہ کی زبان بھی بالکل ابتدائی اور سادہ تھی۔ ہندی الفاظ کی آمیزش بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ ہاشم علی برہانوی کے نوحوں کے دیکھنے سے واضح ہوتا ہے جو علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے ایک ادبی مقالے میں پیش کئے ہیں۔ ملاحظہ ہو ’’نقوش سلیمانی‘‘ اس دور کے بعد زبان،طرز معاشرت اور طرز فکر کے بدلتے ہوئے انداز کے ساتھ نوحہ گوئی کا انداز بھی تبدیل ہوتا رہا دیگر اصناف سخن، خصوصاً مرثیہ کی طرح نوحہ میں بھی وسعت فکراثر انداز ہوئی اور نوحہ میں زبان کی فصاحت و بلاغت اور الفاظ کی شان و شوکت کے اہتمام کے ساتھ نئے نئے مضامین نوحوں میں شامل کئے گئے ۔‘‘
(نجم آفندی کے نوحے: پروفیسر محمد کمال الدین ہمدانی مشمولہ کائنات نجم (حصہ دوم ) ( مرتبہ ڈاکٹر تقی عابدی: ص ۱۲۱۱)
نوحہ سے متعلق بہت سے غلط فہمیاں لوگوں کے درمیان شکوک کی بنیاد پر راسخ ہوگئیں ہیں مثلا نوحہ کو مسلکی زمرہ بندی کے تحت اس پر ایرادی جواز قائم کرنا ،حالانکہ کی یہ کسی صورت میں درست نہیں ہے، اس لئے کہ یہ رثائی صنف سخن کسی ایک مسلک سے مخصوص نہیں ہے ۔بلکہ اس صنف سخن کے اندام سرنوشت میں گنگاجمنی تہذیب اور مختلف تہذیب و ثقافت کی اساسی وراثت سے متصف ہے۔ناکہ کسی خاص نظریہ کے تحت اس صنف سخن کی کفالت کسی والی ریاست اور، روسا و، امرا نے کی ہے ۔بلکہ یہ ایک عوامی عقائد سے انسلاک رکھنے والی صنف سخن ہے ۔جس کی بنیاد پر اس صنف سخن پر بغیر مذہب و ملت کی قید کے مختلف عقائد و نظریات رکھنے والوں نے نوحے کہے ہیں۔ ڈاکٹر عابد حیدری کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’اردو کا رثائی ادب صرف دکن اور لکھنؤ کے فرمانرواؤں کا رہین منت نہیں ہے ۔ اس میں شک نہیں ہے کہ شیعہ اور بعض غیر شیعہ حکومتوں نے وقتی ہمت افزائی کی ہے اور اس ہمت افزائی کی بدولت ان ادوار میں رثائی ادب کا خاطر خواہ ذخیرہ سامنے آیا ہے۔ لیکن یہ سچا ئی بھی شک و شبہ سے بلند ہے کہ رثا ئی ادب کی اصل سر پرستی عوام اور متوسط طبقات نے کی ہے ۔والی حکومت کا مذہب کچھ بھی کیوں نہ رہا ہو۔رثائی ادب کے تخلیق کاروں میں شیعوں ہی کی طرح اہل سنت بھی بلکہ بعض اوقات شیعوں سے بھی زیاہ فعال نظر آتے ہیں۔ اسے گنگا جمنی بنا نے کے لئے کچھ خوش عقیدہ ہندو بھی نظر آتے ہیں ۔یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ ان رثائی تخلیق کاروں کے کارواں کو آگے بڑھانے میں حکومتوں سے زیادہ صوفیائے کرام دکھا ئی دیتے ہیں۔ جن میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ، سید اشرف ؒ جہانگیر سمنانی چشتی، خواجہ نظام الدؒین اولیاء کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔‘‘
’’نوحہ کا ارتقائی سفر‘‘
فی الحال مضمون کی طوالت کے پیش نظر اس بحث کو عرفیؔکے اس قول پرختم کرتا ہوں۔
’’نعت ومنقبت کی طرح نوحہ گوئی میں شاعر کو تلوار کی دھا ر پر قدم رکھنے کے مترادف ہے‘‘
اب اس کے بعد اگر مجھ سے کوئی یہ پوچھے کہ نوحہ کیا ہے ؟ تو میں اسے اپنا یہ شعر ضرور سناؤں گا۔
سن کسی ٹوٹے ہوئے دل کا وہ نوحہ تو نہیں
نغمۂ گل کہ جسے بادِ صبا لکھتی ہے
٭٭٭