کبھی کبھی زندگی میں ہم وہ نہیں کر پاتے جو سوچتے ہیں ...زندگی کے سمندرکی متلاطم موجوں سے کھیل کھیل میں نہ جانے کیسے ایک ہی پل میں سب کچھ سنجیدہ سا ہو جاتا ہے اور ہمیں معلوم بھی نہیں ہوپاتا کیا سے کیا ہو گیا اور کہاں سے کہاں چلے چلے آئے بس ہر طرف موجیں ہوتی ہیں اور ہماری بے حس و حرکت لاش اور اس کے اطراف میں تیرتی اورپر نیجی آتی جاتی لاشیں ہی لاشیں ۔۔۔
ہم سمجھ بھی نہیں پاتے ایک پل میں کیا ہو گیا ؟ کہاں سے کہاں پہنچ گئے سارے خواب ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں تمام منصوبوں پر پانی پھر جاتا ہےہر حکمت عملی ناکارہ ہو جاتی ہے ہم منزلوں کی طرف بھاگتے ہیں منزلیں آنکھیں چرا کر ہم سے فرار کرنے لگتی ہیں جست و گریز کا ایک عجیب وغریب معرکہ ہوتا ہے کچھ ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جسکی منظر کشی ناممکن ہے خاص کر جب میرے جیسے لوگ اپنےاردد گرد بکھری ہوئی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ دنیاذرا بھی انکے خوابوں انکے خیالوں سے میل نہیں کھاتی تو عجیب سا احساس دل و دماغ پر طاری ہو جاتا ہے--
اس رنگ برنگی دنیا میں ہر رنگ دھندلا اورپھینکا پھیکا سا لگتا ہےجب کتاب دل لہو لہو ہو،عصری جراحتوں کی وجہ سےاٹھنے والی دل کی ٹیسیں خوشی و غم دنوں میں اپنی بانسری بجا کر دونوں ہی کو یکساں طور پر مفلوج کر دیتی ہیں نہ ملنے والا غم غموں سے سیکھ دلاتاہے نہ خوشی ہی سے کچھ حاصل ہوتا ہے
بس سب کچھ سپاٹ سا رہتا ہے ۔
لوگوں کے چہروں پر سجی مصنوعی مسکراہٹیں ہوں کہ دوست و احباب کی آنکھوں میں ہمدردی کے جعلی سایے
بسا اوقات جب کوئی ایسا نہ مل سکے کہ جس سے درد دل بیان کیا جا سکے اور وہ زخم دل کریدنے کے بجاءے دواءے دل کا انتظام کرے تو انسان تڑپ تڑپ کر ان حقیقتوں کو ڈھونڈتا ہے جہاں زندگی کے معنی مل سکیں ۔
عدالت وانصاف ، امن و تحفظ، انسانی اقدار،اخلاقیات ،غرض انسان کے وجودمیں پائی جانے والی تمام جبلتیں جو انسان کی معنوی حیاتیاتی بنیادوں کوتشکیل دیتی ہیں سب کے سب آسمان حیات پر بادل کے ٹکروں کی طرح بکھری ادھر
ادھر تیرتی نظر آتی ہیں لیکن نہ ان میں برس کر زمین دل کو جل تھل کرنےکی طاقت ہوتی ہے نہ منظم ہو کر ایک گھٹا بننے کی کہ انسان اس امید پر ہی جی لے کہ آج نہ سہی کل بارش ہوگی اور تپتا ہوا صحراءے انسانیت ضرور باران کمال سے سیراب ہوگا پھر ہر سو سبزہ ہوگا اقدار کے پھول ہوں گے اخلاق کی
کلیاں ہونگی امن و تحفظ کی کیاریوں میں زندگی کے حسین روپ لہلا رہے ہونگےاور جب ایسا کچھ نہیں ہوتا سوچ صرف سوچ رہ جاتی ہے اور انسان بار بار خود کو سمجھانے کے بعد بھی ارتقاء کے مراحل پر گامزن نہیں دیکھتا تو ایک اپاہج زندگی کی لاش اپنے سر ڈھوتے ڈھوتے بھول جاتا ہے کہ وہ کیا ہے نتیجہ کہیں کسی کا غلام بن جاتا ہے کہیں تو کہیں اپنے ضمیر کا سودا کر بیٹھتا ہے حقیقتوں سے غفلت انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی ایسے میں اپنے ضمیر اور
اپنے وجود کو باقی رکھنے کا عمل بہت سخت اور طاقت فرسا ہوتا ہے جہاں فکروں کی بولیاں لگ رہی ہوں جہاں ضمیروں کے سودے ہو رہے ہوں جہاں صلاحیتوں کی فروخت کا بازار سجا ہو وہاں خرید و فروخت کی آگ میں جل بھن کر خاکستر ہو جانے والی بشریت کی تہوں سے اٹھنے والی بدبو اتنی بھیانک ہوتی ہے کہ انسان الفاظ ڈھونڈتا رہتا ہے لیکن کوئی لفظ پاس نہیں بھٹکتا
کہ بے جان ہو کر بھی اتنی گندگی کا بار اٹھانے کی طاقت ان میں نہیں ۔
نہیں معلوم میرے الفاظ نے میرا ساتھ دیا اور میں اپنی بات پہنچانے میں کامیاب ہوا یا نہیں بس اتنا سمجھیں کہ جب انسان زندگی کے معنی تلاش کررہا ہو اور ہر جگہ اسے ناکامی ملے تو ایسی صورت میں جو احساس جنم لے تواسے آپ کیا کہیں گے ایسا ہی کچھ احساس جو زندگی کے معنی کو ڈھنونڈتےڈھونڈتے مسلسل ملنے والی ناکامیوں کی بنا پر انسان کے پورے وجود پر طاری ہوتاہے بالکل ایسا ہی کسی وقت مجھ پر طاری تھا
محسوس ہوتا گو کہ میں خلا میں جی رہا ہو اور میرے ارد گرد کی دنیا روئی کے گالوں کی طرح میری ہی طرح ٹنگی ہوئی ہے جسکی اپنی کوئی حقیقت نہیں سب کچھ جعلی و فریبی ہے حقیقت کا گزر کہیں نہیں بڑے سے بڑے فریب کو خوشنما رنگوں کے مگرجعلی فریم میں ایسے سجا دیا گیا ہے کہ حقیقت کا گماں ہو ۔
جی ہاں کچھ ایسی ہی کیفیت میرے اوپر طاری تھی دنیا کے تمام وہ حقایق جنکے لئےدنیا لڑتی مرتی ہے مجھے خلا میں قلابازیاں کھاتے دکھتے اور میں اپنے لئےاس خلا سے نکل کر اس فضا کا راستہ تلاش کرتا جہاں سے نئی منزل کی طرف
پرواز کر سکوں اونچا بہت اونچا بلکہ سب سے اونچا اڑ سکون وہاں پہنچ سکوں جہاں پر پہنچ کر مھمل اور بے معنی زندگی کو ایک معنی مل سکیں ان چیزوں کےتکامل کومحسوس کر سکوں جن سے انسان کی زندگی زندگی بنتی ہے اور جن کے بارے میں مجھے لگنے لگا تھا یہ سب چیزیں کبھی تھیں لیکن اب نہیں ہیں انہیں میں کہیں کھو
آیا ہوں اور اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ کہاں اور کیسے کھویا بس اسی قسم کےسوالات اور روح کی تشنگی نے مجھے ایک یادگار سفر کے لیے بار سفر باندھنےپر مجبور کیا
یہ سفر اپنی نوعیت اور وقت کے لحاظ سے بالکل منفرد سفر تھا ایسا سفر کہ شاید پھر زندگی میں کبھی ایسا تجربہ نہ ہو جیسا اس سفر میں ہوا یہ ۲۰۰۳ءکی گرمیوں کی بات ہے جب عراق میں صدام کا تختہ پلٹا اور صدام کے معروف۔مجسمہ کو بغداد کے الفردوس اسکوائر پر کرین کے ذریعہ اکھاڑ پھینکا گیا یہ امر اس بات کا گواہ تھا کہ مظلوموں کا خون پینے والے مطلق العنان شہنشاہ کے
عہد کا خاتمہ ہو گیا اور اب ایک نئے دور کا آغاز ہے ۔گرچہ سقوط بغداد کےبعد اب صدام کا پہلے جیساخوف نہ تھا لیکن پھر بھی لوگوں کی آنکھوں میں یہ خوف کے سایوں کو دیکھا جا سکتا تھا اسکی وجہ بھی یہ تھی کہ سب کو پتہ تھا کہ یہ مطلق العنان آمر زندہ ہے اور ماضی کے تلخ تجربات یہ کہہ رہے تھے کہ جب تک اس کے مر جانے یا گرفتار ہو جانے کی تصدیق نہ ہو اس کے تسلط سے نجات پانےکی خوشیاں بر سر عام نہیں منائی جا سکتیں اور نہ اس کے ممکنہ رد عمل سےغفلت برتی جا سکتی ہے کچھ ایسے ہی خوف و ہراس کے درمیان یہ خبر عام ہوگئی کہ کربلا کا راستہ کھل گیا ہے اور لوگ جوق در جوق زیارت کربلا سےمشرف ہو رہے ہیں پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ایران کے عراق سے متصل تمام بارڈروں پر عاشقان حسین کا ایک سیلاب امنڈ پڑا جسکو روکنا کسی حکومت کے بس میں نہ تھا عراق کی کمان جنگ کے فورا بعد امریکہ کی طرف سے معین حاکم پال بلمر کے ہاتھوں میں تھی اور عراق میں چھٹ پٹ جھڑپیں ہو رہی تھیں
کچھ پتہ نہیں تھا کون کس پر کب حملہ کر دے کبھی امریکیوں کی گاڑیوں پرگھات لگا کر حملہ کیا جاتا تو کبھی بعثی درندے شیعوں اور زائرین کو نشانہ بناتے اور بعض جگہوں پر خود شیعہ قبائل ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے جس کا اندازہ سقوط بغداد کے بعد نجف میں بزرگ مراجع کے گھروں کی گھیرا بندی اور آیت اللہ خوئی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بیٹے عبد المجید خوئی کے قتل سے لگایا جا سکتا ہے شیعوں کے متحارب گروپ جہاں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے وہیں دشمن، قوم، قبیلہ و گروہ بندیوں سے ما وراء ایک متمدن قوم کو دنیا میں وحشی قوم کی صورت متعارف کرانے کے در پے تھا۔
ایسے میں عراق جانا خطرہ سے خالی نہ تھا لیکن اس کے باوجود ہر خطرہ کو نظر انداز کر کے عاشقان حسینی کا ایک سیل رواں تھا جوعراق ایران بارڈر پر پہنچنے کے لئے بیتاب تھا جبکہ عراق کی صورت حال کے واضح نہ ہونے کی بنا پر اور زمام حکومت امریکی ہاتھوں میں ہونے کے سبب ایران نے مطلع عراق صاف ہونے تک پہلے تو اپنے باشندوں پر عراق جانے کے لئیے پابندی لگائی لیکن جب اسکا بھی کوئی نتیجہ بخش اثر نہ ہوا تو عراق جانے والی بیشتر سرحدوں کو سیل کر دیا کیونکہ اس وقت زائرین کی جان کو سخت خطرہ تھا یا راستے میں چور اچکے لوٹ مار کر ان کا سازو سامان چھین لیتے یا شیعہ دشمن عناصر انہیں زود کوب کرتے یا عراق پہنچ جانے کے بعد وہاں کی نا امنی کی نظر ہو جاتے کچھ پتہ نہیں تھا ساتھ میں چلنے والی کونسی گاڑی آر ڈی ایکس اور دھماکہ خیز مادہ لیکر چل رہی ہے اور کب پھٹ جائے ؟ ایسے میں جب سرکاری طور پر عام منادی کرا دی گئی کہ تااطلاع ثانوی ایرانی باشندے عراق کا سفر نہ کریں تو لوگوں نے غیر قانونی راستہ اختیار کیا اور عراق کی سرحدوں اور علاقوں کی جانکاری رکھنے والے لوگوں کی رہنمائی میں ایران و عراق کی فورسزز سے چھپتے چھپاتے کربلا جانےلگے ۔
تمام تر خطروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لوگوں کی کربلا جانے کی منطق یہ تھی فی الحال موقع ہاتھ آیا ہے تو کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے صدام کی حکومت کا تختہ پلٹ جانے کے بعد کچھ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ کل کیا ہو کسی کو نہیں معلوم ؟ کچھ پتہ نہیں کہ امریکہ کہیں دوبارہ اسے مسلط نہ کر دے اور پھر آنے والے کل میں زیارت کربلا کے لئیے کیا قوانین وضع ہوں فی الحال سب سے اچھا موقع ہے زیارت کے لئے اسے ہاتھ سے نہیں گنواناچایہے اسی لئیے لوگوں کے اند کربلا کی زیارت کو لیکر بہت جوش تھا ۔مدرسہ امام خینی رحمہ اللہ تعالی علیہ پر حوض کے پاس رات کے کھانے کے بعد اکثر طلاب کاموضوع گفتگو یہی ہوتا کہ کیسے خود کو کربلا پہنچایا جائے اور کیا تدبیرکی جائے کہ کربلا پہنچ سکیں اسی دوران ہمارے ایک بزرگ و محترم دوست مولانا جعفر حسین صاحب فیض آبادی کہیں سے یہ خبر لائے کہ وہ کسی ایسے کوجانتے ہیں جو ہمیں عراق کے بارڈر تک کسی بلدی یعنی راہنما کے حوالے کرسکتا ہے اور پھر وہ بلدی ہمیں عراق تک پہنچا دے گا بس پھر کیا تھا ہم لوگ اس سے ملنے پہنچ گئے اور جانے کا وقت اور دن مقرر ہو گیا اب بات اجازت کی تھی کہ مدرسہ سے کیسے اجازت حاصل کی جائے سفر کے درپیش ممکنہ خطرات کے کو دیکھتے ہوئے بہت سخت تھا کہ مدرسہ کی طرف سے ہمیں اجازت ملجائے وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ سرکاری طور عراقی بارڈرز تک پر جانے پرپابندی تھی بہر حال ہم نے اسکا حل یہ نکالا کہ اپنے پرنسپل سے شفاہی اجازت حاصل کی جائے تاکہ کسی بھی حادثہ کی صورت میں کوئی چیز ریکارڈ میں نہ رہے اور مدرسہ کے اوپر کوئی بات نہ آئے یہ خیالی پلاو تو ہمارا تھا لیکن ذہن میں بار بار یہ بات آ رہی تھی کہ چھٹی ملنا مشکل ہے کیونکہ
بظاہر ہمارے اس قدم میں کوئی منطق نظر نہیں آ رہی تھی لیکن کبھی کبھی حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ خود منزلیں آپکے قدموں میں آنے کو تیار ہوتی ہیں چاہے ظاہری طور پر منزل کتنی ہی دشوار کیوں نہ ہو نماز مغربین کے بعدہم مدرسہ کے دلسوز و دردمند مدیر حجہ الاسلام والمسملین جناب آقائے سجاد ہاشمیان حفظہ اللہ کے پاس پہنچے جو اپنی کار اسٹارٹ کر رہے تھے اور اگرتھوڑی دیر میں پہنچتے تو وہ جا چکے ہوتے ہم نے سلام کیا اور مدعا بیان کیا انہوں نے فورا کہا ٹھیک ہے بس اپنا دھیان رکھنا میں سفر کربلا سےنہیں روکونگا بس اتنا ہے کسی مطمئن ہمراہ کے ساتھ جانا جانا ہے تو جاویہ بات بہت آسان ہے لیکن جو ایران میں ادارہ جات اور یہاں کے دفتری کام کاج کے طریقوں سے واقف ہیں وہ یقینا سمجھ سکتے ہیں کہ اس طرح وہ بھی خاص
شرایط میں کربلا جانے کی اجازت مل جانا معجزہ سے کم نہیں ۔
اجازت مل جانے کے بعد اب سفر کی منصوبہ بندی کا مرحلہ تھا ہمارے ساتھ دوایرانی لوگ تھے ایک جعفر بھائی اور ایک ہم دو ہندوستانی اور دو ایرانی
یہ بھی عجیب بات تھی عموما جو لوگ کربلا کم از کم انکا قافلہ ۲۰ سے ۲۵ لوگوں پر مشتمل ہوتا لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ ہم چار لوگ نکلے اور تمام راستہ خود بخود کھلتے چلے گئے سفر سے ایک شب قبل مولانا غلام حسین صاحب سہیل اور جناب محمد حسن دھولڑی سے بات ہوئی اور یہ طے پایا کہ ہم لوگ آپ کے بعد تیار ہیں آپ لوگ وہاں پہنچ کر ہمیں بتا ئیں تاکہ پھر ہم بھی اپنا رخت سفر باندھیں فی الحال معاملہ سفر کے ممکنہ خطرات سے نپٹنے کی حکمت عملی کا تھا جس میں غلام حسین صاحب اور محمد حسن دھولڑوی صاحب دونوں ہی نے گراں قدر مشورےدئے جنکو بیان کرنے کی یہ جگہ نہیں ہے البتہ ہم نے ایرانی و عراقی فورسزکی جانب سے فائرنگ سے لیکر مائنز پھٹنے تک کی تفصیلات معلوم کر لی تھی حتیکہ گولی تک لگ جانے کی صورت میں ابتدائی امداد کا سامان ہم نے سفر میں ساتھ رکھ لیا تھا ۔
وہ گھڑی بھی آ گئی جب ہم ٹیکسی میں سوار ہو کر مہران کے لئیے نکل پڑے ہمارے ساتھ ایک ایرانی نوجوان علی نصیری اور ایران کےمعروف ٹی وی پروگرام سمت خدا میں مھدویت کے موضوع پر مسلسل لائو پروگرام پیش کرنے والے جناب آقای حیدری کاشانی تھے البتہ اس وقت انہیں کوئی نہیں جانتا تھا ٹیکسی میں مختلف ایرانی نوحے چل رہے تھے اور ہمارے سامنے کربلاکا منظر تھا ہماری گاڑی شہر قم سے نکل کر تیزی کے ساتھ ایلام کی طرف گامزن تھی چاند تارے اور آسمان کی وسعتیں سب کچھ سمٹ کر ہماری پیکان نامیٹیکسی کو دیکھ رہے تھے اور ہم ان سے بے خبر سر سر کرتے ہوئے آگے بڑھتے جارہے تھے ٹیکسی میں ایران کے معروف نوحے خوان اکبر شریعت کی صدائیں گونج رہی تھیں کربلا کربلا ما داریم می آییم