جناب ارشاد امروہوی
(معروف ناول و افسانہ نگار)
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہر شے اور شخصیت اپنے بنیادی وصف سے پہچانی جاتی ہے۔ اسی نظرئیے کے تحت انسان اپنی انسانیت اور خاندان اپنی صحت مند روایات و صفات سے پہچانے جاتے ہیں جن سے نسبت اور تعلق ظاہر کرنے میں لوگ فخر و امتیاز محسوس کرتے ہیں۔ ہم شیعہ حضرات بھی اپنی عظیم الشان اور بے مثال ہستیاں اپنے تاریخی پس منظر میں رکھتے ہیں جن کے اخلاق و آداب، تعمیری نظریات حسنِ سلوک غربا پروری اور اعلیٰ کرداروں نے عالم انسانیت کو متاثر و متحیر کیا۔ ان کے طرز حیات اور اوصاف عالیہ ہماری زندگی کے لئے نہایت گراں قدر سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان نفوسِ قدسیہ کے بزرگ و خورد مساوی صفات سے مرصع تھے۔ یہی سبب ہے کہ دیگر اقوام اور مذاہب کے مفکرین کے دلوں میں بھی ان کی عظمت اور اہمیت پائی جاتی ہے بلکہ ان کے طرز حیات اور اقوال زرین کو اپنی زندگی میں اہم مقام دیتے ہیں کیوںکہ ان کے واقعات زندگی، کارنامے اور لاثنی قربانیاں جو انہوں نے بقائے انسانیت کے لئے پیش کیں وہ تاریخ انسانیت کے کسی دور میں باصرہ نواز نہیں ہوتیں۔ ہماری مراد آئمہ معصومینؑ اور اہل بیتؑ اطہار ہیں جن کو خدا وند عالم نے خصوصی صفات، کمالات اور معجزات سے نواز کر دنیا میں تربیت ذہن انسانی کے لئے بھیجا تھا۔ ان باصفات افراد نے تحفظ انسانیت کے لئے میدان کربلا میں ہر طرح کے آلام و مصائب کے درمیان اپنی اور اقربا کی جانیں قربان کر کے دین محمدی کو بچایا۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شہادتوں کو دوامیت حاصل ہوئی جس کی جامع نشاندہی جواں سال شاعر شاہد کمال نے چار مصروں میں کی ہے۔
نشیب خنجر قاتل سے نوک نیزہ تک
قدم قدم پہ نئے معجزات لکھتے ہیں
یہ کربلا ہے یہاں موج کی جبینوں پر
شہادتوں کے قلم سے حیات لکھتے ہیں
مندرجہ بالا مصرعوں سے راقم السطور کے بیان کی تصدیق ہو جاتی ہے یعنی انسانی صفات اس کو بعد و فات بھی زندہ و تابندہ رکھتی ہیں۔ اس طرح جنگ کر بلا اور اس کے المناک واقعات ہمارے طرز حیات اور رشتوں کی اہمیت کے لئے وہ درسِ عظیم ہے جس پر عمل پیرا نظرآنے پر ہماری زندگیاں لوگوں کے لئے مثال بن سکتی ہیں۔ اگر ہم جنگ کربلا کے پس منظر یعنی مقصدیت کو ذہن نشین رکھیں اور غور و فکر سے کام لین تو محسوس ہوگا کہ اہلبیتؑ اطہار کے رشتوں کے درمیان کس درجہ خلوص،کس درجہ ایثار و قربانی کے جذبات ، کس درجہ اتحاد و محبت، کس درجہ اشتراک و تعاون ، کس درجہ دوسروں کے حق کا خیال، کس درجہ دوسروں کی زبوں حالی میں امداد کی عملی پیشکش اور کس درجہ جذبات کا احترام پایا جاتا تھا۔ وہی صفات عالیہ ہمارے شب وروز میں باصرہ نواز ہونا ضروری ہیں تب ہی ہم ائمہ معصومینؑ اور اہل بیت اطہارؑ کے صحیح معنوں میں چاہنے اور ماننے والے تصور کئے جا سکتے ہیں۔ اسی تصور کے زیراثر شاعر انقلاب جوشؔ ملیح آبادی نے کہا تھا:
انسان کو بیدارتو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
یعنی شاعر کے تخیل کے مطابق اہل بیت اطہارؑ نے تحفظ حق کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کرکے عالم انسانیت کو ایک درس لازوال دیا۔ یہاں لمحۂ فکریہ بطور خاص یہ ہے کہ کیا ہم محبان اہلبیتؑ کی داخلی و خارجی زندگی میں رشتوں کا وہ احترام، کرداروں میں وہ صداقت، تعلقات میں وہ خلوص، گفتاروعمل میں وہ خلق عظیم، باہمی ربط و ضبط میں وہ اتحاد و محبت ، ایک دوسرے کی ترقی وہ بہتری کےلئے وہ ہمدردیاں، جدو جہد میں دوسروں کا خیال، حلال و حرام کا وہ لحاظ اور حصوص علم کے لئے وہ فکر پائی جاتی ہے۔ کیا ہم کل بزرگوں کی طرح اپنے رشتے داروں کی شکستہ حالی میں مدد کرت ہیں، ان کی ترقی کے لئے اپنا تعاون دیتے ہیں ان کے عروج کو دیکھ کر احساس مسرت کرتے ہیں ان کی ضرورتوں کی تکمیل اور حاجتوں کو پورا کرنے کے لئے پیش رفت کرتے ہیں او ہماری عبادتوں میں وہی اخلاص نظر آتا ہے۔ ان سوالوں کے جواب اگر ہم منصفانہ انداز میں اپنے طرز حیات میں تلاش کریں تو موجودہ صورت ھال میں ہم خاصی حد تک مایوسی کا شکار ہوں گے دوسرے لفظوں میں ہمارے گھروں میں غم حسینؑ اور مصائب اہلبیت پر مجالس میں گریہ تو شدت خلوص کے ساتھ ملتا ہے لیکن عملی زندگی ان صفات اور تعلیمات سےتشنہ نظر آتی ہے۔ واقعات کربلا میں چچا بھتیجوں کے لئے باپ بیٹے کے لئے بھائی بھائی کے لئے اصحاب اپنے آقا کے لئے، مائیں اپنی اولادوں کو حسینؑ پر قربان کرنے کےلئے پیش پیش نظرآتی ہیں جبکہ ہم بیشتر معاملات میں ایک دوسرے کے درمیان چشم پوشی اکتیار کرتے نظر آتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں آج ہم اپنے مفادات اور مقاصد کی تکمیل کے لئے خونی رشتوں کو بھی نظر انداز کر بیٹھے ہیں جائزو ناجائز کے تصور کو بھی فراموش کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بیٹا اپنی خواہشات کی سیرابی کے لئے باپ سے بغاوت کرنے پر اتر آتا ہے۔ ایک حقیقی بھائی دوسرے بھائی سے اپنے مفاد کے لئے متصادم ہو جاتا ہے، ایک حقیقی چچا بھتیجے کی حق تلفی کرنے سے گریز نہیں کرتا ، ایک زوجہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے شوہر کی عظمت و احترام کو بالائے طاق رکھ دیتی ہے۔ کیا ہمیں اپنے کل کے بزرگوں اور شہدائے کربلا ؑسے معاذ اللہ یہی طرز حیات و رثے میں ملا تھا۔ ہر گز نہیں ہم دنیاوی عیش و آرام اور مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے اس گراں قدر ورثے کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں۔ ہماری نظر محض دنیا پر ہے عاقبت پر نہیں جو ہماری اصل زندگی ہے ہم کو اپنے فکر کے دائرے میں واقعات کربلا اور کردار اہلبیتؑ کو محفوظ رکھنا ضروری ہے تب ہی ہم صحیح معنوں میں حسینیؑ کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم مصائب اہلبیتؑ اور غم حسینؑ پر رونے کےلئے ہی پیدا کئے گئے ہیں لیکن ان کی تعلیمات بھی ہمارے شب و روز میں نظر آنا چاہئے تا کہ درس واقعات کربلا کی عملی شکل پاکر ہمارے مولاؑ ہماری مغفرت کرانے میں فخر محسوس کریں یہی آہنگ کربلا ہے۔