رسولﷺ و آل رسولؑ عالم علم لدنی اور علم الٰہی کا مظہر ہیں۔ تاریخ بشریت میں اگر کسی نے سلونی کا دعویٰ کیا اور اس دعوے کی لاج رکھی تو صرف یہی افراد تھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس گھر کے پروردہ اور ان آغوشوں کے پلے ہوئے اگر علم و معرفت کی معراج حاصل کرلیں تو جائے تعجب نہیں۔یہاں تو جب دوسروں کے لیے کو شش و تمنا ہو کہ صاحب علم ہوجائے تو جو اولاد تمنا کے بعد عبا سؑ کی شکل میں ملی ہو اس کو کس طرح علم سے آراستہ کیا گیا ہوگا۔ جس آغوش میں پل کر اور حصار عصت میں رہ کر کوئی خاتون عالمہ غیر معلمہ ہو تو اسی گھرانے میں انہیں آغوشوں کے پروردہ جسے ہم تمنائے علیؑ کہتے ہیں اگر وہ علم و فقاہت کی معراج پرپہنچ جائے تو تعجب کا مقام نہیں بلکہ بر عکس اگر اس مقام تک نہ پہنچے تو تعجب ہونا چاہئے۔ حضرت عباسؑ نے جس آغوش میں آنکھ کھولی ، جن گودیوں میںپروان چڑھے وہ ایک طرف حضرت علیؑ جیسا باپ تو دوسری طرف امام حسنؑ و امام حسینؑ جیسے بھائی تھے پھر تیسری طرف عالمہ غیر معلمہ جناب زینبؑ جیسی بہن تھیں، اس کے علاوہ ام البنین جیسی ماں جن کا عالمہ اور شاعرہ ہونا کتابوں میں مذکور ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حضرت عباسؑ خود عالم ربانی اور علم لدنی کے حامل تھے۔ اس لئے کہ ’’حضرت عباسؑمیں ایک طرف تو فطری ذہانت و ذکاوت تھی تو دوسری طرف امیر المومنینؑ نے آپ کی استعداد کو اس قدر جلا بخشی کہ جناب عباس ؑ عصمت کبریٰ حضرت فاطمہ زہرا ؐ کی آرزوؤں کا مرکز بن گئے۔ حضرت علیؑنے اپنے بعض اصحاب کی بھی اس طرح پرورش فرمائی تھی کہ ان کے ظرف میں ہستی کے اسرار اور موت و قیامت کے حالات قبل از وقت معلوم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی مثلاً حبیب ، میثم ، رشید وکمیل؛ کیا ایسی صورت میں ممکن ہے کہ اپنے لخت جگر کو ایسے علوم و اسرار سے باخبر نہ کیا ہو جب کہ حضرت عباسؑمیں اور وں کی بنسبت زیادہ صلاحیت و استعداد تھی۔
کردار علیؑشاہد ہے حضرتؑ نے ہر شخص کو اس کی صلاحیت و استعداد کے بقدر اپنے علم سے بہرہ مند فرمایا۔’’ لہٰذا جب علیؑجیسا فیض رساں علم لٹا رہا ہو اور عباسؑجیسی جامع صفات و صاحب استعداد ذات علم لے رہی ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عباسؑکائنات میں بعد از معصومؑایمان و ایقان میں سب سے اعلیٰ و ارفع مرتبہ پر فائز ہیں۔
حضرت عباسؑنے امیر المومنینؑ کے بعد معلمان الٰہی حضرات حسنینؑسے کسب فیض کیا اور ایک لحظہ کےلئے تاریخ نہیں کہتی کہ حضرت عباسؑفرزند ان زہراؑکی عصمتی و علمی بزم سے دور رہے ہوں، ان دو اماموں کے بحر بیکراں میں غواصی فرمائی اور خوب دل کھول کر معارف الٰہیہ کے درِ بے بہا حاصل کئے مزید اس ماحول کو عالمہ غیر معلمہ زینب کبریؑ نے بام عروج تک پہنچادیا تھا۔
ماحول کی پاکیزگی اور ذاتی فضائل و مناقب ، اخلاص ، طاعت و عبادت کی پابندگی جیسے افعال نے ابو الفضل العباس علیہ السلام میں علم و معرفت کے دریچے وَا کردیئے تھے۔
پیغمبر اکرمؐ سے مروی ہے:اگر کوئی شخص چالیس روز تک خدا کےلئے کام انجام دیتا رہے تو اس کے قلب و زبان سے حکمت کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ (۱)
اس حدیث کی روشنی میںاس شخص کےلئے کیا کہا جاسکتا ہے جس نے اپنی پوری عمر خدا کی خوشنودی و رضا کے لئے بسر کی ہو جو ہر برائی سے مبرا اور ہر نیک صفت سے آراستہ رہا ہو۔ جو صاحب فضائل ہی نہیں بلکہ فضیلتوں کا باپ ہوکر ابولفضل کہلائے،اس طرح کے لوگوں پر خدا کے نور کی چھوٹ پڑتی رہتی ہے اور ان کا علم فقط اکتسابی نہیںہوتا بلکہ وہبی ہوا کرتا ہے۔
حضرت عباسؑ کے سلسلے میں یہ روایت بھی نقل ہوئی ہے جس سے آپ کے علم وہبی کی گواہی ملتی ہے :’’ اِنّہ قد زُقّ العلم زَقّاً ‘‘جناب عباسؑ کو اس طرح علم سکھایا گیا جس طرح پرندہ اپنے بچے کو دانا بھراتا ہے۔ (۲)
اس تشبیہ میں کچھ باتوں کی طرف اشارہ ہے : ایک تو یہ کہ طائر اپنے بچے کو اتنا دانا بھراتا ہے کہ وہ سیر ہوجائے مزید طلب نہ رہے۔ لہٰذا جناب عباسؑ کو اتنا علم دیا گیا کہ اب انہیں کہیں اور سے علم لینے کی ضرورت نہ رہی۔ دوسری بات یہ کہ طائر اپنے بچے کو اس کی ابتدائی عمر میں رزق فراہم کرتا ہے اسی طرح جناب عباسؑ کو بچپنے ہی میں رزق علم اپنے بزرگوں سے مل چکا تھا۔ اور پھر تیسری بات یہ کہ طائر پرندہ کو وہی بھراتا ہے جو لیکر آتا ہے۔ جناب عباسؑ کو امیر المومنینؑ اور حضرات حسنین ؑ نے وہ علم سکھایا جو خدا کے یہاں سے لیکر آئے تھے۔ چوتھا اشارہ یہ کہ بچے میں دانا ہضم کرنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن دانا فراہم کرنے کی توانائی نہیںہوتی اس تعبیر سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ حضرت عباسؑمیں بچپنے ہی سے علم حاصل کرنے کی صلاحیت و قابلیت موجود تھی۔
صاحب کنزالمصائب کے بیان کے مطابق : ’’ان العباسؑ اخذ علما جماً فی اوائل عمرہ عن ابیہ و امہ و اخواتہ‘‘ یعنی حضرت عباسؑ نے صغر سنی میں ہی اپنے والد والدہ اور بھائی بہنوں سے بہت زیادہ علم حاصل کرلیا تھا ۔(۳)
اسی طرح علامہ محمد باقر بیر جندی نے تحریر فرمایا ہے کہ : جناب عباس ؑ خاندان عصمت و طہارت کے عظیم المرتبت علماء و فقہا و افاضل میں اکابر میں تھے بلکہ غیر متعلم تھے۔یعنی آپ وہ عالم تھے جن کو غیر از معصوم کسی نے تعلیم نہیں دیا تھا ۔ (۴)
حضرت علیؑ اور امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی تربیت اور ان حضرات کی آغوش علم و عمل و ایمان نے جناب عباسؑ کو علم کے ساتھ ساتھ ایسی معرفت بھی عطا کی کہ آپ کو توحید کا بلند ترین منارہ قرار دیا ۔ عصمتی تربیت گاہ کی وجہ سے حضرت عباسؑ اسرار لاہوت سے باخبر تھے اور انوار ملکوت کا مظہر بنے ہوئے تھے۔
آپ کی کمسنی کا واقعہ ہے کہ ایک دن امیر المومنین ؑ کے زانوپر بیٹھے تھے تو دوسری طرف جناب زینب تشریف فرما تھیں۔ امیر المومنینؑ نے جناب عباسؑ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا : بیٹا کہو ایک (واحد) جناب عباسؑ نے ـجواب میں کہا: ایک (واحد) امام ؑ نے پھر فرمایا: کہو دو (اثنان) جناب عباسؑ نے جواب دیا : کہ بابا جان جس زبان سے میں نے ایک کہا ہے اس سے دو کہتے ہوئے شرم آرہی ہے۔( یعنی جس زبان سے خدا کی وحدانیت کا اقرار کرلیا اس سے دو کا لفظ استعمال نہیں کرسکتا۔) اس وقت امیر المومنینؑ جناب زینب کی طرف متوجہ ہوئے جو دوسری جانب بیٹھی ہوئی تھیں جناب زینب نے سوال کرلیا : بابا جان کیا آپ ہم سے محبت کرتے ہیں؟ امیر المومنینؑ نے جواب دیا: ہاں بچو! میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ (۵)
حضرت عباسؑ کے اس جواب سے ظاہر ہے کہ ان کے اندر بچپنے ہی سے نور الٰہی ضو فگن تھا ورنہ اس سن و سال کے بچے اس سے کم سطح کی باتوں کو بھی محسوس نہیں کرپاتے لہٰذا ماننا پڑے گا کہ حضرت عباسؑ پر امیر المومنینؑ حضرات حسنین ؑ کے نورانی وعصمتی کردار کے اثرات تھے تو دوسری طرف خدا نے اپنے خاص عطیہ سے بھی نوازا تھا۔
جناب عباسؑ کے علم و معرفت کی گواہ یہ حدیث بھی ہے جس میں امام جعفر صادق ؑ اپنے چچا کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کان عمنا العباسؑ نافذ البصیرۃ ،صلب الایمان ، جاہد مع ابی عبد اللہ و ابلی بلائً حسناً و مضیٰ شہیداً یعنی ہمارے چچا عباس ؑ کمال بصیرت اور مستحکم ایمان والے تھے۔ آپ نے امام حسینؑ کے ساتھ جہاد کیا اور بلا و مصیبت میں گرفتار ہوکر جام شہادت نوش فرمایا۔ (۶)
ابتک کی گفتگو کو سامنے رکھتے ہوئے آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ جناب عباس علم معصومؑ کا مظہر تھے۔ آپ کو معصومینؑ کی جانب سے علم عطا ہوا تھا، آ پ علم وہبی کے حامل اور عالم ربانی و عالم علم لدنی تھے اور آپ کی عظمت و کردار اور مقام و مرتبہ نتیجہ تھا صحیح علم اور مکمل معرفت کا ۔ غازی ابوالفضل العباس کا علوم اہل بیتؑ سے آراستہ ہونا اور علمی کمال حاصل کرنا ایک ایسی فضیلت ہے جو عام طور پر بیان نہیں ہوپاتی۔ یقینایہ ایک ایسی صفت تھی جو اہل بیتؑ کے بعد جناب عباس کو عطا ہوئی لہذا اگر ہم غازی عباس کے نام لیوا ہیں ، ان سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم بھی علمی میدانوں میں کمال حاصل کریں کم از کم یہ سوچ کرعلم حاصل کریں کہ یہ اہل بیتؑ کی میراث اور غازی عباسؑ کی سیرت ہے۔ جب نام عباس کا علم مبارک اٹھائیں ، غازی کا نام لیکر انجمنوں میں شریک ہوں، سینہ زنی و ماتم کریں تو اس وقت علمی کمال و فضیلت سے بھی آراستہ ہوں تاکہ شان سے کہہ سکیں کہ حضرت عباس کے ماننے والے ہیں اس لیے علم میں بھی سب سے آگے ہیں۔
ہم بھی اگر جناب عباس کو اپنا مقتدا مانتے ہیں ، ان کی سیرت پر چلنے کے دعوے دار ہیں، دنیامیں غازی عباس کی طرح عزت کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی علم کو اہمیت دیکر اسے حاصل کرنا ہوگا اور علمی میدانوں میں ترقی کرکے اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ واپس لینا ہوگا۔ آج اگر ہم نے علمی میدانوں میں ترقی کی، خوب علم حاصل کیا، علمی کارنامے انجام دیے تو گویا ہل بیتؑ کی میراث کی حفاظت کی اور اپنی ملکیت کو اپنے پاس رکھا جس سے یقیناً اہل بیتؑ اور غازی عباس کی خوشنودی کا سامان فراہم کیا۔
یقیناً علم کے ساتھ جو معرفت حاصل ہوتی ہے وہ بغیر علم کے کبھی حاصل نہیں ہوسکتی اگر ابو الفضل العباسؑ نے وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر دنیا پیش نہیں کرسکتی ، امام معصوم کی اطاعت میں اس طرح سر تسلیم خم کیا کہ اطاعت اولی الامر کی تفسیر بن گئےتو وہ نتیجہ تھا علم و معرفت کا۔
علم و معرفت کے ساتھ غازی عباس صاحب بصیرت و باشعور بھی تھی جس کی گواہی امام جعفر صادق علیہ السلام نے دی’’کان عمنا العباس نافذ البصیرۃ‘‘ ۔ اور اسی شعور و بصیرت کا مظاہرہ تھا کہ جناب عباس نے اپنی پوری زندی مرضی مولیٰ میں بسر کرکے رہتی دنیا تک ایک معیار پیش کردیا کہ ولایت نام ہی ہے مولیٰ کی مرضی کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنے کا، مولائیت نام ہے اپنی مرضی و خوشی کو مولیٰ کی مرضی و خوشی پر قربان کردینے کا۔ تاریخ کربلا گواہ ہے جناب عباس نے حساس اور سخت مواقع پر بھی صرف اور صرف مرضی امام کو نگاہوں میں رکھ قدم پیچھے ہٹا کر پیغام دیا کہ اپنے جذبات میں بہہ کر فیصلے کرنا اور عمل کرنا او رہوتا ہے لیکن اپنے جذبات کو مرضی امام پر قربان کردینا اور ہوتا ہے، اگر جناب عباس اپنے جذبات پر عمل کرتے تو آج کربلا کا نقشہ کچھ اور لیکن آپ نے صرف مولی کی مرضی کا خیال کیا اور اپنے ہر ماننے والے اور ہر حسینی کو پیغام دیا کہ اگر سچا حسینی بننا ہے، بارگاہ حسین میں باریاب ہونا ہے، اپنے کو حسینیوں میں شامل کرنا ہےتو یہ ہرگز نہ دیکھو کہ تمہارے جذبات یا تمہارا دل کیا کہتا ہے بلکہ یہ دیکھو تمہارے امام کی مرضی کیا ہے۔ اپنی مرضی پر عمل کرکے سچا عزادار نہیں بنا جاسکتا بلکہ ہر عمل میں مولیٰ کی مرضی کا خیال کرنا ہی حقیقی عزادار بناتا ہے۔ گویا ہمیں یہ دیکھنا ہی نہیں ہے کہ ہمارے جذبات یا ہمارا دل کیا کہتا ہے ہمیں تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے مولیٰ کی مرضی کیا۔
لہذا آئیے آج ہی عہد کریں کہ اہل بیتؑ کی میراث کی اور ان کی ملکیت یعنی علم جس کے وارث صرف اور صرف ہم ہیں اسے جس طرح حاصل کرنا چاہیے حاصل کریں گے اور اس کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں گے۔ اپنے اندر شعور و بصیرت پیدا کرکے اپنے سماج کو بابصیرت بنائیں گے، اپنے تمام کاموں اور عزاداری جیسی مقدس عبادت میں صرف اور صرف مرضی امام کا خیال کریں گے۔