امِ وہبؑ کا تعلق قبیلہ نمربن قاسط سے تھا اور آپ عبداللہ بن عجیر کی بیوی تھیں۔ طوسی نے اپنی کتاب ’’کتاب الرجال‘‘ میں عبداللہ بنِ عجیر کو امیرالمومنین حضرت علیؑ کے ساتھیوں میں شمار کیاہے۔
عبداللہ بنِ عجیر اور اُم وہبؑ کوفہ کے قرب وجوار میں موجود نخیلہ کے باغات میں سے ایک باغ میں سکونت پذیر تھے۔ جس وقت ابنِ زیادکو یہ اطلاع ہوئی کہ امام حسینؑ کربلا میں خیمہ زن ہیں تو اس نے امامؑ سے مقابلے کے لئے ایک عظیم لشکر روانہ کیا۔ اس لشکر کے فوجی دستوں میں سے ایک نے نخیلہ کے نزدیک رات بسر کی اور اس طرح سے عبداللہ بن عجیر کو معاملہ کی نوعیت کا علم ہوا۔انہوں نے اس وقت یہ فیصلہ کیا کہ وہ امام کے ساتھ جاملیں۔ عبداللہ بن عجیر نے اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہا:
’’میری آرزو ہے کہ میں مشرکین کے ساتھ جہاد کروں۔ خدا کی قسم ان لوگوں کے ساتھ جہاد، مشرکین کے ساتھ جہاد سے کم نہیں جو پیغمبرؐ کے فرزند کو قتل کرنے کے درپے ہوں۔‘‘
عبداللہ اپنی بیوی اُمِ وہبؑ کے پاس آئے اور انہیں تمام حالات سے آگاہ کیا۔ اس شجاع خاتون نے اپنے شوہر کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے میں ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان سے یہ عہد لیا کہ وہ انہیں بھی اپنے ہمراہ لے جائیں۔ اسی رات وہ دونوں کوفہ سے کربلا کی جانب روانہ ہوگئے۔
عاشورہ کے دن سب سے پہلا شخص جو جہاد کے لئے میدان میں اترا وہ عبداللہ بن عجیر تھے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد ابنِ زیاد کے غلاموں میں سے دو غلام یسار اور سالم سامنے آئے اور رجز خوانی کے ساتھ مقابلے کے لئے للکارا۔ سب سے پہلے حبیب بنِ مظاہر اور بریر بن خضیر نے ان سے مقابلے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا لیکن امام حسینؑ نے انہیں اجازت نہ دی۔ اس کے بعد عبداللہ بن عجیر کہ جنہیں جہادکا نہایت اشتیاق تھا، اٹھ کھڑے ہوئے اور امام سے مقابلے کی اجازت مانگی۔ امامؑ نے ان کے چہرے پر نظر ڈالی اور فرمایا:
’’وہ ایک جنگجو اور دلیر نوجوان ہے، اور اس کے بعد کہا: اگر تم مائل ہو تو بسم اللہ۔‘‘
عبداللہ بن عجیر میدان میں آئے۔ یسار اور سالم نے کہا: ہم تمہیں نہیں پہچانتے۔ ہمارے مقابلے میں حبیب بن مظاہر جیسے مشہور اشخاص کو آنا چاہییٔ۔ عبداللہ بن عجیر غصہ میں آگئے اور پہلے ہی واروں میں انہوں نے یسار کو پچھاڑ دیا۔ سالم نے پیچھے سے وار کیا۔ عبداللہ نے اپنے ہاتھ سے ڈھال کا کام لیا۔ اگر چہ ان کی انگلیاں کٹ گئیں، لیکن تلوار کے ایک ہی وار سے دشمن کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے بعد عبداللہ نے ابنِ سعد کے لشکر پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا وہ رجز خوانی کررہے تھے اور فرمارہے تھے:
’’اگر تم مجھ کو نہیں پہچانتے تو جان لو میں قبیلۂ کلب کا چشم و چراغ ہوں ۔میں دلیر ہوں اور شجاع ہوں اور مشکلات کے مقابلے پر پہاڑ جیسا اٹل ہوں۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے اپنی بیوی ام وہبؑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’اے اُمِ وہبؑ میں تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ دشمنانِ خدا پر تلواروں اور نیزوں کے ایسے وار کروں گا جنہیں بھلایا نہ جاسکے گا اور اس طرح تلوار چلائوں گا جو ایک غیرت مند اور باایمان جوان کے شایانِ شان ہو۔‘‘
شاید عربوں کی یہ رسم تھی کہ رجز خوانی میں بیوی یامحبوبہ کو بھی مخاطب کیاجاتا تھا۔ لیکن عبداللہ بنِ عجیر کی بیوی کوئی معمولی خاتون نہ تھیںبلکہ وہ ایک ایسی خاتون تھیں جن کے دل میں دین و ایمان و ایثار کے شعلے بھڑک رہے تھے اور اپنے شوہر سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ عبداللہ بن عجیر کے اشعار ایک طرف جہاد اور شہادت کے شوق کو نمایاں اور دوسری طرف اپنی بیوی سے پاک لگائو کو بیان کرنے والے تھے۔ کیوں کہ اُن سخت لمحوں اور دشمن کی تلواروں کے سائے میں بھی انہوں نے اپنی بیوی کو فراموش نہیں کیا تھا۔
عبداللہ کے اشعار سننے کے بعد ام وہبؑ کے دل میں موجود شعلے اچانک بھڑک اٹھے۔ انہوں نے ایک گرز اٹھایا اور میدان کی جانب تیزی سے بڑھیں اور چیخ کر کہا:
’’میرے ماں اورباپ تم پر نثار ہوجائیں، پیغمبرؐکے خاندان کی مدد اور نصرت کرنے میں کوتاہی نہ کرنا۔‘‘
عبداللہ بنِ عجیر نے جب یہ منظر دیکھا تو وہ اپنی بیوی کی جانب آئے اور اُن سے چاہا کہ وہ اپنے خیمے میں لوٹ جائیں۔ ام وہبؑ نے کہا: خدا کی قسم میں تمہارے دوش بدوش، فرزندِرسولؐکے دشمنوں کے ساتھ لڑوں گی۔ اس وقت حضرت سیدالشہداؑ نے اس دلیر خاتون سے چاہا کہ وہ خیمے میں لوٹ جائیں اور کہاکہ:
’’کنیزِ خدا عورتوں کے لئے تلوار کے ذریعے جہاد ضروری نہیں، تمہارے لئے یہی جہاد کافی ہے کہ تم جنگی مصائب اور پریشانیوں کو بہادری کے ساتھ برداشت کرو۔‘‘ (طبری : ج ۶ صفحہ ۲۴۶)
حضرت مسلم بن عوسجہؑ کے شہید ہوجانے کے بعد عبداللہ بنِ عجیر نے اجتماعی طور پر لڑی جانے والی دست بہ دست جنگ میں بہادری کا حیرت انگیز مظاہرہ کیا اور اس کے بعد جامِ شہادت نوش کرلیا۔ طبری نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ مسلم بنِ عوسجہ کے بعد امام حسینؑ کے ساتھیوں میں قتل ہونے والے وہ دوسرے فرد تھے۔
امِ وہبؑ نے جب یہ دیکھا کہ اُن کے پیارے شوہر کربلا کی سرزمین پر پڑے ہیں تو وہ ان کی قتل گاہ کی جانب دوڑیں۔ غالباً اس بار امِ وہبؑ کا ارادہ حملہ کرنے کا نہیں تھا۔ بلکہ وہ اپنے شوہر کے سرہانے پہونچنا چاہتی تھیں۔ وہ عبداللہ بن عجیر کی لاش کے نزدیک بیٹھ گئیں اور اُن کے چہرے اور سر سے خاک وخون کو صاف کیا اور کہا:
’’عبداللہ تم کوجنت میں پہنچنا مبارک ہو‘‘
اسی حالت میں شمر نے اپنے غلام رستم کو حکم دیا کہ وہ اس شجاع اور متعہددیندار خاتون کو قتل کردے۔ رستم نے گرز مار کر ام وہبؑ کو شہید کردیا اور ان کا خون شہیدانِ کربلا کے خون کے ساتھ مل گیا۔
کربلاکی خواتین کے درمیان امِ وہبؑ تنہا خاتون ہیں جنہوں نے شہادت کا درجہ پایا اور جن کا خون کربلا کی زمین پر بہایا گیا۔ سلام و درود اُس خاتون پر کہ جس نے اسلام اور انسانی اقدار کے دفاع اور فرزندِ رسولؐ کی مدد کرنے میں اپنے گھر بار، شوہر اور اپنی زندگی کو بہادری کے ساتھ قربان کردیا۔