کربلا کا واقعہ آج بھی اسی طرح تروتازہ ہے جس طرح چودہ سو سال پہلے تھا ۔اس کی تازگی اور آفاقیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔بلکہ ہر بار ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے شہادت حسینؑ نئی تازگی اور پیغام کے ساتھ دنیا کے سامنے آرہی ہے ۔حسینؑ کی شہادت واحد ایسی شہادت ہے جس نے دنیا کے ہر طبقے ،مذہب ،مسلک اور قوم کو متاثر کیاہے ۔آج بھی مختلف مذاہب و مسالک اورالگ الگ قوم و طبقات کے افراد اما م حسینؑ کی شہادت کو اپنے طریقے سے مناتے اور یاد کرتے ہیں ۔ان کے لیے مسلمانوں کا عقیدہ اور نظریہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے عقیدے اور نظریے کے مطابق اما م حسینؑ کی شہادت کو یاد کرتے ہیں ۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ امام حسینؑ کی شہادت ظلم اور بربریت کے خلاف دنیا کے مظلوموں کو بلا تفریق حوصلہ عطا کرتی ہے ۔ناطاقتوں کو طاقت ملتی ہے اور شکست خوردہ قومیں بھی اس کی روحانی طاقت سے فیض یاب ہوکر باطل طاقتوں کے خلاف محاذ آرا ہوجاتی ہیں ۔
واقعۂ کربلا تنہا ایسا واقعہ ہے جو انسان کو ظالموں اور جابروں کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کا حوصلہ عطا کرتاہے ۔دنیا میں ہزارہا جنگیں ہوئی ہیں مگر کسی ایسی جنگ کو بطور مثال پیش نہیں کیا جاسکتا جہاں مظلوم اقلیت نےظالم اکثریت کو قتل ہونے کے باوجود شکست دی ہو!ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا کہ سرو تن میں جدائی،گھروں کی بربادی ،مال و اسباب کے لٹ جانے اور طاقت کے ختم ہونے کے بعد بھی اس کا پرچم ہمیشہ کے لیے سربلند رہے اور تاریخ انسانیت قاتلوں کی قصیدہ خوانی کے بجائے مقتول کی عظمت اور شہادت کے قصیدے پڑھتی نظر آئے ۔جبکہ امام حسینؑ کی شہادت کے خلاف حکومت وقت نے اپنے مورخین اور محدثین کے ذریعہ ہزار ہا پروپیگنڈے کیے اور یہاں تک مشہور کردیا کہ کربلا کے میدان میں ایک باغی اور خارجی کا قتل کیا گیا ہے ۔عوام الناس کے درمیان امام حسینؑ کو بدنام کرنے کی بے انتہا کوششیں کی گئیں مگر صرف ناکامی ہاتھ آئی ۔واقعہ کربلا کے فوراََ بعد یزید کو پلید اور معلون لکھا جانے لگا ۔بنوامیہ اور بنوعباس جنہوں نے ایک زمانے تک عالم عرب پر حکومت کی ،ان کے مورخین اور محدثین بھی یزید کے کفر اور لعنت کے جواز پر بہت کچھ لکھ گئے ۔امام ابوحنیفہ ،امام مالک ،امام احمد بن حنبل اور امام شافعی یزید کے کفر اور اس پر لعنت کے جواز کے قائل ہیں ۔ان کے علاوہ عالم اسلام کے بزرگ علماء اور محدثین یزید کے متعلق یہی نظریہ رکھتے ہیں ۔البتہ ناصبی گروہ کے افراد جن کا مذہب دشمنیٔ رسول ؐ و آل رسولؑ ہے ،یزید کے اسلام اور ایمان کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے ۔اس کے لیے وہ امام غزالی کے قول کو بطور سند پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایاہے کہ کسی مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ۔امام غزالی کے اس بے بنیاد قول کو اکثر علمائے اسلام نے قرآنی دلائل اور سنت نبوی سے استدلال کرتے ہوئے باطل کردیاہے ۔اس قول کو سب سے پہلے تو اس طرح رد کیا جاسکتاہے کہ واقعاََمسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے لیکن یزید تو مسلمان ہی نہیں تھا،لہذا اس پر لعنت کرنا غیر شرعی عمل نہیں ہے ۔اکابرین اسلام نے اپنی کتب میں تحریر کیاہے کہ وہ قرآن کو مخلوق اور پیغمبر کو خطاکار سمجھتا تھا ۔یزید وحی کا منکر اور مسلمات دین کا کافر تھا ۔علی الاعلان دین کا تمسخر کرنا اور محرم عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنا اس کا پسندیدہ شغل تھا ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی غیرت کو اس وقت کیا ہوجاتاہے کہ جب ان کے سامنے مسلمانوں پر ظالم اور جابر حکومتوں کے ذریعہ مظالم اور لعنت کے واقعات پیش کئے جاتے ہیں ۔جبکہ تمام مسلمان ان حکومتوں کو آج بھی مسلمان حکومتیں کہہ کر یاد کرتےہیں ۔مثال کے طورپر امیر شام کی حکومت میں اس کے حکم پر حضرت علیؑ پر سب و شتم کیا جا تھا ۔آیا مسلمان اپنے چوتھے خلیفہ پر سب و شتم برداشت کرسکتاہے ؟۔ امام غزالی کے مطابق مسلمان پر لعن طعن کرنا جائز نہیں ہےتو پھر امیر شام کے خلاف امام غزالی کے پیروکاروں اور ناصبیوں کا کیا فتویٰ ہے ؟۔ بہر کیف! سیکڑوں ایسے واقعات ہیں کہ مسلمان قاتل و مقتول دونوں کو مانتے ہیں ۔نہ ظالم کے خلاف بولنے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ مظلوم کی حمایت سے دستبردار ہونا پسند کرتےہیں ۔ان سے سوال کیا جائے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ بیک وقت ظالم اور مظلوم دونوں کی حمایت کی جائے ؟۔ یا تو یزید پر لعنت کرنا ہوگی یا پھر حسینیؑ صفوں میں شامل ہونا ہوگا ۔اور حسینیؑ صفوں میں شمولیت کے لیے مذہب اور مسلک شرط نہیں ہے ۔
امام حسینؑ کی شہادت ظلم کے خلاف جدوجہد کا بہترین استعارہ ہے ۔جب بھی کسی ظالم و جابر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے توواقعۂ کربلاکو پُرقوت استعارہ کے طورپر استعمال کیا جاتارہاہے ۔اردو ادب میں تو احتجاج و مزاحمت کی زیادہ تر مثالیں واقعہ کربلا سے مستعار ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی ادب کو جس قدر واقعہ ٔ کربلا نے متاثر کیاہے کسی دوسرے واقعہ نے نہیں کیا ۔لہذا ہر زبان کے ادباء و شعراء نے جب بھی حکومت ،آمریت ،استبداد ،طاغوت اور ظالموں کے خلاف بغاوت ،مزاحمت اور احتجاجی لب و لہجہ اختیار کیا تو اس کی روح واقعۂ کربلا سے کشید کی ۔بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بھی جدوجہد آزادی میں واقعہ کربلا سے روحانی طاقت حاصل کی اور کہا ’’ میں نے کربلا کی المناک داستان اس وقت پڑھی جب میں نوجوان تھا ۔اس واقعہ نے مجھے دم بخود اور مسحور کردیا ۔میں اہل ہند کے سامنے کوئی نئی بات پیش نہیں کرنا چاہتا ،میں نے کربلا کے سورما کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا اور اس سے مجھے یقین ہوگیاہے کہ اگر ہم (سامراج اور ظالموں کے چنگل سے ) نجات چاہتے ہیں تو ہمیں حسینی اصولوں پر عمل کرنا ہوگا‘‘۔مہاتما گاندھی نے تا عمر حسینی اصولوں کی اتباؑع کی اور عدم تشدد’اہنسا‘ کے فلسفے پر عمل پیرا رہے ۔آج بھی اگر سامراجی و اسکتباری طاقتوں کے ظلم و دہشت گردی کے عذاب سے نجات حاصل کرنی ہے تو عالم انسانیت کو حسینی اصولوں پر عمل کرنا ہوگا ۔یعنی کسی ظالم اور جابر کے ہاتھوں پر بیعت نہ کی جائے اور ظلم کی طاقت کے سامنے سر نہ جھکایا جائے !
واقعہ ٔ کربلا سے پہلے کسی اقلیت نے حکومت وقت کی طاقت اور آمرانہ نظام کے خلاف قیام نہیں کیا ۔امام حسینؑ کا قیام تنہا ایسا قیام ہے کہ جہاں افراد کی کمی کے باوجود دنیا کی بڑی طاقت اور حکومت سے ٹکر لی گئی ۔بقول عرفان صدیقی ؎
یہ ایک صف بھی نہیں ہے وہ ایک لشکر ہے یہاں تو معرکہ ہوگا مقابلہ کیسا !
حقیقت یہی ہے کہ واقعہ ٔ کربلا ایک صف اور لشکر کے درمیان کا معرکہ ہے جس نے پوری دنیا کو متاثر کیاہے ۔یزید چاہتا تھا کہ حسینؑ اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تاکہ وہ علی الاعلان فسق و فجور کرسکے ۔اس کے بعد یزید کے غیر شرعی اعمال اور خلاف اسلام حرکات پر کوئی آواز بلند کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔یزید کے لیے حکومتی سطح پرمسلمانوں کےاستحصال اور محرم رشتوں کے تقدس کی پامالی کی روایت کو عام کرناآسان ہوتا ۔مگر امام حسینؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کرکے شریعت محمدیؐ کو نئی زندگی عطا کی اور معاشرے کو فساد سے محفوظ رکھا ۔آج بھی اگر کسی ظالم حکومت کے خلاف قیام کرنا ہے تو بغیر حسینیؑ اصولوں پر عمل کیے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے ۔آج بھی یزیدوں کی کمی نہیں ہے ۔قرآن مجید کا تمسخر کیا جارہاہے ۔آیات الہی کا انکار ہورہاہے ۔علماء اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے درباروں کی زینت ہیں ۔جذبۂ بغاوت و مزاحمت مرچکاہے ۔مظلوموں پر ظالم اور استکباری طاقتیں بمباری کررہی ہیں ۔کمزوراور مستضعفین کی زمینوں پر ناجائز قبضے ہورہے ہیں ۔بیت المقدس صہیونی طاقتوں کے زیردست ہے ۔سرمایہ دارانہ و استعماری نظام کا اژدھا عالم انسانیت کو مسلسل ڈسے جارہاہے۔اور بھی ہزارہا مسائل ہیں جن سے انسانیت گھری ہوئی ہے اور نجات کا راستہ نظر نہیں آرہاہے ۔ایسے پرآشوب حالات میں صرف اور صرف شہادت حسینؑ سے عزم وحوصلہ حاصل کیاجاسکتاہے ۔اگر مسلمان شہادت امام حسینؑ کے فلسفے پر غور نہیںکرے گا اور اس پر عمل کے لیے پیش رفت نہیں کرتاہے،تو عالمی سطح پر اسی طرح ذلت و خواری اس کا مقدر رہے گی ۔اس لیے ضروری ہے کہ واقعہ کربلا کی روح کو سمجھا جائے تاکہ استعمار و اسکتبار کے خلاف قیام کا جذبہ بیدار ہو۔