تحریر۔شوکت بھارتی صدر اثر فائونڈیشن
تاریخِ اسلام کا مطالعہ کرنے والاہر ایک شخص اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ ۱۳؍ رجب کو خانہ کعبہ میں پیدا ہونے والے حضرت علیؑ پر آج سے ۱۴۰۰ سال پہلے مسجدِ کوفہ میں عین سجدہ کی حالت میں ۱۹ رمضان کو صبح کی نماز میں حملہ کیا گیا۔جس کی وجہ سے ۲۱ رمضان کو آپ کی شہادت ہو گئی۔حضرت علیؑ پر حملہ کرنے والے دہشتگرد ابنِ ملجم اور اُسے تیار کر کے بھیجنے والوں کا تعلق کسی اور مذہب سے نہیں تھا بلکہ وہ سب کے سب کلمہ گو تھے۔ابنِ ملجم کا تعلق خارجی فرقہ سے تھا جو ایسی عبادت کرتے تھے کہ اُنہیں دیکھ کر بڑے بڑے حیرت کرتے تھے ،وہ دن بھر روزہ رکھتے رات بھر عبادت کرتے تھے، سجدو کے نشان اور لمبی ڈاڑھیاں دیکھ کر اُنہیں کوئی بھی دور سے پکّہ اور سچّہ مسلمان سمجھتا تھا ۔یہ لوگ کثرت سے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے تھے ،صحرائوں اور پہاڑوں میں زندگی گزارتے تھے ،ہر وقت اپنے گلے میں قرآن اور تلوار لٹکائے رہتے تھے۔ان کی خاص پہچان یہ تھی کہ اُن کے علاوہ کسی دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے اورخاص کر کے حضرت علیؑ اور اُن کے چاہنے والوں کو اپنا بدترین دشمن سمجھتے تھے اور جہاں کہیں بھی ان کا بس چلتا یہ علیؑ کے چاہنے والوں کو قتل کر دیتے تھے۔یہ لوگ اتنے ظالم تھے تھے کہ ماں کے پیٹ سے بچوں کو نکال کر بھی قتل کر دیا کرتے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنکے بارے میں رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ مسلمانوں میں ایک ایسا فرقہ پیدا ہوگا جو کثرت سے نماز اور قرآن پڑھے گا جس کی عبادتوں کو دیکھ کر لوگ حیرت میں پڑ جائیں گے لیکن یہ لوگ دینِ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح سے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔آج دنیا بھر میں جتنے بھی دہشتگرد بنامِ اسلام حضرت علیؑ کے چاہنے والوں کو چُن چُن کر قتل کر رہے ہیں اور اُنہیں مسجدوں کے اندر بھی زندہ نہیں چھوڑ تے ہیں وہ سب کے سب خارجی فکر کی ہی پیداوار ہیں،وہ بھی کثرت سے نماز اور قرآن پڑھتے ہیں۔ ہر وقت اُن کی زُبان پراللہ اکبر کا نارہ ہے اور ہاتھوں میں بندوقیں ہیں اور جگہ جگہ وہ بھی بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ یہ لوگ نہ تو رمضان کے مہینے کا نہ ہی نمازیوں اور مسجد کا خیال رکھتے ہیں۔ان کا کام تو بس اتنا ہے کہ کسی طرح سے وہ حضرت علیؑ کے چاہنے والوں کا نام و نشان دنیا سے مٹا دیں۔ کیونکہ مزارات ،امام بارگاہوں، مجلسوں اور جلوسوں میں بھی حضرت علیؑ اور اولاد حضرت علیؑ یا علیؑ کے چاہنے والوں کا ذکر ہوتا ہے اس لئے یہ مزارات، امام بارگاہوں اور جلوسوں کو بھی اپنا نشانا بناتے رہتے ہیں۔ حضرت علیؑ اُن کے والد اُن کی اولادوں اور چاہنے والوں سے دُشمنی کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام دُشمنی ہے۔ قرآن، سیرتِ رسولؐ اورتاریخِ اسلام کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جسیے حکمِ پرور دگار سے رسولؐ اللہ نے ظلم، بربریت ،جبر، قتل غارت گری، دہشتگردی ،فساد اور لوٹ مار ختم کرکے عدل ،انصاف اور امن قائم کرنے کے لئے دینِ اسلام کی تبلیغ شروع کی اور ایک اللہ کی عبادت اور خدمتِ خلق کا درس دینا شروع کیا تو ۳۶۰ خدائوں کو ماننے والی امن اور عدل دُشمن طاقتیں اُن کے خلاف ہو گئیںاور اُن طاقتوں نے رسولؐ اللہ کے راستے میں روڑے اٹکانے شروع کیے ۔پہلے تو اُنہیں پاگل ،مجنون اور ساحر کہا پھر اُن پر کوڑے پھینکنا اور راستے میں کانٹے بچھانا شروع کیے۔لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ لوگ رسولؐ اللہ کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے ۳۶۰ خدائوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کو ماننے لگے ہیں تو وہ بہت پریشان ہو گئے اور اُنہوں نے رسولؐ اللہ کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔جسیے ہی اُن کے اس ارادے کی خبر حضرت علیؑ کے والد اور رسولؐ اللہ کے چچا حضرت ابو طالب کو ہوئی تو اُنہوں نے ۳۶۰ خدائوں کو ماننے والوں کو یہ دھمکی دی کہ اگر کسی نے بھی رسولؐ اللہ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اُس کا نتیجہ بھگتنے کے لئے تیار رہے۔ چونکہ آپ بہت بہادر اور سردارِ قریش تھے اس لئے اُن کی زندگی میں کسی کی ہمّت نہیں ہوئی کہ وہ رسولؐ اللہ کو قتل کر سکے ۔اپنے منصوبہ کو فیل ہوتا دیکھ مشرکینِ مکّہ نے حضرت ابو طالب اور رسولؐ اللہ کا سوشل بائی کاٹ کر دیا اور وہ مکّہ کے اپنے مکان سے حجرت کر کے شیبِ ابی طالب میں چلے گئے اور وہیں تقریباََ ۳ سال تک سخت تکلیفیں اُٹھاتے رہے۔ یہ وہ پہلی حجرت تھی جس میں رسولؐ اللہ اُن کی زوجہ حضرتِ خدیجہ اُن کی بیٹی جنابِ فاطمہؐ، اُن کے چچا حضرتِ ابو طالب اور بیٹے حضرت علیؑ وغیرہ کوسخت ترین تکلیفوں کو سامنا کرنا پڑا۔آخر کار ۳ سال کے بعد ایک معجزہ کی وجہ سے مہائدہ ختم ہوا اور یہ لوگ واپس اپنے اپنے مکان میں تشریف لائے۔سخت تکلیفیں اُٹھانے کی وجہ سے حضرت ابو طالب اور حضرت ِ خدیجہ بہت کمزور ہو گئے تھے اور چند دنوں کے بعد رسولؐ اللہ کے یہ دونوں مدد گاردنیا چھوڑ گئے۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کے اوّلین دور میں دینِ اسلام کی تبلیغ کے لئے سخت ترین تکلیفیں اُٹھائیں۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ علی دشمن مورخوں نے بغض علی میں دینِ اسلام کی نصرت کرنے والے حضرتِ ابوطالب کو کافر لکھ دیا اور بغیر تحقیق کئے ضمیر فروش مولوی آج بھی حضرت ابو طالب کو کافر لکھ رہے ہیں۔حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد ہی رسولؐ اللہ کو اپنا وطن مکّہ چھوڑنا پڑا اُس کی وجہ یہ کہ دار الندوہ میں مشرکینِ مکّہ کے ۷۰ قبیلوں کے سرداروں نے ایک ساتھ مل جل کر یہ خفیہ منصوبہ تیار کیا کہ وہ لوگ رات کی تاریکی میں جس وقت رسولؐ اللہ سو رہے ہونگے تو اُن پر ایک ساتھ حملہ کر کے قتل کر دیں گے اور اگر خوں بہا دینا پڑا تو اُسے مل جل کر ادا کر دیں گے اور اگر قبیلہء بنی ہاشم کے لوگ اُن سے جنگ کریں گے تو سارے قبیلے مل جل کرقبیلہ ء بنی ہاشم کا مقابلہ کریں گے ۔دُشمن نے اپنے منصوبہ پر عمل کرنے کے لئے رسولؐ اللہ کے گھر کو رات کی تاریکی میں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو حکم دیا کہ وہ فوراََ مدینہ ہجرت کر جائیں۔حکم ملتے ہی آپ نے حضرت علیؑ سے کہا کہ دُشمنوں نے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اس لئے وہ اُن کی جگہ بستر پر چادر اُوڑ ھ کر اس طرح سے لیٹ جائیں کہ دُشمن سمجھیں کہ وہ سو رہے ہیں اور پھر مشرکین مکّہ کی تمام امانتیں اُن کے سپرد کر کے وہ بھی گھر والوں کے ساتھ مدینہ آ جائیں۔رسولؐ اللہ یہ کہہ کر گھر سے مدینہ ہجرت کر گئے اور اللہ کا انتظام یہ ہوا کہ وہ دُشمنوں کے سامنے سے چلے گئے لیکن دُشمن اُنہیں نہیں دیکھ سکے۔رات کی تاریکی میں جیسے ہی دُشمن رسولؐ اللہ کو قتل کرنے کے لئے اُن کے گھر میں داخل ہوئے اور اُنہوں نے چادر ہٹائی تو اُنہیں رسولؐ اللہ کی جگہ حضرت علیؑ دکھائی دیے ۔یہ دیکھ کر وہ لوگ دنگ رہ گئے۔اُنہوں نے حضرت علیؑ سے دریافت کیا کہ رسولؐ اللہ کہاں ہیں؟ آپ نے سختی سے جواب دیا کہ کیا تم اُنہیں میرے حوالے کر کے گئے تھے۔بات بگڑنے لگی حضرت علیؑ نے بھی تلوار نکال لی یہ دیکھ کر دُشمن ڈر گئے اور جنگ ٹل گئی۔ رسولؐ اللہ کی تلاش مکّہ کی خاک چھاننے لگے۔ لیکن رسولؐ اللہ اُنہیں نہیں ملے تین دن کے بعد حضرت علیؑ مکّہ والوں کی امانتیں واپس کر کے مدینہ کے لئے نکل پڑے۔رسولؐ اللہ مدینہ کے باہر ہی آپ کا انتظار کر رہے تھے اور جیسے ہی آپ وہاں پہونچے رسولؐ اللہ اُن کے ساتھ شہرِ مدینہ میں داخل ہو گئے۔مدینہ میں چونکہ بہت سے لوگ دینِ اسلام میں داخل ہو چکے تھے اس لئے اُنہوں نے رسولؐ اللہ کا استقبال کیا۔آپ نے مدینہ میں بھی دینِ اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور مدینہ کے یہودیوں اور دوسرے مذہب کے لوگوں سے یہ مہائدہ کر لیا کہ اپنے اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے سب لوگ امن کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور کوئی کسی کے دُشمنوں کی مدد نہیں کرے گا اور اگر مدینہ پر کسی باہری طاقت نے حملہ کیا تو سب لوگ مل جل کر اُس کا مقابلہ کریں گے۔الغرض مدینہ میں بڑی تیزی سے دینِ اسلام پھیلنے لگا اور جیسے ہی اس کی خبر مکّہ پہونچی آپ کے دُشمنوں نے ایک بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کر دیا۔جس کی وجہ سے رسولؐ اللہ کو اپنی دفا میں اُن کا مقابلہ کرنا پڑا ۔اس جنگ کو جنگِ بدر کہتے ہیں۔اس جنگ میں مشرکینِ مکّہ کے تقریباََ ۷۰ بڑے بڑے سورما قتل ہوئے اور جنگ سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ اس جنگ میں تقریباََ ۳۶ لوگوں کو اکیلے حضرت علیؑ نے اور باقی کے زیادہ تر لوگوں کو رسولؐ اللہ کے چچا جنابِ ہمزہ نے قتل کیا جس کی وجہ سے مکّہ والے رسولؐ اللہ کے ساتھ ساتھ حضرت علیؑ اور جنابِ ہمزہ کے بدترین دُشمن ہو گئے۔ مہائدہ کے مطابق جیسے ہی مدینہ پر حملہ ہوا تھا مدینہ کے رہنے والے یہودیوں کو مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہئے تھا لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔لیکن اُس کے باوجود رسولؐ اللہ نے اُنہیں کچھ نہیں کہا۔جنگِ بدر میں چونکہ مشرکینِ مکّہ کے سردار ابو سفیان کی بیوی ہندہ، ہندہ کا باپ عتبہ، بھائی شیبہ اور دیگر رشتہ دار بھی مارے گئے تھے اس لئے ہندہ اور دوسرے مکّہ والوں نے یہ قسم کھائی تھی کہ جب تک وہ اس کا بدلہ نہیں لے لیں گے تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔مکّہ والے خاص کر کے حضرت علیؑ اور جنابِ ہمزہ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔اس لئے اُن لوگوں نے زبردست تیاری کی اور دوبارہ مدینہ پر حملہ کر دیا اس جنگ میںابو سفیان کی بیوی ہندہ اپنے ساتھ ناچنے گانے والی عورتوں کو بھی لئے ہوئے تھی اور یہ عورتیںگا گا کر اور ناچ ناچ کر سپاہیوں کا حوصلہ بڑھا رہیں تھیں اور اُنہیں مسلمانوں کا قتل کرنے پر اُکسا رہیں تھیں۔رسولؐ اللہ نے دوبارہ اُحد کے پہاڑ کے قریب دشمنوں سے مقابلہ کیا ۔ اس جنگ کو جنگِ اُحد کہتے ہیں۔حضرت علیؑ اور جنابِ ہمزہ نے مشرکینِ مکّہ پر اتنے سخت حملہ کیے کہ وہ لوگ میدان چھوڑ کر فرار کر گئے اور مسلمان یہ سمجھے کہ دشمن اب واپس نہیں آئے گا اس لئے وہ مالِ غنیمت لوٹنے میں مشغول ہو گئے۔یہاں تک کہ اُنہوں نے اُس درّے کو بھی چھوڑ دیا جس پر لشکرِ اسلام کی حفاظت کے لئے رسولؐ اللہ نے تیر اندازوں کو یہ ہدایت دے کر بیٹھایا تھا کہ جنگ میں جیت ہو یا ہار وہ اپنی جگہ نہیں چھوڑیںگے لیکن رسولؐا للہ کے اُس حکم پر تیراندازوں کی اُس ٹکڑی کے زیادہ تر لوگوں نے عمل نہیں کیا ۔ دشمنوں نے جب دیکھا کہ مسلمان مالِ غنیمت لوٹنے میں مشغول ہوئے توان لوگوں نے دوبارہ زبردست حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں رسولؐ اللہ زخمی ہو گئے اور اُنہیں بچانے کے لئے حضرت علیؑ دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور اسی بیچ جنابِ ہمزہ کو بھی ہندہ کے حبشی غلام نے دھوکے سے قتل کر دیا۔حالات اتنے خراب ہوئے کہ مسلمان رسولؐ اللہ ،حضرت علیؑ اور جنابِ ہمزہ کو چھوڑ کر فرار کر گیا۔جنابِ ہمزہ کی شہادت کے بعد ہندہ اور اُس کے ساتھ کی عورتیں شہیدوں کی لاشوں پر ٹوٹ پڑیں اور شہیدوں کے ناک کان کاٹ کر اُن عورتوں نے گلے کا ہار بنایا اور رقص کیا۔ہندہ نے جنابِ ہمزہ کا سینہ چاک کر کے کلیجہ باہر نکالا اور اُسے چبانے کی کوشش کی ۔رسولؐ اللہ کی جان بچانے کے بعد حضرت علیؑ دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور دشموں کو فرار کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کیونکہ مشرکینِ مکّہ رسولؐ اللہ اور حضرت علیؑ کو قتل نہیں کر سکے تھے اس لئے وہ لوگ پھر مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے نکل پڑے ۔ مدینہ کے یہودی کیونکہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے جلنے لگے تھے اس لئے وہ بھی در پردہ مشرکینِ مکّہ کی مدد کرنے لگے ۔رسولؐ اللہ کو جیسے ہی پتہ چلا کہ دشمن مدینہ پر پھر حملہ کرنے والا ہے تو اُنہوں نے صحابی رسولؐ جنابِ سلمانِ فارسی کے مشورے پر مدینہ کے چاروں طرف گہری خندق کُھدوا کر اُس میں آگ روشن کرو ا دی تاکہ دشمن حملہ نہ کر سکے۔مشرکینِ مکّہ جیسے ہی آگے بڑھے اور اُنہوں نے مدینہ میں خندق کُھدی ہوئی دیکھی تو اُن کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا۔آخر کار مشرکینِ مکّہ کے کچھ بہادر پہلوان خندق پار کر کے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے آگئے اُس میں وہ پہلوان بھی شامل تھا جس کا نام عمر ابنِ عبدود تھا اور جو ایک ہزار سپاہیوں سے اکیلے لڑ سکتا تھا۔رسولؐ اللہ کے کہنے کے باوجود سوائے حضرت علیؑ کے کوئی اُس کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں ہوا۔آخر کار حضرت علیؑ سے اُس کا مقابلہ ہوا اور حضرت علیؑ نے اُسے قتل کیا اُس کے قتل کے بعد بھی جو پہلوان حضرت علیؑ سے لڑنے آئے وہ بھی مارے گئے ۔آخر کار پھر کسی کی ہمّت نہیں ہوئی کہ وہ حضرت علیؑ کے مقابلہ کے لئے آتا۔ خندق کی وجہ سے ساری فوج ایک ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملہ نہیں کر سکتی تھی اوررسولؐ اللہ مسلمان کو اُس پار جاکر حملہ کی اجازت نہیں دی تاکہ کوئی اُنہیں حملہ ور نہ کہہ سکے آخر کار اسی طرح کئی دن گزر گئے اور پھر ایک بارگی ایک بڑا طوفان آیاجس کی وجہ سے مشرکینِ مکّہ فرار کر گئے۔جنگِ خندق کے بعد مشرکینِ مکہّ اور یہودیوں نے مل جل کر دینِ اسلام کو ختم کرنے کا منصوبہ بنا لیا اور اس کام کے لئے یہودیوں نے خیبر کے قلعوں میں بیشمار ہتھیار ،سپاہیوں اور پہلوانوں کو جمع کر لیا اور اُن کا منصوبہ یہ تھا کہ ایک بارگی مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو ختم کر دیں۔ رسولؐ اللہ کو جیسے ہی پتہ چلا آپ نے کچھ لوگوں کو یہودیوں کے پاس بھیجا۔یہودی چونکہ پوری تیاری کر چکے تھے اس لئے اُن لوگوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔حضرت علیؑ کی آنکھوں میں چونکہ سخت تکلیف تھی اس لئے وہ گھر میں آرام کر رہے تھے۔ رسولؐ اللہ نے یہودیوں سے جنگ کرنے کے لئے سردار بدل بدل کر کئی بار لشکرروانہ کئے لیکن ہر بار لشکر بغیر جنگ فتح کئے واپس آ جاتا اس طرح سے ۳۹ دن گزر گئے آخر کار ۴۰ویں دین رسولؐ اللہ نے حضرت علیؑ کو بُلا کر لشکر کا علم دیا اور پھر حضرت علیؑ نے خیبر کے بڑے بڑے پہلوانوں کو قتل کر کے خیبر فتح کر لیا۔خیبر کی فتح سے مسلمانوں کو بیپناہ دولت اور سونا حاصل ہوا اور مسلمان مال و مال ہو گئے۔ چونکہ مشرکینِ مکّہ پہلے ہی علیؑ اور علی والوں کے دشمن تھے اورخیبر کی فتح کے بعد یہودی بھی علی اور علی والوں کے دشمن ہو گئے ۔جنگِ خیبر کے بعد رسولؐ اللہ نے ایک بڑی فوج تیار کی اور فتح مکّہ کے لئے اپنے وطن مکّہ کی طرف چل دیے۔مشرکینِ مکّہ نے جیسے ہی اتنے بڑے لشکر کو آتے دیکھا تو وہ یہ سمجھ گئے کہ آج اُن کی جان کسی بھی حال میں نہیں بچے گی اس لئے ہندہ اور ابو سفیان سمیت تمام مشرکینِ مکّہ نے کلمہ پڑھ کر اپنی جان بچا لی اوررسولؐ اللہ فتح مکّہ کے بعد واپس مدینہ چلے آئے۔ رسولؐ اللہ کی اس فتح سے یہودی اور مشرکین بہت مایوس ہوئے اور اُنہوں نے اپنی سازشیں شروع کر دیں۔اس کام کے لئے اُنہوں نے بظاہر کلمہ پڑھ کے اسلام میں داخل ہونے والے منافقوں کا سہارا لیا اور پھر مسلمانوں کے بھیس میں چھپے ہوئے یہ منافق رسولؐ اللہ، حضرت علیؑ ، علی والوں اور اسلام کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔اسی سازش کے نتیجہ میں منافقین نے مسجدضرار تیار کی اور نماز کی آڑ میں رسولؐ اللہ ،حضرت علیؑ اور اُن کے چاہنے والوں کی مخالفت شروع کر دی۔ آخر کار حکمِ پرور دگار سے رسولؐ اللہ نے اُس مسجد کو گروا دیا منافق کیونکہ حضرت علیؑ سے بہت جلتے تھین اس لئے رسولؐ اللہ نے بھی اعلان کر دیا کہ مومن ہی علیؑ کو دوست رکھے گا اور منافق ہی علی سے بغض رکھے گا اور یہی وجہ تھی کہ دورِ رسولؐ میں اور اُن کے بعد لوگ ذکر علی چھیڑ کر منافقوں کو پہچان لیتے تھے۔مسجدِضزرار کے گرائے جانے کے بعد منافق پوری طرح چھپے رہے۔ رسولؐ اللہ نے پہلا اور آخری حج کیا اور اُسی حج میں یہ پیغام دیا کہ دنیا بھر کے انسان سب آدم ؑ کی اولاد ہیں کوئی کسی سے افضل نہیں ہے نہ گورا کالے سے نہ کالا گورے سے ، نہ عرب عجم سے نہ عجم عرب سے بلکہ اللہ کی نگاہ میں وہی سب سے افضل ہے جس کا تقویٰ سب سے زیدہ بلند ہے۔رسولؐ اللہ جب حج سے واپس لوٹ رہے تھے تو میدانِ غدیر میں حکمِ پرور دگار ملا اور آپ نے حکم کے ملتے ہی جو تقویٰ میں سب زیادہ افضل تھا اُسے اپنے ہاتھوں پر بلند کیا اور من کُنتُ مولا ہُ فہازا علیُ مولا کہہ کر حضرت علی کی ولایت کا اعلان کر دیا۔کیونکہ کوئی تقویٰ میں حضرت علیؑ سے زیادہ بلند نہیں تھا اس لئے کسی کی یہ ہمّت نہیں ہوئی کہ وہ رسولؐ اللہ سے یہ کہہ سکے کہ وہ حضرت علیؑ سے زیادہ بلند ہے اور رسولؐ اللہ نے رشتہ داری یا خاندان کی بنیاد پر علی ؑ کو مسلمانوں کا حاکم بنا دیا۔اعلانِ ولایت کے بعد اللہ کی کتاب اور اُس کا دین مکمّل ہو گیا۔ رسولؐ اللہ نے اسی میدان میں یہ بھی بتا دیا کہ علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے۔آپ نے میدان غدیر میں یہ بھی دعا کی کہ اے اللہ تو اُسے دوست رکھنا جو علی کو دوست رکھتا ہے اور اُسے دُشمن رکھنا جو علی سے دشمنی رکھے۔الغرض اللہ ،رسولؐ اور دین کی نصرت کرنے والے علی کو مسلمانوں کا مولا بنا نے کے چند مہینوں کے بعد رسول اللہ اس دنیا سے چلے گئے اورمسلمانوں کے اختلاف کی وجہ سے علیؑ خلیفہ وقت نہ بن سکے اور رسولؐ اللہ کے جانے کے ۲۵ سال کے بعد وہ خلیفہ بنے۔ جیسے ہی زمامے خلافت علی کے ہاتھ میں آئی اسلام کے بھیس میں چھپے ہوئے علی کے دشمن جنگِ جمل اور جنگ صفّین کی شکل میں اُس علی کے مقابلہ میں آ گئے جس کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی جس نے سب سے پہلے دینِ اسلام کی تصدیق کی جس نے ہمیشہ عدل کیا، جس نے بڑے بڑے رسولؐ اللہ کے دُشمنوں کو قتل کیا جس کی وجہ سے بڑی بڑی جنگِ فتح ہوئی۔ مسلمانوں کو مالِ غنیمت ملا اور علی ہی وہ ہیں جس نے ہر حال میں اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کی سوکھی روٹیاں کھائی، بوسیدہ لباس پہنا، محتا جوں اور غریبوں کی مدد کی بڑے بڑے سورمائوں کا غرور خاک میں ملا دیا، علی بولتے تھے تو علم کا دریا بہتا تھا، علی نے انسانوں کا ہی نہیں بلکہ جانوروں اور اللہ کی دوسری مخلوق کا بھی پورا پورا خیال رکھا اور اُنہیں نماز، روزہ اور عبادت کی آڑ میں چھپے ہوئے خارجیوں نے منافقوں کی مدد سے مسجد کے اندر عین سجدہ میں قتل کرنے کا منصوبہ اس لئے بنایا کیوں کہ دُشمن اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ میدان میں علی کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔اس لئے اُنہوں نے نماز کا انتخاب کیا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ علی ہی وہ ہیں کہ جن کے پیر سے نماز کی حالت میں تیر کھینچ لیا گیا تھا اور اُنہیں پتہ نہیں چلا تھا۔ اس لئے علی پر حالتِ سجدہ میں حملہ کیا گیا۔ جیسے ہی علی کے سر پر عینِ سجدہ کی حالت میں تلوار چلی علی کے منھ سے یہ الفاظ نکلے ’’کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہوا‘‘، دشمنوں نے کعبہ میں پیدا ہونے والے علی کو مسجدِ میں شہید تو ضرور کر دیا لیکن وہ علی کی فضیلت اُن سے نہیں چھین سکے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں علی کے چاہنے والے علی علی کرتے ہیں اور علی کے دشمن علی کے چاہنے والوں کو مسجد کے اندر بھی زندہ نہیں چھوڑنا چاہتے ۔