سیاسی سازشوں کے مقابل امام علی رضا ع کی کامیاب حکمت عملی
1419
M.U.H
14/07/2020
0 0
تحریر:تقدیس نقوی
معتبرروایات کے مطابق حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی شہادت 23ذیقعدہ سنہ 203ھجری کو شہرطوسایران میں ہوئی تھی۔اک دوسری روایت کے مطابق آپکی شہادت ماہ صفرسنہ203ھجری میں بھی بتائی جاتی ہے ( کتاب الارشاد) ۔امام علی الرضا علیہ السلام کو بھی آپکے آباؤاجداد کی طرح زہردغا سےشہید کیاگیا تھا-امام کو خلیفہ مامون بن ہارون رشید نے مدینہ سے خراسان بلاکر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر غریب الوطنی کی حالت میں شہید کیا تھا۔یہ وہ ہیعباسی خلیفہ تھا جس نے امام کو مکروفریب سے پہلے مدینہ سےخراسانایران بلایا ، اپنا ولی عہد بنایا ، اپنی بیٹی ام حبیب سے شادی کردی اورجب اسکےتمام سیاسی مقاصد حاصل ہوگئے تو امام کو دھوکہ سے زہر دلواکرشہید کردیا۔بظاہرعباسی خلیفہ مامون امام علی رضا علیہ السلام کو آپکے والد ماجد کی طرح گرفتارکراکرقید میں بھی زہردے سکتا تھا مگراس وقت کے سیاسی حالات اس جسارت کے لئے سازگار نہیں تھے۔ اس لئے اس نے امام پر قابو پانے اور بعد میں انھیں شہید کرنے کے لئے اک سوچی سمجھی سازش رچی۔
خلیفہ ہارون رشید نے اپنی وفات سے پہلے ہی حکومت کو اپنے دونوں بیٹوں امین اورمامون کے درمیان بظاہر تقسیم کردیا تھا ۔ امین کو عراق حجاز اور دیگرعرب علاقہ دئے گئے تھے تومامون کو فارس اور دیگرعجمی علاقوں کی حکومت ملی۔ مگر یہ آدھا باںٹ مامون کو ہضم نہ ہوا اور اس نے اپنے والد ہارون رشید کی وفات کے بعد اپنے بھائی امین کا بغداد میں قتل کردیا جسکے بعد وہ پوری مملکت کا تنہا حکمراں بن بیٹھا۔ ابتداء میں تو اس نے حکومت کے معاملات اپنے دو مخصوص اور معتبر وزیروںکو سونپ کر خود کو علمی اور تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جس کے سبب وہ مملکت میں روز بروز اٹھنے والے فتنوں اور بغاوتوں سے کافی عرصہ تک بے خبر رہا۔مگر جب پانی سر سے اوپر چلا گیا تو اس نے حکومتی امور کی جانب توجہ دینا شروع کی۔
یہ وہ وقت تھا جب مامون عراق و حجاز میں علویوں کے ذریعہ کی جارہی بغاوت اور خانہ جنگی کے باعث سیاسی طور سے خود کو محصور سمجھ رہا تھا۔ بغداد میں اپنے بھائی امین کا قتل کرنے کے بعد اسے عباسیوں کی مخالفت کا بھی سامنا تھا لیکن اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج عراق وحجاز میں علویوں کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ تھا۔ اس چیلنج سے فوری طور سے نپٹنے کے لئے اس کی دانست میں اس کے کام اگر کوئی آسکتا تھا تو وہ امام علی رضا علیہ السلام کی ذات تھی جو اس وقت اپنے خاندان کے ساتھ مدینہ میں سکونت پذیر تھے۔ مامون کی سیاسی چال اور سازش کا مرکزی خیال یہ تھا کہ وہ امام علی رضا علیہ السلام کو جو اس وقت اہلیت علیھم السلام کے واحد برحق نمائندہ تھے اپنے پاس خراسان بلوالے اور انہیں ظاہری طور سے اپنی حکومت منتقل کرنے کی دعوت دے۔ مامون کا یہ اک ایسا تیر تھا جس سے وہ دو شکار کرنا چاہتا تھا۔ اولا” امام علی رضا ع کو حکومت کی منتقلی کی خبر سن کرعلویوں کو امام کے نام پر اپنے قریب لانا آسان ہو جائیگا اور بعد میں ان پر تسلط قائم کیا جاسکیگا۔ اس طرح عراق اور حجاز میں جاری بغاوت اور خروج کا سد باب بھی ہوجائیگا۔ دوئم امام علی رضا علیہ السلام کی مدینہ میں موجودگی اور انکی علمی اور خاندانی فضیلت سے عوام میں انکے لئے جو عقیدت بڑھتی جارہی تھی وہ بھی حکومت وقت کے لئے خطرہ سمجھا جارہا تھا۔ اس مسئلہ کا حل بھی امام کو اپنے قریب رکھ کر انکی بذات خود نگرانی کرکے کیا جاسکیگا۔
اپنی پہلی سیاسی شاطرانہ چال مامون نے یہ چلی کہ امام علی رضا علیہ السلام کو ان کی مرضی کے خلاف تنہا اپنے پاس ایران میں دارالسلطنت مرومیں بلوالیا۔ امام خلیفہ کی اس سیاسی چال سے واقف ہونے کے باوجود بھی مدینہ چھوڑنے سے انکار نہیں کرسکتے تھے کیونکہ انہیں ایک فوجی دستہکی نگرانی میں لے جایا رہا تھا۔ امام پر مدینہ سے اور اپنے اہل وعیال سے یہ جدائی بڑی شاق تھی۔ اک لحاظ سے یہ حکومت وقت کی طرف سے امام کی گرفتاری ہی تھی۔
اک جانب اگرخلیفہ اپنی سیاسی چالوں سے امام کو انکے اپنے جد کے مدینہ میں قیام کرنے کے جائز حق اور انکے فرائض امامت کی ادائیگی سے محروم کررہا تھا تو دوسری جانب امام بھی اسکی بد نیتی پر مبنی ان سیاسی چالوں کا جواب اپنی مدبرانہ حکمت عملی اور تحمل و صبر سے دینے کا تحئیہ کر چکے تھے ۔ امام اپنی اس ایذارسا ہجرت اور طویل سفرکودین اسلام کی ترویج اور اپنی ولایت کے موثراعلان کے طور پر استعمال کرنے کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے تھے۔
چانچہ اس طویل سفر کے دوران جب امام علی رضا علیہ السلام اپنے عقیدتمندوں کی بستیوں سے گذرے تو وہاں لوگوں نے کثیر تعداد میں آپ کا استقبال کیا اور آپکی زیارت سے مشرف ہوئے۔ امام کو بصرہ کے راستہ نیشاپورایران لیجایا گیا۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں امام کے پیروکاروں اور عقیدتمندوں کی کثیر تعداد تھی۔ امام جب نیشا پور پہنچے تو اس وقت آپ ایک خچر پراک عماری پر تشریف فرما تھے۔ لوگ جوق در جوق امام کی زیارت کے لئے وہاں پہنچ رہے تھے۔ شہر کے علماء ، فقہا اورمحدثین آپکی سواری کے اردگرد جمع ہوگئے۔ ان لوگوں نے اپ سے آپکی زیارت کرنے کی خواہش ظاہر کی اور التجا کی امام اپنے جد کی کوئی حدیث بیان فرمائیں۔ امام نے عماری کا پردہ ہٹایا اور اپنی زیارت کرائی۔ لوگ آپکی زیارت کرکے فرط جذبات سے زارو قطار رونے لگے۔ کچھ دیر بعد امام نے مشہور حدیث ارشاد فرمائی:
“میرے پدر بزرگوار حضرت امام موسی الکاظم ع نے مجھ سے بیان فرمایا اور ان سے امام جعفر صادق ع نے اور ان سے امام محمد باقر ع نے اور ان سے امام زین العابدین ع نے اور ان سے امام حسین ع اور ان سے حضرت علی آلمرتضی ع نے اور ان سے رسول خدا حضرت محمد مصطفے ص نے اور ان سے جناب جبرئیل امین ع نے اور ان سے خداوند عالم نے ارشاد فرمایا : “ لا اله الالله” میرا قلعہ ہے جو اسے زبان پر جاری کرے وہ میرے قلعہ میں داخل ہوجائیگااور جو میرے قلعہ رحمت میں داخل ہوگا میرے عذاب سے محفوظ ہوجائیگا “
اتنا فرماکرامام آگے بڑھےاورپھرفرمایا :بشرطها وشروطها وانا من شروطها “ یعنی کلمہ “لا اله الا اللہ” کہنے والا نجات ضرور پائیگا مگر یہ محبت اہلیبت علیھم السلام کے بغیر ممکن نہ ہوگا۔ اس موقعہ پرجب اس حدیث کو سننے والے اور لکھنے والے ہزاروں کی تعداد میں فرزند رسول ع سے خود یہ حدیث سن رہے تھے امام عالی مقام کا اس مخصوص حدیث مبارک کا انتخاب کرکے بیان کرنا مصلحت سے خالی نہ تھا۔ اس حدیث مبارک کے اسناد اور بیان کئے گئے اسمائے معصومین علیھم السلام سے توحید کے ساتھ ولایت اہلیبت علیھم السلام کی شرط کی اہمیت بیان کرنا مقصود تھا۔ اسی تصدیق و تبلیغ ولایت کا ثمر یہ تھا کہ ایران کے شرق و غرب میں ولایت ائمہ علیھم السلام کے ماننے والوں کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کررہی تھی۔
دارلسلطنت مرو پہنچ کر امام نے جب مامون سے ملاقات کی تو اس نے امام کو اپنا اور اپنےساتھیوں کا متفقہ فیصلہ سنایا کہ وہ سب امام کی بیعت کرنے کے لئے آمادہ ہیں اور امور حکومت امام کو سونپنا چاہتے ہیں۔ امام نے اپنا انکار دہرایا اور فرمایا کہ انھیں حکومتی معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے. بھرے دربار میں تمام امراء اوروالیان حکومت کے سامنے امام نے حکومت کو ٹھکراکر یہ پیغام دیا کہ وہ حکومت میں دلچسپینہیں رکھتے ہیں بلکہ خلیفہ مامون نے انہیں ان کی مرضی کے خلاف انکے جد کا مدینہ چھڑاکر یہاں زبردستی بلایا ہے۔ آپکے فوری حکومت لینے کے انکار کے بعد مامون نے التجا کی کہ امام اس کی ولی عہدی ہی قبول فرمالیں جسے امام نے مسترد کردیا۔ ولی عہدی کے قبول کرنے سے اس انکار پر مامون کو اپنا سارا سیاسی کھیل بگڑتا نظرآیا ۔ مامون اپنے اہل کاروں کے سامنے سبک بھی محسوس کررہا تھا اس لئے اس نے امام سے دھمکی آمیز لہجہ میں ولی عہدی قبول کرنے پر اسرار کیا جس کے بعد امام کے پاس بجز قبول کرنے کے اور کوئی چارہ بھی نہ رہا تھا۔ اس قبولیت کے ساتھ امام نے یہی شرط رکھی کہ وہ یہ عہدہ مامون کے اسرار پر قبولتو کررہے ہیں مگر وہ حکومتی امور میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کرینگے۔ مامون خود یہی چاہتا تھا۔ اس نے سب لوگوں سے امام کی بیعت کا اہتمام کرایا اورامام کے نام کا سکہ بھی رائج کرایا۔ اب یہ چاہے خلیفہ کی مجبوری ہو یا سیاسی وقتی مصلحت مگر اس خاص اہتمام سے پوری مملکت اسلامیہ میں اہلیبت کے نام کا سکہ چل رہا تھا ۔ امام نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنا زیادہ تر وقت دین کی تبلیغ اور درس و تدریس میں صرف کرنا شروع کردیا جس سے تعلیمات اہلیبت علیھم السلام ایران اور قرب و جوار میں عام ہونے لگیں۔ کیونکہ مامون خود بھی علم دوست تھا اور علمی بحث و مباحث میں دلچسپی رکھتا تھا اس لئے وہ خود بھی اکثر امام سے کسب علم کرتا تھا اور اپنے دربار میں مناظرے منعقد کرتا تھا جس کی قیادت امام علی رضا علیہ السلام ہی فرماتے تھے۔ کیونکہ امام بظاہر ولئی عہد کے عہدہ کو اعزاز بخش رہے تھے اس لئے عوام کو ان تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی اور لوگ بڑی تعداد میں امام سے کسب علم کرتے تھے۔
ولی عہدی کے اعلان کے کچھ دن بعد ہی عیدالفطر آگئی۔ مامون نے امام سے درخواست کی کہ اس سال عید کی نماز وہ پڑھائیں۔ امام نے انکار کیا اور مامون کو یاد دلایا کہ وہ پہلے ہی امور حکومت سے دور رہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں مگر مامون أسرار کرتا رہا ۔ بالآخرامام نے اس شرط پر نماز پڑھانے کا اقرار کیا کہ وہ نماز پڑھانے اس طرح جائینگے جس طرح ان کے جد حضرت رسول خدا ص جایا کرتے تھے۔ مامون نے کہا اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ عید کی صبح امام نماز کے لئے تیار ہوکر اسی طرح نکلے جس طرح رسول خدا ص نکلتے تھے۔ لوگ یہ مبارک منظر دیکھنے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں امنڈ پڑے۔ہر طرف درود وسلام کی آوازیں بلند ہورہی تھیں ۔ لوگ فرط جذبات سے گریہ کررہے تھے۔ عجب روح پرورمنظرتھا جودارالسلطنت مرو میں اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا۔ کسی نے اس کی اطلاع مامون کو دی اور کہا کہ اگر امام علی رضا ع اسی حالت میں عیدگاہ تک پہنچ گئے اور وہاں نماز پڑھائی تو تیری حکومت کا بچنا محال ہے۔ یہ سن کر مامون گھبراگیا اور اس نے امام کو راستہ ہی سے واپس آنے کے لئے کہلوایا۔ امام خلیفہ مامون کی سیاسی چالوں سے بخوبی واقف تھے مگر عید کی نماز بغیر پڑھائے ہی اک پیغام عوام تک ضرور پہنچا دیا کہ اس وقت دین حق کا محافظ اور وارث رسول خداص اس روئے زمین پر انکے سوا کوئی اور نہیں ہے۔
یوںتوبوقت پیمان ولی عہدی امام علی رضا علیہ السلام نے مامون پریہ واضحکردیا تھا کہ وہ ولی عہدی صرف اس شرط پرقبول کریں گے کہ وہ حکومتی معاملات میں کوئی دخل نہیں دیں گے ۔ مگرکچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے رہے جہاںامام یہ مشاہدہ کرتے تھے کہ دین خدا کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ اس وقت امام اپنےمنصب امامت کے فرائض کی ادائیگی ضروری سمجھتے تھےاورخلیفہ مامون رشید کو خلوت میں وعظ ونصیحت فرماتے رہتے تھے۔ایسی صورت حال میں مامون امام کے علمی فضل و احترام کے زیراثربظاہرتوخاموش رہتا تھا مگردل میں وہ امام کے خلاف بغض وعناد رکھنے لگا. دوسری جانب مامون اپنے بھائی امین کو بغداد میں قتل کرنے کے بعد پوری اسلامی سلطنت کا تنہا حکمراں بن چکا تھا اور اپنے مخالفین کی اکثریت کو تہ تیغ کر چکا تھا۔ اس لئےاب وہ اپنی حکومت کو کافی مستحکم سمجھنے لگا تھا۔ کیونکہ اسے اب اپنے خلاف علویوں کے بھی کسیبغاوت کا خطرہ نظر نہیں آرہا تھا اس لئے اب اس کے لئے امام علی رضا علیہ السلام کی موجودگی غیرضروری ہوچکی تھی۔خلیفہ مامون امام علی رضا ع کی موجودگی سے مسلسل خائف رہنے لگا تھا جس کے پیش نظراب وہ امام عالی مقام کے قتل کرنے کے منصوبے بنانے لگا۔
اک دن مامون نے اپنے ایک خادم خاص کو حکم دیا کہ وہ اپنے ناخن بڑھا لے جس کا کسی دوسرے کو علم نہ ہو اوراس نے ایسا ہی کیا۔ اسکے بعد مامون نے اسے بلاکر اسکے سامنے املی سے مشابہ کوئی چیز رکھی اور حکم دیا کہ اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پرملے۔ خلیفہ کی ہدایت کے مطابق اس نے بڑھے ہوئے ناخن والے ہاتھوں پر وہ شئ اچھی طرح سے مل لی۔ یہ تیاری مکمل کرنے کے بعد مامون امام علی رضا ع کی خدمت میں آیا جو اس وقت چند دن پہلے کھانے میں دئے گئے زہر کے سببسخت علیل تھے۔ مامون ظاہرا” امام کی مزاج پرسی کرتے ہوئے پوچھنے لگا کہ آپ کا کیا حال ہے۔ امام نے جواب دیا ٹھیک ہوجاوںگا یعنی ابھی علیل ہوں۔ جواب میں ہارون کہنے لگا میں توبالکل ٹھیک ہوچکا ہوں یعنی جو کھانا ہم دونوں نے ساتھ کھایا تھا اس میں زہر نہیں تھا ( اسی لئے میں تندرست ہوچکا ہوں) ۔ پھرمامون پوچھنے لگا کیا آپ کے پاس کوئی خدمت گارآیا تھا یعنی آپکی خبر گیری ہورہی ہے یا نہیں۔ امام نے نفی میں جواب دیا تو مامون دکھاوے کے لئے اپنے لوگوں پرغضبناکہوگیا۔ امام سے کہنے لگا آپ ابھی انارکا پانی لیجئے تاکہ آپ کو سستی نہ ہو۔ پھراسی خادم کو بلاکر حکم دیا کہ جاؤ انار لیکرآؤ۔ جب وہ انارلےآیا تو کہا اسے دونوں ہاتھوں سے نچوڑو۔ اس نے اپنے زہر آلودہاتھوں سے ویسا ہی کیا۔ انارکا وہ عرق مامون نے اپنے ہاتھوں سے امام کو پلایا۔ یہی انارکا زہرآلودعرق امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کا سبب بنا۔ وہ عرق پینے کے دودن بعد ہی امام کی وفات ہوگئی۔( کتاب الارشاد)
دوسری مشہورروایت کے مطابق امام علی الرضا علیہ السلام کوانگوربہت پسند تھے۔خلیفہ مامون نے امام کوزہر سے قتل کرنے کی نیت سےکچھ مخصوص انگوروں میں سوئی کے ذریعہ زہر داخل کرایا اور امام کو اپنے پاس بلاکر ان زہر آلود انگوروں کوکھانے کے لئے پیش کیا۔ امام نے انکارکیا مگرمامون اسرارکرتا رہا۔ مجبورا” امام نے کچھ دانے کھائے اور وہاں سے اٹھ کر چل دئے۔ مامون نے پوچھا کہاں جارہے ہیں تو امام نے جواب دیا جہاں تونے بھیجا ہے۔ ان انگوروں کو کھا کر ہی امام کی شہادت واقع ہوئی۔ آپ کو شہرطوس میں جواب مشہد مقدس کے نام سے جانا جاتا ہے خلیفہ ہارون رشید کی قبرکے سراہنے دفنایا گیا۔