ڈاکٹر اختر مہدی
اسلامی کلنڈر کے بموجب محرم سال کا پہلا مہینہ ہے اور تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہونچ چکی ہے کہ طلوع اسلام سے قبل ہی نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے پہلے سے ہی سال کے پہلے دن کا غیر معمولی مسرت و خوشی سے استقبال ہوتا رہا ہے اور اسلام سے قبل ایران میں رائج زردشتی مذہب کے لوگ اس دن کو عید نوروز کے نام سے یاد کرتے تھے چنانچہ سر زمین ایران میں اسلام کی آمد کے بعد بھی جشن نوروز کا سلسلہ جاری رہا اور موجود ہ اسلامی جمہوری حکومت کے زمانہ میں بھی ایران میں جشن نوروز کا غیر معمولی اہتمام کیا جاتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ اسلام کی آمد کے بعد نوروز کے موقع پر جملہ روایتی رسومات کے ساتھ ہی ساتھ کچھ دعائوں کا اضافہ کر دیا گیا ہے لیکن غیر مسلم ایرانی افراد اس جشن کو اپنی قدیم روایات کے مطابق مناتے ہیں۔ ملت اسلامیہ عالم بھی سن ۶۰ھ سے پہلے تک توسال کے پہلے دن یعنی یکم محرم الحرام کو جشن مسرت کا اہتمام کیا کرتی تھی لیکن ۶۱ھ میں سرزمین کربلا میں نواسۂ رسول حسینؑ مظلوم کی شہادت کے بعد پوری اسلامی دنیا غیرمعمولی سوگ میں ڈوب گئی اور اس کے بعد سے لیکر آج تک یعنی گزستہ چودہ سوسال کے دوران محرم کا چاند نمودار ہوتے ہی پوری امت اسلامیہ ایک سوگوار جماعت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور دنیا کے ہر گوشہ میں نواسۂ رسول سے عشق و محبت رکھنے والا ہر مسلمان سوگوار نظر آنے لگتا ہے اور روز عاشورہ تو تنہا مسلمانوں کو ہی نہیں غیر مسلموں کو بھی حسین کا عزادار بنا دیتا ہے۔ غور طلب بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے اور شہادت حسینؑ کو یہ فضیلت اور ان کے غم کو یہ تازگی کیوں حاصل ہے؟ خود ماہ محرم کی عظمت و اہمیت کا راز کیا ہے اور کیا سبب ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کے درمیان حسین مظلوم کا تذکرہ اور ان کے غم میں سوگواری وعزاداری کا اہتمام کیا جاتا ہے؟ البتہ ہر فرقے میں سوگواری دکھا ئی دیتی ہے۔
امام حسینؑ کے عظیم الشان انقلاب اور ان کی دردانگیز شہادت اور تاریخ اسلام کی اس تابناک اور تاریخ ساز شخصیت کی عزاداری کے بارے میں اب تک بیشمار کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور مختلف مذاہب و مسالک کے نامور دانشمندوں نے اس موضوع پر جو کتابیں اور مضامین شایع کییٔ ہیں وہ آج ہمارے درمیان بطور یاد گار موجود ہیں اور حق کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ لکھا جائے کیونکہ ایک طرف تو حسینؑ رسول خدا حضرت محمدؐ کے نواسے اور ان کی اکلوتی بیٹی حضرت زہراؑ کے نور چشم اور جملہ مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق اہل جنت کے سید وسردار ہیں اور دوسری طرف انھوں نے مکتب قرآن، دامن رسول اکرمؐ اور وحیٔ پروردگار کے سائے میں تربیتی منزلیں طے کی ہیں۔ اس کے علاوہ رسولؐ مقبول کی متعد د احادیث بھی موجود ہیں جس میں انھوں نے اہلبیتؑ رسالت سے محبت اور مودّت پر بڑی تاکید کی ہے اور اسے اجر رسالت قرار دیا ہے۔
لیکن پیغمبراسلامؐ اور بزرگ صحابہ کا دور ختم ہوئے ابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا تھا اور ابھی امت اسلامیہ کے درمیان ایسے محدثین بقید حیات تھے جنھوں نے حدیث ثقلین کو خود پیغمبرؐ کی زبان سے سنا تھا اور اس حدیث کو لوگ سینہ بہ سینہ دوسرے لوگوں تک پہونچانے میںلگے ہوئے تھے کہ کتاب خدا اور اہل بیت نبوت خدا وند عالم اور اس کے رسول کی جانب سے امت اسلامیہ کے لیے دو بڑی امانتیں ہیں اس کے باوجود منافق جماعت کے لوگوں نے نہایت رفتاری کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو انحراف کا شکار بنانا شروع کر دیا تھا یہاں تک کہ وہ وقت بھی آ گیا کہ اسلامی اقتدار و خلافت کی باگ ڈور یزید کے ہاتھ میں آ گئی اور اس نے اسلامی احکام کی اعلانیہ خلاف ورزی کے ساتھ ہی ساتھ وارث رسول حسینؑ مظلوم سے بیعت کا مطالبہ شروع کر دیا۔ در حقیقت بیعت کا مطالبہ فقط یزید کی جانب سے نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے وہ جماعت لگی ہوئی تھی جس کے آباء واجد ادنے نصف صدی قبل اسلام کا اعلانیہ مقابلہ کیا تھا اور شرمناک شکست کی وجہ سے جس کے پاس اسلام قبول کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارئہ کار باقی نہ رہ گیا تھا لیکن گزشتہ ۲۰ سال کے دوران اس جماعت کی بھر پور کوشش یہی تھی کہ اسلام نے ان کے خاندان کے بزرگوں کے نا جائز اقتدار کو ختم کر دیا تھا وہ کسی طرح روبہ زوال ہو جائے اور وہ پیغمبرؐ کی نسل سے اپنے بزرگوں کے خون کا بدلہ لے سکیں۔ در حقیقت حسینؑ مظلوم سے طلب بیعت کا اصل مقصد یہ تھا کہ اسلامی خلافت کو درباری خلافت و ملوکیت میں بدل کر قیصر و کسریٰ کی طرح بنی امیہ کو امت اسلامیہ کے سر پر مسلط کر دیں اور یزید کی کالی کرتوتوں کو اسلامی آئین کی حیثیت سے دنیا والوں کے سامنے پیش کر دیا جائے لیکن امام حسینؑ نے مطالبۂ بیعت کو ٹھکرا کر اس منافق جماعت کے منصوبے پر پانی پھیر دیا لہٰذا ان لوگوں نے انھیں خلافت مسلمین کا باغی قرار دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ جیسے بھی ممکن ہو اسلام دشمن سازش کے سامنے تسلیم خم نہ کرنے والے اور غاصب حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے اس کو ہ ہمالیہ کے مبارک وجود کو صفحۂ ہستی سے مٹادیں اور امت اسلامیہ اس عظیم شخصیت کی سرپرستی سے محروم ہو جائے۔
بہرحال ایسے منافقانہ اور زہر آلود ماحول میں حسینؑ مکہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ایک ذمہ دار قائدورہبر کی حیثیت سے وہ دیکھتے ہیں کہ اگر خاموش ہے تو اسلام ایک حکومتی مذہب اور ملوکیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کے نتیجے میں اسلام محض ایک فوجی اور سیاسی طاقت کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا وہ اس وقت دونا ممکن چیزوں کے درمیان گھر ے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ خاموش بھی نہیں رہنا چاہتے کیونکہ وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے اور اسلامی اصول و عقائد کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے اور اسلام تنہائی ولاوارثی کے عالم میں ہے اور منافق جماعت موجودہ اختلافات سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے اپنے مفاد کے پیش نظر حقائق دین میں خاطر خواہ انحراف پیدا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں اور پیغمبر نے جن اغراض و مقاصد عالیہ کی خاطر طرح طرح کی زحمتیں برداشت کی تھیں وہ بری طرح پامال کئے جارہے ہیں اور ایسی ناز یبا حرکتوں کو رواج اور فروغ حاصل ہو رہا ہے جس کی اسلام نے سخت ممانعت کی تھی۔
یہ وہ زمانہ ہے کہ فکر سر گرداں و پریشان ہے۔ شخصیتیں فروخت ہو چکی ہیں۔ وفادار ساتھیوں کی تعداد کم ہے۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے اور اسلام کی جماعت میں کسی طرف سے کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی ہے۔ زبانیں قلم کی جا چکی ہیں حق کی حمایت کا اظہار کرنے والے خاموش ہیں۔ ظلم وجور کے دھاگے سے ان ہونٹوں کو سی دیا گیا ہے جو حق کی حمایت میں آواز بلند کر سکتے تھے ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حقیقت کی چھاؤنی کو ویران کیا جا چکا ہے تا کہ اس کے سائے میں کوئی حق پسند پناہ نہ لے سکے ظاہر ہے ان کو دیکھنے کے بعد حسینؑ کیسے خاموش رہ سکتے ہیں ظلم و فساد کے خلاف جنگ و نبرد آزمائی ان کی ذمہ داری ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جنگ کریں تو کیسے ؟ ان کے پاس کوئی سامان جنگ بھی تو نہیں ہے مختصر یہ کہ وہ ایک ایسے طاقتور حاکم کے چنگل میں گرفتار ہیں کہ نہ فریاد کر سکتے ہیں اور نہ خاموش رہ سکتے ہیں۔ نہ سر تسلیم خم کر سکتے ہیں اور نہ حملہ کر سکتے ہیں۔ تنہا خالی ہاتھ کھڑے ہوئے ہیں مگر ان کے کندھے پر ذمہ داریوں کا بھاری بوجھ موجود ہے اور فاطمہؐ کی آغوش کا پروردہ حسینؑ غورو فکر کے سمندر میں ڈبکیاں لے رہا ہے۔ موت کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا اسلحہ بھی نہیں ہے۔ لیکن اس کے چہرہ پر خوف و دہشت اور مایوسی و نا امیدی بالکل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ یہ تنہا مجاہد دشمن کی اتنی بڑی فوج کے مقابلے میں اپنی کامیابی کے لئے پوری طرح مطمئن ہے۔
میدان کربلا میں شہادت کا عظیم و نامور معلم حسینؑ اپنی مثالی قربانیوں کے ذریعہ ان لوگوں کو درس دینے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہے جو جہاد کے لئے طاقت و توانائی اور فوج و اسلحہ کو لازمی سمجھتے ہیں اور دشمن پر غلبہ حاصل کرنے میں یہی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو یہ درس دینا چاہتا ہے کہ شہادت کے میدان میں فتح و شکست کا معیار وہ نہیں ہے جو عام انتخابات میں ہوا کرتاہے کہ بلکہ شہادت ایسا عظیم چناؤ ہے جس میں محراب عشق اور معبد آزادی کے آستانہ پر اپنی جان کی قربانی پیش کرنے والے مجاہد کو کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے دنیا والوں کے سامنے یہ نمونہ بھی پیش کر دیا کہ باطل کی ننگی اور تیزدھار تلواروں پر حق و صداقت کا مقدس خون کس طرح کامیابی حاصل کرتا ہے۔در حقیقت تحریک کربلا کے قائد عظیم الشان حسینؑ مظلوم کی شیر دل خواہر ثانیٔ زہراؑ حضرت زینبؑ اور دیگر خواتین کی بے پردگی اور دربدری نے اموی حکمرانوں کو یہ موقع نہیں دیا کہ وہ تاریخ اسلام کو تیز رفتاری کے ساتھ منحرف کر سکیں اور اسلامی آئین و سنت و سیرت نبوی کو مسخ کرتے ہوئے اپنی غاصب اور ظالم حکومت کے ذریعہ سنتِ محمدی اور آئین الٰہی کو پوری طرح نابود کر سکیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کو دور جاہلیت کی طرف واپس لے جانا چاہتے تھے مگر عظیم شہادت اور حسینی انقلاب کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے۔
بہر حال کربلا کے ریگستان میں جنگ کا بازار گرم ہوا۔ اپنی اولاد اور اپنے اصحاب و انصار کی شہادت کے بعدحسینؑ مظلوم ایک بہادر مجاہد کی طرح’’ھیھات من الزّلتہ‘‘کا نعرہ بلند کرتے ہوئے فوج دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ایسا شیرانہ حملہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو حضرت علیؑ کی جنگ یاد آ جاتی ہے۔ وہ دشمنوں کی طرف بڑھتے ہوئے یہ کہتے ہیں ’’تم نے میر ے اکبرؑ کو مارا ،تم نے میرے عباسؑ کو شہید کیا، کہاں بھاگ رہے ہو آئو تین دن کے بھوکے اور پیاسے کا مقابلہ تو کرو۔‘‘ کربلا کے میدان میں ہر طرف الامان اور الحفیظ کی آوازیں بلند ہو جاتی ہیں پھر فضا میں یہ آواز گونجنے لگتی ہے کہ اے نفس مطمئن اپنے رب کی بارگاہ میں پلٹ آ۔اور اس آواز کو سنتے ہی حسینؑ اپنی تلوار نیام میں رکھ لیتے ہیں اور بارگاہ عالیہ الٰہی میں یہ عرض کرتے ہیں معبود تیری مرضی کے آگے سر تسلیم خم ہے۔میری اس جنگ کا مقصد بھی تو محض تیرے پسندیدہ دین کی بقاو حفاظت ہے۔آپ فرماتے ہیں۔’’ان کان دین محمد لم یسلقم الابقتلی فیاسسبون خزونی‘‘ یعنی اگر دین محمد کو میرے قتل کر بغیر بقا حاصل نہیں ہو سکتی ہو تو اے تلوار و! آؤ میرے گلے لگ جائو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان فرزندان تو حید کی شہادت ہر دور اور ہر جگہ کے لوگوں کویہ پیغام دیتی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ عزت اور حیات جاوید کا باعث ہوا کرتا ہے۔ خدا کی راہ میں ظلم و استبداد کے خلاف بھر پور جہاد کرنا ہر صاحب ایمان کا بنیادی فریضہ ہے اور اگر موت کے علاوہ کوئی دوسرا چارۂ کارنہ ہو تو شہادت منطق کی انتہا و فضیلت اور حیات جاوید کی ضمانت بھی ہے۔ سرخ موت کو ایک حادثہ، افسوسناک المیہ اور ہیرو کی مدت قرار دینے والے کلچر کی تردید کرتے ہوئے حسینؑ مظلوم نے دنیا والوں کو یہ درس دیا کہ اسلامی تہذیب و تمدن کی نگاہ میں سرخ موت منزل کمال اور عظیم سر بلندی کا نام ہے اور یہ بشریت کو معراج اور حیات جاوید عطا کرتی ہے اور گزشتہ صدی کے عظیم الشان شاعر علامہ اقبالؔ کو یہ لکھنے پر مجبور کر دیتی ہے:
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
اک ضرب یداللہی ایک سجدئہ شبیری
٭٭٭