شاہان اودھ کے بارے میں انگریزوں نے عوام کو بہت سی غلط فہمیوں میں مبتلا کر دیا اور چونکہ اس کی رد میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا اس لئے عام طور سے لوگ شاہان اودھ کی غربا پروری، فنون لطیفہ کی ترقی ،ان کی مذہبی، علمی، اور ادبی خدمات سے بڑی حد تک ناواقف رہے۔ شاہان اودھ نے وہ احسانات اس سلسلے میں کئے ہیں جنہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ ان کی خدمات اتنی ٹھوس اور بنیادی تھیں کہ وہ کسی قوم و مذہب کے لئے مخصوص نہ تھیں ، ان کے فیض سے ہر قوم نے استفادہ کیا ہے۔ یہاں صرف شاہان اودھ کے عہد میں عزاداری کے فروغ پر کچھ لکھا گیا ہے۔
محرم کے سلسلے میں شاہان اودھ کی دماغی کا وشوں اور مذہبی شغف کا نتیجہ تھاکہ اودھ خصوصاً لکھنؤ میں پورے طور پر سو گوارانہ فضا بن جاتی تھی اور عام طور سے لوگ سبز و سیاہ کپڑوں میں ملبوس ہوجاتے تھے اور اس طرح رنگریزوں کا کام بڑھ جاتا تھا۔ وہ دن رات کپڑے رنگنے میں مصروف ہوجاتے ۔ شہر بھر میں ہر امیر غریب کے گھر میں تعزیہ داری اور قلعی ہونا بھی ناگزیر تھی۔ مہینہ بھر پہلے سے مزدور دن رات مکانوں ، حویلیوں اور محلات میں چونہ کاری میں لگ جاتے اس طرح وہ سال بھرکے لئے کچھ نہ کچھ پس انداز کر لیتے تھے۔ محرم شروع ہونے پر مجالس کا سلسلہ شروع ہوتا۔ فرش کے لئے دریاں ،چاندنیاں، قنات، نمگیرے، چینی کے پیالے، پلیٹیں اور دوسرا سامان دن رات کرائے پر چلتا۔ مجلسی تکلفات سے لوگوں کو تہذیب اورنشست و برخاست کی تعلیم ملتی، اگر ذاکرین و واعظین سے ایک طرف روحانی و مذہبی معلومات حاصل ہوتیں تو دوسری طرف تحت اللفظ خوانی میں شعر و شاعری کا کمال نظر آتا۔ سوز خوانی میں گلے بازی کا فن معراج پر نظر آتا اس طرح ہر ذوق کے آدمی کو روحانی سکون کے ساتھ ساتھ ذہنی تسکین بھی حاصل ہوجاتی ۔
مجالس میں تقسیم تبرک کے سلسلے میں کسگروں کاکام بھی چمک جاتا۔وہ چپنیاں ، ہانڈیاں طباق،پیالے اور سبیلوںکے آبخورے اور دوسری چیزیں جو سال بھر تیار کرتے محرم میں سب فروخت ہوجاتیں ۔اب باور چیوں کو لیجئے جو تقسیم تبرک اور غربا میں تقسیم طعام کے لئے روساء امراء و دوسرے صاحب استطاعت افراد کے یہاں شب و روز پختیں پکاتے اور دیگیں، مٹکے، اور دوسرے ظروف مسی کا کرایہ الگ وصول کرتے، نانبائی روٹیاں اور شیرمالیں وغیرہ مجلسوں میں تقسیم کے لئے رات دن پکاتے، منافع کا زیادہ حصہ حلوائیوں کے حصہ میں آتا تھا،جہاں سے ہر امیر و غریب تقسیم تبرک کے لئے شیرینی ضرور خریدتا۔ عزاخانوں میں سلگانے کے لئے اگر بتی ، کیوڑہ،گلاب، شمعیں، طوغیں، سہرے اور قلادہ مالی فروخت کرتے ۔ سادے کا ر، چاند، چھلے، علی بند، شوق بند، تختیاں اور دوسرا منتی سامان ، چاندی سونے کے علم رات دن بناتے اور فروخت کرتے۔ تعزیوں کے تاجر تو ہزاروں کماتے ان کے علاوہ سینکڑوں کا سب کسی نہ کسی حیثیت سے حصہ لیتے۔ باجے والے، جلوس والے، ماہی مراتب، جھنڈی والے، اونٹ والے، روا،میدہ، شکر، میوے والے، آرائش والے، چاول والے دودھ والے، خوب خوب کماتے، اب اگر اقتصادی ترقی کے پیش نظر شاہان اودھ کی قائم کردہ رسومات کو دیکھئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف انہماک عزاداری میں اس کو فروغ دینے اور اس کی شان و شوکت کو بلند کرنے میں انہوں نے پورے طور پر غلو سے کام لیا تو دوسری طرف بے شمار افراد کے لئے ان کی تجارتوں ، ان کے فن اور ان کی معیشت کو زندہ کردیا اور فنون لطیفہ کی ترقی ان کے پیش نظر رہی۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ شاہان اودھ نے جیسی عزاداری کی اور جس قدر انہوں نے اپنے دور حکومت میں اسے فروغ دیا وہ سیکڑوں برس میں بھی انجام نہ پاتا۔شاہی جلوس اس شان و شوکت سے اٹھتے تھے کہ ہر قوم کے لاکھوں آدمی زیارت کو آتے۔ چنانچہ آج بھی شاہی ضریح کا جلوس، شاہی مہندی کا جلوس اور داروغہ واجد علی کی مہندی کا جلوس دیکھنے لاکھوں عوام آتے ہیں اور ان مناظر کو دیکھ کر ایک طرف امام مظلومؑ کی عظمت کا نقش اور دوسری طرف ایک سوگوارانہ فضا کا تاثر لے کر جاتے ہیں۔
اکثر مورخین اس امر پر متفق ہیں کہ تعزیہ کے موجد امیر تیمور صاحب قراں تھے۔ اگرچہ موصوف عقیدتاً حنفی تھے مگر ابتدا میں حنفی سنیوں میں تعزیہ داری کو زیادہ فروغ ہوا لیکن اس کی زیادہ ترقی اور فروغ دکن کے شیعہ تاجداروں اور اودھ کے ایرانی النسل حکمرانوں نے دیا۔
اودھ میں نواب سعادت علی خاں برہان الملک نواب محمد مقیم حیدر جنگ اور نواب شجاع الدولہ مرزا محمد جلال الدین حیدر کو اس سلسلے میں زیادہ خدمت کا موقع نہیں ملاغالباًاس کی وجہ یہ تھی کہ نوابین موصوف شاہان مغلیہ کے دامان دولت سے وابستہ تھے۔ اور سپاہیانہ زندگی بسر کرتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی نواب شجاع الدولہ کا ایک عظیم الشان امام باڑہ فیض آباد میں موجود ہے۔
فیض آباد اس وقت اودھ کا صدر مقام تھا، اس میں مجلسیں ہوتی ہیں اور پہلی محرم کو ضریح اقدس جلوس کے ساتھ لاکر رکھی جاتی ہے اور اسی طرح عاشور کو دفن ہوتی ہے۔
لکھنؤ میں عزاداری کے عروج کے بانی نواب آصف الدولہ مرزا محمد یحیٰ علی خاں عرف مرزا امانی ہیں ۔ نواب نے بوجوہات چند درچند ۱۰۷۵ھ کو لکھنؤ کو پایۂ تخت قرار دیا اور اپنا شہرۂ آفاق امام باڑہ آصفی ۱۷۷۴ء میں احاطہ مچھلی بھون لکھنؤ میں تعمیر کرایا ،حافظ کفایت اللہ مہندس نے نقشہ تیار کیا تھا (حافظ صاحب کو بعض نے دہلوی اور بعض نے شاہ جہاں پوری تحریر کیا ہے) امام باڑہ سات برس میں ۱۷۹۰ء میں ایک کروڑ کی لاگت سے تعمیر ہوا۔اس کے وسطی ہال میں تعزیہ داری ہوتی تھی۔ یہ ۳۰۳فٹ لمبا اور ۵۳ فٹ چوڑا اور ۶۳ فیٹ بلند ہے اور دنیا کے اعلیٰ ترین دالانوں میں سے ہے جس میں لوہے لکڑی کے بغیر اتنی بڑی بے مثال ڈانٹ جوڑی گئی ہے۔ امام باڑہ کے حدود میں ایک ضعیفہ کا مکان آگیا تھا جس کی وجہ سے عمارت میں نقص پیدا ہو گیا۔ بڑھیا اپنا مکان دینے پر رضامند نہ ہوتی تھی ۔بالاخر وہ اس شرط پر راضی ہوئی کہ مکان کے عوض میں دوسرا مکان بنوادیا جائے اور اس کے نام کا تعزیہ رکھا جائے۔نواب نے اس کی یہ دونوں شرطیں منظور کر لیں۔چنانچہ جب امام باڑہ تیار ہوا اور تعزیہ داری شروع ہوئی تو داہنی طرف صحنچی میں نواب نے بڑھیا کا تعزیہ رکھا اور تا حیات رکھا جو آج بھی اسی مقام پر رکھا جاتا ہے۔
امام باڑہ کی تکمیل کے بعد ۵؍ لاکھ روپیہ سالانہ نواب اس کی آرائش و زیبائش پر صرف کرتے تھے۔متعدد چھوٹے بڑے تعزیے سونے چاندی کے بنوائے تھے۔ شیشے آلات کی مد میں سفید رنگیں،جھاڑ و فانوس بلا کنول و کنول دار امام باڑہ کی زینت تھے۔ تمام بڑے دالا نوں کی چھتیں اور فرش شیشہ آلات سے پٹے پڑے تھے،حدیہ ہے کہ زیارت کرنے والوں کو اندر جگہ نہ ملتی تھی وہ کھلے ہوئے چبوترے پر بیٹھ کر زیارت کرتے تھے۔
اتنے سازو سامان سے بھی نواب کی سیری نہ ہوئی اور جب ڈاکٹر بلبن ولایت جانے لگے تو نواب موصوف نے ایک سبز اور ایک سرخ تعزیہ جھاڑوں اور دیگر شیشہ آلات کی فرمایش کی۔چنانچہ یہ سامان بھی آگیا اور ایک فرمائشی تعزیہ بھی آیا۔ دوسرے کے لئے آئندہ سال کا وعدہ ہوا۔ ۱۸۷۴ء میں شاہ غازی الدین حیدر کے عہد میں پادری ہبر بسلسلۂ سیاحت لکھنؤ بھی آئے تھے انہوں نے امام باڑہ آصفی کی بابت لکھا ہے:۔
ایک پاک و طاہر عمارت میں بکثرت جھاڑ لٹک رہے تھے جن کی چمک دمک سے آنکھوں میں خیرگی پیدا ہو رہی تھی جو جھاڑ بہت وزنی اور لٹکانے کے قابل نہ تھے وہ فرش پر رکھے ہوئے تھے۔ ان جگمگاتے ہوئے فرشی جھاڑوں کے نیچے کا حصہ بہت گھیردار تھا اور اوپر کی جانب بہت گائو دم ہوتے چلے گئے تھے ان کے بیچ بیچ میں نقرئی مرصع کار روضے تعزے جو آٹھ دس فٹ بلند ہوں گے رکھے گئے تھے۔
ان کے علاوہ نوابان اودھ کے زمانے میں زردوزی پٹکے جن پر آیات قرآنی کڑھی ہوئی تھیں، بڑے بڑے نقرئی پنجے جن پر بخط طغرا اسماء پنجتن پاکؑ وغیرہ کندہ تھے ، مقدس ڈھالیں جن پر اسماء باری تعالیٰ نقش تھے اور ان پر مرصع کاری کی گئی تھی، خراسانی تلواریں، نیزے اور بھالے مشہور زمانہ سپہ سالاروں کے عمامے اور چند مخصوص طور کے متبرک تیر بھی امام باڑہ کی زیب و زینت تھے۔ آصف الدولہ نے ۱۷۹۷ء میں انتقال کیا اور اپنے تعمیر کردہ امام باڑہ میں سپرد خاک کئے گئے۔
اربعین تک عزاداری
نواب آصف الدولہ کے بعد نواب یمین الدولہ سعادت علی خاں بہادر نہایت منتظم، مدبر اور دانشور حکمراں تھے۔ مگر انہوں نے کوئی امام باڑہ یا کربلا اپنی یادگار نہیں چھوڑی ہے۔ مندنشینی سے ۵ برس کے بعد وہ سرطان کے مرض میں مبتلا ہوگئے اور غسل صحت کے بعد ایک شاندار جلوس کے ساتھ درگاہ حضرت عباس ؑ گئے۔ وہاں کی حالت دیکھ کر خاموش ہوگئے کیوں کہ اس وقت درگاہ ایک خام مکان میں تھی۔ یہ مکان مرزا فقیرا کا تھا۔ مرزا کو ایک رات خواب میں بشارت ہوئی تھی کہ فلاں مقام پر دریا کے کنار ے کھودو چنانچہ مرزا موصوف نے اس پر عمل کیا اور زمین سے چند علم برآمد ہوئے۔ مرزا فقیر انے اپنے مکان میں امام باڑہ بنا کر وہ علم نصب کر دیئے اور اہل حاجت کی مرادیں آنے لگیں۔ چنانچہ نواب بعد صحت یہاں سلام کرنے آئے تو درگاہ اسی خام مکان میں تھی،نواب نے فوراً اس کی تعمیر کا حکم دے دیا اور موجود ہ درگاہ بہ صرف کثیر نہایت شاندار طریقہ سے تعمیر ہوئی جس میں نہایت کشادہ صحن اور عظیم الشان پھاٹک تعمیر ہوا۔
قتیل ؔنے تاریخ کہی
ایں گنبد جدید بنائے سعادت است
درگاہ کی آرائش و زیبائش میں بھی کثیر رقم صرف ہوئی۔ یہ درگاہ آج بھی مرجع خلائق ہے۔نواب سعادت علی خاں نے صحت کے بعد اربعین تک عزاداری بڑھائی جس کی تقلید میں عام طور سے ایام عزا اربعین تک بڑھا دئے گئے۔ ۱۸۱۴ء میں نواب سعادت علی خاں نے انتقال کیا۔قیصر باغ کی ڈھال پر نواب اور ان کی بیگم کے عالی شان مقبرے آج بھی موجود ہیں جس میں عشرہ محرم کو صبح روزانہ مجالس ہوتی ہیں۔
نواب سعادت علی خان کے بعد ان کے بیٹے غازی الدین حیدر تخت نشین ہوئے۔ غازی الدین حیدر نے اپنے عہد حکومت میں امام باڑہ نجف تعمیر کرایا یہ عمارت دریا کنارے حضرت گنج کے قریب ہے اور یہ اصلی نجف اشرف روضۂ حضرت امیر المومنینؑ کی ہو بہو نقل ہے۔
زمانۂ محرم میں جو آرائش و زیبائش اس عمارت کے اندرونی حصہ میں ہوتی تھی، اس کی شان و شوکت کی کیفیت الفاظ میں ادا نہیں ہو سکتی،اس کی دیوراریں خوشنما شیشہ آلات سے آراستہ تھیں۔ سوسوموم بتیوں والے جھاڑوں، زرد، نیلی اور سبز رنگ کی ہانڈیاں روشنی کی تڑپ کو حد اعتدال پر قائم رکھتی ہیں۔ عمارت کے درمیان میں سبز بلوری تعزیہ رکھا تھا جس کے چاروں طرف مومی شمعیں روشن تھیں۔تعزیے کے داہنی جانب ایک بڑے قدومات کا شیر تھا اور بائیں جانب ایک مچھلی جو نشان فرمانروائی و شہریاری ہے۔ بیش قیمت پٹکے بہ تعداد کثیر جن پر بیش بہا علم لگے تھے۔ امام باڑہ میں روضۂ اقدس کی نقل،خیمہ گاہ حضرت امام حسین ؑ اور پھاٹک وغیرہ ،یہ تینوں چیزیں نقرئی تھیں اور چاندی کی میز پر رکھی تھیں۔ اس کے علاوہ مختلف زمانوں کے بیش قیمت اسلحہ اور ڈھالیں زرہ بکتر اور نیزے بہت سلیقے سے سجے تھے۔ شاہ نے ایک کروڑ روپیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو بطور قرض ایک روپیہ فیصدی سالانہ جمع کردیئے اور اس کی رقم سے مصارف نجف مقرر کئے۔ شاہ غازی الدین حیدر کا تعزیہ ان کی بیوی ملکہ آفاق کی کربلا میں دفن ہوتا جو کربلائے نصیرالدین حیدر کے قریب ہے۔۷؍اکتوبر ۱۸۲۷ء کو شاہ کا انتقال ہوا اور اپنے ہی امام باڑہ میں مدفون ہوئے۔ان کی تین بیویاں مبارک محل ، سرفرازمحل اور ممتاز محل بھی وہیں دفن ہیں۔ ایام عزا میں شاہ کی طرف سے بہت نفیس تبرک تقسیم ہوتا تھا۔
شاہ نصیرالدین حیدر کو اپنے برسر اقتدار ہونے کی طرف سے کچھ مایوسی تھی ان کا خیال تھا کہ نواب محسن الدولہ سر یر آرائے حکومت ہوں گے۔ چنانچہ نصیرالدین حیدر نے بھی منت مانی کہ اگر مجھے تخت شاہی نصیب ہوا تو اربعین تک عزاداری کروںگا۔ چنانچہ نصیرالدین حیدر کی مراد برآئی۔ اور ۲۰ اکتوبر ۱۸۲۷ء کو نصیرالدین حیدر کا بخت بیدار ہوا،انگریزوں نے انہیں کو شاہ مرحوم کا وارث تخت و تاج قرار دیا، چنانچہ شاہ نصیرالدین نے اربعین تک عزاداری کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا اور اسے عوام میں کافی طور سے رواج دیا۔ اور اس طرح عزاداری کی بنیاد اربعین تک مستحکم ہوگئی۔
شاہی تعزیہ جو غازی الدین حیدر کے عہد میں لندن سے بن کر آیا تھا سبز بلور کا ڈھلا ہوا تھا اور اس پر سنہرا مینا کیا ہوا تھا۔ اس زمانہ میں امام باڑوں میں روشنی بکثرت ہوتی تھی اس روشنی میں کارچوبی کام کی چمک دمک اتنی تیز ہوتی تھی کہ آدمی کی نظر چکا چوندھ ہو جاتی تھی۔ علموں کے طلائی و نقرئی پنجوں کی جگمگاہٹ اور ان کے بھاری پٹکوں کی سجاوٹ، زردوزی کام گنگا جمنی کرن کی جھالروں کی زیبائش اور ان کی وجہ سے درودیوار کی آب وتاب گویا سارا امام باڑہ بقعۂ نور ہوجاتا تھا اور روشنی کی کثرت سے رات کو دن کا سماں نظر آنے لگتا۔
نصیرالدین حیدر کے زمانہ میں فالی پارکس ایک فرانسیسی خاتون بہ سلسلہ سیاحت لکھنؤ بھی آئی تھیں انہوں نے محرم کے زمانے کے حالات اپنے سفر نامہ میں لکھے ہیں:۔
’’نہایت شاندار اور بیش قیمت تعزیے عزاخانوں میں محفوظ رکھے رہتے ہیں اور کم قیمت تعزیہ کربلا میں دفن کر دیئے جاتے ہیں، بکثرت سنی اور ہندو تعزیہ رکھتے ہیں۔ تعزیہ مختلف شکلوں اور چیزوں کے بنائے جاتے ہیں شاہی تعزیہ جو سبز بلور کا ڈھلا ہوا ہے ایام عزا میں زیارت کرائی جاتی ہے تعزیے بلور کے میناکار،ہاتھی دانت، آبنوس، صندل چاندی کے ٹھپے دار اور پتھروں کے بنے ہوتے ہیں۔ غریبوں کے تعزیے رنگین ابرک کے ہوتے ہیں۔ ‘‘
مرزارجب علی بیگ سرورؔ، ’فسانہ عجائب‘ میں عہد نصیری کی عزاداری کے بارے میں کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:۔
’’دوازدہ امام ؑ کی درگاہ ایسی بنائی کہ چرخ گردوں کے خواب میں نظر نہ آئی بجز غم حسین ؑ اندوہ غم نہیں، کوئی شاد و خرم نہیں، اربعین تک عزاداری ہوتی ہے۔ خلق خدا ماتم میں روتی ہے۔ لاکھوں روپیہ اس راہ میں صرف ہوتا ہے ،ہر معصوم کی ولادت اور فاتحہ پر لاکھ لاکھ روپیہ صرف ہوتا ہے اس کی ہمت کے آگے فیاضیان گذشتہ پر حرف ہے۔
امام باڑہ اور درگاہ اب قائم نہیں ہے۔ درگاہ ۱۸۵۷ء کے غدر میں منہدم ہوگئی۔
چونکہ یہ زمانہ خوش حالی اور فارغ البالی کا تھا ۔ اسی لئے ہر شخص اپنا تعزیہ شاندار جلوس کے ساتھ اٹھانے پر زور دے رہا تھا۔ اسی عہد میں کریمن ڈومنی نے بھی بڑی دھوم دھام سے تعزیہ داری کی۔ اس کی رسائی قریب قریب ہر محل میں تھی۔مجالس میں ہرادنی اعلیٰ شرکت کرتا۔محلات کو بھی مدعو کیا جاتا ۔ کریمن نے اپنے تعزیے میں یہ جدت کی کہ صرف عورتیں ہی شرکت کرتیں۔ ۱۳؍ محرم کو رات گئے اس وقت تعزیہ اٹھایا جاتا جب سڑکوں پر سناٹا ہو جاتا دس بارہ ہزار عورتیں تعزیہ میں شرکت کرتیں، تعزیہ مصری کی بغیہ میں دفن کیا جاتا ،جلوس مختصر ہوتا ،جلوس کے آگے اور پیچھے شاہی گارد کے سپاہی ہوتے۔ عہد و اجدی تک یہ تعزیہ اسی خدم و حشم سے اٹھتا رہا۔ اس کے بعد ایک نائی نے تعزیہ اٹھانا شروع کر دیا۔
ثقات لکھنؤ راوی ہیں کہ شاہان اودھ میں نصیر الدین حیدر پہلے پہل اپنا تعزیہ میر خدا بخش کی کربلا لے گئے ۔ ایک مرتبہ محرم برسات میں پڑا اور بارش کا امکان پیدا ہو گیا۔ بادشاہ نے محل سرا سے کربلا تک نفیس شامیانے نصب کرا دیئے۔نصیرالدین حیدر نے ۷؍ جولائی ۱۸۳۷ء کو انتقال کیا اور اپنی تعمیر کردہ کربلا واقع ارادت نگر میں دفن کئے گئے، اسی کربلا میں ان کی محبوب بیوی قدسیہ محل بھی دفن ہیں۔
نصیرالدین حیدر کے بعد ثریا جاہ نواب نصیرالدولہ محمد علی شاہ نے بادشاہ کا لقب اختیار کیا اور تخت نشین ہوئے۔ بر وقت تاج پوشی شاہ کا سن اکسٹھ۶۱ سال یا بقول دیگر ۵۳ سال کا تھا۔ کبر سنی اور فیل پاکے علاوہ دیگر عوارض جسمانی بھی لاحق تھے۔ چنانچہ اپنا وقت آخر سمجھ کر کار خیر کی طرف متوجہ ہوئے اور تخت نشینی کے دوسرے سال سے امام باڑہ حسین آباد کی تعمیر شروع کرادی۔ زمانہ شہزادگی میں ان کی ایک لڑکی بطن نواب ملکہ جہاں سے ہوئی تھی جو صغر سنی میں جاتی رہی اور جمنیا باغ میں مدفون تھی، امام باڑہ حسین آباد بھی جمنیا باغ میں تعمیر ہوا اور اس انداز سے تعمیر ہوئی کہ مرحومہ لڑکی کی قبر اس کے صحن میں آگئی۔
محمدعلی شاہ نے ۲۳؍ نومبر ۱۸۳۹ء کو ۳۶ لاکھ روپیہ بشرح منافع ۵ روپیہ فیصدی سالانہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو قرض دیا جس کا منافع ۱۴ ہزار سالانہ ہو تا ہے۔ اس رقم کو شاہ نے مصارف حسین آباد کے لئے وقف کیا۔یہاں یکم محرم سے ۹؍ محرم تک عظیم پیمانہ پر روشنی ہوتی ہے جسے لاکھوں آدمی دیکھنے کو آتے ہیں اور روزانہ صبح کو مجالس ہوتی ہیںجس میں پخت تقسیم کی جاتی ہے۔ساتویں کو مہندی کا جلوس اٹھتا ہے۔پہلی محرم کو ضریح زبردست جلوس کے ساتھ حسین آباد لائی جاتی ہے۔ ۱۰؍ محرم کو اسی عظیم الشان جلوس کے ساتھ کاظمین لے جاکر دفن کی جاتی ہے۔ ضریح بھی اپنی انفرادیت کی وجہ سے ہندوستان بھر میں مشہور ہے جو موم سے بنائی جاتی ہے۔ محمد علی شاہ نے ۱۶؍ مئی ۱۸۴۲ء کو اس دنیا سے انتقال کیا اور امام باڑہ حسین آباد میں دفن ہوئے۔
محمد علی شاہ کے بعد جمجاہ امجد علی شاہ تخت نشین ہوئے۔یہ بھی بہت متشرع بادشاہ تھے۔ صرف پانچ سال حکومت کی۔ان کے عہد حکومت میں کوئی نئی ترقی نہیں ہوئی،نہ انہوں نے کوئی نئی عمارت تعمیر کرائی البتہ ان کے عہد میں میر انیسؔ نے ترک فیض آباد کر کے لکھنؤ میں سکونت اختیار کی اور شیدیوں کے احاطہ میں فردکش ہوئے۔یہ محلہ لوہے والے پل کے مغرب کی طرف جہاں اب ریل کا پل ہے واقع تھا ۔اسی قبرستان میں میر انیسؔ کے والد میر خلیقؔ کی قبر ہے جس کا نشان نہیں ملتا۔ میر صاحب کی عمر ۴۲ سال کی تھی اور مرثیہ میں شہرت پا چکے تھے۔
دیانت الدولہ کو میر صاحب سے بڑی عقیدت تھی جس کی بنا پر انہوں نے اسی محلہ میں ایک امام باڑہ اور ایک محل سر ا تعمیر کرائی جہاں میر صاحب سے پہلی مجلس پڑھوائی اور محل سرا میر صاحب کی نذر کردی۔۱۸۵۷ء تک میر صاحب اسی حویلی میں رہے۔اس کے بعد راجہ بازار میں آگئے۔بعدہٗ گھسیٹن سے ایک مکان سبزی منڈی میں خرید کر وہاں مستقل سکونت اختیار کی۔ امجد علی شاہ نے ۱۳؍ فروری ۱۸۴۷ء کو انتقال کیا ۔
امجد علی شاہ کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے واجد علی شاہ تخت نشین ہوئے۔انہوں نے اپنے والد کی قبر پر جو حضرت گنج میں بنی تھی ۷ لاکھ روپیہ صرف کر کے ایک مقبرہ تعمیر کرایا جو حسین آباد کی نقل ہے جس کا نام سبطین آباد رکھا ۔ محرم میں اس میں بھی روشنی ہوتی تھی، قیمتی قالین اور بیش بہا شیشہ آلات سے آراستہ تھا ۱۸۵۷ء کے غدرمیں بلوائیوں نے تمام سامان لوٹ لیا یا برباد کر دیا اس امام باڑہ میں کسی تاریخ واجد علی شاہ اپنا نو تصنیف مرثیہ پڑھتے تھے۔
شاہان اودھ میں ایک واجد علی شاہ ہی ایسے بادشاہ ہوئے ہیں جو اعلیٰ پایہ کے شاعر، مدبر، دانشور اور مقبول حکمراں تھے۔ ایک اندازے کے مطابق جو اس وقت کی تحقیقات کا نتیجہ ہے، واجد علی شاہ کی تصنیفات کی تعداد سو ہے جو ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ واجد علی شاہ نے بھی بڑی حوصلہ مندی اور دریا دلی سے عزاداری کی۔
قیصر باغ کی سفید بارہ دری جو در اصل امام باڑہ ہے قصرالبکا نام تھا اس میں بڑے اہتمام سے عزاداری ہوتی تھی یہاں ۹ تعزیہ چاندی کے تھے جو بڑے خوشنماتھے اور ایک ضریح خاک پاک کی رکھی تھی،خود شاہ ۴؍ محرم کو اپنا نو تصنیف مرثیہ پڑھتے تھے۔ اور مجالس عزا بڑے اہتمام سے منعقد کراتے۔یہی، وہ امام باڑہ ہے جہاں میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ نے یکجا اپنے اپنے مراثی پڑھے۔ اس سے قبل یا بعد ایسا اتفاق نہ ہوا ۔محرم میں نقری اوٹوں پر سیاہ کپڑا لپیٹ کر اس کی کھونٹیوں پر نقری و طلائی علم جو اہر نگار پنچے ، آب دار خنجر اور مرصع قبضوں کی بیش بہا تلواریں وغیرہ زیارت کے لئے سجی جاتی تھیں ۔چالیس دن تک زبردست روشنی کا اہتمام رہتا۔
نویں محرم کو غیر معمولی طور پر صاف و شفاف روشنی ہوتی ۔ غربا اور مساکین کو شربت اور کھانے کے حصے اور ۶؍محرم سے نہایت نفیس اور پر تکلف کھانوں کے حصے تورہ بندی کے طور پر وسیع پیمانہ پر تقسیم کئے جاتے ۔ آٹھویں کو سہ پہر سے شربت غربا میں تقسیم کیا جاتا ،رات میں حضرت عباسؑ کی نذر ہوتی۔نویں محرم کی بہت ہی اہم تاریخ ہوتی تھی۔ اس روز دن بھر مجالس منعقد ہوتی تھیں اور رات کو روساء و شرفا اور دیگر تعزیہ دار رعایا کے گھروں پر نہایت پر تکلف روشنی ہوتی تھی۔
ایام عزا میں اکثر امراء روساء و شرفاء علم و تعزیے کے جلوس بڑے تزک و احتشام سے نکالتے۔ دولت سرائے سلطانی میں بھی محرم کے موقع پر ہر سال بڑے بڑے درجنوں تعزیے جلوس کے ساتھ گشت کرکے رکھے جاتے۔یہ جلوس نہایت ہی تزک و احتشام سے نکلتے۔ جلوس میں نوبت خانہ، سبیل اور متعدد ہاتھی جن پر پرتکلف جھولیں پڑیں ہوتیں، ماہی مراتب اور اونٹوں کی قطار جن پر علمبردار سوار ہوتے، سواروں اور پیادوں کی پلٹنیں، برق انداز، بلم بردار، بینڈ باجے جور زمیہ دھنیں بجاتے ،اس کے بعد علم بردار ، پھر دلدل ، تابوت ، ماتمی دستے نوحہ خوان اور عصا برداروں کے غول ہوتے جن پر روپیہ پانی کی طرح بہادیا جاتا۔
فاقہ شکنی
تاریخ کے مطالعہ سے اگر پتہ چلتا ہے تو عہد و اجدی ہی میں فاقہ شکنی کا رواج عام طور سے شیعوں میں ہوا۔تاریخ کی روشنی میں اور کسی بادشاہ کے عہد میں فاقہ شکنی کی رسم کا پتہ نہیں چلتا۔
عاشور کے دن قصر سلطانی واجد علی شاہ میں جب تک سہ پہر کو تعزیہ دفن کر کے جلوس واپس نہ آجاتا اس وقت تک کوئی نہ ایک لقمہ کھاتا اور نہ پانی پیتا حتی کہ شیرخوار بچوں کو بھی مائیں اس وقت تک دودھ نہ دیتیں جب تک گھر کے تعزیے دفن نہ ہوجاتے۔ سہ پہر کو فاقہ شکنی ہوتی،اس کے بعد سب کھانا پینا شروع کرتے۔
اربعین کے بعد
عہد واجدی میں بخشو آرائش گرنے اپنی ضریح ۲۱؍صفر کو اٹھانی شروع کی۔اس طرح اس عہد میں ایک نئی تاریخ کا سنگ بنیاد پڑا اور عزاداریٔ مظلوم میں ایک نئی تاریخ کا اضافہ ہوا۔ واجد علی شاہ نے مچھلی والی بارہ دری سے جلوس ضریح کی زیارت کی اور بخشو کو شرف حاضری بخشا۔اس کے مالی اعانت قبول نہ کرنے پر شاہی جلوس کی منظوری دی۔اس کے بعد سے بخشو کا تعزیہ شاہی جلوس کے ساتھ برابر اٹھتا رہا ۔اس کا ڈھانچہ خود بخشونے اپنے ہاتھ سے تیار کیا تھا۔ یہ ضریح دفن نہیں کی جاتی اور گشت کراکے واپس لائی جاتی ہے۔ اس کے بعد آگے تاریخوں میں اضافہ ہونے لگا اور روساء وامراء نے اپنے تعزیے خاص اہتمام و جلوس سے اٹھانے شروع کئے ۔یہ سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ غدر کے بعد نواب اغن صاحب نے جو اس وقت کے روساء میں تھے اپنا تعزیہ ۸؍ربیع الاول کو اٹھا یا جو اگر چہ جلوس کے ساتھ اٹھتا تھا مگر بہت خاموش اور یہ تعزیہ ’چپ تعزیہ ‘کے نام سے مشہور ہوا۔صرف نقیب کوئی دلدوز نوحہ کا مصرعہ بلند آواز میں پڑھتا اور سامعین کے گریہ کا شورا ٹھتا پھر سکوت طاری ہوجاتا۔ یہ تعزیہ چاہ کنکر سے اٹھتا ہے اور کئی ہزار کے مجمع کے ساتھ کاظمین میں دفن کیا جاتا ہے۔ ہزاروں آدمی زیارت کو آتے ہیں۔
بعد انتزاع سلطنت جب واجد علی شاہ مٹیا بزج میں قید کئے گئے، انہوں نے عزاداری کا سلسلہ وہاں بھی شروع کیا۔ ان کا قائم کردہ امام باڑہ آج بھی موجود ہے جہاں بڑی بڑی مجلسیں ہوتیں لکھنؤ کے اعلیٰ پائے کے ذاکرین مجالس میں ذاکری کرتے تھے۔ بہرحال یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آج جس اہتمام سے عزاداری کرتے ہیں اور جو انہماک اور شغف امام مظلومؑ کی عزا کے سلسلہ میں نظر آتا ہے یہ سب شاہان اودھ کی دین ہے ورنہ ممکن تھا کہ عزاداری اس منظم طریقہ پر کرنے کے ہم لوگ اہل نہ ہوتے۔
خ تاریخ اودھ و دیگر کتب خ سفرنامہ پادری ہبر صاحب
خ عادات و اطوار مسلمان ہند خ تفیضح الغافلین
خ سفرنامۂ ڈاکٹر بلبن خ فسانۂ عجائب و دیگر کتب