اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ ساتھ مخلوق و محکوم پروردگار ہے اور اس کی ہر چیز پر صرف خدائے وحدہ لا شریک کی حکومت و ولایت قائم ہے اس نے امور کائنات کی تدبیر اور بندوں کی ہدایت کے لئے نبی اور امام معین فرمائے ہیں جنہیں خلیفۃ اللہ کے نام سے تعبیر کر کے اپنی ولایت و حکومت کا امانت دار بنایا ہے ۔
کائنات کی تخلیق سے لے کر ہر دور میں خدائی رہنماؤں کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ زمین پر صرف خداوندعالم کی حکومت کے قیام کی عمل راہ ہموار کریں تمام انبیاء و اولیاء الٰہی اپنی پوری حیات میں اسی مقصد کے لئے جد و جہد فرماتے رہے اگر چہ بعض اوقات جزوی طور پر دنیا کےمختلف علاقوں میں بعض اولیاء الٰہی کی حکومتیں قائم بھی ہوئیں جیسے جناب داؤد ،جناب سلیمان،جناب یوسف وغیرہ کی حکومتیں جہاں ولایت الٰہی کی جلوہ افروزی کی نمایاں مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
پر وردگار عالم نے تمام انبیاء الٰہی میں سے سب سے آخر میں خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰؐ کو بھیجا جن کے ہاتھوں میں ایک مکمل دستور حیات دیگر آپ کو قیامت تک آنے والی نسلوں کا ذمہ دار قرار دیا پھر آپ کی خلافت و نیابت کے طور پرایک نیا سلسلہ ہدایت قائم کیا جسے امت اسلامی کی زعامت و سرپرستی کے ساتھ ساتھ منصب ہدایت بھی عنایت فرمایا اس منصب ہدایت کو امامت سے تعبیر کیا جاتا ہے پیغمبر اسلام ؐاپنے زمانے میں پوری کائنات کے حاکم سرپرست اور ولی و سربراہ تھے اور جہاں آپ کی رسالت وہدایت کی آواز پہنچ چکی تھی وہاں آپ کی حکومت ولایت کو عملی طور پر تسلیم کیا جا چکا تھا چنانچہ چاہے عرب کے کفار ہوں یا یثرب کے یہودی یا پھر نجران کے عیسائی سب کو کسی نہ کسی صورت پیغمبر اسلام ؐ کی سرپرستی اور ولایت کو قبول کرنا پڑا چاہے وہ میدان جنگ میں شکست کھاکے ہویامیدان مباہلہ میں تسلیم ہوکے
پیغمبر اسلامؐ کی وفات کے بعد آپ کے بنائے ہوئے شرعی اور قانونی جانشین حضرت علی ؑ جنہیں خداوند عالم نے اپنی جانب سے وہی ولایت وحکمرانی کا حق اور صلاحتیں عطا فرمائیں تھیں جو رسول اسلامؐ کے پاس تھیں اور اسی لیے انھیں پیغمبر اسلامؐ نے اپنی آخری خطبہ میں اپنا جانشین معین کیا تھا جن کے ذریعہ قیامت تک اپنی حکومت الٰہی کی عملی صورت کی تکمیل ہو سکتی تھی انہیں چھوڑ کر امت اسلامی نے الگ راہ کا انتخاب کیا ورامت کی قیادت کے لئے اپنے درمیان سے اپنے جیسے افراد کو چن لیا جس کے نتیجہ میں خود اسلام کی پیروی کرنے والوں کے در میان بھی خدائی حکومت کے امکانات ختم ہوگئے ولی الٰہی کو الگ کر کے حکومت اسلامی کا قیام بھلا کیسے ممکن ہوسکتا ہے اور کسی عام انسان کی حکومت کو خداوند عالم کی خلافت وجانشینی کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے جس کی زندگی میں خطا و نسیان کا امکان پایا جا تا ہو یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم نے اپنی اولاد اور اپنے رسول کی اطاعت کے ساتھ اولوالامر کے طور پر صرف انہیں افرادکی اطاعت کا حکم دیا ہے جو اس کی جانب سے اس کے رسول کے ذریعہ پہنچوائے گئے ہوں ۔
مولائے کائنات روی زمین پر خدا ئی حکومت قائم کرنے کے ذمہ دار تھے لہذاجب بھی موقع ملا آپ نے اس حق کے لئے احتجاج فرمایا آپ اس راہ میں جد و جہد کو اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ خود آپ نے اور آپ کی زوجہ حضرت فاطمہ زہراؐ نے دربار میں جاکر غاصب حکومت کو للکار کر حقدار کو حق حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا اگر چہ ابتدا ئےاسلام میں کسی فتنے اور اختلاف سے بچنے کے لئے اصل اسلام کی حفاظت کی خاطر آپ کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جسے حکومت کے حصول کی راہ میں خون بہانے اور اختلافات پیدا کرنے سے تعبیر کیا جا سکے یہی وجہ ہے کہ آپ خاموشی سے اصل اسلام کی حفاظت اور ا س کی تقویت کے لئے دوررس تدبیروں کےپیش نظرامت اسلامی کی قیادت و سرپرستی میں مصروف ہوگئے ۔
حکومت اسلامی کے قیام کی راہ میں آپ کی مدبرانہ جد و جہد جاری تھی یہاں تک ۳۶ ھ میں حکومت کو آپ کے دروازہ پر سجدہ کرنا پڑا اور امت اسلامی نے دہائی دیتے ہوئے آپ سے اسلامی قیادت قبول کر لینے کی درخواست کی آپ نے اپنے شرائط پر اس درخواست کو قبول کر لیا اور ایک مرتبہ پھر رسول اسلا مؐ جیسی اسلامی حکومت قائم ہوگئی جو یقیناً خدائی حکومت کا عینی مصداق تھی مگر ہمیشہ کی طرح شیطانی طاقتوں کو خدائی خلیفہ کے ذریعہ خدائی حکومت راس نہ آئی اور مختلف بہانوں سے ا س کے مقابل آگئے بصرہ میں جنگ جمل ،صفین میں معاویہ سے جنگ صفین اور نہروان میں خوارج سے جنگ نہروان جن کا نعرہ خدائی حکومت تھا لیکن وہ خدائی حکومت کے نام پر جہالت کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے ۔ان تمام جنگوں میں فتح و کامرانی کے باوجود مولائے کائنات کی حکومت کو غیروں سے لے کر اپنوں تک سے جس طرح کی کشمکش کا سامنا رہااس سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں ۴۰ ھ میں مولائے کائنات کی شہادت کے بعد یہ خدائی حکومت امام حسن ؑ کے حوالہ ہوئی شیطانی سازشیں اس کے خاتمہ کے لئے ایک بار پھر شدت اختیار کرنے لگیں تو نواسہ رسول نےایک بارپھر اصل اسلام اور امت اسلامی کے جان و مال کی حفاظت کے لئے اپنے بابا کے طرز پر صلح کر کے حکومت چھوڑ دی اگرچہ صلح نامہ میں ایسی شرائط تحریر کر دیں جس سے دوبارہ جلد از جلد ہی خدا ئی حکومت اس کے نمائندوں کے ذریعہ قائم ہوسکے امام حسین ؑ نے صلح نامہ کے شرائط میں تحریر اس شرط کی مخالفت کے بعد کہ حکومت حاکم شام معاویہ کے بعد امام حسنؑ یا ان کی عدم موجودگی میں امام حسین ؑ کے حوالہ کی جائے گی قیام کیا اور اپنے نانا کے دین کو ابدی حیات عطا کرنے کے ساتھ ساتھ خاندان اہل بیت ؑ کی جانب سے خدائی حکومت کے قیام کی راہ میں جد و جہد کی اعلیٰ مثال پیش کی اگر چہ اس راہ میں آپ کی شہادت واقع ہوگئی اور خدائی حکومت کے قیام کا منصوبہ عملی جامہ نہ پہن سکا لیکن دلوں پر اس گھرانے کی حکومت اس طرح قائم ہوگئی کہ کبھی کبھی ایسے حالات پید اہوسکتے ہوں جہاں حسینی جیالے خدائی حکومت قائم کرنے کی راہ میں آگے بڑھ کر اپنے آقا کے اس منصوبہ کو پورا کر سکیں چوتھے امام کے زمانے سے حکومتی نظام اور ظالموں کی طرف سے تھوپے گئےگھٹن کے ماحول میں کسی معصوم کے لئے اپنی خدائی حکومت کے لئے عملی قیام کی صورت ممکن نہ ہوئی اگر چہ وقتاً فوقتاً خاندان اہل بیت ؑ کے افراد ظالم حکومتوں کے خلاف قیام کر کے ان کی نا اہلی کا ثبوت فراہم کرتے رہے گیارہویں امام کی شہادت کے بعد بارہویں امام ؑ کی غیبت کا دور شروع ہوگیا جو پہلے غیبت صغریٰ کی شکل میں تھا پھر غیبت کبریٰ ہوگئی اور امت اسلامی کی قیادت کے لئے ایک نئے نظام ہدایت کی بنیاد پڑی جسے مرجعیت دینی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس مرجعیت کا اتباع کرنے والےمقلد کہلاتے ہیں دور غیبت میں نظام مرجعیت نے اپنے آقا کی رہنمائی اور سرپرستی میں ہمیشہ امت اسلامی کی قیادت اور ان کی رہبری کا فریضہ انجام دیا ہے یہ افراد بھی اپنے معصوم رہبروں کی طرح ہمیشہ خدائی حکومت کے قیام کی راہ میں خاموش تدبیریں کرتے رہے تاکہ اسلام سر بلند رہے مر جعیت بھی اگر چہ معصوم قیادت کے ادوار کی طرح ہمیشہ ظلم و ستم کے ماحول میں ایک طرح سے گھٹن کا شکار ہی جس کی وجہ سے عملی طور پر حکومت کے قیام کی صورت پیدا نہ ہوسکی جب کہ قربانیوں کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا نہ جائے کتنے علماء و مراجع کو شہادت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور نہ جانے کتنے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے آخر کارعصر حاضر میں ان سب کی جد و جہد رنگ لائی اور ایک ملک میں ہی سہی ظالم حکومت کےخلاف آواز بلند ہوئی حکومت اپنے مظالم کی انتہا پر پہنچنے کی وجہ سے ختم ہونے کی کگار پر پہنچ گئی ایسے وقت میں اگر چہ ظالم کے خلاف قیام کا راستہ دینی مرجعیت کے ذریعہ ہی ہموار کیا گیا تھا لیکن اقتدار پرستوں کی ہوسناک نگاہیں شاہ کی گرتی ہوئی حکومت کی جگہ پر اپنی ہویٰ و ہوس کا اقتدار قائم کرنے کی تگ و دو میں لگ گئیں دینی مرجعیت جس نے امام خمینی کی شکل میں ظالم حکومت کےخاتمہ کی راہ ہموار کی تھی اس نےاس عظیم انقلاب کواپنے حسن تدبیر سےا س عظیم خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کاذریعہ قراردیا جو انبیاء ؑ سے لے کر تمام ائمہ معصومین ؑ اور مراجع دینی نے اسلامی حکومت کے قیام کے لئے دیکھا تھا لہٰذا آپ نے اس انقلاب کو انقلاب اسلامی کا نام دیکردنیا کے ایک چھوٹے سے گوشے میں ہی سہی تجلی ولایت الٰہی کا راستہ ہموار کیا انقلاب اسلامی ایران ۱۱؍فروری١۹۷۹ کو کامیاب ہوا فقہاء اسلام کی نگرانی خاص طورپر مرجع عالیقدر امام خمینیؒ کی قیادت میں ایک ایسی اسلامی حکومت قایم ہوئی جس کی بنیاد کتاب خدا اور سنت معصومین ؑ ہوامام خمینی کی جانب سےاس حکومت کے لئے جمہوری نظام حکومت کو اپنا کر آج کی دنیا کے ساتھ ہماہنگ کرکے خدائی حکومت کو عوامی مقبولیت کے ساتھ نافذ کرنے کی تدبیر کی گئی الحمداللہ یہ اسلامی انقلاب اسلامی حکومت کے قیام کی راہ میں وہ سنگ میل ثابت ہوا جسے بنیاد بنا کر ساری دنیا میں خدائی حکومت کے قیام کے لئے عملی جد و جہد شروع ہوئی مشرق وسطیٰ سے لے کر افریقا کے دور دراز علاقوں تک ظلم و ستم کا نشانہ بننے والی قومیں اپنی حکومتوں کے خلاف اس خدائی حکومت سے سبق لیتےہوئے کھڑی ہوگئیں اگرچہ مکمل طور پراس طرح کی قرآنی حکومت ابھی تک کسی اور ملک میں قائم نہیں ہوسکی لیکن قوموں کی بیداری کو دیکھتےہوئے وہ دن دور نہیں جب پوری دنیا معصوم قیادت کو قبول کرنے کے لائق ہوجائے اور خدائی حکومت کا اصلی وارث غیب سے آکر قرآنی آیتوں میں وعدہ کی گئی اس حکومت کو قائم کر دے جو عدل و انصاف سے بھری ہوئی ہو جس طرح ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے ۔
امید ہے یہ انقلاب اسلامی جس کی قیادت فقیہ عادل کے ہاتھوں میں ہےحقیقی معنوں میں ولایت الٰہی کی تجلی ثابت ہو کر ظہور قائم کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور یہ انقلاب اسلامی ایران اپنے عظیم رہبر کے ہاتھوں زمانے کے معصوم امام کے حوالہ ہوگا۔
دور غیبت میں نیابت امام ؑ میں حاکم اسلامی اگرچہ غیر معصوم ہیں لیکن فقیہ عادل کی اس حکومت نےحتیٰ الامکان اپنے معصوم رہنماؤں کی تعلیمات کی روشنی میں پوری دنیا کے سامنے اسلامی حکومت کی اعلیٰ اقدار کو پیش کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور جہاں بھی مظلوموں اور پچھڑے ہوئے افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے فقیہ عادل کی یہ حکومت سے سب سے پہلے سینہ سپر رہتی ہے چاہے وہ فلسطین میں غاصب اسرائیل کی حکومت ہو یایمن میں سعودی جارحیت افریقا کے دور دراز علاقوں میں عالمی استکبار کے مظالم ہوں یا سیریا اور عراق میں داعش کا ناپاک وجود سب کے مقابلے کے لئے صرف اور صرف علوی حکومت کے یہ فقیہ نمایندے ہی ہیں جو اپنے معصوم امام ؑ کی خوشنودی کی خاطر کمر بستہ رہتے ہیں اور اس راہ میں درپیش خطرات سے ذرہ برابر نہیں گھبراتے آج ایران پر عالمی استکبار کی جانب سے پابندیوں کی جو کیفیت ہے اس سے اسے کتنے مسائل سے جوجھنا پڑرہا ہےیہ وہاں کے صاحبان اقتدارافراد سے لیکر عوام تک جانتے ہیں لیکن پھر بھی خدا سے کئے گئے اپنےعہد و پیمان پر باقی ہیں کہ ہم اپنی اس حکومت کو ولایت الٰہی کی جلوہ گاہ قرار دیتے ہوئے زمانے کے امام ؑ کےظہورکا زمینہ فراہم کر کے رہیں گے۔
امید ہے خداوند عالم غیب سے اپنے آخری ولی کو بھیج کر ظالموں کی شام اور مظلوموں کی حقیقی صبح کامژدہ جلدی سنائے گا ۔