( ایک فارسی نظم سے استفادہ کرتے ہوئے شہید قاسم سلیمانی کی خدمت میں خراج عقیدت)
دوسروں کے وجود کی حفاظت کرتے کرتے۔
اپنے ظاہری وجود کو مٹا دیا اس عظیم ہستی نے۔
جس کو باطن سے اتنا پیار تھا
کہ جسم کے ٹکڑوں تک کو محفوظ رکھناگورا نہ کیا ۔
سوائے اس ہاتھ کے جس سے ظالم کے گریبان کو پکڑ کر مظلوموں کا حق دلایا تھا ۔
سوائے اس ہاتھ کے جس سے اپنے آقا کا ماتم کیا تھا کچھ بچے گورا نہ تھا اس شہید کو ۔۔۔
اپنی جاں کو فدا ئے جاناں کر دیا اس سورما اور آسمانی شخصیت کے حامل مرد مجاہد نے۔۔۔
شاہنامہ فردوسی کے میدان کے بیچ و بیچ پہنچ کر اس شخصیت نے۔
ایک اور رستم کو زمیں پر پچھاڑ دیا۔
کون تھا آخر قاسم سلیمانی؟
اپنی ذات میں ایک لشکر تھا اور ہر جنگ کا زخم اپنے بدن پر سجائے باطل کے خلاف بر سر پیکار ایک نابغہ روزگار شخصیت نہ اسلحہ نہ زرہ نام پروردگار کو اپنی زرہ بنا کر محاذ جنگ کی پہلی صف میں ہمیشہ حاضر ،
نہ دشمن سے کوئی باک نہ ڈر شہادت کے لئے بیتاب ۔
ہر اس مقام پر حاضر جہاں دشمن موجود ۔ جب میدان کارزار میں پہنچا تو محاذ جنگ اسکی خوشبو سے ہی پرسکون ہو جاتا کہ اب گھبرانے کی ضرورت نہیں سلیمانی موجود ہے ۔
نماز کا انداز وہی تھا جوامیر کائنات کا تھا راتوں کو جاگ جاگ کر گریہ ویسے ہی جیسے مولا تڑپتے زارو قطار۔۔۔
سبحانک ما خلقت ھذا باطلا ، نرالا رنگ بندگی تھا ایک مرتعش آواز دل سے نکلی ، کتنا بڑا داغ دے دیا ظالموں نے ، کیسی عظیم ہستی کو ہم سے چھین لیا۔۔۔۔
لبوں سے یہ جملے نکلے ہی تھے ، ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ قاسم سلیمانی کی وجہ سے ہے ہم قاسم سلیمانی سے عہد کرتے ہیں جس پرچم کو اس مجاہد نے اٹھایا تھا اسے گرنے نہیں دیں گے کہ ۔
ناگاہ آسمان سے ہاتف کی آواز آئی۔۔۔
قاسم سلیمانی تو اب بھی زندہ ہے ۔
تم دیکھتے کیوں نہیں قاسم سلیمانی تو اب بھی زندہ ہے
تم سوچو! گزرگاہ حیات پہ کہاں کھڑ ے ہو ؟۔۔۔
زندہ لاش کی صورت ، ساکت و بے حرکت جبکہ قاسم سلیمانی تو اب بھی
شہر عشق میں وہیں پر کھڑا ہے جہاں پہلے تھا ۔
ہر گلی ہر کوچے میں جہاں عشق کے دریا میں دشمن زہر گھولنے کی تگ و دو کر رہا ہے
دیکھو تو سہی
دریاوں سے گزر کر مشغول کارزار ہے سلیمانی
گرم پہاڑوں کی آغوش میں
خشک صحراوں و تپتے ریگزاروں کے درمیاں۔۔۔
برفیلے تودوں کے درمیان اپنے وجود کی حرارت لئے ۔۔۔
کسی زخمی کو سینے سے لگائے ، کسی غریب کے آنسو صاف کرتے ہوئے۔۔۔
کسی نحیف و ناتواں جسم کو اپنی پشت پر لادے
وہ تو زندہ ہے اور مقصد کی جانب گامزن ۔
گلی کوچوں اور سڑکوں پر ہر طرف سلیمانی ہے
قاسم سلیمانی زندہ ہے قرآن کی آیتوں میں جا بجا کہ شہید کبھی نہیں مرتا
یہ مجاہد زندہ ہے اپنے اسی مورچے میں جہاں سے وہ دشمن کے حملوں کو پسپا کر رہا تھا۔۔۔
اور ابھی بھی مورچے میں اسکی حرارت کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔۔۔
قاسم سلیمانی صبح فتح موعود تک ہمارے ساتھ ہے ہمیں سوچنا ہے کہ ہم آج کی صبح کہاں کھڑے ہیں؟۔۔۔
خطروں کے سینے کو چیر کر قاسم سلیمانی اب بھی دشمن کے مقابل ڈٹا ہے ۔۔۔
قاسم سلیمانی اب بھی زندہ ہے اور ہمارے ساتھ یہیں ہے
اسی محفل میں جہاں ہم بیٹھے ہیں ، یہیں پر یقینا ایک قاسم سلیمانی بھی ہے ہمیں اپنے آنکھوں کی روشنی بڑھانی ہوگی دیکھیں گے تو نظر آئے گا
وہ مجاہد جو ایک پہاڑ تھا ایسا پہاڑ جس کو لانگ پانا دشمن کی اوقات میں نہ تھا ایک بلند و بالا خوبصورت پہاڑ
ایک ایسا عاشق اہلبیت ع جس کے لب یا زہرا کے نام سے معطر تھے تو آنکھیں مولا کی یاد میں اشکبار
جس کی آنکھوں میں مالک اشتر کو رکاب ِمولا میں جنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا
دفاع حرم میں جسکی بیقراری آج بھی تلہ زینبیہ پر موجود ایک بہن کی بھائی تئیں بےقراری کو بیان کر رہی ہے ۔
اگر اس مجاہد کی حرارت ہمارے وجود کا حصہ بن جائے تو ہم بھی اسی کی طرح سر بلند ہیں اور رہیں گے
ہم بھی اس لشکر کا حصہ بن جائیں گے۔۔۔
جسے قدس کہا جاتا ہے جس کا رہبر سید خراسانی ہے
میں نے ایک بار پھر کہا جو کچھ ہمارے پاس ہے قاسم سلیمانی کا ہے ہم کیوں کر انکا پرچم کسی کو دے سکتے ہیں ہم انکے بعد بھی انکے پرچم کو گرنے نہیں دیں گے
نا گہاں آسمان سے ہاتف کی صدا آئی قاسم سلیمانی اب بھی زندہ ہے
اب بھی سامراج کے خلاف جنگ جاری ہے اب بھی سامراج تم سے ڈرتا ہے اب بھی تمہارے نعروں سے بھاگتا ہے۔
شرط یہ ہے کہ نعروں کا آہنگ یہی رہے نعروں کا رنگ یہی رہے
اب بھی داعش کا منھ کالا ہے اب بھی شیعت کا بول بالا ہے۔۔
اب بھی ڈرے ڈرے سہمے ٹویٹس کے طوفان میں
کسی طاقت ور کہنے والے ملک کی کشتی کا نا خدا آنے والے خطرے کی بے لگام موجوں کے بیچ ہچکولے لے رہا ہے ۔
اور ملکی سیاست کی ناوں ڈانوا ڈول ہے اسکا مطلب ہے اب بھی شہید قاسم سلیمانی زندہ ہے
دھمکیاں کسی مردہ کو نہیں دی جاتی ہیں ۔
دھمکیوں کا سیدھا خطاب زندوں سے ہوتا ہے ، اگر کوئی شک کرتا ہے کہ قاسم سلیمانی زندہ ہے یا نہیں تو دیکھے جو دھمکیاں کل دی جا رہی تھیں وہ جاری ہیں یا نہیں ۔
اگر جاری ہیں تو قاسم سلیمانی آج بھی زندہ ہے
سلیمانی کا لہو باطل پرستوں کے نشمین پر برق شرر بن کر گر رہا ہے
کتنی زبردست چوٹ ہے کل قاسم سلیمانی کے ہاتھ کی ضرب سے ظالموں کے رخسار سرخ تھے آج سلیمانی کے لہو کی مار سے اہل ستم کے چہرے سیاہ دکھتے ہیں
ہم کیسے مان لیں کہ قاسم سلیمانی زندہ نہیں
سلیمانی زندہ ہے تبھی تو باطل کے رخ پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں
کہ کل کا پتہ نہیں سلیمانی کا لہو کہاں اور کب ظالم کے گلے میں طوق بن کر لٹک جائے اور زمانے کے فرعون کو شہداء کے خون سے لبالب وقت کے بہتے نیل تک کھینچ لاٙئے اور پھر اسی کے اندر غرق کر دے
پینے پلانے والے وقت کے فرعون کا۔دم پانی سے گھونٹ دے ۔
اور اسکی لاش کو باہر پھیک دے کہ اسے مومیای کر کے ہمیشہ کے لئے محفوظ کرو جو کسی موسی صفت زندہ قوم کے زندہ وجاوید سورما سے ٹکڑانے کی ہمت کرتا ہے اسکا انجام یہی ہوتا ہے۔