دمشق میں ایک سال یزید کی قید سے اہل حرم کے ہمراہ رہا ہوکرحضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے جد کے مدینہ میں سکونت اختیارکرنے کا فیصلہ کیا۔ اک روایت کے مطابق رہائی کےوقت یزید نے یہ فیصلہ آپ پر چھوڑ دیا تھا کہ آپ چاہیں تو دمشق میں رہیں یا مدینہ واپس چلے جائیں۔ اس وقت امام نے اپنی پھوپی حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے مشورہ سے مدینہ واپس جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ مدینہ میں آپ سنہ 95 ھجری اپنے وقت شہادت تک قیام پذیر رہے۔
تاشہادت آپکے مدینہ میں قیام کی اک وجہ تو یہ کہی جا سکتی ہے کہ مدینہ منورہ آپ کا مولد اور وطن تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ حکومتی سیاسی سرگرمیوں اوریزید کی پوری سلطنت میں جگہ جگہ بغاوت پھیلنے کے نتیجہ میں ہونے والے انتشارکے درمیان امام اپنی روحانی ہدایت کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھنا چاہتے تھے۔
آپ کی یہ مدت حیات مدینہ منورہ میں بظاہرگوشہ نشینی میں گزری۔ اس وقت کے سیاسی حالات کے پیش نظرآپ نے اپنی سکونت مدینہ کے نواح میں ' منبع 'کے مقام پرگزاری جس سے بظاہر یہ عندیہ ملتا ہے کہ آپ نے اپنا زیادہ تروقت گوشہ نشین رہ کرگزارا۔ گو کہ یہ بظاہر گوشہ نشینی اس دور کے سیاسی حالات کے پس منظر میں آپ کی دوراندیش حکمت عملی کا حصہ کہا جاسکتا ہے مگر امام وقت کی ذمہ داریاں غیر فعال زندگی کی متحمل نہیں ہوسکتی تھیں۔
یہ بات تاریخ سے ناواقفیت اورعصبیت کی بنیاد پرتوکہی جا سکتی ہے کہ امام معاذاللہ حکومت وقت کے مظالم کے خوف سے مدینہ سے باہر گوشیہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے مگر تاریخ شاہد ہے کہ امام نے اس وقت جب وہ طوق و زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور اہل حرم رسن بستہ تھے اورحاکم وقت یزید اپنی پوری طاقت اورشان و شوکت سے اپنے ہزاروں محافظوں سے گھرا تخت پر بیٹھا تھا جہاں کسی کو لب کشائی کی اجازت نہ تھی ِمنبر پرجاکر یزید کے فسق و فجورکوعلی الاعلان بیان کیا تھا تو وہ پس رہائی بھلا حکومت وقت سے کیوں کر خوف زدہ ہو سکتے تھے۔
بلکہ دمشق میں قید کے دوران اور رہائی کے وقت امام عالی مقام کے جرائت مندانہ اقدامات کو مشاہدہ کی بنا پر یزید نے اپنے مقررکردہ والئی مدینہ کو یہ حکم دیا تھا کہ علی ابن الحسین سے نہ کوئی تعرض کرنا اور نہ ہی سوال بیعت کرنا۔ تاریخ شاہد ہے کہ یزید کے اس سفاک حاکم نے نے امام سے کبھی بیعت کو سوال نہ کیا۔
اب چونکہ حکومت کی جانب سے امام کے خلاف کوئی بظاہراقدام نہیں کیا جارہا تھا تو امام اپنا زیادہ تروقت عبادت الہی، عزادری امام مظلوم اور خدمت خلق میں بسر کرتے تھے۔
تواریخ میں ملتا ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام فقراء مدینہ میں سے تقریبا" سو گھروں کی کفالت فرتے تھے اور خوردونوش کا سارا سامان بذات خود ان غربا و مساکین تک پہنچاتے تھے۔ امام یہ سب خدمت ایسے پوشیدہ طریقہ سے انجام دیتے تھے کہ ان مساکین کو یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ یہ سب امداد وقت کے امام کی جانب سے کی جارہی ہے۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ غذا کی بوریاں اپنی پشت پرلادکر ان غربا تک پہنچاتے تھے۔ مساکین کو اس خفیہ امداد کا سلسلہ امام کی شہادت تک جاری رہا۔
امام زین عابدین ع کی پوری حیات طیبہ میں چھ اموی بادشاہوں کی حکومت رہی۔ یزید کے بعد ان اموی بادشاہوں نے امام سے بیعت لینے کی کبھی جرئت نہ کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ طلب بیعت پر یہ بھی اپنے پدربزرگوار کا کردار پیش کرینگے جس کا خطرہ وہ دوبارا مول نہیں لے سکتے تھے۔
مگران بادشاہوں کو جب کبھی امام کی ضرورت محسوس ہوئی امام نے اپنی جودو سخا کا مظاہرہ کیا۔ عبدالملک بن مروان نے حجاز میں عبداللہ ابن زبیر کی سرکوبی کے لئے جب حجاج بن یوسف کو روانہ کیا تو اس نے مکہ کو تباہ و برباد کرکے دیگر مظالم کے ساتھ ساتھ یہ ظلم بھی کیا کہ اس نے خانہ کعبہ پر آگ برسائی اور اسے منہدم کرکے بیت اللہ کی بیخ کرنے کے سنگین جرم کا ارتکاب بھی کیا۔ اس وقت مکہ والے خانہ کعبہ کے تبرکات، مٹی اور پتھرتک اٹھا لے گئے۔ ابن زبیر کا فتنہ دفع ہونے کے بعد حجاج بن یوسف کو خانہ کعبہ کی تعمیر کا خیال آیا اور اس نے تعمیر شروع کرادی۔ ابھی تعمیر اپنی ابتدائی منزل میں ہی تھی کہ وہاں اک اژدھا آکر بیٹھ گیا۔ جب بہت کوشش کے باوجود بھی لوگوں کو اسے ہٹانے میں کامیابی نہ مل سکی تو حجاج کو بلایا گیا۔ جب وہ بھی کچھ نہ کرسکا تو کسی نے اسے مشورہ دیا کہ علی ابن الحسین ع آج کل مکہ آئے ہوئے ہیں تو ان سے مدد طلب کر۔ ناچاراس نے امام کو بلایا اور سارا ماجرا سنایا۔ سب سے پہلے تو امام نے حجاج کو اس کی خانہ کعبہ کی بے حرمتی اور اس کی بیخ کنی کرنے پر سرزنش کی پھر فرمایا کہ خدا تجھے اس وقت تک خانہ کعبہ کی تعمیر میں کامیاب نہ ہونے دیگا جب تک تو کعبہ کا سارا لوٹا ہوا سامان واپس نہیں منگالیتا۔ اس نے فورا" اعلان کرایا کہ کعبہ سے متعلق جو چیز بھی کسی کے پاس ہے وہ اسے فورا" واپس کردے۔ لوگوں نے تمام اشیا واپس کردیں۔ تب امام اس اژدھے کے پاس گئے تو وہ اپنی جگہہ سے ہٹ گیا۔ امام نے کعبہ کی بنیاد خود استوار کی اور اس کے بعد تعمیر کا حکم دیا۔
اموی حکام پرامام کا رعب و دبدبہ کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ اموی بادشاہ عبدالملک بن مروان کا مقرر کردہ والئی مدینہ مسلم بن عقبہ تھا۔ اک موقع پر کچھ لوگوں کے ورغلانے پر مسلم بن عقبہ نے امام کو دالامارہ میں طلب کیا۔ امام کی تشریف آوری سے قبل وہ اپنے مصاحبین سے امام کی برائیاں کرتا رہا۔ جب امام اس کے پاس پہنچے تو بہت تعظیم و تکریم کے ساتھ اپنے پاس بٹھایا۔ کچھ دیر بعد امام کے وہاں سے رخصت یوجانے کے بعد جب لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہوا کہ تونے اپنا ارادہ بدل دیا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنے لگا۔ تو اس نے جواب دیا کہ یہ سب میں نے غیرارادی طور سے کیا تھا کیونکہ مجھ پران کی شخصیت کا رعب اس قدر تھا کہ میں ان سے کچھ سوال نہ کرسکا۔
سنہ 63 ھجری میں مشہور واقعہ حرہ ہوا۔ تاریخ میں یہ واقعہ کربلا کے خونیں واقعہ کے بعد تاریخ اسلام کا بدترین واقعہ کہا جاتا ہے۔ واقعہ حرہ کے وقت بھی امام کی حکمت عملی حکومتی معاملات سےدور رہنے کی رہی۔
یزید نےحجازمیں اپنے خلاف ہونے والی بغاوت کو کچلنے کے لئے اپنے معتمد خاص مسلم بن عقبہ کو اک کثیر فوج کے ساتھ بھیجا جس نے مکہ و مدینہ میں جو تباہی مچائی اس کی کسی کافر ومشرک سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ اہل مدینہ نے یزیدی افواج کا مدینہ کے باہر حرہ کے مقام پر مقابلہ کیا تھا اس لئے یہ واقعہ اس مقام کی نسبت سے واقعہ حرہ کہلاتا ہے۔ اس وقت امام زین العابدین علیہ السلام مدینہ سے باہراپنے اک گاوں منبع منتقل ہوگئے تھے۔
ایسے سخت سیاسی انتشار اورغارت گری کے وقت بھی یزید نے امام زین العابدین علیہ السلام سے بیعت کا سوال نہ کیا۔ تواریخ میں ہے کہ یزید نے اپنے والی مدینہ کو حکم دیا تھا کہ سب سے بیعت طلب کرنا مگرعلی ابن الحسین سے بیعت طلب نہ کرنا۔
گو کہ امام زین العابدین ع مدینہ میں بظاہر گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے مگر آپ کی زندگی کا ہراک لمحہ عبادت خداوندی میں صرف ہوتا تھا جس کے سبب آپ کو زین العابدین اور سید الساجدین جیسے پرعظمت القاب ملے۔ واقعہ کربلا کے بعد تا زندگی امام زین العابدین علیہ السلام اپنے ساتھ ہمیشہ خاک شفا رکھتے تھے جس پر وہ سجدہ کرتے اور اسے اپنی محافظت کے لئے رکھتے تھے۔ امام کو اپنے ماننے والوں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ خاک شفا مصیبتوں سے دور رکھتی ہے۔
اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ امام نے دشمن کے مظالم سے بے تیغ وسپرنبرد آزما ہونے کے لئے اک ایسی حکمت عملی اختیار فرمائی جس کے فیض سے اہل ایمان تاقیامت فیضیاب ہوتے رہینگے۔ آپ نے امت مسلمہ کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لئے مختلف دعاوں کا مجموعہ " صحیفہ کاملہ" کی صورت میں عطا فرمایا۔
یوں توتمام علوم تمام ائمہ معصومین علیھم السلام کو شہرعلم رسول خدا حضرت محمد مصطفے صل الہ علیہ و آلہ وسلم سے ودیعت کئے گئے ہیں مگر اپنے خالق حقیقی قاضی الحاجات کی بارگاہ میں دعا پیش کرنے کا مخصوص اسلوب امام زین العابدین علیہ السلام کو اپنے جد بزرگوارامیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اپنے پدر بزرگوار سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام سے ورثہ میں عطا ہوا۔ امیرالمومنین علیہ السلام کا امت مسلمہ کے لئے دعا مانگنے کا سلیقہ مشہور و معروف دعا دعائے کمیل کی صورت میں عطا ہوا۔ دعا کمیل معرفت الہی حاصل کرنے کا اک بیش بہا خزانہ ہے۔ اسی طرح آپکے پدربزرگوار امام حسین علیہ السلام کی حج کے موقعہ پر میدان عرفات میں پڑھی جانے والی مشہور ومعروف دعا عرفہ بھی معرفت الہی حاصل کرنے کی کنجی قرارپائی جو امت مسلمہ کے لئے بیش قیمت تحفہ ہے۔
یہ بھی اک حقیت ہے کہ اک عام انسان کے پاس اپنے خالق کی بارگاہ میں اپنی مخصوص حاجات اور کیفیات بیان کرنے کے لئے بہت محدود اور چند الفاظ ہوتے ہیں۔ ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا کہ ہم کسی اک خاص حاجت کی طلب کے وقت اپنے رب کی عظمت کا اظہار اپنی حاجت سے مطابقت رکھتے ہوئے کرسکیں۔ امت مسلمہ کی اس مجبوری کے تدارک کے لئے اپنے جد و پدر کی سنت کو جاری رکھتے ہوئے امام زین العابدین علیہ السلام نے بھی مختلف مواقع اور کیفیات کے لئے امت مسلمہ کو دعاوں کا مجموعہ صحیفہ کاملہ کی صورت میں عنایت کیا۔
پس معرکہ کربلا قیام مدینہ کے دوران امام نے اس وقت کی حکومتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے خود کو الگ رکھنے کے لئے امت کی ہدایت کے لئے دعاوں کو تدوین کرنے کا اک ایسا طریقہ اختیار کیا جس ہر کسی متعصب ترین ظالم حکمراں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا تھا۔ اسی لئے امام نے صحیفہ کاملہ کی تدوین فرمائی۔ صحیفہ کاملہ جو عوام میں صحیفہ سجادیہ اور زبور آل محمد کے ناموں سے بھی شہرت رکھتی ہے میں شامل تمام دعائیں امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے دونوں فرزندوں حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام اور حضرت زید ابن علی شہید کو تعلیم فرمادی تھیں جن کے توسط سے یہ امت مسلمہ تک پہنچیں۔
صحیفہ کاملہ کی دعائیں نہ صرف امام زین العابدین علیہ السلام کی فصاحت اور بلاغت کا واضح نمونہ ہیں بلکہ ان دعاوں کے اسلوب سے معصوم امام کی ذاتی خصوصیات اور کمالات بھی منکشف ہوتے ہیں۔ یہ بظاہر دعائیہ کلمات نظر آتے ہیں مگر جید علما اورمحققین کی نظر میں ان دعاوں میں ایسے آفاقی علوم کے اشارے ملتے ہیں جن تک صاحب علم لدنی کے سوا کسی کی دسترس ممکن نہیں۔
قیام مدینہ کے دوران امام زین العابدین علیہ السلام کی اس حکمت عملی کی کامیابی کا بین ثبوت آج بھی امت مسلمہ کے پاس صحیفہ کاملہ کی صورت میں موجود ہے۔
جب کہ امام زین العابدین علیہ السلام حکومتی معاملات سے کوئی مطلب نہ رکھتے تھے اور حکومت وقت کو ان سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہوتا تھا پھر بھی تمام دشمنان اہلیبیت کی طرح اموِی خلیفہ ولید ابن عبدالملک کو اک ان جانے خوف اور دشمنئی آل محمد کے سبب آپ کا وجود برداشت نہ ہوا۔ اس نے امام کو 25 محرم سنہ 95 ہجری کو زہر سے شہید کردیا۔ آپ کے معصوم فرزند حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے آپ کی تجہیزوتکفین کی اور آپ کو جنت البقیع میں آپکے عم محترم حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ روایات میں ہے کہ آپ کا ناقہ آپ کی شہادت پر آپکی قبر مبارک پر سر رکھ کر روتا رہا اور اسی غم میں جان دیدی۔