تحریر: ڈاکٹر عباس مھدی حسنی
آیت مودت کی رو سے اہل بیت نبی(ص) سے محبت ہر مسلمان پر واجب ہے- حدیث ثقلین اور حدیث معرفت امام جیسی معتبر اور متفقہ روایتوں کے اعتبار سے آل رسول سے روگردانی اور انکی معرفت نہ ہونا گمراہی و بد بختی اور جاہلیت کی موت کا باعث ہے۔
متعدد قرآنی آیتوں اور معتبر نبوی حدیثوں میں اہلبیت رسول(ص) کے سلسلہ میں بے شمار فضائل و کمالات بیان ہوئے ہیں-اسکے علاوہ اہلسنت علماء اور دانشوروں نے اپنی کتابوں میں آل نبی خصوصا ائمہ اہلبیت کی علمی و اخلاقی اور روحانی فضائل و کمالات کے بیان کے ذریہ اہلبیت نبی(ص) سے اپنی خاص محبت اور عقیدت کیا اظہار کیا ہے۔
ترمزی و ابوداؤد اور ابن ماجہ نے اپنی "سنن" میں زکات اور ایمان وغیرہ کی بحث میں اولاد نبی خصوصا امام رضا(ع) سے حدیثیں نقل کی ہیں۔
اختصار کے مد نظر سر دست فرزند رسول عالم آل محمد امام علی بن موسی الرضا کے بارے میں بعض بزرگ علماء اور دانشوران اہلسنت کے اقوال پیش کئے جا رہے ہیں:
الف:حسن بن سہل (215ھ): آپ فرزند رسول الثقلین کے بارے رقمطراز ہیں کہ مامون نے اس لئے علی بن موسیٰ الرضا کو اپنا ولی عہد بنایا چونکہ بنی عباس اور اولاد علی میں کسی کو بھی علی بن موسیٰ سے زیادہ با فضیلت و با تقوا اور اہل علم نہیں پایا...(الکامل فی التاریخ 162/4)
ب:ابوصلت ہروی(236ھ):ان کے بقول: میں نے علی بن موسیٰ الرضا سے زیادہ عالم شخص دیکھا ہی نہیں کسی عالم نے آپ سے ملاقات نہیں کی مگر یہ کہ اس نے میری ہی طرح گواہی دی-(مفتاح النجا فی مناقب آل عباس ص179)
اسی دور کے دو بڑے اہلسنت عالم ابوزرعہ اور ابومسلم طوسی کے بارے میں ملتا ہے کہ یہ دونوں امام رضا(ع) کی شخصیت کے ایسے معترف اور ان سے اس قدر متاثر تھے کہ امام کے نیشاپور میں داخل ہوتے وقت آپ سے اس طرح مخاطب ہوتے ہیں: اے جلیل القدر سید اے سادات اماموں کے فرزند! آپکو اپنے طاہر اور باکرامت آباء واجداد کے حق کا واسطہ اپنے چہرہ مبارک کی ہمیں زیارت کرائیں اور اپنے آباء واجداد کی کوئی حدیث بیان فرمائیں(الصواعق المحرقہ 594/2)
ج: ابوبکر بن خزیمہ(311ھ):حاکم نیشاپوری کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن مومل سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ ایک دن میں اہل حدیث کے پیشوا ابو بکر بن خزیمہ و ابو علی ثقفی اور دیگر مشایخ کے ہمراہ قبر علی بن موسیٰ الرضا کی زیارت کے لئے طوس(مشہد) گیا - جبکہ وہ لوگ انکی قبر کی زیارت کے لئے بہت زیادہ جایا کرتے تھے- محمد بن مومل کہتے ہیں کہ قبر علی بن موسیٰ الرضا کی بہ نسبت ابن خزیمہ کی تکریم و احترام اور تواضع و گریہ نے سب کو انگشت بدنداں کردیا-
اسی دور کے ایک اور اہل سنت دانشمند حبان بستی شافعی (354) کہتے ہیں: علی بن موسیٰ الرضا سادات و عقلاء اہلبیت اور ہاشمی سرداروں اور نمایاں شخصیات میں سے تھے- ان سے منقول حدیث کا معتبر ماننا واجب و لازم ہے-(الثقات ج8/ص456)
ھ:علی بن ہبۃ اللہ بن ماکولا(475ھ):کہتے ہیں کہ ابو الحسن علی بن موسیٰ الرضا علم و فضل کے لحاظ سے اہلبیت کی برجستہ شخصیت تھے(الاکمال 75/4)
و:عبد القاسم رافعی شافعی (623ھ): لکھتے ہیں کہ ابو الحسن رضا ائمہ اہلبیت و عظیم ترین اور بزرگترین سادات میں سے تھے-(التدوین فی اخبار قزوین 424/3) اسی صدی ہجری کے عالم عمر بن شجاع الدین محمد بن واحد موصلی شافعی کہتے ہیں کہ آپ علم و دانش میں مقبول انسان اور صبر و حلم میں آخری منزل اور پرہیزگاری و خوف خدا اور شجاعت و دلیری میں بلند ترین درجہ پر فائز تھے-(النعیم و العقیم لعمرۃ نبا عظیم ص377) ابن ابی الحدید معتزلی نہج البلاغہ کی شرح میں امام کے متعلق کہتے ہیں کہ آپ ولی عہدی اور خلافت کے منصب پر فائز تھے-علی بن موسیٰ علم و سخاوت اور اخلاق میں سب سے افضل و برتر تھے-(شرح نہج البلاغہ 291/15)
ز:شمش الدین ذہبی شافعی (728ھ): آٹھویں امام کی شان و منزلت کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:امام سید ابوالحسن علی رضا ابن موسیٰ کاظم ابن جعفر صادق ابن محمد باقر ابن علی ابن حسین ہاشمی تھے۔۔۔آپ علم و تدین اور سیادت میں خاص مقام کے حامل تھے-(سیرہ اعلام النبلاء386/9)
ح:ابن صباغ مالکی(852ھ):امام کی تعریف و تمجید میں انکی زبان اس طرح گویا ہوتی ہے: آنحضرت کی ولایت ابتداء سے ہی محبوب اور محمود تھی آپکی خصوصیات اور صفات بہت زیادہ تعجب خیز تھیں آپکے عظیم مقامات اور شرافت بلند ترین درجہ پر تھے-خوشا بحال آپ کے پیروکاروں کا اور بدا بحال آپ سے دشمنی رکھنے والوں کا۔
آنحضرت کے آباء و اجداد کی عظمت و شرافت روز روشن سے زیادہ واضح اور سورج سے زیادہ نورانی ہے لیکن آپکی آخلاقی خصوصیات اور مخصوص صفات اس طرح ہیں کہ کوئی بھی اس مقام تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا- (فصول المہمہ ص251) اسی قرن کے ایک مشہور عالم نور الدین عبد الرحمان جامی نے اپنی کتاب "شواھد النبوہ" میں { ذکر علی بن موسیٰ بن جعفر رضی اللہ عنہم} باب کے تحت آنحضرت کے فضائل و کرامات کو بیان فرمایا ہے۔
ط:ابن حجر ہیثمی مالکی(974ھ): آپ امام کی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں: علی رضا اہلبیت کی معروف ترین اور عظیم ترین فرد ہیں اسی لئے مامون نے آپ کا احترام کیا-آپ سے اپنی بیٹی کی شادی کی اور اپنا ولی عہد بنایا-(الصواعق المحرقہ593/2)
ی:عبد الرئوف مناوی شافعی(1031ھ):علی رضا ابن موسیٰ کاظم ابن جعفر صادق عظیم منزلت و شہرہ آفاق شخصیت اور بے شمار کرامات کے مالک کے تھے(الکواکب الدریہ ص256)
ک:عباس ابن علی ابن نور الدین مکی(1180ھ): آپ آنحضرت کے فضائل کا ذکر اس طرح کرتے ہیں: علی ابن موسیٰ الرضا کے فضائل بے حد و حصر ہیں(نزہۃ الجلیس 105/2)
ل:شیخ مومن ابن حسن شبلنجی شافعی(1298ھ):اپنی کتاب نور الابصار کے صفحہ233-245 پر علی ابن ابی طالب تک آپ کے شجرہ طیبہ کو بیان کرنے کے بعد آپ کی شخصیت و کرامات اور فضائل کا ذکر تفصیل سے کرتے ہیں۔
م:یوسف ابن اسماعیل نبہانی شافعی(1350ھ):امام کے صفات حمیدہ کو اس طرح بیان فرماتے ہیں: علی رضا ابن موسیٰ کاظم ابن جعفر صادق بزرگ ائمہ کی ایک فرد' اہلبیت نبوت میں امت کے ایک چراغ' علم و عرفان اور کرم و جوانمردی کا معدن و مخزن تھے آپ جلیل القدر اور زباں زد خاص و عام تھے اور بہت زیادہ صاحب کرامات تھے-(جامع کرامات اولیاء (211/2)
ن:سید محمد طاہر ہاشمی شافعی (1412ھ):آپ نے اپنی کتاب "مناقب اہلبیت از دیدگاہ اہلسنت" میں فضائل و مناقب حضرت امام علی الرضا کے عنوان کے ذیل میں آنحضرت کے فضائل و کرامات اور تابعین و اہلسنت علماء کے اقوال کو آپکی شخصیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا ہے۔
لمحہ فکریہ: حضرت امام رضا(ع) کے بارے میں ان علماء اور دانشوروں کے اظہار عقیدت کی بنیاد ائمہ اہلبیت کے بارے میں قرآنی آیات اور نبوی ارشادات ہیں- یقینا وحی الہی اور معصوم زبان سے ان اوصاف و کمالات کے ذکر کا ایک فلسفہ یہ تھا کہ اہل اسلام اہلبیت سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ گفتار و رفتار میں بھی انکی پیروی کریں گے اور انہیں اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں گے لیکن مقام سوال ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے نہ جانے کیوں محبت' اہلبیت سے کی اور پیروی کسی اور کی!!
(تلخیص و ترجمہ از: امام رضا در آثار و دانشمندان اہلسنت)
رب کریم سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں میں رسول اور اہلبیت رسول (ص)کی حقیقی محبت پیدا کرے اور ہمیں محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے توفیق کرامت فرمائے-آمین