خدا کا لاکھ شکر ہے کہ اسکی بے پایاں نعمتوں کے سایہ میں ہم ایک بار پھر ۲۰ جمادی الثانیہ کا جشن منا رہے ہیں یہ کتنا حسین امتزاج ہے کہ۲۰ جمادی الثانیہ کی تاریخ کو جس شخصیت نے روز خاتون کے طور پر متعارف کرایا ہے خود اس شخصیت کی ولادت کی تاریخ بھی ۲۰ جمادی الثانیہ ہی ہے ۔ آج کا دن بہت اہم ہے اس لئے بھی کہ سیدۃ النساء العالمین کی ولادت سے منسوب ہے اور اس لئے بھی کہ یہ دن تمام ہی با حیا و زحمت کش خواتین کی خدمتوں کے اعتراف کا دن بھی ہے چنانچہ بعض ممالک خاص کر ایران میں اس دن کو “یوم خواتین ” اور یوم مادر کے طور پر بھی منایا جاتا ہے ۔ یقینا ہم بھی کوشش کریں گے اس دن کے بی بی دو عالم سے منسوب ہونے کی بنا پر اپنے گھر کی خواتین کی زحمتوں کے اعتراف کرتے ہوئے انہیں ہدیہ و تحفہ دیں ، انکی اہمیت کا اعتراف کریں معاشرہ کی بہتر تعمیر میں انکے رول کو سراہیں اور ان سب کے ساتھ ساتھ کیا ہی کہنے کی اگر ہم اپنی ماں کی خدمتوں اور انکی زحمتوں کے جواب میں انکے چہرے پر اپنے عمل سے مسکراہٹ بکھیر سکیں ۔
تاریخ کا کتنا حسین موڑ ہے جہاں ہم دو عظیم شخصیتوں کی ولادت کی تاریخ ایک ہی دن میں منا رہے ہیں ۲۰ جمای الثانیہ کی تاریخ عالم اسلام خاص کر در اہل بیت سے وابستہ عاشقان حیدر کرار کے لئے ایک یادگار تاریخ ہے یہ وہ تاریخ ہے جو ایک طرف سید ۃ النساء العالمین جناب زہرا سلام اللہ علیہاکی ولادت سے منسوب ہے تو دوسری طرف اسی تاریخ کو آپکی نسل کے عظیم سپوت اور اس صدی کے ایک عظیم و نادر دینی و اسلامی انقلاب کے معمار امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی روز ولادت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ،ان دونوں مناسبتوں کےکو نظر میں رکھتے ہوئے ہم نے پیش نظر تحریر میں کوشش کی ہے بی بی زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بیانات کی روشنی میں بیان کریں جس سے اس تاریخ میں دونوں ہی شخصیتوں کی یاد بھی ہو جائے اور بی بی زہرا سلام اللہ علیہا کی عظمت ایک فقیہ کی نگاہ سے بھی بیان ہو جائے کہ اس صدی کی عظیم شخصیت و عظیم انقلاب کے بانی فقیہ و فیلسوف اور ایک عارف نے بی بی دوعالم کی شخصیت کو کس انداز سے دیکھا ہے ۔
جب ہم امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بی بی زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں بیانات کو دیکھتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی بی بی زہرا سلام اللہ کی شخصیت کو پیش کرنے میں زیادہ تر توجہ اس بات پر تھی کہ ہم انہیں اپنا نمونہ عمل قرار دیں ، انکی معنویت ،انکی سادگی ، انکے زہد ، انکی عبادت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے سماج اور معاشرے میں انہیں اقدار کو زندہ کریں جنہیں بی بی دو عالم نے متعارف کرایا تھا ۔ آئیں دیکھتے ہیں بی بی دو عالم سلام اللہ علیہا کے سلسلہ سے امام خمینی رضوان اللہ تعالی نے ہمیں کن اہم نکات کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سب سے بڑی فضیلت
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا بے شمار فضائل و مناقب کی حامل تھیں ، آپکی علمی توانائی ، آپکی عصمت ، گناہ وخطا سے آپ کا مبرہ و پاکیزہ ہونا ، اپنے فرزندوں کی تربیت و رشد میں آپ کا یکتائے روزگار ہونا ، شوہر داری میں آپ کی شرافت ، اپنے شوہر کے ساتھ ازدواجی زندگی میں ادب و اخلاق کی رعایت ، اپنے والد ،دیگر گھر والوں اور شوہر سے روبرو ہوتے وقت آپ کی تواضع و فروتنی ، ظاہری آراستگی و طہارت ، امور خانہ داری میں آپ کی مہارت ، دشواریوں اور پریشانیوں کے مقابل آپ کا تحمل اور صبر و ضبط حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیر المومنین علیہ السلام میدان جہاد آپ کی ہم دلی و ہمراہی عبادت کے میدان میں آپکی بندگی ظلم سے مقابلہ عدالت محوری ، یہ تمام وہ فضائل ہیں جنکے بارے میں گفتگو ہو سکتی ہے لیکن امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اس طرح کے بہت سے کمالات کو بیان کرتے ہوئے جس کو سب سے زیادہ اہمیت ی نظر سے دیکھتے ہیں وہ آپکی فرشتوں سے گفتگو اور اس اعتبار سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہم طراز و ہم پلہ ہونا ہے اور تمام انبیاء کی خصوصیتوں کا حامل ہونا ہے ۔
بی بی زہرا سلام اللہ علیہا تمام انبیاء کی خصوصیتوں کی حامل
“وہ تمام پہلو اور گوشے جو ایک عورت کے لئے تصور کئے جا سکتے ہیں ، وہ کمالات جو ایک انسان کے لئے متصور ہو سکتے ہیں سب کے سب جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے وجود میں جلوہ افروز ہیں ، آپ ایک معمولی خاتون نہ تھیں بلکہ آپکا وجود ایک عورت کی مکمل حقیقت کا ترجمان تھا ،آپ کا وجود انسان کی مکمل حقیقت سے عبارت تھا آپ ایسے ملکوتی وجود کی حامل تھیں جو دنیا میں انسان کی صورت ڈھل کر سامنے آیا ، ایسا الہی و جبروتی موجود جو ایک عورت کی صورت میں ڈھلا ایک ایسی عورت جس کے اندر انبیاء کی تمام خصوصیتیں موجود تھیں وہ ذات جو مرد ہوتی تو نبی ہوتی اگر مرد ہوتی تو رسول اللہ کی جگہ ہوتی [۱]۔
جبرئیل امین سے ہم کلام ہونا
جناب جبرئیل سے گفتگو کرنا کوئی معمولی فضیلت نہیں ہے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
“میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں لب کشائی کرنے سے قاصر ہوں کہ کچھ بولوں یا کہوں ، صرف کافی[۲] کی ایک حدیث پر اکتفا کرتا ہوں جو کہ معتبر سند سے نقل ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے والد گرامی کی وفات کے بعد ۷۵ دن زندہ رہیں اور ان ایام میں حزن اندوہ کا آپ پر غلبہ رہتا تو جبرئیل آتے اور آپکی خدمت میں تعزیت پیش کرتے اور مستقبل کے مسائل و حالات کو بیان کرتے ظاہر روایت یہ ہے کہ ان ۷۵ دنوں میں جبرئیل کا آنا جانا بالکل عام و کثرت سے تھا یعنی جبرئیل کی آمدو رفت زیادہ تھی میں نہیں سمجھتا کہ انبیاء الہی کے پہلے طبقے کے علاوہ جبرئیل امین کسی ذات کے لئے اس طرح آئے ہوں جس طرح جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لئے آتے تھے ، چنانچہ جبرئیل آکر آنے والے زمانیں کی خبریں دیتے آئندہ جو کچھ آپکی ذریت کے ساتھ ہوگا اسے بیان کرتے اور حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اسے لکھتے ،جناب جبرئیل امین کا آنا کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے ، ہرگز کوئی نہ سوچے کہ جبرئیل کسی کے لئے بھی آ سکتے ہیں ، جبرئیل امین کے آنے کے لئے ایک تناسب و سنخیت ضروری ہے اگر یہ تناسب و سنخیت نہ ہو تو ممکن نہیں ہے کہ کوئی جبرئیل کی معیت اختیار کر لے و ہ جبرئیل جو روح اعظم ہیں یہ سنخیت و تناسب الوالعزم پیغمبروں میں پایا جاتا تھا ، اب یہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات ہے جن کے بارے میں میں نے دیکھا ہے کہ ۷۵ دنوں میں جبرئیل امین مکرر آتے تھے اور آنے والے زمانے کے بارے میں بتاتے تھے ، میری نظر میں بی بی زہرا سلام اللہ علیہا کی تمام فضیلتوں میں یہ فضیلت سب سے زیادہ بڑھ کر ہے یہ وہ فضیلت ہے جو انبیاء الہی کے علاوہ وہ بھی کچھ خاص ہی انبیاء انکے اور انبیاء میں بھی سب سے با عظمت درجے کے انبیاء کے علاوہ کسی کو حاصل نہ ہو سکی اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے مخصوص فضیلت ہے” [۳]یہی وجہ ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی منزلت و مرتبہ کی ستائش کرتے ہوئے آپکے مقام و مرتبہ کو اس لحاظ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمطراز و ہم پلہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : وہ خاتون جو خاندان وحی کا افتخار ہے ، اور خورشید کی صورت پیکر اسلام پر چمک رہی ہے ، وہ خاتون جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیکراں و لامتاہی فضائل میں ہمراہ ہے ، ایک ایسی خاتون کہ جس نے بھی جس زاویہ نظر سے بھی آپ کے بارے میں کچھ کہا ہے آپ کی تعریف سے قاصر رہا ہے آپکی مدح و ثنا سے عاجز رہا ہے اس لئے کہ وہ احادیث جو آپکے بارے میں آپکے خاندان کے افراد سے وارد ہوئی ہیں سامعین کے فہم کے مطابق نقل ہوئی ہیں اور دریا کو کوزہ میں کہاں سمیٹا جا سکتا ہے ،دوسروں نے جو بھی کہا ہے اپنے اپنی سمجھ کے مطابق کہا ہے لوگوں کی سمجھ اور ہے آپکا مرتبہ و مقام اور ہے [۴]
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ کی سادہ زندگی
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی ایک سادہ زندگی تھی ، خاص کر جب امیر المومنین سے آپ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں ، چنانچہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا و امام علی علیہ السلام کی مشترکہ زندگی کے آغاز پر فرمایا : ائے علی ع معیشت و اقتصاد کے حوالے سےتمہارے پاس کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو ں میرے حالات آپ سے پوشیدہ نہیں جو کچھ بھی میرے پاس ہے یہی ایک شمشیر ہے اور ایک زرہ ہے اور پانی ڈھونے اور دیگر کاموں کے کے لئے ایک اونٹ ہے آپ نے فرمایا: جہاں تک شمشیر کا تعلق ہے تو علی ع تمہیں اسکی ضرورت ہے ، تاکہ اس کے ذریعہ راہ خدا میں تم جہاد کر سکو اور دشمنوں کو انکی جگہ پر بٹھا سکو ، اونٹ بھی ایسا ذریعہ ہے جو تمہاری درآمد کا ذریعہ ہے اور امور زندگی میں کام آنے والی چیز ہے اسکے ذریعہ تم نخلستانوں کو پانی دیتے ہو ، اہل خانہ کے لئے زندگی کا خرچ نکالتے ہو اور سفر میں یہ تمہارے لئے ادھر ادھر جانے کے کام آتا ہے ، میں اپنی بیٹی تمہیں دونگا لیکن تم اپنی زرہ کو اس کام کے لئےبیچ دو اور میرے پاس لاو تاکہ اسکے پیسے سے میں عقد کی تمہیدات کو انجام دوں امیر المومنین علیہ السلام نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے اپنی زرہ کو پانچ سو درہم میں بیچ دیا اور پیسوں کو حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے کر دیا [۵]۔
ایک سادہ و کچا لیکن دنیا کا قیمتی گھر
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ بی بی کے گھر ، انکی سادگی اور اس گھر کی عظمت کے بارے میں خاص توجہ فرمائی ہے چاہے جناب امیر کائنات علیہ السلام ہوں یا بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دونوں کی نگاہوں میں ہمیشہ معنویت رہی اور دونوں نے مثالی سادہ زندگی گزاری ،ایسا نہیں ہے کہ پہلے جناب امیر علیہ السلام کے پاس کچھ نہ تھا اور بعد میں جب کچھ آ گیا تو زندگی میں فرق آ گیا بلکہ تاریخ شاہد ہے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے حکومت کے حاصل ہونے کے بعد بھی اسکے باوجود کے مالی حیثیت سے مضبوط تھے لیکن ہمیشہ بغیر دنیاوی زرق برق کے بہت ہی نچلے سطح پر زندگی گزارتے رہے یہی چیز جناب فاطمہ زہرا سلاما اللہ علیہا کے یہاں نظر آتی ہے چنانچہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے بھی دنیاوی زرق برق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے شوہر کیطرح سادہ زندگی بسر کی ، امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سادہ زندگی کے بارے میں فرماتے ہیں ۔”ہمارے پاس صدر اسلام میں چار سے پانچ افراد پر مشتمل ایک مٹی کا بنا چھوٹا سا گھر ہے یہ گھر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا گھر ہے ، اور یہ ایسا گھر ہے جو آج کے بعض کچے مکانوں سے بھی محقر تھا لیکن اسکے برکات کی بات ہی کیا ہے ، اس چند لوگوں کے چھوٹے سے گھر کی برکتیں اتنی ہیں کہ اس نے اپنی نورانیت سے پوری دنیا کو منور کر دیا اسکی نورانیت تک پہنچنے کے لئے انسان کا راستہ بہت طولانی ہے” [۶] نورانیت کا عالم یہ ہے کہ ساری دنیا کو متاثر کیا ہے اور مادی اعتبا ر سے دیکھیں تو گھر میں کچھ بھی نہین ہے چنانچہ اس گھر کی زندگی پر نظر ڈالیں تو دکھتا ہے کہ ایک کھال تھی جیسا کہ نقل ہوا ہے رات میں اسی کھال کو بستر بنا لیا جاتا تھا اور دن میں اسی کھال پر اونٹ کی گھاس پھوس اور اسکا چارہ ڈال دیا جاتا تھا کوئی اس طرح زندگی نہیں گزار سکتا تھا ۔[۷]
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نمونہ عمل
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کو نمونہ عمل کے طور پر پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
“ایک عورت کی مکمل شان و منزلت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ لوگ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اقتدا کریں ہم سب کے لئے ضروری ہے اپنے بچوں کی تربیت کے لئے بی بی سے احکامات کو اخذ کریں ہم ویسا بننے کی کوشش کریں جیسی یہ بی بی تھیں علم و تقوی کے حصول میں کوشش کریں ، علم کی کی ملکیت میں نہیں ہے سبکا ہے تقوی سبکا ہے تقوی اور علم تک پہنچنے کے لئے ہم سبکی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی کوشش کو فرو گزار نہ کریں یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے آپکی بھی ہے” ۔[۸]
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت کا دن ،روز خاتون
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت کے دن کو روز خاتون کا نام دیا ہے آپ نے اس دن اپنے ایک پیغام میں فرمایا : تمام عورتوں کے لئے یہ افتخار کا سبب ہے کہ حضرت صدیقہ طاہرہ کی ولادت کے دن کو روز خاتون قراد دیا گیا ہے یہ ایک افتخار بھی ہے اور ایک ذمہ داری بھی [۹]
ش
حواشی
[۱] ۔ صحیفه امام، مجموعه ۲۲ جلدی رهنمودهای امام خمینی، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۸ ش ج ۷، ص ۳۳۷٫
[۲] ۔ . الکافی، محمد بن یعقوب کلینی، دارالکتب الاسلامیة، تهران، پنجم، ۱۳۶۳ ش ، ۲۴۱/۱، حدیث ۵٫ ۱۷٫
[۳] ۔. ر.ک: صحیفه امام، ج ۲۰، ص ۶٫ ۸٫
[۴] ایضا ،ج ۱۲، ص ۲۷۴٫
[۵] ۔ ، شرح خطبة الزهراء، تنظیم از علیرضا هزار، ص ۵۴ ـ ۵۵ و ۵۸ ـ ۵۹ به نقل از مجلسی، محمدباقر بحارالانوار، ۱۲۷/۴۳ ـ ۱۳۰٫ ۲۰٫
[۶] ۔ صحیفه امام، ج ۱۷، ص ۳۷۳
[۷] ۔ ایضا ، ج ۸، ص ۲۳۱٫ ۲۴٫ ر.ک: شوشتری، قاضی نوراالله، احقاق الحق، ۳۹۵/۱۰ ـ ۴۰۰٫ ۲۵٫
[۸] ۔ صحیفه امام، ج ۱۹، ص ۱۸۴
[۹] ۔ صحیفه امام، ج ۲۰، ص ۴٫ ۳۷٫