واقعہ کربلا ایک ایسا جاوداں واقعہ ہے جو اپنے محرکات و مقاصد کے پیش نظر طول تاریخ میں محققین و طالبان حقیقت کے لئے تحقیق و جستجو کا ایک زندہ و جاوید موضوع رہا ہے ، اور اسکے وقوع پذیر ہونے کے بعد سے لیکر اب تک ہر ایک نے اپنے اپنے اعتبار سے اس سے مثبت نتائج اخذ کئے ہیں ، جتنا جتنا لوگ کربلا کی پناہ میں آتے گئے اتنا ہی انکے عزم میں اضافہ ہوتا گیا انکا وقار بڑھتا گیا ،انکی شان و شوکت ہمہ گیر ہوتی چلی گئی اسکی ایک مثال امام حسین علیہ السلام کا چہلم ہے ، جو نہ صرف ہر سال گزرے ہوئے سال سے زیادہ عظمت کے ساتھ منعقد ہوتا ہے بلکہ اربعین میں لوگ پہلے سے زیادہ عزم و ہمت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے حضور تجدید بیعت کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ وقار کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں ، ساتھ ہی ساتھ ہر ایک کے اندر ایک ذمہ دار عزادار ہونے کا احساس جاگتا ہے ۔
امام خمینی رح سے لیکر علامہ طباطباءی و شہید مطہری جیسے مفکرین اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سید الشہداء علیہ السلام نے جب یزیدی حکومت کا حد درجہ انحراف دیکھا تو اسکے مقابل جو رد عمل پیش کیا وہ حقیقت میں اپنی ذمہ داری کی ادائگی کے سوا اور کچھ نہ تھا انہوں نے اپنی ذمہ داری کی تشخیص دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ بروقت رد عمل کا اظہار کیا بلکہ کوشش کی دوسرے لوگ بھی اپنی شرعی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اسکی ادائگی کے لئے قدم آگے بڑھائیں [۱]
امام خمینی رح نے تو بہت ہی واضح الفاظ میں بیان کر دیا کہ سید الشہداء علیہ السلام نے جو کچھ کیا وہ اپنی ذمہ داری پر عمل تھا آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا چاہتے تھے اور آپ نے اپنی شرعی ذمہ داری پر عمل بھی کیا [۲] امام خمینی رح نے یزید کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کو انکی شرعی ذمہ داری کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح امام علیہ السلام یزید جیسے ظالم کے سامنے کھڑے ہونے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ویسے ہی ہمیں بھی اپنے وقت کے یزید کو پہچانتے ہوئے اسکے مقابل اٹھ کھڑے ہونے کا عزم رکھنا چاہیے چونکہ امام حسین علیہ السلام کی سیرت تمام ہی مسلمانوںاور خاص کر شیعان حیدر کرار کے لئے نمونہ عمل ہے ،لہذا آپکی سیرت کو دیکھ کر ہر انسان کے اندر احساس ذمہ داری جاگنا چاہیے ، چونکہ ایسا نہیں ہے کہ یزید صرف ۶۱ ہجری میں تھا اور اسکے مقابلہ کے لئے امام حسین علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور بات ختم ہو گئی ہر دور کی حسینیت کا تقاضا ہے کہ زمانے کی یزیدیت کے خلاف اٹھے اور اسے ذلیل و رسوا کرتے ہوئے پرچم حق کو بلند کرے ،
یہاں پر جو بات اہم ہے وہ انسان کے وجود کے اندر ذمہ داری کے احساس کا جاگنا ہے ، جب انسان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے تو وہ ہر کام سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اسکا کام مرضی الہی کے مطابق ہے یا نہیں ؟ وہ تمام تر شرعی جوانب کو مد نظر رکھتے ہوءے آگے بڑھتا ہے وہ زندگی کے امور میں اپنی ذات کو لیکر نہیں سوچتا بلکہ خدا کو محور قرار دیکر سوچتا ہے اور خدا محور ی کا جذبہ ہی کسی عمل کے ترک یا اس کے انجام پذیر ہونے کا محرک قرار پاتا ہے [۳]
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اسی محرک کو مختلف مقامات پر بیان کرتے ہوئے اس بات کی کوشش کی ہے کہ امام کی شہادت کو انکے وجود میں ذمہ داری کے احساس ساتھ جوڑ کر موجودہ دور میں شہادتوں کے محرک کی وضاحت اسی ذمہ داری کے محور پر کرتے ہوئے ظلم و ستم لوگوں کے سامنے سوءے ضمیر کو بیدار کریں لہذا ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں : سید الشہداء نے خود پر لازم جانا کہ اٹھ کھڑے ہوں اور شہادت کے درجے پر فائز ہو جائیں امیر شام و اسکے بیٹے کے آثار کو صفحہ روزگار سے مٹا ڈالیں [۴]
اسی احساس ذمہ داری کو ایک اور مقام پر امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اس انداز سے بیان کرتے ہیں :
سیدالشہداء نے خود پر ضروری و فرض جانا کہ اس فاسد طاقت سے مقابلہ کرتےہوئے شہید ہو جائیں ،آپ نے واجب جانا کہ جہاں ضروری ہے وہاں قیام کریں اپنا لہو دیں تاکہ یزید کا پرچم سرنگوں ہو سکے آپ نے ایسا ہی کیا اور سب کچھ ختم ہو گیا [۵]
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای بھی قیام امام حسین علیہ السلام کو دلیل بناتے ہوئے اسی احساس ذمہ داری کے پیش نظر امام خمینی کے قیام کے سلسلہ سے فرماتے ہیں :
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ایک فریضہ واجب کی ادائگی کی خاطر قیام کیا ، یہ ایسا واجب ہے جو طول تاریخ میں ہر ایک مسلمان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے ، اور یہ واجب اس بات سے عبارت ہے کہ جب دیکھیں کہ اسلامی معاشرہ بنیادی فساد کا شکار ہو گیا ہے اور اس بات کا خطرہ لاحق ہے کہ کلی طور پر اسلامی احکامات تبدیل ہو سکتے ہیں تو ایسی صورت میں ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اٹھ کھڑا ہو ،قیام کرے البتہ اس کے لئے مناسب شرائط کا ہونا ضروری ہے ، اور یہ جان لے کہ یہ اسکا اٹھ کھڑا ہونا رائگاں نہ جائے گا ،اسکا اثر ہوگا یاد رہے کہ شرائط کے مناسب ہونے کا مطلب زندہ رہنا ، شہید نہ ہونا م، مصیبتوں کا برداشت نہ کرنا ، اذیتوں کا نہ ہونا نہیں ہے یہ سب شرائط کے اجزاء نہیں ہیں لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اور عملی طور پر ایک واجب کو انجام دیا تاکہ رہتی دنیا تک کے لئے ایک درس ہو جائے ۔ [۶]
جب انسان حق کی سر بلندی کے لئے ،احیاء دین کے لئے اٹھ رہا ہے ، نفاذ عدالت کے لئے کھڑا ہو رہا ہے ، بدعتوں سے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو رہا ہے ، سیرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آثار و برکات کو محو ہونے سے بچانے کے لئے اٹھ رہا ہے ولایت کے دفاع کی خاطر اٹھ رہا ہے تو یقینا اسکے سامنے مشکلات بھی آئیں گی اور پریشانیاں بھی لیکن جو کچھ بھی اسکے مقدس ہدف کے تحت اسے ملے گا سب کے سب اسی بل پر حاصل ہوگا کہ کسی بھی بات کی پراہ کئے بنا اسے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا ہے اور بس اب ایسے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ زمانہ خراب ہے ، ماحول سازگار نہیں ہے ، ہمارا کیا ہوگا ؟ رہبر انقلاب اسلامی اسی سلسلہ سے اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں : اگر امام حسین علیہ السلام ، اپنے سامنے آنے والے دشوار حالات ، تلخ حوادث کو دیکھتے جیسے ، جناب علی اصغر ع کی شہادت ، اہل حرم کا اسیر ہونا ، بچوں کی تشنگی ، جوانوں کا شہید ہو جانا ، ان تما م چیزوں کو اگر آپ معمولی شریعت پر عمل کرنے والے عام انسان کی طرح دیکھتے تو آپکو اپنی واقعی ذمہ داری کو بھلا دینا چاہیے تھا ، اور قدم بہ قدم “الضرورات تبیح المحظورات “کے تحت پیچھے کی طرف قدم بڑھانا چاہیے تھا اور یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ سب میری ذمہ داری نہیں ہے ، لیکن امام علیہ السلام نے سخت ترین شرائط میں اپنی زندگی کے آخری لحظوں تک اپنی شرعی ذمہ داری کی ادائگی پر اصرار کیا اس لئے کہ انسان کے عقیدے اور اسکے دین کی اہمیت ، آبرو ،مال جان اور ناموس سے کہیں بڑھ کر ہے ، ایسی صور ت میں اپنی دینی ذمہ داری کی ادائگی کا احساس اور اس کے سلسلہ سے آپکا موقف آپکی روحانی طاقت اور دینی بصیرت سے ماخوذ ہے ۔[۷]
امام حسین علیہ السلام اور شرعی ذمہ داری کے سلسلہ سے آپکا موقف :
جب سید الشہداء کا سامنا حر کے لشکر سے ہوا تو آپ نے فرمایا:
ائے لوگو۱ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جو بھی ایسے ظالم جو جابر حاکم کو دیکھے جس نے حرام خدا کو حلال کیا ہو ، عہد خدا کو توڑا ہو سنت رسول خدا کی مخالفت کی ہو لوگوں کے درمیان گناہ سرکشی کے ساتھ عمل کیا ہو ، اور ایسے ظالم حاکم و جابر کے سامنے اپنے قول و فعل سے اپنی مخالفت کا اظہار نہ کرے تو یہ خدا پر حق ہے کہ ایسے نظارہ گر انسان کا ٹھکانہ وہی قرا ر دے جو اس ظالم کا ہے ، آگاہ ہو جاو کہ انہوں نے شیطان کی اطاعت کو خود پر لازم کر لیا ہے اور رحمن کی اطاعت کو ترک کر دیا ہے ، فساد کو ظاہر کر دیا ہے حدوود الہی کو معطل کر دیا ہے بیت المال کو غارت کر دیا ہے حلال الہی کو حرام کر دیا ہے اور حرام کو حلال قرار دے دیا ہے میں ان حالات کو تبدیل کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہونے میں زیادہ سزاوار ہوں تمہارے خطوط مجھ تک پہنچے ہیں اور تمہاری جانب سے بھیجے گئے وفود و تمہارے نمائندے تمہاری بیعت کے ساتھ میرے اس آئے ہیں اور انہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ تم مجھے اپنے عہد و پیمان کے بعد تنہا نہیں چھوڑوگے مجھے دشمن کے سامنے خوار و ذلیل نہ کروگے اب اگر تم اپنی بیعت پر باقی رہے تو رشد و کمال سے جا ملوگے میں حسین ابن علی ع فرزند فاطمہ زہرا سلام علیہا اللہ دختر رسول خدا ہوں میں تمہارے سامنے ہوں میرا خاندان تمہارے سامنے ہے تمہارے لئے میری ذات نمونہ عمل ہے [۸]۔
امام حسین علیہ السلام نے اس مقام پر واضح طور پر اپنے موقف کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی ہمیں متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب کوئی ظالم حاکم حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کر رہا ہو بیت المال کو ضائع کر رہا ہو تو اسکے مقابل کھڑا ہونا ہی حسینت ہے اور یہ کہہ کر امام حسین نے واضح کر دیا ہے کہ اگر کبھی ایسی صورت حال آئے تو میری زندگی کو دیکھنا جو تمہارے لئے نمونہ عمل ہے ، ہرگز ہرگز ظلم اور ظالمین کے خلاف خاموش نہ بیٹھنا کہ ایسی صورت میں تمہارا ٹھکانہ بھی وہی ہوگا جو ظالمین کا ہے ، آئیے اس اربعین حسینی کے روح پرور موقع پر بارگاہ امام حسین علیہ السلام میں دعاء کرتے ہیں کہ پروردگار ہمیں عزم حسینی اور زیبنی عطا فرما تاکہ ہم اپنے معاشرہ و ملک میں انہیں خطوط پر گامزن ہو سکیں جن پر چل کر دنیا کے غلام “حر” بن جاتے ہیں ۔
حواشی:
[۱] ۔ سید رضا موسی ، نہضت خمینی جلد ۱ ص ۷۳
[۲]۔ صھیفہ نور جلد ۴ ص ۱۶
[۳] ۔ ایضا ۔جلد ۱ ص ۷۷
[۴]صحیفہ نور ، جلد ۳ ص ۱۸۲ جلد ۱۷، ص ۵۹
[۵]صھیفہ نور جلد ۱۳ ص ۱۵۸
[۶]سید علی خامنہ ای ، امانداران عاشورا و درس حا و عبرت ھا ی کربلا ص ۴۴
[۷]ایضا ۶۹
[۸] ۔ اَیُّهَا النّاسُ؛ اِنَّ رَسُولَ اللّهِ(صلى اللهعلیه وآله) قالَ: «مَنْ رَاى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّهِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِی عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ فَلَمْ یُغَیِّرْ عَلَیْهِ بِفِعْل، وَ لاَ قَوْل، کانَ حَقّاً عَلَى اللهِ اَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ». الا وَ اِنَّ هوُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طاعَهَ الشَّیْطانِ، وَ تَرَکُوا طاعَهَ الرَّحْمنِ، وَ اَظْهَرُوا الْفَسادَ، وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَاسْتَاْثَرُوا بِالْفَیءِ، وَ اَحَلُّوا حَرامَ اللّهِ، وَ حَرَّمُوا حَلالَ اللّهِ، وَ اَنَا اَحَقُّ مَنْ غَیَّرَ. قَدْ اَتَتْنی کُتُبُکُمْ، وَ قَدِمَتْ عَلَىَّ رُسُلُکُمْ بِبَیْعَتِکُمْ اَنَّکُمْ لا تُسَلِّمُونی وَ لا تَخْذُلُونی، فَاِنْ تَمَمْتُمْ عَلى بَیْعَتِکُمْ تُصیبُوا رُشْدَکم، فَاَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِىٍّ، وَابْنُ فاطِمَهَ بِنْتِ رَسُولِ اللّهِ(صلى اللهعلیه وآله)، نَفْسی مَعَ اَنْفُسِکُمْ، وَ اَهْلی مَعَ اَهْلیکُمْ، فَلَکُمْ فِىَّ اُسْوَهٌ، ».تاریخ طبرى، ج ۴، ص ۳۰۴ ; کامل ابن اثیر، ج ۴، ص ۴۸ و فتوح ابن اعثم، ج ۵، ص ۱۴۴-۱۴۵٫