تحریر:مفکر اسلام ڈاکٹر مولانا سید کلب صادق نقوی صاحب قبلہ
قرآن مجید نے خدائے واحد کی پرستش وعبادت پر جس قدر زور دیا ہے اتنا زور او رکسی بات پر نہیں دیا۔ اس نے شرک کو قطعی حیثیت سے ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔ اس معبود برحق کی پیدا کردہ لامحدود کائنات میں ہمارا پورا نظام شمسی ایک ذرے کی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس مختصر سے نظام شمسی کے ایک ادنیٰ طفیلی سیارہ زمین کے ایک چھوٹے سے گوشہ میں اگر ایک انتہائی کمزور وناتواں اور فانی مخلوق کسی غیرخدا کے سامنے سرعبادت جھکاتی ہے تو اس کی اس حرکت سے اس معبود حقیقی کی لا متناہی شہنشاہیت مملکت وجبروت کو کیا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے کہ وہ ہر جرم کو نظرانداز کرنے پر تیار ہو مگر شرک کو برداشت کرنے پر تیار نہ ہو۔
بات دراصل کچھ اور ہے شرک سے معاذ اللہ ذات خالق کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ شاہکار خلقت ومسجود ملائکہ انسان جب پتھروں کے سامنے اپنا سرزمین پر رکھتا ہے تو اپنے آپ کو جمادات سے بھی پست قرار دیتا ہے جس انسان کے قبضہ میں پوری دنیا قرار دے دی گئی ہے وہ جب اپنے آپ کو پتھروں تک کامحتاج سمجھنے لگتا ہے تو اپنے آپ کو ’’احسن تقویم‘‘ کی منزل سے گراکر ’’اسفل السافلین‘‘ کی انتہائی پستی تک پہنچا دیتا ہے۔
تاہم انسان وانسانیت کو پست ترین منزل تک پہنچا دینے والی یہ بت پرستی خاص جہالت کی پیداوار ہوتی ہے۔ وہی جہالت جسے رسولؐ نے انسان کی ساری خرابیوں کی جڑ قرار دیا ہے۔ اس لئے آفتاب علم کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی اس قسم کی بت پرستی کی لو ماند پڑ جاتی ہے۔
اس بت پرستی سے زاید خطرناک بت پرستی وہ ہوتی ہے جب پتھروں کے بت گوشت وپوست کے بتوں کی شکل میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور نمرود وفرعون کے ایسے خود پسند، نفس پرست، ظالم وجابر فرماں روا اپنی خدائی اور ربوبیت کا اعلان کرکے خلق خدا سے اپنی بندگی وعبادت کا اقرار لے کر ان کے تمام انسانی حقوق کو سلب وغصب کرلیا کرتے ہیں وہ ان کے مال وجان ہی کے مالک نہیں بن بیٹھتے ان کی عورتوں کی عزت وآبرو تک کے مالک ومختار بن جاتے ہیں اور اگر ان کی خدائی کو کسی پیدا ہونے والے بچے سے ادنیٰ خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو اپنی حکومت بلکہ ربوبیت والوہیت کو بچانے کی خاطر وہ ہزاروں بچوں کو پیدا ہونے کے ساتھ ماں کے سامنے ہی ذبح تک کردینے سے باز نہیں آتے۔
ہمارے کریم ورحیم خالق نے پہلی قسم کے بت پرستوں کو اکثر وبیشتر سنبھل جانے کا موقع بھی دیا ہے عذاب میں تاخیر بھی کی ہے مگر اس دوسری قسم کی بت پرستی کو تہس نہس کرنے میں اس نے کبھی تاخیر نہیں کی ادھر اس قسم کی بت پرستی نے سر اُبھارا، ادھر اس کی تلوار چلی، نمرود پیدا ہو اتو فوراً ابراہیمؑ۔ اس کو خاک چٹانے کے لئے مبعوث کردئیے گئے اور فرعون نے اپنی خدائی کا اعلان کرکے بنی اسرائیل کو ظلم واستبداد کا نشانہ بنایا تو موسیٰؑ اپنا ڈنڈا سنبھالے اس کے دربار میں گھس گئے اور اس وقت تک قرار نہ لیا جب تک اس کی الوہیت کا بیڑا بحر احمر کی موجوں میں غرق نہ کردیا اور کمزور وناتواں بنی اسرائیل کو چشم زدن میں فرعونی مملکت کا وارث ومالک نہ بنا دیا۔
لیکن خلق خدا پر سب سے بڑی مصیبت اس وقت آتی ہے جب یہی نمرودیت وفرعونیت یہی نمرودی و فرعونی نفس پرستی و جاہ پرستی ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کا زبانی اقرار کرکے خدائے واحد کے حقیقی پرستاروں کی صفوں میں شامل ہوجاتی ہے اور دیندار افراد کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آہستہ آہستہ نیا بت اور خلافتِ رسولؐ کے ایسے مقدس منصب کو ملوکیت وشہنشاہیت کی شکل دے دیتی ہے۔
اسلامی شریعت لوگوں کے جان، مال، عزت، آبرو، عقل، دینی آزادی اور نسل کی حفاظت کو اپنے بنیادی مقاصد قرار دیتی ہے وہ دنیا میں صرف عدل، انصاف، مساوات اور آزادی کی حکمرانی دیکھنا چاہتی ہے اور صدرِ اول میں انھیں اقدار کو معاشرے میں نفاذ کے لئے جس مسلسل جہاد کا عہد مسلمانوں سے لیا جاتا تھا اس عہد کو اسلامی اصطلاح میں بیعت کہا جاتا تھا مگر جب خلافت نے ملوکیت کی شکل اختیار کرلی تو مسلمانوں سے جہاد حق پر بیعت لینے کے بجائے بادشاہ سلامت کی غلامی پر بیعت لی جانے لگی اور مسلمانوں سے راہِ حق کے سپاہیوں کی وردی اتروا کر انھیں لباس غلامی پہنایا جانے لگا۔
لیکن چونکہ آزادی کے متوالوں کو غلام بنانے کا یہ سارا کھیل پرچم لاالہٰ کے زیر سایہ اور مسجدوںکی چھائوں میں انجام دیا جارہا تھااس لئے اسلام کی محبت میں ڈوبے ہوئے مسلمان صرف ظاہر کو دیکھتے رہے اسی نمائشی اسلام کے پیچھے چھپے ہوئے فرعونیت ونمرودیت کے چہروں کو نہ دیکھ سکے۔
اس قسم کی نام نہاد اسلامی ملوکیت میں سب کچھ ہوتا ہے۔ دُلہن کی طرح پیراستہ مسجدیں ہوتی ہیں، مطلّا و مذہّب قرآن ہوتے ہیں۔ مسجدوں میں حکومتوں کے تنخواہ دار امام ہوتے ہیں۔ شاندار حسین وجمیل منبر ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی حکومت کے وظیفہ یاب سہی مگر قاری بھی ہوتے ہیں اور منبروں پر قابل خرید وفروخت سہی مگر خطیب بھی نظرآتے ہیں یہ سب ہوتا ہے مگر وہ مقاصد واقدار کہیں نہیں دکھائی دیتے جن کو عام کرنے کے لئے اسلام آیا تھا۔ ظاہری چمک دمک طمطراق ہوتا ہی اس لئے ہے کہ مسلمان بس ان ہی چیزوں کے دیکھنے میں ایسا مگن رہے کہ کچلے ہوئے سماجی انصاف، پسی ہوئی اسلامی مساوات اور چور چور آزادیٔ بشر پر ان کی نظر نہ پڑ سکے۔ چنانچہ پرچم توحید کے بالکل نیچے اور مسجدوں کے زیرسایہ اسلامی دولت صرف چند خاندانوں میں سمٹتی رہی۔ حکومت کے خلاف ادنیٰ لب کشائی کرنے والوں کی زبانیں کھنچتی رہیں۔ حق وانصاف کی بات کرنے والوں کو سِردار لٹکایا جاتا رہا۔ ذرا ذرا سے شبہ پر افراد ہی نہیں خاندانوں کو تہہ تیغ کیا جاتا رہا، گھر، گھروالوں پر گرائے جاتے رہے مگر چونکہ یہ سب ’’لاالہٰ الَّا اللہ‘‘ اور تکبیر کے نعروں کی گونج میں ہورہا تھا اس لئے لوگ اسی کو اسلام سمجھتے رہے۔
دراصل اسلام، قرآن، محراب اور منبر کی آڑ میں چھپے ہوئے نمرود اور فرعون کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کے لئے بصیرت بھی درکار تھی اور شجاعت بھی اس لئے ۶۰ھ میں جب وارث انبیاء نواسہ رسولؐ حسین ابن علیؑ سے یزید کی بیعت کا مطالبہ ہوا تو حسینی بصیرت یوں سامنے آئی کہ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں یزید کی بیعت نہیں کروںگا بلکہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اِنّ مثلی لا یبایع مثلہ‘‘ اس ایک جملہ میں صرف انکار بیعت نہیں ہے بلکہ انکار بیعت کی پوری تاریخ سمٹی ہوئی ہے۔ اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ میرے ایسوں نے یزید ایسوں کی بیعت تاریخ کے کسی دور میں نہیں کی ہے یعنی مجھ سے بیعت یزید کا مطالبہ کرنے والوں پہلے تاریخ ابراہیم ؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ اور خود حضورؐ کی سیرت کو دیکھ لو۔ اگر ابراہیم ؑ نے نمرود کے سامنے سرجھکا دیا ہوتا، اگر موسیٰؑفرعون کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ہوتے، اگر عیسیٰؑ نے رومن امپائر کی غلامی کا اقرار کرلیا ہوتا اور اگر حضورؐ مشرکین مکہ کے سرداروں کے سامنے سر اطاعت جھکا دینے پر تیار ہوگئے ہوتے تو میں بھی یزید کی بیعت کرلیتا۔ حسین ؑ کا جملہ خود بتا رہا ہے کہ امام وقت نے منبروں، مسجدوں اور سنہرے قرآنوں کے پیچھے چھپے ہوئے فرعون و نمرود کو پہنچان لیا تھا یعنی جب فرعونیت ونمرودیت ربوبیت کی کھلی ہوئی شکل ہوتی ہے تو معبود ان باطل کے دعوائے خدا ئی کے جواب میں لاالہٰ کہا جاتا ہے اور جب یہی خباثتیں اسلام کے لباس میں ظاہر ہوتی ہیں تو ’’لایبایع مثلہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے، حق کے نمائندوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ باطل کے سامنے کبھی سر نہیں جھکاتے نہ عبادت کی شکل میں نہ بیعت کی صورت میں۔
بصیرت کے بعد اب شجاعت کی نوبت تھی شجاعت شمشیرزنی کا ہی نام نہیں اس کی روح، صبر اور قوت برداشت ہے حسین ؑ نے مطالبۂ بیعت کے جواب میں لاکہہ کر انکار بیعت کیا تو اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو نظروں کے سامنے رکھ لیا تھا اور مقابلہ کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کرچکے تھے۔ مدینہ میں نانا کا مزار، ماں کی لحد، بھائی کی قبر چھوڑنا پڑی، چھوڑ دی، جس نے متعدد حج پا پیادہ کئے تھے اسے عین حج کے موقع پر حرمت کعبہ بچانے کے لئے حج کو چھوڑ کر مکہ کو خیرباد کہنا پڑا، خیرباد کر دیا۔ راہ کوفہ میں اپنے ابن عم حضرت مسلم بن عقیل کی کوفہ میں مظلومانہ شہادت کی اطلاع ملی، صبر وشکر کے ساتھ سُن لی پھر ابن زیاد کے لشکر نے حُر کی سربراہی میں حسین ؑ کا راستہ بند کیا تو حسین نے دشمن کے پیاسے لشکر پر اپنے پاس موجود پانی کی سبیل کھول کر اسلامی اقدار کے پودوں کی آبیاری کی۔ دوسری محرم کو کربلا پہنچے، ساتویں محرم سے پانی بند کردیا گیا۔ شب عاشور کو ایک رات کی مہلت لی جو صرف اس لئے تھی کہ ایک طرف جی بھر کر عبادت کرلیں تو دوسری طرف اپنے سپاہیوں کو کھلی آزادی دے دیں کہ جو جانا چاہے وہ جاسکتا ہے نہ کسی پر کوئی جبر ہے اور نہ کوئی پابندی جو ساتھ رہے وہ یہ سمجھ کر رہے کہ کل اپنی جان نہیں اسلام کے بچانے کا مرحلہ در پیش ہوگا۔ صبح عاشور ہوئی تو حسین ؑ نے میدان جنگ سے شہیدوں کے جنازے اٹھانا شروع کردئیے، اپنے ہوں یا غیر بنی ہاشم، آزاد ہوں یا غلام سب کے ساتھ ایک برتائو، ایک رویہ ایک طرح سے قدردانی۔ جس طرح اپنے دم توڑتے جوان بیٹے کے رخسار پر رخسار رکھا اسی طرح دم توڑتے ہوئے غلاموں جونؑ اور واضحؑ کے رخساروںپر رخسار رکھا۔ زخم کھاتے رہے، لاشے اٹھاتے رہے، پیاس بھڑکتی رہی مگر چہرے پر سرخی ہی رہی۔ حسین ؑ کیا بیعت کرتے جب کہ حسین ؑ کی گود کی پالی چار برس کی معصوم بچی تک نے حسین ؑ کی رخصتِ آخر کے موقع پر یہ معصومانہ فرمائش تو کی کہ ہمیں نانا کے روضے پر پہنچا دیجئے مگر اس بچی تک نے یہ نہ کہا کہ بابا یزید کی بیعت کرلیجئے کہ چین کی سانس لے سکیں۔
اپنی شہادت سے قبل حسین ؑ ایک چھ ماہ کے پیاسے بچے کو گود میں لے کر میدان کربلا میں آگئے۔ بظاہر اس لئے کہ بچے کے لئے پانی کا سوال کریں مگر درحقیقت اس لئے کہ فرعونیت کے چہرے پر پڑی ہوئی اسلام کی آخری نقاب کو بھی تار تار کردیں۔ سوالِ آب پر بچہ کی کومل گردن کو تیر کا نشانہ بنادیا گیا۔ یہ تیر بظاہر بچے کے گلے پر پڑا تھا مگر درحقیقت اس تیر نے یزیدیت کے چہرے پر اسلام کی اس نقاب کو تار تار کردیا تھا جس کے پیچھے فرعونیت کا مکروہ چہرہ پناہ لئے ہوئے تھا۔
عصر عاشور کی ساعتیں تھیں، کربلا کی جھلستی زمین تھی، جب زخموں سے چور چور پیاس کی شدت سے نڈھال رسولؐ کے نواسہ حسین ؑ نے اپنا سر آخری مرتبہ معبود کی بارگاہ میں سجدہ بجالانے کے لئے زمین پر رکھا۔ اردو کے یگانہ شاعر میرؔ کی نظر میں یہی سجدہ تھا جب انھوں نے کہا:
شیخ پڑے محراب حرم میں پہروں دوگانہ پڑھتے رہیں
سجدہ اس اک تیغ تلے کا ان سے ہو تو سلام کریں
حسین ؑ سجدہ سے خود سر نہ اٹھا سکے بلکہ کسی اور نے کاٹ کر نیزہ پر اس سر کو اٹھایا۔ ادھر ایک سورج نیزہ پر طلوع ہورہا تھا ادھر کربلا کے افق پر آفتاب، گوشۂ مغرب میں ڈوب رہا تھا۔
یہ کہہ کے ڈوب گیا آفتاب عاشورہ
رہے حسین ؑ کی تا حشر روشنی باقی
خیمے جلا دئیے گئے۔ حسین ؑ کی لاش یزیدیوں نے گھوڑوں سے پامال کردی۔ ۱۱؍محرم کو حسین ؑ کے اہلبیتؑ اسیر کرکے شہدا کے کٹے ہوئے سروں کے ساتھ پہلے صوبائی دارالحکومت کوفہ میں ابن زیاد کے دربار میں لے جائے گئے پھر انھیں یزید کے پایۂ تخت دمشق کے سجے سجائے دربار میں لایا گیا۔ زر میں کمر غلام دست بدستہ کھڑے تھے۔ سندھ سے لے کر اسپین تک پر بنام اسلام حکمرانی کرنے والا ڈکٹیٹر کبھی فتح و کامیابی کے عارضی نشہ میں چور کبھی کٹے ہوئے سروں کو دیکھ کر مسکراتا تھا اور کبھی زنجیروں میں جکڑے حسین ؑ کے بیمار بیٹے زین العابدین ؑ کو اور رسیوں میں جکڑی بی بیوں کو دیکھ کر قہقہے لگاتا تھا۔
فتح کے باجوں کی آوازیں دربار کے اندر آرہی تھیں۔ یزید نے رسولؐ کی نواسی، علی ؑ وفاطمہؐ کی بیٹی، حسین ؑ وعباسؑ کی بہن زینب ؑ سے کہا یہ باجوں کی آوازیں سن رہی ہو، اب بتائو کہ کون جیتا اور کون ہارا۔ بہادر باپ کی شیردل بیٹی نے انتہائی خود اعتمادی کے ساتھ جواب دیا کہ کون ہارا، کون جیتا یہ اگر دیکھنا ہے تو ذرا ٹھہرجا۔ ابھی مسجدوں کے میناروں سے اذان کی آواز بلند ہوگی اللہ کی کبریائی اوراس کی وحدانیت کی آواز گونجے گی۔ ہماری جنگ اس آواز کو بچانے کے لئے تھی تھوڑی دیر بعد تیرے باجے بند ہو جائیںگے مگر آواز اذان اب صبح قیامت تک دنیا کے گوشے گوشے سے بلند ہوکر اللہ کی کبریائی اور وحدانیت اور رسولؐ کی رسالت کے اعلان کے ساتھ ہماری فتح کا بھی اعلان کرتی رہے گی۔