مکّہ کی خاموش گلیوں میں جب حرم کے دروازے کھلے اور﴿جاء الحق و زھق الباطل﴾ کی تکبیر گونجی اور فضا روشنی سے بھر گئی تو رحمتِ مجسّم صلی اللہ علیہ و آلہ نے اَبرو تک نہ چڑھائی—بلکہ اُن ہی ہاتھوں کو معاف کیا جن کے نیام میں ابھی تلواریں جھلملا رہی تھیں۔ عام معافی کا فرمان نازل ہوا، مگر چند سرکشوں کے لیے درِ توبہ کی دستک ابھی باقی تھی؛ اُن میں عکرمہ بن ابوجہل بھی تھا۔
لیکن تقدیر کی تسبیح کے دانے نے کروٹ لی۔
عکرمہ کی زوجہ اُمِّ حکیم، آنکھوں میں خشیت، قدموں میں لرزش لیے حرم کی دہلیز پر نمودار ہوئیں:
“یا رسولَ اللّٰہ، میں نے اپنے شوہر کے لیے امان طلب کی ہے!”
رحمت للعالمینؐ—جن کی نسیمِ رحمت کافر اور مؤمن میں تفریق نہیں کرتی—نے فریاد رد نہ کی؛ امان کا دستخط ہوا اور اُمِّ حکیم کے لبوں پر اللہ اکبر کا ترانہ مچل اٹھا۔
اور جب عکرمہ واپس آیا تو نبی رحمت نے صحابہ سے فرمایا:
“عکرمہ آ رہا ہے؛ اُس کے باپ کو برا نہ کہنا، مردوں کی گالی زندہ دلوں کو زخمی کرتی ہے۔”
(الکافی 2/361؛ بحار الأنوار 21/129)
یہی نکتۂ رحمت امیرالمؤمنینؑ نے صفّین کے تپتے میدان میں اپنے جاں نثاروں کو سکھایا:
«إني أكره لكم أن تكونوا سبّابين…»
(نہج البلاغہ، خطبہ 206)
“میں چاہتا ہوں کہ تم گالی گلوچ والے نہ بنو؛ اگر تم اُن کے اعمال بیان کرو تو قول زیادہ درست اور عذر زیادہ روشن ہو ۔ یوں کہا کرو: اے اللہ! ہمارے اور اُن کے خون محفوظ رکھ، ہمارے اور اُن کے مابین اصلاح فرما، اور گم راہوں کو ہدایت عطا کر…!”
یہ جملہ صرف اخلاقی بلندی نہیں—یہ سیاسی بصیرت، دینی وحدت اور اصلاحی حکمت کا آسمانی نقشہ ہے!
عکرمہ ایمان لایا، مگر جب کوئی اُسے “ابوجہل کا بیٹا” کہہ کر پکارتا تو دل پر بجلی گرتی ۔ اس نے فریاد کی؛ معلّمِ اخلاقؐ نے فوراً فرمایا:
“مُردوں کو برا کہہ کر زندوں کو اذیت نہ دو!”
(الاحتجاج للطبرسی 1/111)
اہلِ بیتؑ کا آئینۂ اخلاق
امام جعفر صادق علیہ السلام نے مکتبِ عترت کو یوں منور فرمایا:
«لَيسَ مِن أخلاقِ المؤمنِ الشتمُ ولا اللّعنُ» (خصال، ص 621)
بحار الأنوار میں علامہ مجلسیؒ نے باب «التمییز بین الصحيح والسقيم» قائم کر کے ناقلِ روایت کو تنبیہ کی کہ منبر کو خونریز خنجر نہ بناؤ، شعور کا صَدف بناؤ۔*
آج کا امتحان — کل کی تاریخ
• کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ فرقہ پرست تحریریں سوشل میڈیا پر آگ برساتے گولے بن جاتی ہیں ؟
• کیا یہ حقیقت نہیں کہ بعض مناظرانہ کتابیں مناظرہ کم منافرانہ کہانیوں اور جھوٹی حکایات سے مزین ہیں ؟ (الشافی فی الإمامة، مقدّمہ)
• اور کیا امیرالمؤمنینؑ نے نہیں فرمایا: «لا تكن عبد غيرك وقد جعلك الله حرّاً»—فتنہ کے پجاری نہ بنو!
نبویؐ وصیت: حرمتِ حرم کی طرح عزت کی حرمت
حجة الوداع کی آفتابی گھڑی میں، جب نبیِ رحمتؐ نے حرمِ کعبہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: “تمہارا خون، تمہارا مال، اور تمہاری عزتیں، اسی حرم کی طرح محترم ہیں”—تو گویا قیامت تک آنے والی امت کے لیے حرمتِ انسانیت کا منشور لکھ دیا گیا۔
کردار کشی، درحقیقت عزت کشی ہے—اور عزت کشی، دیوارِ دین میں دراڑ ڈالنے کے مترادف۔
یہ فقط کسی فرد پر حملہ نہیں ہوتا، بلکہ امت کے اخلاقی وجود پر ایک وار ہوتا ہے۔
اور سوچیں ! اگر نبیؐ نے ابوجہل جیسے دشمن کے ذکر پر بھی ایک نومسلم کے دل کا خیال رکھا، زبان کو تھاما، اور صحابہ سے کہا:
“مُردوں کو برا نہ کہو، یہ زندوں کو تکلیف دیتا ہے”
تو ہم کون ہیں جو اپنی زبان کو وہاں تک لے جائیں جہاں رسولِ خداؐ نے خود خاموشی اختیار کی ؟
جہاں نبیؐ رُک گئے—وہاں ہمیں جھک جانا چاہیے۔
جہاں نبیؐ نے لب بند کیے—وہاں ہمیں دل بند کرنا چاہیے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم نادانی میں وہ الفاظ بول جائیں، جو دین کی دیوار میں شگاف بن جائیں، اور ہمارے نعرے، ہمارے رسولؐ کے خلقِ عظیم سے ٹکرا جائیں۔
ہماری ذمہ داری :
1. محققین—ہر روایت کو درایہ و رجال کی کسوٹی پر رکھیں ۔
2. خطباء و ذاکرین—منبر کو شعلۂ نفرت نہیں، منارۂ اخوت بنائیں ۔
3. سامعین—اندھی تقلید چھوڑیں ؛ سوال و جستجو کا راستہ اپنائیں ، تاکہ «كُونُوا دُعَاةً لِلنَّاسِ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ» (تہذیب 6/239) کا تقاضا پورا ہو—تمہارا کردار خود پیغام بن جائے!
مکہ سے کربلا تک، ایک ہی صدا
یہی وہ راستہ ہے—جو نفرت کے زخموں پر الفت کی مرہم رکھتا ہے، جو امت کے چاک سینے کو وحدت کی سلائی سے جوڑتا ہے، جو منبر کے شعلوں کو شجرِ رحمت کے سائے میں بدل دیتا ہے۔
وہی صدا جو فتحِ مکہ میں گونجی:
“وَما أرسلناكَ إلاّ رحمةً للعالمين”
وہی صدا کربلا میں بھی گونجی—
جب حسینؑ نے خنجر کی نوک پر بھی محبت کی اذان دی،
جب تلواروں کے سائے میں بھی نانا کا پرچمِ رحمت بلند رکھا،
اور جب لہو سے لکھا:
“میں آیا ہوں امت کو جوڑنے، توڑنے نہیں!”
امام حسینؑ—رحمت کے آخری دلائل—ثابت کر کے گئے کہ کربلا کی خاک پر بھی رحمت کا چشمہ پھوٹ سکتا ہے۔
یہی وہ درس ہے—
جو نبیؐ نے مکہ میں سنایا،
اور حسینؑ نے کربلا میں لہو سے سجا کر، قلمِ وقت کے صفحے پر ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیا۔