ظلم کتنی بھی انتہا پر ہو آخر اسے تھک کر ہارنا ہی پڑتا ہے اور صبر اپنی فتح و کامرانی کا لوہا منوا ہی لیتا ہےصبر کا خاموش احتجاج ظلم کے منہ پر ایسا زور دار طمانچہ لگاتا ہے کہ ظلم اپنی بے چینی چاہ کر بھی نہیں چپاپاتا جیساکہ 1400سوبرس سے ماتم وعزا کی صورت میں صبر حسینی کا احتجاج ظلم ہزیدی پر مسلسل یلغار کرکے یزیدیت کی رسوائی کا سامان فراہم کررہا ہے حسینیوں کا پرامن احتجاج یزیدیت اورپزیدیوں کے منہ پر مسلسل طمانچے برسارہا ہے ساتھ ساتھ یہ احتجاج دنیا کے تمام ستائے ہوئے کمزور انسانوں کو ظالموں سے مقابلہ کا حوصلہ بھی دیتا ہے جیسا کہ برطانوی سامراج کے خلاف ہندوستان کی تحریک آزادی کے سربراہ مہاتماگاندھی نے بار بار کربلا کے صبروشہادت اوراس کے مظلومانہ طریقہ کار کو اپنا آئیڈیل مانا ہے جس نے برطانوی سامراج کے چنگل سے ہندوستان بلکہ باقی دنیاکو بھی آزادی دلائی جس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کربلا اور کربلاکی یاد میں اٹھنے والی احتجاج کی آوازیں دنیا کے ہر ظالم کی نیندیں اڑاکر اس کی نابودی کا پیغام ثابت ہوں گی ۔
آج پوری دنیا کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطین،یمن، سعودی عرب افغانستان یہا ں تک کے پاکستان جیسےنہ جانےکتنےممالک میں بے گناہوں پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں لیکن خیال رہےکہ ایک نہ ایک دن ان کا خاتمہ ضرور ہوگا شرط یہ ہے کہ ہم اپنے احتجاج کے ذرہعہ اس کی نیندیں حرام کرنے کا سامان فراہم کرتے رہیں اس کے ساتھ ساتھ اس نام نہاد عالمی قیادت کابھی بھانڈپھوٹے گا جو ظالموں کی حمایت میں نہ صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش تماشائی بنی رہتی ہے بلکہ ظلم کی ہر ممکنہ حمایت سے بھی ذرہ برابر دریغ نہیں کرتی پوری دنیاکی طرف سے عام طور پر اور ملت اسلامیہ کی طرف سے خاص طور اس خاموشی بلکہ ظالموں کی در پردہ حمایت نے دشمنوں کے حوصلے بڑھا رکھے ہیں اور حد یہ ہے کہ اب استعمار کے زر خرید غلام عرب ممالک کے سربراہ اپنی انسانی اور اسلامی ذمہ داری کو بھول کر استعمار کی غلامی میں آخری حد تک گر چکے ہیں اور اسلامی ممالک کے عظیم سرمائے کو عالمی استعمار اور اسکی ناجائز اولاد اسرائیل کی خوشنودی کے لئے نچھا ور کر رہے ہیں جس میں سر فہرست اسلام کے مقدس شہروں پرناجائزقابض سعودی عرب کے حکمراں ہیں جو ایک طرف حرمین شریفین کی خدمت کا دم بھرتے ہیں تو دوسری طرف غاصب اسرائیل کے تلوے چاٹنے میں اپنی بقاء محسوس کر تے ہیں۔اس کے برخلاف عالم اسلام کی وہ عالمانہ قیادت ہےجس کی وجہ سےاسرائیل کےناپاک اور غاصب وجود پر بوکھلاہٹ طاری ہے۔
عربوں کی سست ہوتی ہوئی سیاست اور عرب ممالک کے ذلت آمیز رویے نے اسرائیل کے حوصلے بلند کر رکھے تھے وہ پوری اسلامی دنیا پر اپنی حکومت کے خواب دیکھ رہا تھا کہ 1979میں امام خمینی(رح) کی رہبری میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے اس کےتمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا ۔امام خمینی(رح) نے اسرائیلی سفارتخانہ بند کرکے فلسطینی سفارتخانہ قائم کیا اور انقلاب کی کامیابی کے ایک سال کے اندر ہی ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس اور غاصب اسرائیل کے خلاف احتجاج کا دن قرار دیا اس وقت سے لیکر آج تک ہر سال ماہ مبارک رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے احتجاج کیاجاتاہےجس نےغاصب اسرائیل کی نیند اڑارکھی ہے۔
اس موقعہ پرپوری دنیا کی بیدار عوام اسرائیل کے ناپاک وجود کو نہ صرف عالم اسلام کے لیے بلکہ عالم انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتےہوئے اس کے خلاف آواز احتجاج اٹھاتی ہیں اورایران کے مرحوم روحانی پیشوا حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کےنظریہ کے مطابق اسرائیل کوانسانیت کے لیے کینسر کا پھوڑا قرار دیتی ہیں جس سے حفاظت کا تنہا راستہ اسے کاٹ کر پھینک دینا ہوتاہے لہذا اسرائیل سے لا تعلقی اور اس کے خلاف احتجاج ہر زندہ دل انسان کی آواز ہے ہماراہر سال کا یہ احتجاج غاصب اسرائیل کو یہ احساس دلانے کے لئے کافی ہے کہ اس کی حکومت غاصبانہ ہے اور یہ سر زمین اس کی اپنی نہیں ہے ظلم کے خلاف احتجاج چاہے جس سطح پر ہو ظالم کی بے چینی کا سامان ضرور فراہم کرتا ہے ۔
امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے اپنے اس اقدام سے عالم عرب کی خیانتوں کے نتیجہ میں ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیے گئےمسئلہ قدس اور فلسطین کو ایک بار پھر حیات نو عطا کردی اور پوری دردمند دل انسانیت کو مظلومیت کے تئیں بیدارکرکے رکھ دیا لہذا بلا کسی تامل کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ رہبر فقید انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ روح اللہ خمیںی رضوان اللہ علیہ احیا گر مسئلۂ فلسطین ہیں جن کے مدبرانہ اقدام کے نتیجہ میں ایک مسلسل اور پائیدار احتجاج کی بنیاد پڑی ہے اور آج بھی رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مسئلہ فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کی ہر تحریک کی حمایت بالکل اسی طرح فرمارہے جس طرح امام خمینی رضوان اللہ علیہ فرماتے تھے آج پوری دنیا کے مظلوموں کی نگاہیں اس عظیم رہبر کی عالمانہ اور مدبرانہ قیادت پر ٹکی ہیں جو اپنے حسن تدبیر سے ظالموں کی آنکھ کا کانٹا بنا ہوا ہے ہمیں یقین ہے کہ مظلوموں کی حمایت میں ہمارا احتجاج ضرور رنگ لائے گا اور یہودیوں کے ساتھ سعودی ظالموں کا بھی خاتمہ ہوگا اور مسلمانوں کے دونوں قبلہ غاصبوں کے شر سےآزاد ہو جائیں گے اور پھرپوری دنیا میں جہاں جہاں بھی مظلوموں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں ان کا خاتمہ اور مظلوموں کی آزادی کا پرچم لہرائے گا کریم پروردگار بحق معصومین علیھم السلام عالم اسلام کی مدبرانہ قیادت حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مظلہ العالی اور دیگرمراجع بزرگوار خصوصا حضرت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی مدظلہ العالی کو صحت وسلامتی عطا فرمائے جن کی بے باک حمایت نے ظلم کے خلاف مظلوموں کے حوصلے بڑھارکھے ہیں۔
اس برس ایک اور پہلو قابل غور ہےوہ یہ
عالم اسلام کی طرف منسوب استعمار کےألئہ کار ایک ملک جسے اب سعودی عرب کے نام سے جانا جاتا ہے اس نے اپنے وجود کے آغاز سے ہی قبلہ اول کے مجرمین کی طرح مدینہ منورہ کی تاراجی کا سلسلہ شروع کردیا تھا اور آج سے 100سال پہلے اہل بیت رسول کی قبروں کو مسمار کردیا اس برس بیت المقدس کی آزادی کے مطالبہ کے ساتھ جنت البقیع کی تعمیر کا مطالبہ ہماری سب سے بڑی کوشش ہونا چاہیے مسلمان جب تک آل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام حق ادا نہیں کرے گا رسوائیاں اس کا مقدر بنی رہیں گی۔
خدایا عالم بشریت کے حقیقی نجات دہندہ امام عصر عج کے ظہور میں تعجیل فرما کہ ظالموں کی حتمی نابودی آپ کے ظہورکے بعد ہی ممکن ہو گی۔